loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۲۲}

معاشرہ سازی کے اہم اصول

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

 اسلامی مفکرین نے اسلامی کی جامعیت کے بارے میں تین نظریات بیان کیے ہیں۔ پہلے نظریے کے مطابق اسلام انفرادی زندگی کی بہتری کے لیے آیا ہے۔ عبادات، اخلاقیات اور چند احکام کا مجموعہ ہے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام کے اندر فقط انفرادی زندگی کے پہلو بیان نہیں ہوۓ بلکہ اجتماعی پہلوؤں پر بھی اسلام نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے لیکن اس کی تشریح خود مسلمانوں کی صوابدید پر ہے۔ تیسرا نظریہ یہ تھا کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی  ہردو پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے اور بہت جزئیات سے اس کی شرح بھی موجود ہے۔مؤلف نے تیسرا نظریہ اختیار کیا ہے اور اس کی دلیل میں بیان کیا کہ دین اسلام ایک جامع ،کامل اور دین  خاتم ہے۔ اور جو دین خاتم ہو  اس کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے کچھ چیزیں تو بیان کی ہیں اور بعض کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر اسلام کو کامل اور خاتم مانتے ہیں تو اس کو عملی طور پر بھی کامل اور خاتم ماننا ضروری ہوگا صرف لسانی طور پر اس بات کا اقرار کر لینا کہ اسلام دین خاتم  ہے کافی نہیں۔

حق اور عدالت

دینِ اسلام نے دو چیز کو اصل قرار دیا ہے:
۱۔ حق
۲۔ عدالت

اسلام معاشروں میں حق کو دیکھنا چاہتا ہے اور عدالت قائم کرنا چاہتا ہے۔ مکتب تشیع  معاشرے میں حق کے نفاذ اور عدالت کی برقراری کے لیے نظریہ امامت کا قائل ہے۔ نظریہ امامت کو صرف کلامی اور اعتقادی مسئلہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اسلام کا سیاسی تفکر امامت ہے۔ وہ شخص جو امامت کا قائل ہے وہ کیسے اجتماعی پہلوؤں پر اسلام کے عمل دخل کا انکار کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص امامت کا قائل ہے وہ کیسے اسلام کی جامعیت کا انکار کر سکتا ہے؟ شیعہ سنی کا سب سے پہلا اور اساسی ترین اختلاف ہی سیاسی اختلاف ہے۔ مکتب تشیع بعد از رسول اللہﷺ امام علیؑ کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ اور مکتب تسنن خلفاء کو اپنا حاکم مانتے ہیں۔ یہاں پر مراد ظاہری حاکمیت ہے کیونکہ امام علیؑ کی معنوی امامت کے تو سنی صوفیاء کرام بھی قائل ہیں۔ لہذا اسلامی مکاتب فکر جس مسئلے پر دو حصوں میں تقسیم ہو رہے ہیں وہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ امام حسینؑ ایک سیاسی مسئلے پر شہید ہوۓ۔ امام حسینؑ کا  مؤقف یہ تھا کہ امت پر بعد حق امامت اور حق حاکمیت مجھ امام معصوم کو حاصل ہے۔ کوئی فاسق فاجر انسان امت اسلامی کا حکمران نہیں ہو سکتا۔ امت اسلامی پر صرف الہی حاکم ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ بقیہ آئمہ معصومینؑ کی حیات مبارکہ کو بھی دیکھا جاۓ تو یہی مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔ تشیع کی پوری تاریخ خون میں ڈوبی ہے ، شیعہ ہمیشہ شکنجوں میں رہا، پہلے بنو امیہ اور پھر بنو عباس اور بعد میں آنے والے ادوار میں اکثر تقیہ میں رہا۔ پیچھے وجہ صرف اس کا سیاسی تفکر تھا۔ یعنی شیعہ اور تشیع کی بقاء اس کے نظریہ امامت پر ہے۔ ہر دور کی حکومت اس سے ڈرتی ہے ،کیوں؟ کیونکہ شیعہ غیر الہی نظام حکومت کو نا صرف قبول نہیں کرتا بلکہ اس حکومتِ عدل قائم کرنا اپنا فريضہ سمجھتا ہے۔

عبادات کے اجتماعی پہلو

عموما سمجھا جاتا ہے کہ عبادات صرف انفرادی پہلو رکھتی ہیں اور انسان کی انفرادی زندگی سے مربوط ہیں۔ قرآن کریم  کے مطابق یہ بات درست نہیں۔ عبادات ایک جہت سے انفرادی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے اجتماعی پہلو بھی موجود ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« أقیموا الصلوۃ ».[1] بقرہ: ۴۳۔ ایک اور جگہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے: « کتب علیکم الصیام ».[2] بقرہ: ۱۸۳۔ ، نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ماہِ رمضان کے روزے واجب قرار دیئے گئے ہیں۔  اسلام ایک عبادت (نماز ) کے ذریعے مسلمانوں کو پانچ مرتبہ ایک جگہ پر جمع ہوتا دیکھناچاہتا ہے۔ نماز جماعت کی اتنی تاکید وارد ہوئی ہے کہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ مسجد کا ہمسایہ گھر میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔[3] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۸۰، ص۳۷۹۔   اسی طرح سے نماز جمعہ کا حکم ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ پوری آبادی کے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوں، عید فطر اور قربان کے اجتماعات بھی نماز کے اجتماعی پہلو کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ حج کی عبادت کو دیکھ لیں جس کے اجتماعی پہلو کو بہت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا سے مسلمان مختلف ممالک سے ایک جگہ پر، ایک لباس اور ایک طرف رخ کر کے ایک مرکز خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ اور بیت العتیق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ہر پلیدگی، غیر خدا اور مشرکین سے اعلام برأت کرتے ہیں یہ سب عبادات اسلام کے اجتماعی پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اخلاقیات کے اجتماعی پہلو

عبادات کے علاوہ اسلام میں چند اخلاقیات بھی وارد ہوۓ ہیں۔ قرآن کریم میں وار دہوا ہے:« لا یسخر قوم من قوم »؛ کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔[4] حجرات: ۱۱۔ ایک قوم کا دوسری قوم کو مسخرہ کرنا بہت قبیح عمل ہے۔ مومنین آپس میں بھائی ہیں۔اسلام نے عمومی طور پر مسلمانوں کو آپس میں الفت اور محبت کا درس دیا ہے۔ قبائل پرستی، قوم پرستی اور سرحدوں کی تقسیم سے بالاتر ہو کر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں  بھی  اس شے کو بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ پٹھا ن  ہے تو پنجابی کا مذاق اڑا رہا ہے اور کوئی سندھی ہے تو بلوچ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ ایک اور جگہ پر وارد ہوا ہے: « لا یغتب بعضکم بعضا »؛ تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے۔[5] حجرات: ۱۲۔ دین اسلام نے غیبت کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔ وارد ہوا ہے کہ جو شخص غیبت کرتا ہے گویا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہے۔ غیبت ایک فردی عمل نہیں ہے بلکہ معاشرے میں ایک شخص کو بےآبرو کرنا ہے جو قبلح عمل ہے اور بدترین بد اخلاقی ہے۔

اقتصادی اور حقوقی امور

دین اسلام نے مسلمین پر فرض قرار دیا ہے کہ معاشرے میں موجود مساکین اور فقراء کا خیال رکھیں، صدقہ، خیرات، زکات اور خمس کو ضروری قرار دیا۔ اموال کو جمع کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ معاشرے میں موجود وہ افراد جو اقتصادی طور پر مضبوط ہیں ، اپنے اموال کا ایک حصہ ان لوگوں پر خرچ کریں جو فقر میں مبتلا ہیں۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« ءاتوا الزکوۃ ».[6] توبہ: ۵۔ زکات کو اللہ تعالی نے واجب قرار دیاتاکہ معاشرے میں اموال گردش میں رہیں، اورفقر ختم ہو۔جرائم کے خاتمے کے لیے حدود اور تعزیرات مقرر فرماۓ۔ وارد ہوا ہے:« والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما »؛ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ [7] مائدہ: ۳۸۔ زانی اور زانیہ کے بارے میں حکم دیا گیا ہے:« الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منها مأة جلدة »؛  زناکار عورت اور زناکار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ [8] نور: ۲۔ اسلام نے باقاعدہ قانون گذاری کی ہے اور معاشرے سے جرائم کے خاتمہ کے لیے احکام جاری کیے ہیں۔

دفاعی احکام

اسلام  نے کفار کے مقابلے میں قوت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔وارد ہوا ہے:« واعدوا لهم ما استطعتم من قوة» ؛ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو۔[9] انفال: ۶۰۔ لہٰذا اگر ٹینک بنا سکتے ہو تو ٹینک بناؤ، میزائل بنا سکتے ہو تو وہ بناؤ، دشمن کے خلاف نرم گوشہ اختیار نہیں کرنا۔ اسلام ابتدا میں جنگ کا قائل نہیں بلکہ حکم دیتا ہے کہ پہلے مرحلے میں صلح اور امن برقرار رکھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اگر کافر بھی ہے تب بھی اس کی جان محترم ہے۔ لیکن اگر کافر جنگ پر تل جاۓ اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے اس صورت میں شدت دکھانے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمانا ہے:« یا ایها الذين امنوا قاتلوا الذين يلونكم من الكفار وليجدو فيكم غلظة »؛ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں۔[10] توبہ: ۱۲۳۔ یہ احکام اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام اپنی حاکمیت چاہتا ہے اور پہلا اور دوسرا نظریہ درست نہیں جو کہتا ہے کہ اسلام نے کہا ہے تم آزاد ہو جو چاہو اجتماعی امور میں انجام دو، اگر ایسا ہوتا تو قرآن کریم میں یہ آیات کس لیے نازل ہوئی ہیں؟

معاشرے کی جمعی روح

معاشرہ اصالت رکھتا ہے یا فرد؟ یا ہر دو اصیل ہیں؟ اگر معاشرے کا مفاد فرد کے مفاد سے ٹکرا رہا ہو تو کس کو مقدم کیا جاۓ گا؟ یہ بحث عمرانیات (sociology) کی پیچیدہ ترین ابحاث میں سے ہے۔ جس میں اسلامی مفکرین اور مغربی مفکرین کا شدید اختلاف ہے، حتی خود اسلامی مفکرین نے بھی اس میں مختلف نظریات بیان کیے ہیں۔ معاشرہ جب بنتا ہے تو ایک جمعی روح بنتا ہے جس کے لیے دین اسلام نے خصوصی طور پر احکام بیان کیے ہیں۔ ایک انسان کا فردی روح ہے اور ایک پورے اجتماع یا معاشرے کا روح ہے جسے ہم جمعی روح کہہ سکتے ہیں۔ مؤلف فرماتے ہیں کہ اسلام  اس بات کا قائل ہے کہ اگر فرد کی مصلحت اور معاشرے کی مصلحت آپس میں ٹکرا جائیں تو معاشرے کی مصلحت کو مقدم کیا جاۓ گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان معاشرے پر جنگ مسلط ہو جاۓ ،جنگ میں اس معاشرے کو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ بچا سکے گی۔ کیونکہ اگر سب نے انفرادی طو رپر اپنا اپنا سوچااور کوئی بھی جنگ پر دفاع کے لیے قربانی دینے نہ گیا تو کوئی بھی نہ بچے گا لیکن اگر ان میں سے بعض نے اجتماعی  سوچ رکھی اور قربانی دی تو یہ معاشرے بچ جاۓ گا۔مسلمانوں کے دفاع کے لیے اگر کسی علاقے کے لوگوں کو وہاں سے زبردستی نکلوانا پڑے تو یہاں پر انفرادی نہیں سوچا جاۓ گا کہ اس بستی کے لوگوں کا کیا بنے گا یا وہاں سے کوئی ایک شخص کہے کہ بھائی میں تو اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤنگا۔ یہاں پر اس شخص کی بات نہیں سنی جاۓ گی بلکہ زبردستی اس کو  وہاں سے نکالا جاۓ گا اور پورے معاشرے کا سوچا جاۓ گا۔

خود رسول اللہ ﷺ نے  ایک جنگ میں کسی شخص کی زرعی زمین سے اپنا اسلامی لشکر گزارنا چاہا۔ لیکن مالک نے اجازت نہ دی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اپنے پاس بلایا اور اسے سمجھایا کہ اگر یہاں سے لشکر نہ گزرا تو بہت نقصان ہوگا، ہمیں اپنی زمین میں سے گزرنے دو لیکن وہ پھر بھی نہ مانا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ لشکر کو وہیں سے گزارا جاۓ۔ یہا ں پر کسی کی انفرادی زندگی متاثر ہوتی ہے تو ہو جاۓ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ایک شخص کی وجہ سے پورا معاشرہ  نقصان میں جا رہا ہو تو وہاں پر اس ایک شخص کو نقصان میں ڈال کر معاشرے کو بچایا جاۓ گا۔ اسلام ایک اجتماعی دین ہے جو قومیں اجتماعی شعور نہیں رکھتیں وہ ترقی نہیں کر سکتیں۔

انفرادی سوچ کی مذمت

ہمارے یہاں ایک بنیادی ترین مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اجتماعی سوچ نہیں رکھتے، کوئی بھی معاشرے کا نہیں سوچتا، اجتماعی بھلے کا کوئی بھی خیال نہیں رکھتا۔ جو انفرادی طور پر اپنا کام نکال لے اس کو کامیاب سمجھا جاتا ہے چاہے اس کے اس کام سے پورے معاشرے کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ مثا ل کے طور پر اگر کوئی شخص خالصتا دین کے احیاء کے لیے کام کرتا ہے اسے بے وقوف سمجھا جاتا ہے یا اسے کہا جاتا ہے کہ تم سے کام نکلوایا جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسے لے کر کام کرتا ہے اسے بہت کاردان سمجھتے ہیں۔ معاشروں میں جب تک انفرادی سوچ ختم نہیں ہو جاتی وہاں نیکیاں جنم نہیں لیتیں۔ اس لیے اسلام نے ایثار اور صبر کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے اگر گھر میں کوئی بھی قربانی نہ دے اور دوسرے کی تند زبانی پر صبر نہ کرے یہ گھرانہ ٹوٹ جاۓ گا بالآخر کسی کو صبر اور ایثار سے کام لینا ہوگا، اگر اپنی ذات کا سوچا تو گھر ٹوٹ جاۓ گا۔ اگر گھر بچ جاۓ اور اس فرد کو طعنہ سننا پڑتا ہے تو یہ کامیابی ہے، اگر دین کے لیے خالصتا کام کرنے سے آپ کا ذاتی نقصان ہوتا ہے لیکن دین زندہ ہوتا ہے یہ کامیابی ہے۔

پس اسلام ایک کامل دین ہے جس میں انفرادی پہلو موجود ہیں۔ میاں بیوی کے مسائل، نکاح طلاق، عبادات، اخلاقیات، حتی بیت الخلاء جیسے انسان کے نفرادی ترین مسائل کے بارے میں اسلام میں احکام وارد ہوۓ۔ بال کاٹنا، ناخن کاٹنا، زیر ناف بالوں کی صفائی یا ایسی بیماریاں جن کے متعلق انسان ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہوۓ شرم محسوس کرتا ہے ان کے بارے میں بھی اسلام نے حکم بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی اجتماعی زندگی کے پہلو ؤں کو بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ دراصل یہ کہنا سراسر زیادتی ہوگی کہ اسلام نے انسان کی انفرادی ترین زندگی کے مسئلے (بیت الخلا ء میں جانے کے احکام)پر تو اپنی نظر بیان کی ہے لیکن اجتماعی پہلوؤں پر کوئی نظر بیان نہیں کی۔ در اصل یہ بات کرنا اسلام کو درست طور پر شناخت نہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔[11] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت،ص۶۶تا۶۹۔

Views: 49

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: اسلامی نظام سے متعلق تین اہم نظریات
اگلا مقالہ: حکومت اسلامی میں عوام کا کردار