loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۵}

حکومت اسلامی میں عوام کاکردار

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

حکومت کے بغیر معاشرے اپنی بقاء کی جنگ نہیں لڑ سکتے اور دیگر قوی طاقتوں کا شکار ہو کر اپنے شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ حکومت ہونا ضروری ہے۔ اب معاشرے پر حکومت یا تو اسلامی و الہٰی ہو گی یا حکومت غیر اسلامی یعنی مادی و الحادی ہو گی۔ ہر دو قسم کی حکومت کے بنیادی تین عناصر ہیں :
۱۔ حاکم
۲۔ قانون
۳۔ عوام

قانون اور حاکم کی ضرورت کو عقلی اور نقلی ادلہ ثابت کرتی ہیں۔ اسلامی حکومت کے بنیادی اجزاء بھی یہی تین ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نکتہ نظر سے  حکومت اسلامی کی تشکیل میں عوام کا کیا کردار ہے؟ کیا حکومت اسلامی میں عوام کو اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہے اور حکومت کی اساس اور بنیا د یہی عوام ہیں؟ اس کے جواب میں مفکرین اسلام وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ حکومت اسلامی میں عوام کا کردار ضروری ہے لیکن یہ کردار ثانوی مرحلہ میں ہے جبکہ اولین مرحلہ میں اقتدار اعلیٰ اور ولایت فقط اللہ سبحانہ کو حاصل ہے اور اس ہستی کو حاصل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور معاشروں پر ولایت و حاکمیت عنایت کی ہے۔ پس عوام ایسا اساسی رکن نہیں ہیں جن کی بنیاد پر حاکم چنا جائے اور قانون ایجاد کیا جائے!! اسلامی حکومت میں لوگوں کا کردار جمہوری نظام کی طرح اساسی نہیں ہے ۔ جمہوریت میں عوا م کی راۓ کو حکومت کی اساس قرار دیا جاتا ہے۔

اسلامی حکومت میں عوام کی حیثیت

اس سے پہلے کہ ہم عوام کے اسلامی حکومت میں کردار کے بارے میں جانیں ایک حدیث قدسی کا بیان ضروری ہے۔ سندی طور پر معتبر حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمانا ہے:« قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَأُعَذِّبَنَّ كُلَّ رَعِيَّةٍ فِی الْإِسْلَامِ أَطَاعَتْ إِمَاماً جَائِراً لَيْسَ مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ كَانَتِ الرَّعِيَّةُ فِی أَعْمَالِهَا بَرَّةً تَقِيَّةً وَ لَأَعْفُوَنَّ عَنْ كُلِّ رَعِيَّةٍ فِی الْإِسْلَامِ أَطَاعَتْ إِمَاماً هَادِياً مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ كَانَتِ الرَّعِيَّةُ فِی أَعْمَالِهَا ظَالِمَةً مُسِيئَةً »؛ میں مسلمانوں کے اس گروہ کوحتمی طور پر عذاب میں مبتلا کروں گا جس نے ایسے جائر امام کی اطاعت کی جو اللہ تعالی کی طرف سے نہیں۔خواہ وہ اپنے عمل میں نیک اور پرہیزگار ہی کیوں نہ ہو۔اور میں مسلمانوں کے اس گروہ کو حتمی طور پر معاف کروں گا جس نے ایسے امام کی اطاعت کی جو اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ خواہ وہ اپنے عمل میں ظالم اور گنہ کار ہی کیوں نہ ہوں۔ [1] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۷۶۔ اس حدیث سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دین معاشرے کو انفرادی طور پر نہیں دیکھتا، دین یہ نہیں دیکھتا کہ کون عابد زیادہ ہے اور کون عالم زیادہ ہے؟ اجتماعی طور پر وہ معاشرہ کیسا ہے؟یہ وہ امر ہےجو  دین کو مطلوب ہے۔ اس لیے ہمارے جتنے بھی انبیاء کرام گزرے ہیں انہوں نے انفرادی طو رپر اپنی عبادات میں وقت نہیں گزارا بلکہ اجتماع کو بدلنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی عابد و صالح اور عالم انسان کسی جائر ظالم کی حکومت میں رہتا ہے اور اس کی مخالفت نہیں کرتا خداوند متعال کا کہنا ہے کہ اس کو حتمی طور پر سزا ملے گی۔ لیکن اگر کوئی انسان اپنی انفرادی زندگی میں گنہ کار ہے لیکن عادل امام کی حکومت میں اس کی مدد کرتا ہے خدا اسے معاف فرماۓ گا۔اس روایت کے تمام رواۃ ہی جلیل القدر ہیں لذا اس کی سند میں تو اشکال نہیں کیا جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ عوام کا کردار حکومتوں میں بہت واضح ہے۔ کوئی بھی انسان خود کو حکومت سے الگ تھلگ نہیں کر سکتا۔چاہے وہ حق کی حکومت ہے یا باطل کی۔ اگر حق کی حکومت ہے تو اسے مدد کرنی چاہیے اور اگر باطل کی حکومت ہے تو اسے باطل حکومت کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔

ارکان حکومت اسلامی

حکومت اسلامی کے اساسی ترین ارکان تین ہیں جیساکہ آیات وروایات سے ثابت ہوتا ہے:
۱۔ توحید
۲۔ عدل و قسط
۳۔  تکریم و تعظیم انسانی

دین اسلام میں حکومت کا حق صرف اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔اس لیے حکومت اسلامی کی اساس اور اہم ترین رکن اللہ تعالی کی ذات ہے۔ دوسرا اہم ترین رکن عدل ہے۔ عدل حکومت اسلامی میں اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ امیرالمومنینؑ نے  حکومت کو تو متزلزل ہونے دیا لیکن عدل کو ترک نہ کیا۔ جب امیرالمومنینؑ کو مشورہ دیا گیا کہ شام اور بصرہ کے حاکم کو فعل حال معزول مت کریں جب آپ کی حکومت کچھ مستحکم ہو جاۓ تو بعد میں مناسب وقت پر ان دونوں کو معزول کر دیجیے گا، ابھی سیاسی مصلحت یہ نہیں کہ حکومت کے ابتدائی ایام میں ہی اپنے سیاسی دشمن بنا لیں۔ لیکن امیرالمومنینؑ نے فرمایاکہ جو ان اشخاص کے جرائم ہیں ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی برقرار رکھنا جرم ہے عدل کے برخلاف ہے۔ ہماری حکومت کی اساس عدل ہے اگر وہ نہ  رہی تو اس حکومت کا کوئی فائدہ نہیں۔تیسرا رکن عوام ہیں۔ یا جسے ہم نے تکریم انسان کا عنوان دیا ہے۔ اسلام جبر کا قائل نہیں۔ اور نا ہی اسلام میں آمریت کی حکومت کا کوئی تصور ہے۔ اسلام جبری حکومت کا قائل نہیں ہے کہ اسلحہ اٹھائیں یا ان کو زبردستی دین دار بنا کر اسلام کی حکومت قائم  کردیں چاہے وہ مانیں یا نہ مانیں۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ تو اللہ تعالی کے لیے بہت ہی آسان تھا۔ سب کوہی زبردستی مسلمان کرکے نبی کو ان پر مسلط کر دیتا اور جو نافرمانی کرتا اس کی گردن اڑا دیتی ۔ لیکن یہ اللہ تعالی کو مطلوب نہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے اور چاہتا ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اسلامی حکومت کو چاہیں اور اپنے ارادے سے اس کے لیے قیام کریں اور اسے نافذ کریں۔

آج کل یہ تیسرا رکن پاکستان کی علمی محافل میں بہت زیادہ بحث کیا جاتا ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کی اساس عوام ہیں جس طرح مغربی جمہوریت میں جس کو عوام ووٹ دے دیں اس کو حاکم مان لیا جاتا ہے اسی طرح دین نے بھی حکم دیا ہے کہ عوام اپنا حاکم انتخاب کریں۔ حتی بعض طلاب اور علماء کرام سے سننے کو ملتا ہے کہ خود رہبر معظم بھی تو اسلامی حکومت میں عوام کے کردار پر زور دیتے ہیں لذا وہ بھی جمہوریت کے قائل ہیں اور ہم بھی اسی جمہوریت کا پاکستان میں بھی نفاذ چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ جب رہبرمعظم یا دیگر اسلامی مفکرین اسلامی حکومت میں عوام کے کردار پر بات کرتے ہیں تو اس سے مراد مغربی جمہوریت مراد نہیں بلکہ رہبر معظم نے اسے اپنی اصطلاح میں «مردم سالاری دینی» کانام دیا ہے۔رہبر معظم فرماتے ہیں:جب ہم کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت ایک عوامی حکومت ہے ۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ حکومت اسلامی اللہ تعالی کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ سب ادیان نے ہی الہی حکومت کی طرف دعوت دی ہے۔ سب انبیاء اور ان کے جانشینوں نے الہی نظام کی طرف دعوت دی ہے ایسا نظام جس میں حاکمیت صرف خدا کی اور قانون بھی خدا کا ہے۔ اسلام میں الہی حکومت اور عوامی حکومت میں تنافی موجود نہیں ہے۔ جب ہم عوامی حکومت کہتے ہیں تو اس سے مراد وہ عوامی حکومت نہیں ہے جو مغربی جمہوریت کے معنی میں مراد ہوتی ہے۔ [2] خامنہ ای، سید علی، ولایت و حکومت، ۱۶۷۔

جبری حکومت اور اسلام

جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام جبری حکومت کاقائل نہیں ہے اور عوامی حکومت چاہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں عوامی حکومت ہو جمہوری حکومت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ عوامی حکومت بمعنی جمہوری حکومت مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسی اسلامی حکومت مراد ہے جس کا حاکم اسلامی، قانون اسلامی اور ان دونوں کا نفاذ عوام کی مقبولیت سے حاصل ہو۔ اگر حاکم اسلامی نہیں ہے اور قانون بھی اسلامی نہیں ہے اس حکومت کو چاہے سو فیصد عوامی حمایت حاصل ہو یہ حکومت اسلامی نہیں ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اللہ کی حکومت ہو لیکن یہی اللہ کی حکومت عوامی حکومت ہو، یعنی عوام اس کو قبول کرے اور اس کے لیے میدان میں حاضر ہو۔خالی عوامی حکومت یا جبری حکومت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے حتی جب امام زمانؑ بھی عالمی حکومت قائم فرمائیں گے ایسا نہیں ہے کہ وہ جبر کے ذریعے یا داعش کی مانند تلوار کے زور پر حکومت قائم کریں گے۔ وہ بھی عوام کے اندر شوق پیدا کر کے ان کے ارادے اور اختیار سے ان پر حکومت فرمائیں گے۔

امام علیؑ کی حکومت

اس کی سب سے بہترین مثال امام علیؑ کی حکومت ہے۔ اگر امام علیؑ چاہتے تو معجزہ کر کے یا تلوار کی زور پر حکومت قائم کر لیتے ۔ شرعی جواز تو ان کے پاس موجود تھا ہی،اگر کچھ اصحاب کو ساتھ ملا کر جبری حکومت بنالیتے تو ممکن ہے کامیاب ہو جاتے لیکن امام نے اس وقت تک حکومت قبول نہ فرمائی جب تک ان پر حجت تمام نہ ہو گئی۔ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے کہ بیعت کے لیے امام کے گھر لوگوں کا اتنا ہجوم ہوا کہ امام کے کاندھوں سے عبا گر گئی۔ اور حسنینؑ کے پھسلنے کا ڈر لاحق ہوا۔ یہ حکومت عوام کی مقبولیت کے بعد وجود میں آئی۔ لیکن جیسا کہ بیان ہوا کہ عوام کی مرضی اور ان کی اکثریت کی وجہ سے امام خلیفہ نہیں بنے، ان کو امامت اللہ تعالی کی طرف سے حاصل ہوئی اور وہ کوئی بھی ان سے نہیں چھین سکتا چاہے عوام میں سے ایک فرد بھی ان کوا پنا امام نہ مانتا۔ لیکن یہی امامت تب تک لوگوں پر لاگو نہیں ہو سکتی جب تک لوگ خود نہ چاہیں۔

عوام کا میدان میں حاضر رہنا

پاکستان میں میدان میں حاضر ہونے کا الگ ہی معنی کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں میدان میں حاضر ہونے کا مطلب ریلی نکالنا، مظاہرہ کرنا، احتجاج کرنا اور سیاستدانوں سے اپنے مطالبات منوانا ہے۔ لیکن میدان میں حاضر ہونے سے کیا مرادہے؟ دین جب عوام سے چاہتا ہے کہ وہ میدان میں موجود رہیں اس سے کیا مراد ہوتا ہے؟ دین بھی چاہتا ہے کہ عوام حاضر رہے، میدان میں موجود ہواگر عوام میدان میں موجود نہ ہو دین وجود میں نہیں آتا، دینی قوانین کا نفاذ ممکن نہیں رہتا جب تک عوام میدان میں نہ آ جاۓ، امام علیؑ جیسا مدبر اور کائنات کا عادل ترین انسان بھی جنگ ہا ر جاتا ہے اگر لوگ میدان میں نہ آئیں۔ اسلامی حکومت میں عوام کی اہمیت ہے اور ان کا بہت کردار ہے، اگر عوام میدان میں نہ آۓ، امام علیؑ کو مالک کو جیتی ہوئی جنگ سے واپس بلانا پڑتا ہے۔ امام کا ساتھ چھوڑ دیا عوام میں سے کچھ افراد خوارج بن گئے ۔امام پکارتے رہ گئے  لیکن انہوں نے ساتھ نہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ امام علیؑ فرماتے تھے:« وَلَقَدْ أَصْبَحَتِ الْأُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا وَ أَصْبَحْتُ أَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِی » ؛ تمام دنیا کی قومیں اپنے حکام کے ظلم سے خوفزدہ ہیں اور میں اپنی رعایا کے ظلم سے پریشان ہوں۔ [3] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۹۷۔ ایک اور جگہ امیر المؤمنینؑ ارشاد فرماتے ہیں:« إِنِّي أُرِيدُكُمْ لِلَّهِ وَ أَنْتُمْ تُرِيدُونَنِي لِأَنْفُسِكُمْ »؛ میں تمہیں اللہ تعالی کے لیے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنی ذوات کے لیے چاہتے ہو۔ [4] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۶۔

آئیے آج ہم خود اپنا جائزہ لے سکتے ہیں ، اگر آج امام موجود ہوتے تو ہم ان کو دین اور خدا کی خاطر چاہتے اور ان کی اطاعت کرتے یا ذاتی مفادات کے لیے چاہتے؟ ہم آج مجالس کیوں کراتے ہیں؟ زیارات پر کیوں آتے ہیں؟ اگر اولاد کے لیے ، ان کے روزگار کے لیے ، منتیں پوری کرنے کے لیے آتے ہیں تو معلوم ہوا خود امام کے لیے نہیں بلکہ اپنی منت پوری کرنے یا کوئی دعا پوری کروانے کے لیے آۓ ہیں۔ ہمارے امام شہید ہوۓ، کس لیے؟ امام حسینؑ کو کیسے ان کے کنبے سمیت شہید کردیا گیا؟ جواب ایک ہے اور وہ یہ کہ لوگوں نے ساتھ نہیں دیا۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ حکومت اسلامی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ جب بھی کوشش کی یا شہید کر دیے گئے یا زندان میں ڈال دیے گئے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے عوام کا کردار اسلامی حکومت میں کیا ہے؟ امامت کا نظام بغیر امت کے کامل ہی نہیں۔ وہ امام ہی کیا جس کی کوئی بات ہی سننے والا نہ ہو۔ امت اور امام باہم ہیں۔ اگر امام ہے اور امت نہیں تو یہ امام گوشہ نشین ہو جاۓ گا یا شہید کر دیا جاۓ گا۔ امت کا میدان میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ امت کے بغیر کوئی بھی دینی مرحلہ طے نہیں ہوتا۔ امت کے میدان میں موجود ہونے سے کیا مراد ہے؟

امت کے تین وظائف

جب کہا جاتا ہے کہ عوام کا اسلامی حکومت میں بہت اہم کردار ہے اس سے مراد یہ ہے کہ عوام یہ تین کام کریں۔ اگر یہ تین کام کرتے ہیں تو وہ میدان میں امام کے ہمراہ ہیں۔

۱۔ شناخت حق

سب سے پہلی ذمہ داری جو عوام پر عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حق کی شناخت حاصل کرے۔ حق کی شناخت پہلا اور سخت مرحلہ ہے۔ اگر ایک گروہ حق کی شناخت حاصل نہیں کرتا کبھی بھی حق کا ساتھ نہیں  دے سکتا اور نا ہی حق پر عمل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ حق موجود ہے عوام نے خود حق ایجاد نہیں کرنا، اور نا ہی کسی سے سن کر کسی شے کو حق قرار دے دینا ہے، حق کا معیار عوام نہیں ، اکثریت حق کا معیار نہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« الحق من ربک »؛  حق آپ کے رب کی جانب سے ہے۔ [5] ہود: ۱۷۔

۲۔ حق پر عمل

حق کی شناخت حاصل کر لینے کے بعد انسان پر فرض ہے کہ اس کےمطابق عمل کرے۔ صرف حق کی شناخت حاصل کرلینا کافی نہیں جب تک اس پر عملی مرحلے میں نافذ نہ کر دیا جاۓ۔ دراصل دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے سخت تر ہے۔ حق کی شناخت ہو جاتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا بعض اوقات قربانی مانگتا ہے۔

۳۔ وحدت کا قیام

عوام پر حق کی شناخت حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ لیکن یہ عمل کرنا اتحاد اور انسجام کے ساتھ ہو۔ اگر تحاد نہ ہو فتح حاصل نہیں ہوتی۔ اتحاد ہمیشہ حق کے محور پر ہوتا ہے۔ اکثر کہا جاتا  ہے کہ فلاں بات مت کریں عوام کا اتحاد ٹوٹ جاۓ گا، اگر یہ اتحاد باطل پر بنا ہوا ہے تو یہ مطلوب نہیں ہے بلکہ اس اتحاد کو توڑنا ضروری ہے۔ اتحاد ہمیشہ حق پر ہو۔ اگر حق پر اتحاد کے ساتھ افراد حرکت کرتے ہیں تو فتح حتمی ہے۔حتی یہی افراد قلیل بھی کیوں نہ ہوں جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« كَم مِن فِئَةٍ قَليلَةٍ غَلَبَت فِئَةً كَثيرَةً بِإِذنِ اللَّهِ »؛ بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے۔ [6] بقرہ: ۲۴۹۔ خود رسول اللہ ﷺ کی ابتداۓ اسلام کی جنگیں بھی اس مطلب پر بہترین شاہد ہیں۔ اسلامی لشکر نے کم ترین امکانات کے ساتھ کفار کو شکست دی ۔ اور آج انقلاب اسلامی ایران کو بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا، یقینا افراد میدان میں موجود ہیں تو ممکن ہوا ورنہ اگر کوئی بھی رہبر آ جاۓ حتی امیرالمومنینؑ بھی ہوں نظام اسلامی ساقط ہو جاۓ گا۔سورہ نور میں لوگوں کے میدان میں حاضر رہنے کے متعلق وارد ہوا ہے:« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ إِذا کانُوا مَعَهُ عَلي‏ أَمْرٍ جامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّي يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذينَ يَسْتَأْذِنُونَکَ أُولئِکَ الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحيمٌ »؛  مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتے، جو لوگ آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دے دیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ [7] نور: ۶۲۔

حکومت اسلامی کا محور حق

اگر اسلامی حکومت قائم ہو جاۓ، اسلامی حاکم عوام میں بہت محبوب ہو، پاک پاکیزہ انسان ہو۔ لیکن اس کی حکومت میں عوام اختلافات کا شکار ہوں، اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے حاکم کیا کرے؟ اگر مادی سوچ رکھنے والے انسان سے پوچھا جاۓ تو وہ کہے گا کہ عوام میں رفاہ لایا جاۓ، ان میں پیسے بانٹے جائیں، اور ان کے مسائل ختم کیے جائیں تو اختلاف ختم ہو جاۓ گا۔ کیا یہ راہ حل ہو سکتا ہے؟ جی نہیں! جب تک ایک معاشرے میں حق کو محور نہ بنا دیں اس معاشرے سے اختلاف ختم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عوام میں باہمی پیار محبت بڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک ایک معاشرہ آپس میں انسجام اور وحدت کے ساتھ نہیں رہتا وہ معاشرہ اور حکومت ترقی نہیں کر سکتی۔ دین نے یہ راہ حل پیش کیا ہے کہ آپ ان میں حق کو اجاگر کریں اور اس کو محور قرار دیں۔اس کے بغیر چاہے آپ ڈھیروں اموال بھی عوام میں بانٹیں وہ معاشرہ منسجم نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَميعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لكِنَّ اللهَ‌ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ »؛ اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ [8] انفال: ۶۳۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی مکہ کے بت پرستوں نے دو آپشن دیے اوریہ کہا کہ آپ کی گفتار اورقرآن ہمارے معاشرے کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے معانی بدل دو یا کوئی اور قرآن لے آؤ۔ قرآن کریم نے ان کے مطالبے کو اس طرح سے بیان کیا ہے: « وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا بَيِّناتٍ قالَ الَّذينَ لا يَرْجُونَ لِقاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هذا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ ما يَكُونُ لي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقاءِ نَفْسي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ ما يُوحى إِلَيَّ إِنِّي أَخافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذابَ يَوْمٍ عَظيمٍ »؛ اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہدیجئے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ [9] یونس: ۱۵۔

پس معلوم ہوا امت کے مسائل حق کو بدل دینے یا اس کو بیان نہ کرنے سے حل نہیں ہوتے۔ دین نے سخت منع کیا ہے کہ حق کو مت بدلو، بلکہ معاشرے میں حق کو جاگزین کرو۔ امت کے مسائل رفاہ لانے سے حل نہیں ہوتے بلکہ حق کے نفاذ سے حل ہوتے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران میں رہبر معظم اسی بات پر زور دیتے ہیں۔ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ امریکیوں اور یورپیوں کے مطالبات مان لیں اور دینی اقدار کی بجاۓ عوام کو رفاہ میں لاتے ہیں۔ رہبر معظم یہی جواب دیتے ہیں کہ امت کے مسائل نہ تو دشمن کے آگے جھکنے سے حل ہوتے ہیں اور نا ہی امت میں رفاہ لانے سے۔ خود امت میں رفاہ اور ان کے مسائل بھی حق کو محور قرار دینے سے حل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« وَلَو أَنَّ أَهلَ القُرىٰ آمَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ وَلٰكِن كَذَّبوا فَأَخَذناهُم بِما كانوا يَكسِبونَ »؛ اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔ [10] اعراف: ۹۶۔ یہ خدا کا وعدہ ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک معاشرہ حق پر ڈٹ جاۓ اور ایمان کے محکم اصولوں پر استقامت دکھاۓ اور ان پر رحمت و برکت کانزول نہ ہو۔ [11] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۸۰تا۸۴۔

Views: 60

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: معاشرہ سازی کے اہم اصول
اگلا مقالہ: رہبر معظم کی نظر میں جہاد تبیین