loading
{  سیاست آئمہ اہل بیتؑ }

سیاست امام رضاؑ میں اخلاق کا کردار

تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ابتدائی تعارف

آپ کا نام علی، کنیت ابوالحسن اور  لقب رضا ہے۔[1] شیخ مفید، محمد بن نعمان، مصنفات، ج۱۱، ص۲۴۸۔ مشہور قول کی بنا پر ولادت ۱۱ ذی القعدہ ۱۴۸ ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔[2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۸۶۔ والد گرامی موسی کاظمؑ اور والدہ ماجدہ کا نام تكتم ہے۔[3] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۴۔ اكثر مورخين کے مطابق آپ کی شہادت ۲۰۳ ہجری میں واقع ہوئی۔[4] عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسۃ للامام الرضا علیہ السلام، ج۱، ص۱۶۹۔

امام رضاؑ کی امامت

آپ مکتب تشیع کے آٹھویں امام ہیں۔ حکومتی سطح پر اجاگر ہوۓ اس لیے تاریخ میں آپ کی امامت کا وسیع بیان وارد ہوا ہے۔ ہمارے پاس زندگانی امام کے بہت سے پہلو موجود ہیں جو تاریخ میں وارد ہوۓ ہیں ظاہر ہے ان سب کی توضیح ہمارے بس سے باہر ہے اس لیے ہم امامؑ کی زندگی کے صرف ایک پہلو کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ پہلو امامؑ کی امامت کا پہلو ہے۔ امامؑ کی امامت کا پہلو یعنی سیاسی پہلو۔ کیونکہ مکتب تشیع میں امامت و سیاست میں کوئی فرق نہیں۔ امامت ایک منصب ہے اور اس منصب کے ذریعے امام معاشرے کو چلاتا ہے اور اس کی تدبیر کرتا ہے۔ سیاست کا لغوی معنی، اس کی تعریف اور روایات میں یہی معنی وارد ہوا ہے۔[5] ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۶، ص۱۰۸۔ [6] خواجہ طوسی، محمد بن محمد نصیر الدین، اخلاق ناصری، ص۱۲۔ [7] خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۸۔ [8] طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۷۸۔ [9] سائٹ البر۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے سیاست ہر معنی میں مقصود نہیں۔ جیسا کہ آئمہ معصومینؑ نے ہر قسم کی سیاست نہیں کی بلکہ منفی سیاست کو رد کیا۔ فقط وہ سیاست مقصود ہے جو دین اور شریعت کے تابع ہو۔[10] سائٹ البر۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیشہ سیاست منفی معنوں میں ہی استعمال ہوتی رہی ہے۔ ظالم فاسق حکمرانوں نے اس لفظ کوہی بدنام کر دیا۔ جب امام خمینیؒ نے ایران میں اپنی انقلابی نہضت کا آغاز کیا تو حتی ایران میں بھی اس وقت سیاست کو برا سمجھا جاتا تھا اور ان کو طعنہ دیا جاتا کہ وہ سیاسی مولانا بن گئے ہیں۔ اخبار پڑھنے والے علماء کرام اور امت کے مسائل کو زیر بحث لانے والے علماء کو سیاسی علماء کہہ کر طعنہ دیا جاتا۔ امام خمینیؒ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن آیت اللہ ابو القاسم کاشانی سے زندان کے رئیس نے یہ سوال کیا کہ آپ سیاست میں دخالت کیوں کرتے ہیں؟ یہ کام آپ کی شان کے برخلاف ہے۔ اس رئیس نے ان سے کہہ کہا کہ سیاست دروغ گوئی ہے، دھوکہ اور فریب ہے۔ سیاست در اصل حرام زدگی ہے یہ کام آپ کے لیے نہیں۔ اسے ہم جیسے لوگوں کے لیے رہنے دیں۔ امام فرماتے ہیں کہ آیت اللہ کاشانی نے اسے کہا کہ یہ جو کچھ تم نے بیان کیا ہے یہ تم لوگوں کی سیاست ہے۔ لیکن اس سیاست کا اسلامی سیاست سے کسی قسم کا واسطہ نہیں۔ یہ شیطانی سیاست ہے۔[11] خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۶۔

امامت اور اس کے مختلف پہلو

اللہ تعالی نے معاشروں کی تدبیر اور ان کو درست سمت میں ہدایت کے لیے نظام اتارا ہے جسے اسلام کا سیاسی نظام بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ نظام امامت ہے۔ نظام امامت کے مختلف پہلو ہیں۔ آئمہ معصومینؑ نے مختلف لحاظ سے امت کی رہبری فرمائی۔ مثلا کبھی ہادی کے پہلو سے ہدایت فرماتے، کبھی دین کے محافظ کے اعتبار سے دین کا دفاع اور اس کی تبلیغ فرماتے، دین کے خزانہ دار کی حیثیت سے دین کے حقیقی محافظ اور وحی کے وارث تھے۔ جس طرح سے رسول اللہﷺ پر وحی نازل ہوئی اس کو اسی طرح سے اپنے سینوں میں محفوظ کرتے اور اسے پھیلانے کا وظیفہ انجام دیتے۔[12] سبحانی، جعفر، الالہیات، ج۴، ص۱۶۔ زیارت جامعہ کبیرہ میں امام کا جامع اور کامل تعارف ہوا ہے کہ امام کسے کہتے ہیں اس کی ذمہ داری کیا ہے وغیرہ۔[13] سائٹ ویکی فقہ۔ امامت کا ایک پہلو خلیفہ الہی ہونا ہے۔ قرآن نے انسان کامل کو خلیفۃ اللہ قرار دیا ہے۔ امام کی شخصیت کے ان سب پہلوؤں میں ہمارا مطمع نظر صرف ایک پہلو ہے اور وہ ہے ان کا امام ہونا۔

امامت کی معرفت

ہمارا معاشرہ اکثر طور پر سمجھتا ہے کہ امام کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ ان سے محبت کا رشتہ قائم کیا جاۓ اور ان کے توسل سے دعائیں مانگی جائیں، ان کے بلند مقام کا اقرار کیا جاۓ اتنا معرفت کے لیے ہم کافی سمجھتے ہیں۔ جبکہ تاریخ ایسے افراد کا ہمیں پتہ بتاتی ہے جو اس (معاشرتی )معنی میں ہم سے بھی زیادہ معرفت رکھتے تھے۔ خود مامون کے بارے میں تاریخ میں صاف طور پر واضح ہوا ہے کہ مامون نظریاتی طور پر تمام شیعی عقائد کو سمجھتا تھا اور انہیں کو حق سمجھتا تھا لیکن وہ امام کا قاتل بن گیا۔ شہید مطہریؒ کے بقول مامون رشید بہت ہی ذہین و فطین شخص تھا، شیعہ کے تمام عقائد کو دقت سے جانتا تھا اور انہیں کو حق مانتا تھا حتی اس کا وزیر فضل بن سہل اور یہ خود تشیع کی طرف مائل تھے۔ [14] شہید مطہری، مرتضی، سیری در سیرہ آئمہ اطہار، ج۱، ص۲۰۱۔ مامون شیعی کلامی و نظریاتی ابحاث پر ہم میں سے بہت سے عام شیعوں سے زیادہ جانتا تھا۔ لیکن اس کا یہ سب علم حقیقی معرفت کا باعث نہ بن سکا۔ امام خمینیؒ بھی یہی بیان کرتے ہیں کہ مامون رشید نظریاتی طور پر شیعہ تھا(شیعہ اس معنی میں نہیں کہ امام کا پیروکار ہو بلکہ تمام شیعی عقائد کو درست اور حق مانتا تھا) [15] حوالہ درکار ہے۔ لیکن یہی شخص امام کا قاتل بنا۔ لہذا امامؑ کی ذات سے توسل کرنا، ان سے محبت کرنا اور ان کے عظیم مقام کا دل میں اقرار کرنا کافی نہیں کیونکہ یہ سب تو مامون بھی کرتا تھا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان امور سے ہم عبرت لیں اور اپنی تربیت و تزکیہ کریں ورنہ ہم بھی ایک دن امامؑ کے قاتل بن سکتے ہیں۔ ہواۓ نفس کا شکار ہو کر انسان اس مقام تک جا پہنچتا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی معصوم ہستی کا قاتل بن جاتا ہے۔

امام کی زندگانی سے درس

اگر ہم بھی مامون کی طرح عبرت کا نشان نہیں بننا چاہتے تو امام کی سیرت پر چلنے کی کوشش کریں۔ آئمہ معصومینؑ کی زندگی تقوی اور اخلاق کا ہمارے لیے نمونہ ہے۔ اگر ہم امام کی زندگی سے نصحیت نہ لیں بہت بڑی مصیبت ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بہت سے افراد کئی سالوں سے مجالس میں شرکت کرتے ہوں آئمہ کے جشن میں آتے ہوں، حتی تعلیمی اداروں میں ہم جیسے طلاب سال ہا سال پڑھتے ہیں اور فہم بھی رکھتے ہیں لیکن آئمہ کی راہ میں قدم نہیں بڑھا پاتے۔ زندگی میں جب بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو وہی عام معاشرتی طریقہ کار اختیار کر کے ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص جس نے حوزہ جات میں ایک عمر گزاری اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہمیں کوئی دینی رنگ نظر نہیں آتا، آئمہ معصومینؑ کی سیرت نظر نہیں آتی، اس کا بول چال، رہن سہن کا انداز، اور زندگی گزارنے کا انداز انہیں لوگوں کی طرح ہے جو عام معاشرے کے لوگ ہیں حالانکہ فرق نظر آنا چاہیے۔ اگر ہماری زندگی میں اور عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں تو مطلب یہ کہ امام کی تعلیمات ہضم نہیں ہوئیں۔ آئمہ معصومینؑ نے اپنے اصحاب کی تربیت اس طرح سے کی کہ ان کے وجود سے یہ تعلیمات آشکار طور پر دکھائی دیتی تھیں۔ اور یہی تربیت اور مدیریت حقیقی سیاست ہے جس پر ہمارے سب امام عمل پیرا تھے۔

امام کی اطاعت کا ضروری ہونا

اللہ تعالی نے انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ کی اطاعت کو سب مومنین و مسلمین پر واجب قرار دیا ہے۔[16] نساء: ۵۹۔ لیکن امام کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟ کیا ہم نے سوچا کہ ہم امام کی اطاعت کیوں کریں؟ اس کا مختصر جواب اس طرح سے دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے معاشروں کی ہدایت کے لیے ایک نظام بنایا ہے۔ اس نظام کی تشکیل کے لیے انبیاء اور آئمہ کا وظیفہ قرار دیا ہے کہ وہ حکومت اسلامی تشکیل دیں۔ کیونکہ اگر حکومت نہ بنائی جاۓ اجتماعی طور پر معاشروں کو اللہ تعالی کی طرف گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ممکن ہے انفرادی طور پر امت کے بعض افراد ہدایت پا کر الہی انسان بن جائیں۔ لیکن پوری امت اجتماعی طور پر تب ہی صراط مستقیم پر چل سکتی ہے جب اس کی زمام نبی یا امام کے ہاتھ میں ہو۔ اور یہ صرف اسلامی حکومت سے ممکن ہے غیر اسلامی حکومتیں صراط حق پر نہیں چلا سکتیں۔[17] نساء: ۵۸۔ [18] حج: ۴۱۔ اس لیے تمام امت پر ضروری ہے کہ وہ اس امر (حکومت اسلامی کی تشکیل) میں امام کی اطاعت کریں۔ اگر امت امام کی اطاعت اور نصرت نہ کرے ان پر طواغیت مسلط ہو جاتے ہیں اور غیر الہی راستوں پر چلاتے ہیں۔ آیات و روایات میں آئمہ معصومینؑ کی اطاعت، محبت اور ان کے آگے سر تسلیم ہونے کا حکم اسی فلسفہ کے تحت وارد ہوا ہے۔ اگر مسئلہ امامت و ولایت کو دقت سے دیکھا جاۓ تو یہ اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر امت اطاعت کرے تو یہ نظام بن جاتا ہے اور امت کے لیے ہدایت کا باعث بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امامت کو امت کا نظام قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نظام اطاعت کے قابل نہیں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ مشہور خطبہ فدک میں فرماتی ہیں:

«فَجَعَلَ اللَّهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَالصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ، وَالزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ وَنِماءً فِی الرِّزْقِ، وَالصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ، وَالْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ، وَطاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ».

ترجمہ: پس اللہ تعالی نے ايمان كو تمہارے لیے شرک سے طہارت و پاکیزگی قرار دیا ہے، نماز کو تمہارے لیےتکبر سے پاک و منزہ ہونے کا سبب قرار دیا، زکات کو نفس کا تزکیہ اور رزق میں اضافہ کا باعث قرار دیا  ، روزہ کو اخلاص کو راسخ و ثابت کرنے کا ذریعہ قرار دیا ، حج کو دین کی پختگی و مضبوطی اور عدل کو دلوں کی ہمآہنگی ، درستگی و اصلاح قرار دیا اور ہماری اطاعت کو ملت کے لیے ’’نظام‘‘ قرار دیا۔[19] شيخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔ [20] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔[21] نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار في فضائل الائمہ الاطہار، ج۳، ص۳۴۔ [22] امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔ [23] طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔ [24] فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔ اس خطبے کے اس جملہ پر دقت کریں: ’’وَطاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ‘‘، جناب فاطمہ علیہا السلام فرماتی ہیں کہ ہم اہل بیت عصمت و طہارتؑ کی اطاعت ایک نظام ہے جس کا تعلق فقط ایک فرقہ یا گروہ سے نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلام سے ہے۔ لہٰذا طاعتِ اہل بیتؑ کو ہمیں بطور پر نظام لیناچاہیے۔

معاشرے کیسے ہدایت کی طرف گامزن ہوں؟

حکمت الہی یہ ہے کہ معاشرے ہدایت کی طرف بڑھیں اور گمراہی سے کنارہ کش ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کا یہ چاہنا معاشروں میں کیسے پورا ہوگا؟ اگر اس کا جواب مل جاۓ تو ہمیں بہت سی وہ حکمتیں جو روایات میں وارد ہوئی ہیں سمجھ آجانا شروع ہو جائیں گی ۔ اگر ان حکمتوں کو نہ سمجھا تو نہ خود کو تبدیل کر سکیں گے اور نا ہی معاشروں کو تبدیل کر سکیں گے۔ مثلا اگر ہم پاکستانی معاشرے کو ہدایت کی طرف گامزن کرنا چاہتے ہیں تو کیا کریں؟ اس کام میں ہماری مدد کے طور پر اللہ تعالی نے آدھا کام کر کے رکھ دیا ہوا ہے اور وہ یہ کہ تمام انسانوں کے اندر فطرت اور عقل رکھ دی۔ بیرونی طور پر حجج الہیہ، عبرتیں، کتاب بھی نازل کی۔ اب ان سب کے ہوتے ہوۓ تدبیر کیا ہونی چاہیے کہ یہ معاشرہ الہی معاشرہ ہو جاۓ؟ جواب یہ ہے کہ وہی تدبیر اختیار کریں جو امام نے اختیار کی۔ ان کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوۓ آگے بڑھنا ہے۔ وقت کی حجت سے تعلق پیدا کرنا ہے لیکن یہ تعلق صرف توسل اور تبرک کا نہیں بلکہ جیسا امام کہتے جائیں اور قانون بیان کرتے جائیں آگے سر تسلیم خم ہونا ہے۔ جو منصوبہ امام بنا کر دیں صرف اس پر چلنا ہے۔

ذات امام سے رابطہ اور تعلق کی نوعیت

امام رضاؑ اپنے دور امامت میں موجود تھے بہت سے لوگ ان سے ارتباط برقرار کرتے تھے۔ افراد اپنے اہداف و مقاصد کو مدنظر رکھ کر آپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک شیعہ کا امام سے کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟ کیا امام کا صرف قلبی احترام کافی ہے؟ توسل کا ربط کافی ہے؟ امام کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام اور اس کے شیعہ کا تعلق اطاعت کا ہے۔ شیعہ وہ ہے جو اپنے امام کا مطیع محض ہو۔ اطاعت اس کے جسم اور وجود سے آشکار طور پر نظر آۓ۔ اگر شیعہ اپنے امام سے اطاعت کا تعلق برقرار نہیں کرتا امامت کا نظام لاگو نہیں ہوگا۔ اگر حجت الہی کی اطاعت وجود میں آ جاۓ قانون الہی نافذ ہونا شروع ہو جاۓ گا۔ حجت الہی کا زبان سے اقرار کافی نہیں ہے عملی زندگی میں معاشرتی و اجتماعی امور میں امام کی اطاعت ضروری ہے۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیوں ہمارے معاشرے دین کی سمجھ بوچھ رکھتے ہوۓ،عقل و فہم کے ہوتے ہوۓ،حتی متدین اور انقلابی طبقہ جو نظریات کو دقیق طور پر جانتا ہے لیکن اپنے ہی علم کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ مثلا کتنے ہی طلاب اور علماء کرام ہیں جو ولایت فقیہ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس نظریے کی راہ میں قدم نہیں بڑھاتے۔ حماسہ برپا نہیں کرتے احساسات اور معاشرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر تزکیہ نفس کی ضرورت ہے صرف چند امور کا اقرار تو کافی نہیں عملی اطاعت کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے ہم اس راہ میں بڑھیں گے اللہ تعالی کا بھی وعدہ ہے کہ وہ اس میں نصرت کرے گا۔ لیکن اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو اللہ تعالی کا نظام تو ختم نہیں ہوگابلکہ اللہ تعالی کوئی اور قوم لے آۓ گا ۔جو اس کام کو ہماری جگہ پر انجام دیں گے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:

«يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكافِرينَ يُجاهِدُونَ في سَبيلِ اللهِ وَ لا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ».

ترجمہ: اے ایمان والو ! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔[25] مائدہ: ۵۴۔

اگر ہم نظام امامت کی طرف نہیں بڑھتے اور اپنے امام کی عملی اطاعت نہیں کرتے تو کیا یہ کام ہوگا ہی نہیں؟ کیا یہ نظام متروک رہ جاۓ گا؟ جی نہیں! اللہ تعالی ایسے افراد لاۓ گا جو مطیع ہونگے جو کسی کے طعنے تشنیع سے گھبرائیں گے نہیں۔ اس لیے جو کام ہمیں کرنا چاہیے وہ ہم کر کے جائیں ایسا نہ ہو کہ وہ کام اللہ تعالی ہماری بجاۓ کسی اور سے لے۔ ہمارے لیے یہی کلیات ہیں۔ جب بھی گفتگو کریں یا نظریات بیان کریں یا تجزیہ تحلیل کریں کلیات یہی ہیں۔ کلیات جمع نہ کیے تو نظریات درست نہیں بنا سکتے۔ اگر امام سے اصلی ربط سمجھ آ جاۓ تو یہ بات بھی سمجھ آ جاۓ گی کہ نائب امام سے کس قسم کا ربط برقرار کریں؟

نائب امام ولی فقیہ سے ارتباط

اطاعت کا باب صرف امام کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ نائب امام سے بھی یہی ربط برقرار کرنا ہے۔ نائب امام کو ٹھکرانا در اصل خود امام کو ٹھکرانے کے مترادف ہے۔ مالک اشترؒ کو جب امیرالمومنینؑ نے مصر کا والی مقرر فرمایا تو مصر والوں کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں فرماتے ہیں:

«وَ هُوَ مَالِکُ بْنُ الْحَارِثِ أَخُو مَذْحِجٍ فَاسْمَعُوا لَهُ وَ أَطِیعُوا أَمْرَه».

ترجمہ: وہ مالک بن حارث مذحجی ہیں ان کی بات کو سنو اور ان کے امر کی اطاعت کرو۔[26] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۳۸۔ ان الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے امام فرماتے ہیں کہ مالک کی اطاعت کرنی ہے اور ان کے لیے امر کا لفظ وارد ہوا ہے۔ پس معلوم ہوا امام کے نائب کی اطاعت ضروری ہے۔ 

آج ولی فقیہ رہبر معظم امام خامنہ ای کے ساتھ ہمارا یہی برتاؤ ہونا چاہیےکیونکہ ان کی ولایت بھی نیابت امام زمان عجل اللہ کے ذیل میں ہے۔ ان کا مطیع اور ہر حکم کے سامنے خاضع ہونا چاہیے جیسا کہ سید مقاومت حسن نصراللہ ان کے آگے خاضع نظر آتے ہیں۔ عراق کے مشہور و معروف مجاہد عالم دین سید ہاشم الحیدری کی زبان سے ہم نے خود سنا وہ بیان کر رہے تھے کہ سید مقاومت بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کا جتنا گہرا ربط رہبر سے ہوگا اتنا ہی دشمن کے مقابلے میں وہ شخص استقامت دکھاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سید مقاومت جب بھی کسی شوری یا میٹنگ میں مشاورت کے لیے بیٹھتے ہیں اور کوئی احتمال دے کہ فلاں مسئلے میں رہبر معظم کی یہ راۓ ہو سکتی ہے تو سید مقاومت اسی راۓ کو قبول کر لیتے ہیں اور اگر احتمال ہو کہ ایک راۓ رہبر معظم کو شاید پسند نہ آۓ اس کو فورا رد کر دیتے ہیں۔ یعنی رہبر کو حکم دینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ اگر وہ کسی خواہش کا اظہار کر یں تو ہم پر اس خواہش کی تکمیل واجب ہو جاۓ۔یہ ربط جب تک جنم نہیں لیتا معاشرے میں تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے یہاں پر کوئی اعتراض کرے کہ اچھا تو آپ ان کو معصوم قرار دے رہے ہیں؟ امام کے جیسا سلوک ان سے کر رہے ہیں؟ جیسا کہ امام خمینیؒ پر بھی یہی اعتراض ہوۓ، داخلی طور پر علماء اور بیرونی طور پر دشمن عناصر کے پروپیگنڈے۔ امام خمینیؒ نے واضح طور پر فرمایا:

’’جب کہاجاتاہے کہ جو ولایت رسول اکرمﷺاور آئمہ طاہرینؑ کو حاصل تھى وہ ولایت زمانہ غیبت میں ایک عادل فقیہ کو بھى حاصل ہے تو اس سے کسى کو بھى یہ گمان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جو مقام و مرتبہ اور فضیلت رسول اللہﷺ اور آئمہ اطہارؑ کو حاصل تھا وہى رتبہ فقیہ کو بھى حاصل ہے(نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے) کیونکہ یہاں بات مقام و مرتبہ کى نہیں ہو رہى بلکہ بات وظیفہ کى ہورہى ہے۔ ولایت فقیہ میں ولایت سے مراد (آئمہ اطہارؑ کے مقام و مرتبہ والی ولایت مراد نہیں ہے) یعنى حکومت، ایک مملکت کی مدیریت اور شریعت مقدس کے قوانین کو جاری کرنا ہے۔پس حکومت کو اسلامی قوانین کے مطابق چلانا، اس کی مدیریت کرنا اور شریعت مقدس کے قوانین کا اجرا ایک فقیہ کا اسی طرح وظیفہ ہے جس طرح سے کہ رسول اللہﷺ اور آئمہ طاہرینؑ کا وظیفہ ہے۔[27] خمینی، سید روح اللہ، حکومت اسلامی و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینی، ص۲۲۸۔

امام رضاؑ نے اپنے شیعوں کی اس طرح سے تربیت کی کہ وہ اپنے امام اور رہبر سے محبت اور اس کی اطاعت کریں۔ اگر یہ ربط قائم ہو جاۓ انسان معرفت حاصل کر لیتا ہے اور جہالت سے نکل آتا ہے۔ آئمہ معصومینؑ کی تاریخ کو آئینہ قرار دے کر ہمیں اس کو قابل استفادہ بنانا ہے۔ اگر تاریخ کو صرف تاریخ کی نظر سے دیکھا اور اپنے لیے اسے عملی میدان میں استفادہ کے قابل نہ بنایا کوئی فائدہ نہیں۔

امام رضاؑ کی ولی عہدی اختیاری یا اجباری

ہمارے منابع میں واضح طور پر وارد ہوا ہے کہ امام رضاؑ اپنی خوشی اور رضا سے مامون رشید کے ولی عہد نہیں بنے بلکہ ان کو زبردستی طور پر ولی عہد بنایا گیا۔ اگر آج کے دور میں کوئی یہ کہتا ہے کہ جس طرح امام ایک غیر اسلامی نظام کا حصہ بنے ہیں ہم بھی غیر اسلامی نظاموں کا حصہ بن سکتے ہیں یہ بات درست نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ آپ ظالم حکومت کا حصہ بننے کے لیے فقہی طور پر کوئی اور دلیل لے آئیں لیکن ولی عہدی کے مسئلے کو دلیل کے طور پر نہیں لایا جا سکتا۔ مکتب تشیع کی اساس اور اصل یہ ہے کہ کسی بھی غیر اسلامی نظام حکومت کا حصہ بننا، اس کی مدد کرنا حرام ہے۔ اس بات پر تمام فقہاء امامیہ کا اتفاق ہے۔ [28] مفيد، محمد بن محمد، المقنعہ، ۵۸۹۔ [29] شيخ طوسی، محمد بن حسن، النهايہ، ص۳۶۵۔ [30]  ديلمي، ابو يعلي، المراسم العلويۃ في النبويۃ، ص۱۷۰۔ [31]  علامہ حلي، حسن بن يوسف، إرشاد الأذهان إلى أحكام الإيمان، ج۱، ص۳۵۷۔ [32]  نراقي، أحمد بن محمد، مستند الشيعہ، ج۱۴، ص۱۵۲۔ [33] نجفي، محمد حسن، جواهر الكلام، ج۲۲، ص۵۱۔ مگر یہ کہ استثنائی صورت ہو تب حصہ بنا جا سکتا ہے۔ کتاب وسائل الشیعہ میں شیخ حر عاملی نے ایک پورا باب اس موضوع پر مرتب فرمایا ہے کہ کیا ہم ظالم غیر اسلامی حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر ظالم نظام حکومت کا حصہ بن جائیں تو کیا ہوگا؟ اور اگر اس کی معاونت کرتے ہیں اور اس کی حکومت کو کسی طرح سے سپورٹ پہنچاتے ہیں ان سب مسائل کا کیا حکم ہے۔ اس موضوع میں وارد ہونے والی تمام روایات کو شیخ نے ادھر جمع کیا ہے۔[34] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۱۷۷۔

حکم اولیہ یہ ہے کہ ظالم غیر اسلامی حکومتوں کے معاون نہ بنیں اور نا ہی ان کی حکومت کا حصہ بنیں۔ ان حکومتوں کا انکار ضروی ہے۔ لیکن اگر کسی جگہ واقعی مصحلت موجود ہے تو وہاں پر حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں جیسا کہ علی بن یقطین کو خود امام کاظمؑ نے حکومت کا حصہ بننے کا فرمان دیا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ علی بن یقطین اس حکومت کا حصہ بن کر حاکم کے گن گاتے یا بہت خوش تھے بلکہ علی بن یقطین مامون رشید پر لعن کرتے اور وزارت سے ہمیشہ دل سے نفرت کرتے رہے، خود امام سے دو بار وزارت سے مستعفی ہونے کا مشورہ لیا تو امام نے ان کو منع فرمایا۔[35] سائٹ البر۔

پس یہ کہنا کہ ظالم حکومت کا حصہ بننا چاہیے یہ غلط نظریہ ہے۔ امام رضاؑ کو جب قتل کی دھمکی دی گئی تو تب جا کر امام نے ولی عہدی کو قبول کیا۔[36] شیخ صدوق، محمد بن علی بن الحسین، علل الشرایع، ج۱، ص۲۳۸۔ لیکن وہاں پر شرائط بیان کیں اور وہ شرائط ہی اس نوعیت کی تھیں کہ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام اس ظالم نظام حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔

ولی عہدی قبول کرنے کی شرائط

امام رضاؑ نے جو شرائط سامنے رکھیں وہ درج ذیل ہیں:

۱۔ کسی بھی شخص کو امر و نہی نہیں کرونگا۔

۲۔ حکومتی امور میں فتوی دونگا اور نا ہی قضاوت کرونگا۔

۳۔ کسی بھی شخص کو نہ کسی جگہ کا مسؤول بناؤنگا اور نا ہی معزول۔

۴۔ کسی بھی شے کو جو پہلے سے کسی مقام پر موجود ہے تبدیل نہیں کرونگا۔[37] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۸۸، ح۷۔

اس لیے تمام شیعیان کے لیے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امام مجبور تھے اور ایک ظالم کا ولی عہد بن کر نعوذباللہ خوش نہ تھے۔ ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب امام رضاؑ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایک ظالم حاکم کی ولی عہدی کو قبول کیوں کیا تو امام نے فرمایا کہ حضرت یوسفؑ نبی ہوتے ہوۓ ایک فرعون کے وزیر مقرر ہوۓ اور انہوں نے فرعون سے فرمایا کہ مجھے خزانہ داری کا عہدہ سونپ دو۔[38] یوسف:۵۵۔ یہاں پر حضرت یوسفؑ بھی مصر کی نجات کے لیے مجبورا فرعون کے وزیر بنے اور میں بھی اسی بنا پر مامون کا مجبوری کی حالت میں ولی عہد بنا۔[39] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۱۵۰۔

دینی سیاست اور اخلاقیات

دین اعتقادات، احکام اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ ان تینوں کا ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم کوئی دینی نظریہ اٹھا رہے ہیں اس میں دینی احکام اور اخلاق نظر آنا ضروری ہیں۔ حتی سیاست میں اخلاق موجود ہونا ضروی ہے۔ موجودہ دور میں جس مفاد کی غیر دینی سیاست کا رواج پڑگیا ہے اس میں اخلاقیات کو الگ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سیاست بد سے بد تر ہو گئی۔ لیکن ہم آئمہ معصومینؑ کی سیاسی زندگی میں اخلاقیات کا عمل دخل وسیع طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر اخلاقیات کو زندگی سے نکال دیں تو وہی ہوگا جو آج ہم سیاست اور دین کے نام پر پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ آج ہمارے وطن عزیز میں کوئی بھی چیز اپنے درست مقام پر نہیں، مجرم قابل احترام اور مومنین جیلوں میں بند ہیں۔ قاتل کی عزت اور مقتول در بدر ہیں، حرام عام ہوتا جا رہا ہے اور حلال مشکل۔ حتی یہی مسئلہ جو آج کل پاکستان میں وائرل ہوا ہے ایک بچی جو کراچی سے لائی گئی اور بعد میں کہا گیا کہ اس کی کسی لڑکے سے شادی ہو گئی ہے۔ ہیومن ٹریفکنگ اور اسمگلنگ پاکستان میں بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلے بچوں کو گیمز اور سوشل میڈیا پر پھنسایا جاتا ہے، ان کا ذہن پڑھا جاتا ہے اور بعد میں ان کو بلیک میل کر اپنے مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آگے سے وکلاء، پولیس کو پہلے سے ہی خرید لیا جاتا ہے حتی ججز بھی ان کے کہنے پر فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی جنسی مسائل کا معاملہ ہو تو رپورٹ لکھوانے کے لیے ڈاکٹرز بھی انہوں نے خریدے ہوۓ ہوتے ہیں۔ یہ سب مسائل اس وقت پیدا ہوۓ جب ہم نے اجتماعی مسائل سے اخلاقیات کو باہر نکال دیا۔ جبکہ دین یہ کہتا ہے کہ سیاست، اور اخلاقیات ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ یہ چیز ہم اپنے آئمہ معصومینؑ کی زندگی میں بہت واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بھی ان کو سیاسی منصب ملا وہ خاضع تر ہو گئے۔ ان کا اخلاق اور کردار منصب کی وجہ سے بدلا نہیں۔

آئمہ معصومینؑ کی سیاسی زندگی اور اخلاقیات

اگر آپ سے سوال کیا جاۓ کہ ایک قوم کو اخلاق کی کب زیادہ ضرورت ہوتی ہے؟ جب وہ نہضت اور انقلاب کے دور سے گزر رہی ہو اس وقت اسے اخلاقیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے یا جب انقلاب آ جاۓ اور حکومت آپ کے ہاتھوں میں ہو اس وقت اخلاقیات کی زیادہ ضرورت ہوگی؟ با الفاظ دیگر جب حکومت امیرالمومنینؑ کے پاس نہیں تھی اور خلفاء کے دور میں وہ زندگی گزار رہے تھے اس وقت وہ زیادہ اخلاقیات پر زور دیتے تھے یا جب خود خلیفہ بن گئے؟ کس وقت امت کو اخلاقیات کی ضرورت زیادہ تھی؟ اگر نہج البلاغہ کو اٹھا کر دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ امیرالمومنینؑ نے اپنے دور خلافت میں اخلاقیات پر زیادہ زور دیا۔ نہج البلاغہ اخلاقیات سے بھری پڑی ہے۔ اور اس کا اکثر حصہ آپ کی زمان حکومت کا ہے بہت قلیل حصہ زمانہ حکومت سے پہلے کا ہے۔نہضت کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔ آپ وعظ و نصیحت شروع کرتے ہیں اور اجتماعی اخلاق پر زور دیتے ہیں۔ کیونکہ ہدف اجتماعی اخلاق ہے انفرادی اخلاق نہیں ہے۔ اخلاق یہ نہیں ہے کہ ایک قوم کے ساتھ اجتماعی طور پر زیادتی ہو رہی ہے تو وہ چپ بیٹھ جاۓ۔ ہاں اگر انفرادی طور پر کسی نے عزت نہیں کی تو صبر کرنا چاہیے لیکن اگر اجتماعی طور پر باطل کو ابھارا جا رہا ہے تو وہاں پر آپ اخلاقیات کا درس نہیں دیں گے بلکہ وہاں پر اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ باطل کے خلاف قیام کریں۔ 

اخلاق کا تقاضا ہے کہ چاہے آپ انفرادی زندگی میں ہوں یا چاہے اجتماعی، کسی منصب پر فائز ہوں یا جیل میں بند ہوں وہاں پر اپنی شخصیت کو مت کھو دیں۔ مثلا امام کو ولی عہدی ملی تو آپ کی زندگی اور لائف اسٹائل بدل نہیں گیا، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب اچانک اللہ تعالی آپ کو اپنی نعمات سے نوازتا ہے زندگی کا انداز ہی بدل جاتا ہے۔ اور خود کو کوئی چیز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ سیرت آئمہ معصومینؑ اس کے برعکس ہے وہ اپنے اصولوں پر ہمیشہ پابند رہے اور ہمارے لیے درس چھوڑ کر گئے کہ اگر ہم بھی اجتماعی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، کوئی ادارہ مسجد یا مدرسہ ہمارے ہاتھ آتا ہے تو وہاں پر اپنی مرضی نہیں چلانی بلکہ امام کی اتباع کرنی ہے۔ اور یہ موقع سب کو ہی نصیب ہوتا ہے سب افراد کو ہی اللہ تعالی نعمات عطا کرتا ہے کم سے کم گھر کی ولایت تو سب افراد کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ کم از اکم گھر میں تو امامت کی اتباع کر کے دکھائیں۔ اگر بڑا منصب مل جاتا ہے تو پھر آزمائش سخت تر ہو جاتی ہے لیکن جتنے افراد آپ کے تحت تکفل ہیں ان میں امامت کے نظام کو اور اخلاقیات کو حتما مدنظر رکھیں۔ امام رضاؑ کی سیرت سے علم ہوتا ہے کہ جب ان کو ولی عہدی عطا ہوئی تو ان کے اندر بعض امور پہلے سے زیادہ واضح طور پر نظر آنے لگ گئے جن کو ذیل میں ذکر کیا جار رہا ہے۔

امام رضاؑ کی سادگی

روایت میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ گرمیوں میں عام سی چٹائی پر بیٹھا کرتے۔[40] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۷۸۔ انسان کو جیسے جیسے نعمات ملتی جاتی ہیں ویسے ہی اس کا وظیفہ بدلتا جاتا ہے۔ ممکن ہے امامؑ یہ کام مدینہ میں نہ کرتے ہوں لیکن جب سیاسی منصب عطا ہوا تو سادگی بڑھا دی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی منصب پر ہوں اور لوگوں میں آپ کے سیاسی منصب کی وجہ سے عزت ہو تو وہاں پر خود کو لوگوں سے دور مت کریں۔ آپ کی ٹھاٹ دیکھ کر عام انسان متاثر نہ ہونے لگ جائیں بلکہ سادگی کو بڑھا دیں تاکہ لوگ اطمینان سے آپ تک رسائل حاصل کر سکیں۔ خود کو عام لوگوں کی سطح زندگی سے بالاتر مت کریں۔ اس لیے خود ہم طلاب کے لیے بھی نصیحت ہے اگر ہمیں شہرت ملتی ہے یا کوئی منصب مل جاتا ہے تو وہاں پر اگر امام کی اتباع نہ کی ہماری گرفت ہوگی۔ ایک اور نکتہ جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات سادگی کا غلط مطلب سمجھ لیا جاتا ہے۔ میلے کپڑے پہننا، کنگھی نہ کرنا، نظافت اور صفائی کا خیال نہ رکھنا سادگی نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے میلے کچیلے اور عجیب لگیں گے اتنی ہی سادگی ہوگی جبکہ سادگی کا یہ مطلب نہیں۔ اچھا صاف ستھرا لباس پہنیں، خود کو معطر کریں لیکن برانڈوں کے چکر میں مت پڑیں۔ ایسا نہ ہو کہ حتما ہم نے فلاں برانڈ کا ہی لباس یا جوتا پہننا ہے۔ برانڈ کی اہمیت نہیں لیکن صفائی ستھرائی اور خود کو با وقار طریقے سے لوگوں کے اندر پیش کرنا ضروری ہے۔ 

مومن کے کام آنا

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ سے جب کوئی مومن حاجت طلب کرتا تو فورا اس کی اجابت کرتے اور اس چیز سے ڈرتے کہ وہ اس مومن کی مشکل کو دور کرنے میں اتنی دیر کر دیں کہ وہ مشکل کسی اور کے ذریعے حل ہو۔[41] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۲۔ ابھی ہمارے یہاں الٹ ہو گیا ہے اگر کوئی مشکل میں پھنسا ہو اور ہمیں پیغام دے تو جواب نہیں دیتے لیکن اگر ہمارے ہی فائدے کا کوئی پیغام آۓ تو فورا جواب دیتے ہیں۔ مومنین کے اندر یہ احساس ہونا ضروی ہے کہ اگر کوئی مومن بھائی ان کو مشکل وقت میں مدد کے لیے پکارتا ہے تو فورا اس کی اجابت کریں۔

امام رضاؑ ولی عہد بننے کے بعد

 شیخ صدوقؒ نے عیون اخبار الرضا میں اپنی سند سے نقل کیا ہے:

محمد بن یحی کہتے ہیں کہ یہ باتیں میں نے اپنی دادی سے سنی ہیں۔ ان کا نام غدر تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ میں کوفہ سے کنیز کے طور پر خرید کر مامون کے دربار میں لائی گئی۔ میرے ساتھ اور بھی بہت سی کنیزیں تھیں۔ جب ہم مامون کے دربار میں داخل ہوئیں تو ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم جنت میں داخل ہو گئی ہیں، وہاں کا محل، اس کے کمرے اور دیواریں بلند، متعدد کھانوں اور مشروبات کی ہر طرف خوشبوئیں پھیلی رہتی تھیں،سونے کے سکے فراوان۔ میری دادی بیان کرتی ہیں کہ میری بدقسمتی سے مامون نے مجھے امام رضاؑ کو بخش دیا۔ جب میں امام کے گھر گئی تو وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا الٹا ہمیں صبح صبح نماز کے لیے اٹھا دیا جاتا، کوئی بھی سہولت میسر نہ تھی اور میری زندگی بہت سخت و ناگوار سی ہو گئی تھی۔ میری شدید خواہش ہوتی کہ کسی طرح سے اس جگہ سے جان چھوٹ جاۓ۔ یہاں تک کہ میری آرزو پوری ہوئی اور مجھے عبداللہ بن عباس کی کنیزی کے طور پر انتخاب کر لیا گیا اور جب میں وہاں منتقل ہوئی تو مجھے لگا جیسے میں جنت میں وارد ہو گئی ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عقل و سخاوت میں ایسی کوئی خاتون نہیں دیکھی جو میری دادی کا مقابلہ کر سکے وہ بہت زیرک خاتون تھیں تقریبا ایک سو سال انہوں نے عمر کی۔ لوگ ان سے اکثر طور پر امام رضاؑ کی زندگی کے بارے میں سوالات کیا کرتے۔ میری دادی ان کو جواب میں کہتی تھیں کہ امام رضاؑ کے بارے میں مجھے زیادہ باتیں تو یاد نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ وہ عود ہندی سے خود کو معطر کیا کرتے تھے، اس کے بعد گلاب اور مشک استعمال کرتے۔ نماز ہمیشہ اول وقت میں پڑھتے اور جب سجدے میں جاتے تو اس وقت تک سر نہ اٹھاتے جب تک سورج طلوع نہ ہو جاتا۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر چلے جاتے اور ان کی باتوں کو غور سے سنتے۔ کبھی بھی لوگوں کے ساتھ ملاقات کے دوران جلدی نہ کرتے بلکہ اطمینان سے ان کے مسائل اور باتوں کو سنتے اور ان کا حل بتاتے۔ جب گھر میں موجود ہوتے تو کسی کو بھی بلند صدا میں بات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔[42] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۲، ح۳۔

یہ روشیں ہیں ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے جب ہم میں سے کسی کو شہرت مل جاۓ، یا کوئی منصب مل جاۓ وہاں پر ہم بھی دوسروں کی طرح نعمات میں غرق نہ ہو جائیں، بلکہ عام لوگوں کی رسائی میں رہیں، اگر لوگ ہم سے ارتباط برقرار کرنا چاہیں تو خود کو ان سے دور مت کریں بلکہ ان کی بات سنیں اور اطمینان سے ان کو وقت دیں۔ امام خمینیؒ کی شخصیت میں ان چیزوں کو ہم بہت دیکھتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ کی سیرت کو انہوں نے اپنے لیے نمونہ قرار دیا۔ بہت سادہ زندگی گزاری۔ شاید ہم میں سے بہت سے افراد یہ خواہش رکھتے ہوں کہ امام خمینیؒ یا خود امام معصومؑ کے ساتھ زندگی گزاریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی طرح سادہ زندگی گزارنا بہت مشکل اور سخت ہے۔ جیسا کہ اس خاتون نے اپنا واقعہ بتایااور ان سختیوں کے سامنے تحمل نہ کر سکی۔

امام رضاؑ زندان میں 

ابو صلت ہروی بیان کرتے ہیں کہ میں سرخس میں امام علی رضاؑ کو ملنے گیا۔ وہاں امام زندان میں قید تھے۔ زندان بان کو کہا کہ میں نے امام سے ملاقات کرنی ہے۔ تو اس نے کہا کہ امام سے ملاقات ممکن نہیں کیونکہ وہ ۲۴ گھنٹوں میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ بہت کم اوقات میں نماز کو ترک کرتے ہیں اور ان اوقات میں بھی ذکر اور مناجات میں مشغول رہتے ہیں۔ میں نے زندان بان سے خواہش کی کہ میرے لیے امام سے وقت مانگیں۔ میں امام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کی کہ یا مولا لوگوں نے آپ کے حوالے سے یہ بات پھیلائی ہوئی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ سب لوگ ہمارے غلام ہیں۔ امامؑ نے فرمایا کہ میں نے اور نا ہی ہمارے اجداد میں ایسی بات کسی نے نہیں کی۔ (معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کی باتیں زید بن موسی نے پھیلائی ہوئی تھیں کہ سب لوگ اہل بیتؑ کے غلام ہیں۔ زید بن موسی در اصل امام رضاؑ کے بھائی ہیں اور ان کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ امام رضاؑ کی امامت کے بارے میں انہوں نے بہت سی مشکلات کھڑی کیں۔ مثلا اس نے یہ بات بھی لوگوں میں پھیلائی ہوئی تھی کہ سادات پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ امام رضاؑ نے اس بات پر زید کی بہت مذمت فرمائی۔[43] سائٹ البر۔ پھر امام نے فرمایا اگر یہ بات درست ہوتی کہ سب لوگ ہمارے غلام ہیں تو یہ بھی بتائیں کہ ان کا مالک کون تھا جن سے ہم نے سب کو خریدا ہے؟ آخر غلام کا کوئی تو مالک بھی ہوتا ہے تو وہ کون ہے؟ پھر امام نے ابو صلت سے عقیدہ ولایت کے متعلق سوال کیا۔ ابو صلت کہتے ہیں کہ میں نے کہا میں عقیدہ ولایت پر اعتقاد رکھتا ہوں۔[44] شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۷، ح۶۔ در اصل امام بتانا چاہتے تھے کہ لوگوں کو حقیقی غلامی سے نجات صرف ولایت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر لوگ امام کی ولایت میں نہ ہوں تو وہ اگرچہ ظاہری طور پر آزاد ہیں لیکن حقیقی طور پر غلام ہیں۔

منابع:

منابع:
1 شیخ مفید، محمد بن نعمان، مصنفات، ج۱۱، ص۲۴۸۔
2 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۸۶۔
3 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۴۔
4 عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسۃ للامام الرضا علیہ السلام، ج۱، ص۱۶۹۔
5 ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۶، ص۱۰۸۔
6 خواجہ طوسی، محمد بن محمد نصیر الدین، اخلاق ناصری، ص۱۲۔
7 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۸۔
8 طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۴، ص۷۸۔
9 سائٹ البر۔
10 سائٹ البر۔
11 خمینی، روح اللہ، صحیفہ نور، ج۱۳، ص۲۱۶۔
12 سبحانی، جعفر، الالہیات، ج۴، ص۱۶۔
13 سائٹ ویکی فقہ۔
14 شہید مطہری، مرتضی، سیری در سیرہ آئمہ اطہار، ج۱، ص۲۰۱۔
15 حوالہ درکار ہے۔
16 نساء: ۵۹۔
17 نساء: ۵۸۔
18 حج: ۴۱۔
19 شيخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۳، ص۵۶۸۔
20 طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، ج۱، ص۱۱۳۔
21 نعمان مغربی، نعمان بن محمد، شرح الاخبار في فضائل الائمہ الاطہار، ج۳، ص۳۴۔
22 امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج۱، ص۳۱۱۔
23 طبرسی، ابو منصور، الاحتجاج، ج۱، ص۹۹۔
24 فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، الوافی، ج۵، ص۱۰۶۴۔
25 مائدہ: ۵۴۔
26 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۳۸۔
27 خمینی، سید روح اللہ، حکومت اسلامی و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینی، ص۲۲۸۔
28 مفيد، محمد بن محمد، المقنعہ، ۵۸۹۔
29 شيخ طوسی، محمد بن حسن، النهايہ، ص۳۶۵۔
30  ديلمي، ابو يعلي، المراسم العلويۃ في النبويۃ، ص۱۷۰۔
31  علامہ حلي، حسن بن يوسف، إرشاد الأذهان إلى أحكام الإيمان، ج۱، ص۳۵۷۔
32  نراقي، أحمد بن محمد، مستند الشيعہ، ج۱۴، ص۱۵۲۔
33 نجفي، محمد حسن، جواهر الكلام، ج۲۲، ص۵۱۔
34 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۷، ص۱۷۷۔
35 سائٹ البر۔
36 شیخ صدوق، محمد بن علی بن الحسین، علل الشرایع، ج۱، ص۲۳۸۔
37 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۸۸، ح۷۔
38 یوسف:۵۵۔
39 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۱۵۰۔
40 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۷۸۔
41 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۲۔
42 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۲، ح۳۔
43 سائٹ البر۔
44 شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۹۷، ح۶۔
Views: 39

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امام جعفر صادقؑ کا سیاسی اسلوب
اگلا مقالہ: رہبر معظم کے عید غدیر کے متعلق ۳۰ ارشادات