loading
{  سیاسی افکار}

امام جعفر صادقؑ کا سیاسی اسلوب

تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

اجمالی تعارف

جعفر بن محمد ؑ مکتب تشیع کے چھٹے امام ۱۷ ربیع الاول سنہ ۸۳ ہجری مدینہ میں پیدا ہوۓ۔[1] ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۹۹۔ آپ کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور مشہور لقب صادق ہے۔[2]  ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۴۰۰۔ آپ کے والد گرامی امام باقرؑ اور والدہ ام فروہ قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی ہیں۔[3] کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۷۲۔ ۱۱۴ ہجری میں امام باقرؑ کی شہادت کے بعد ۳۱ سال کی عمر میں آپ منصب امامت پر فائز ہوۓ۔ آپ کی کل مدت امامت ۳۴ سال بنتی ہے۔[4] مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۸۰۔ جس میں ۱۸ سال اموی اور ۱۶ سال عباسی دور حکومت کے بنتے ہیں۔[5] ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، تاریخ الامم و الملوک، ج۴، ص۳۷۵۔ آپ نے ۶۵ برس عمر پائی اور ۲۵ شوال سنہ ۱۴۸ ہجری میں مدینہ میں شہید ہوۓ۔[6] مدرسی، سید محمد تقی، زندگانی رئیس مذہب تشیع حضرت جعفر بن محمد، ص۷۔ امام عالی مقام کو جنت البقیع میں امام باقرؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔[7] مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۸۰۔ [8] کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۷۲۔ آپ نے آئمہ معصومینؑ میں سب سے زیادہ عمر پائی۔

امام صادقؑ کے ہمعصر حکمران

آپؑ کے زمانہ امامت میں سات بادشاہ گزرے۔ جن میں پانچ اموی اور دو عباسی بادشاہ ہیں۔ ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید، یزید بن ولید، ابراہیم بن ولید، مروان بن محمد ان پانچ اموی حکمرانوں کا دور پایا، عباسی خلفاء میں سفاح اور منصور دوانیقی کا دور پایا۔[9] سائٹ ویکی فقہ۔

بنو امیہ کی بادشاہت

امام جعفر صادقؑ کے دور کے سیاسی حالات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس دور کے سیاسی حکمران یعنی بنو امیہ کی سیاست کو سمجھنا ہوگا۔ جب تک اس منحوس خاندان کو نہیں سمجھتے بقیہ آئمہ معصومینؑ کی زندگانی کو بھی بہتر طور پر درک نہیں کر سکتے۔ بنو امیہ کی تاریخ مسلمانوں کے لیے بہت درد بھری ہے۔ یہ لوگ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کے بدترین دشمن رہے بعد میں فتح مکہ کے موقع پر جب گردن پر تلوار لٹکتی ہوئی دیکھی تو مجبورا اسلام لے آۓ۔رسول اللهﷺ نے بھی اپنی شفقت و رحمت کی انتہا کرتے ہوۓ انتقام لینے کی بجاۓ ان کو چھوڑ دیا اور فرمایا: «اذهبوا وانتم الطّلقاء». جاؤ تم لوگ آزاد ہو۔[10] ذحیلی، وہبہ ، آثار الحرب فی فقہ الاسلامیہ، ص۲۱۔ [11] مقریزی، تقی‌الدین، امتاع الاسماع، ج۸، ص۳۸۸۔ [12] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۶۱۔ مسلمانوں میں ان کی عزت نہیں تھی اور سب ان کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے الٹا اسلام کے بدترین دشمن رہے یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنینؑ نے اپنے مکتوب میں معاویہ کو لکھا کہ تمہارا مسلمانوں اور ان کے سیاسی امور سے کوئی واسطہ نہیں بنتا۔ امام لکھتے ہیں:

«واعلم يا معاوية أنك من الطلقاء، الذين لا تحل لهم الخلافة، ولا تعقد معهم الإمامة، ولا تعرض فيهم الشورى».

ترجمہ: اے معاویہ! جان لو تم طلقاء میں سے ہو کہ جن پر خلافت حلال نہیں ہے۔ امامت طلقاء سے منعقد نہیں ہوگی اور نا ہی ان سے کوئی مشورت لی جاۓ گی۔[13] دینوری، ابن‌قتیبه، الامامه والسیاسه، ج۱، ص۱۱۴۔

ایک اور جگہ پر امیرالمومنینؑ معاویہ کو اس کا اصلی مقام یاد دلاتے ہوۓ ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارا مسلمانوں کی خلافت و سیاست سے کوئی تعلق نہیں:

«وَ زَعَمتَ أَنّ أَفضَلَ النّاسِ فِی الإِسلَامِ فُلَانٌ وَ فُلَانٌ فَذَکَرتَ أَمراً إِن تَمّ اعتَزَلَکَ کُلُّهُ وَ إِنْ نَقَصَ لَمْ یَلْحَقْکَ ثَلْمُهُ وَ مَا أَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُولَ وَ السَّائِسَ وَ الْمَسُوسَ! وَ مَا لِلطُّلَقَاءِ وَ أَبْنَاءِ الطُّلَقَاءِ وَ التَّمْیِیزَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ وَ تَرْتِیبَ دَرَجَاتِهِمْ وَ تَعْرِیفَ طَبَقَاتِهِمْ هَیْهَاتَ».

ترجمہ: تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلاں فلاں اور فلاں ہیں۔ یہ تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کہ کون افضل ہے؟ اور کون غیر افضل؟ کون حاکم ہے اور کون رعایا؟ بھلا طلقاء اور ان کے بیٹوں کو یہ حق کہاں سے ہو سکتا ہے کہ وہ مہاجرین اولین کے درمیان امتیاز کرنے، ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقے پہنچوانے بیٹھیں؟[14] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔ لیکن جب اس وقت کے مسلمانوں میں بنو امیہ کو حکومت کا جواز مل گیا تو پھر آج بھی ان سیاسی پارٹیوں اور ان کے فاسق حکمرانوں کو اپنے اوپر مسلط دیکھ کر ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیے؟ آج پاکستان میں حکومت کرنے کا حق سب ہی صرف اپنے لیے مختص سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فورسز، پولیس، ادارے سب ان کے اشاروں پر چلیں، اقتصاد اور ملکی سیاست ان کے مفاد کے مطابق ہو۔ کوئی معیار نہیں سب نے ہی لوٹ کھسوٹ مچائی ہوئی ہے۔

بنو امیہ طلقاء سے امراء بننے تک

جیسا کہ بیان ہوا صدر اسلام میں بنو امیہ کی مسلمانوں میں کوئی عزت نہیں تھی۔ رسول اللهﷺ کی رحلت کے بعد اول تو انہوں نے خلافت ابو بکر کو ماننے سے انکار کر دیا اور ابو سفیان نے چاہا کہ امیرالمومنینؑ کو قیام پر اکسایا جاۓ اور اسلام و مسلمین کو آپس میں ہی لڑوا کر نیست و نابود کر دیا جاۓ لیکن امیرالمومنینؑ نے اس کی سخت سرزنش کی۔[15] شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۱، ص۱۹۰۔ بعد میں خلیفہ اول کی بیعت کر لی۔ خلیفہ ثانی کے دور میں ابو سفیان کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ اور خطرے کو بھانپتے ہوۓ حضرت عمر نے خلیفہ اول نصحیت کی کہ ابو سفیان کو ساتھ ملا کر اس کی دلجوئی کرو۔[16] ابن ابی الحدید، عبداللہ، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۴۴۔ [17]  ابن عبد ربہ، شهاب‌الدین، العقد الفرید، ج۵، ص۱۱۔ خلیفہ ثانی کے زمانے میں بنو امیہ پہلی بار اقتدار میں آئی۔ اور یزید بن ابی سفیان کو شامات کی سپاہ کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔[18] طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۸۶۔ یزید بن ابی سفیان کے مرنے کے بعد اس کے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو خلیفہ ثانی نے شامات کا امیر مقرر کیا۔[19]  بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ص۱۶۶-۱۶۷۔ [20] ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، ج۵۹، ص۱۱۱۔ معاویہ نے بنو امیہ کی حکومت کی شام میں بہت مضبوط بنیادیں کھڑی کیں اور آخر عمر تک وہاں کا حاکم رہا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بنو امیہ کے اقتدار میں آنے کی ایک بہت بڑی وجہ خلیفہ ثانی ہیں ورنہ ان کو حاکمیت تک پہنچنے کی خود بھی توقع نہیں تھی۔ خود تیسرے خلیفہ عثمان کی خلافت کا بھی کوئی چانس نہ تھا۔ اسلام کے لیے ان کی کوئی خدمت تاریخ میں وارد نہیں ہوئی ہے، نا جنگوں میں کوئی انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، شعب ابی طالب کے سخت ترین دور میں ان میں سے کسی کا بھی نام موجود نہیں جنہوں نے بعد میں اسلام کے نام پر کھایا اور مال بناۓ شعب ابی طالب میں کہیں نظر نہیں آتے۔ خلیفہ عثمان کو خود بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ وہ کبھی خلیفہ بن جائیں گے، خلیفہ ثانی کی شوری کی وجہ سے خلیفہ بن گئے۔

مروان بن حکم کی حکومت

یزید ملعون کی  موت کے بعد اس کا بیٹا معاویہ خلیفہ قرار پایا لیکن اس نے حکومت سے خود کنارہ کشی اختیار کر لی۔[21]  یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۴۔ [22] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۸ ۳۵۹۔ معاویہ بن یزید کی کنارہ کشی کے بعد ڈر تھا کہ حکومت بنو امیہ کے ہاتھوں سے نکل جاۓ۔ لیکن مروان بن حکم بن بن امیہ بن عبد شمس کی شیطانی حکمت عملی سے یہ حکومت بنو امیہ کے خاندان میں ہی رہی۔ مروان بن حکم اور معاویہ بن سفیان ایک ہی نسل سے ہیں اور دونوں امیہ بن عبد شمس کی اولاد میں سے ہیں۔[23] ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، ج‌۲، ص‌۷۱۴۔ [24] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۶، ص۲۵۶۔ خود یہ شخص خلیفہ سوم کے قتل کا سبب بنا اور بعض دیگر اصحاب کا بھی قاتل ہے۔[25] عسقلانی، ابن حجر، العصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۶، ص۲۰۴۔ مروان خلیفہ سوم کا داماد اور مشیر خاص رہا،[26]  طبری، محمد بن جریر، تاریخ الرسل والملوک، ج۴، ص۳۷۴۔ خلیفہ کی موت کے بعد مدینہ سے فرار کر گیا اگر اس کو وہیں سزا مل جاتی تو اسلام بہت بڑے صدمے سے بچ جاتا۔ یہ معاویہ کے پاس چلا گیا اور آخر عمر تک وہیں رہا، یزید کے بعد اس کے بیٹے معاویہ کو قتل کر دیا گیا اور اب خلافت ابو سفیان کی نسل سے منتقل ہو کر مروان کے ہاتھ آ گئی۔ یہ بہت زیرک، چالاک اور تجربہ کار شخص تھا۔ خلافت کو ہتھیانے کے لیے اس نے بنو امیہ کے سرداروں کو اکٹھا کیا اور سب کو کہا کہ خلافت و حکومت بنو امیہ کے ہاتھوں سے نکلنے والی ہے ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ہم نے ہاتھ پیر نہ ہلاۓ تو خلافت کے دعوے دار افراد تو بہت ہیں ممکن ہے خلافت ان کے ہاتھ لگ جاۓ۔ واضح رہے کہ مروان کی بہت سے اصحاب کے ساتھ دشمنیاں تھیں مثلا قتل خلیفہ سوم کا ایک بہت بڑا سبب یہی شخص اور اس کی کارستانیاں تھیں۔ خود اہلسنت کتب میں وارد ہوا ہے کہ طلحہ کو بھی مروان نے قتل کیا۔[27] عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۲، ص۷۶۶۔ [28] حاکم نیشاپوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۴۱۶۔ ۔طلحہ و زبیر کی شخصیت کو بھی کھول کر بیان کرنا ضروری ہے امیرالمومنینؑ کے بقول یہ دونوں حکومت چاہتے تھے۔[29] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۰۲۔ لیکن امیرالمومنینؑ نے ان کو ولایت دی اور نا ہی حکومتی معاملات میں ان سے مشورہ لیا۔[30] ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، ج۷، ص۳۷۔ اہلسنت کتب میں وارد ہوا ہے کہ خلیفہ سوم کو قتل کرنے والے باغی گروہ کو زبیر اور ام المومنین عائشہ ابھارتی تھیں۔ [31] ابن‌الاثیر، مجدالدین، النہایۃفی غریب الاثر، ج۵، ص۸۰۔ بہرحال مروان نے بنو امیہ کے سرداروں کو میٹنگ میں کہا کہ بنو امیہ کی حکومت کے لیے سب اکٹھے ہو جائیں۔ پوری اسلامی ریاست میں انتشار ہے کہیں سے بھی شورش کھڑی ہو سکتی اور یہ بھی معلوم تھا کہ اگر اب کسی کی حکومت بنتی ہے تو اگلی حکومتیں بھی اسی کی نسل سے ہی چلیں گی۔

شوری کی حکومت کا نظریہ

یہاں پر مروان نے کہا کہ ہم ایک شوری بناتے ہیں جس میں سب گروہوں کے بڑے بڑے افراد شامل ہونگے اور ہم باری باری حکومت کریں گے۔ یہ مشورہ سب کو پسند آیا کیونکہ اس میں سب ہی سوچ رہے تھے کہ ان سب کا حاکمیت میں حصہ ہوگا۔ لیکن یہ سب سے بڑا فراڈ تھا۔ اگر مروان یہ کہہ دیتا کہ مجھے خلیفہ مان لو تو شاید انکار کر دیا جاتا لیکن اس نے چالاکی سے کہا کہ ہم سب ہی باری باری حکومت کریں گے اس لیے سب سوچ رہے تھے کہ اگلی باری ہماری ہوگی۔ پہلے نمبر پر مروان نے خود کو پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سب لوگ اجازت دیتے ہو تو پہلے میں خلیفہ بنتا ہوں، سب نے سوچا کہ یہ ویسے بھی بوڑھا ہو چکا ہے ستر سال کی عمر میں ہے جلد ہی مر جاۓ گا۔ مروان کا خلیفہ بننا تھا کہ اس نے آتے ساتھ ہی باری باری اپنے سارے رقیبوں کو خاموشی سے قتل کروا دیا اور اپنی اولاد کے لیے خلافت کا راہ ہموار کر دیا۔ [32] طبری، ابن جریر، تاریخ طبری ،ناشرنفیس اکیڈمی ،مترجم حیدر طباطبائی، ج۴، ص۲۹۱ ۔یہاں پر شوری کی حکومت کے نظریے پر تھوڑا تبصرہ کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ شورائی نظام آج کل ہمارے شیعہ تنظیموں کو بھی بہت اچھا لگتا ہے جب ان سے کہا جاۓ کہ بھئی یہ تو خلیفہ ثانی اور مروان کی اختراع ہے تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ ہم تو شیعہ ہیں۔ جواب میں کہا جاۓ گا کہ شیعہ کہنے سے یا زبان سے تو نہیں بنتا بلکہ شیعہ انسان عملی پیروی سے بنتا ہے اگر سیاسی طور پر پیروی بنو امیہ کی پیروی کر رہے ہیں تو کیسے شیعہ ہیں؟ درست ہے کہ ہم مالک اشترؓ کی طرح نہیں بن سکتے لیکن ان کے علاوہ بقیہ شیعہ بھی تو اس وقت موجود تھے۔ امیرالمومنینؑ نے بقیہ افراد کو بھی تو والی بنایا مختلف علاقوں کا، وہاں پر امام نے تو کوئی شوری نہیں بنائی۔ مکتب امامت و ولایت میں شوری کا نظام کہاں سے آ گیا؟ ہاں مشورت کی حد تک شوری کا ہونا کوئی مسئلہ نہیں لیکن سب کو برابر کا شریک قرار دینا کہاں سے آیا؟ حتی بعض اوقات طلاب اور علماء کرام یہ شبہہ ذکر کرتے ہوۓ پاۓ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا پھر امام علیؑ نے فلاں حکومت میں مشورے کیوں دیے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کو ایک موضوع اور درس کے طور پر نہیں پڑھا۔ صرف نحو پڑھ کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کو سیاست بھی سمجھ آ جاۓ گی وہ اشتباہ کر رہا ہے۔ ہمارے بزرگ مفکرین اس طرز کی شدید مخالفت کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ بغیر کسی علم کو پڑھے اور سمجھے اس علم میں اظہار نظر کرنا شروع ہو جائیں ۔یہ بہت معیوب ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں بعض افراد نے کل دین ہی غسل و وضو و نماز کے احکامات کو سمجھ لیا ہے۔

بہرحال مروان نے حکومت بنائی خود اس کی حکومت ۹ سے ۱۰ ماہ تک چلی۔[33] ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، ج۳، ص۱۳۸۹۔ مروان کے بعد اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان[34] دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج‌۸، ص۲۵۹۔ ، اس کے بعد ولید بن عبدالملک[35] دینوری، ابوحنیفه احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۳۲۵ ۳۲۶۔ اور ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا۔[36] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۰۴۔ ہشام کے دور تک دنیا کا ۶۵ فیصد حصہ فتح ہو چکا تھا، اس وقت جو دنیا کشف تھی مثلا فرانس تک کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں تھے۔

ہشام کے بعد مروانیوں کا زوال شروع ہو گیا۔ مروان بن محمد بن مروان بن حکم بنی امیہ کا آخری خلیفہ ہے جسے مروان حمار بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے سر کے بال نہیں تھے اور بہت قوی و بلند قامت شخص تھا اس لیے اس کو حمار (گدھا)کا لقب دیا گیا۔ یا تاریخ یعقوبی کے مطابق عرب ہر سو سال کو ایک حمار قرار دیتے ہیں اور چونکہ بنو امیہ کی حکومت قریب ۱۰۰ سال ہوئی اس لیے اس کو مروان حمار قرار دیا گیا۔[37] ابن طباطبا، محمد بن علی، تاریخ فخری، ج۲، ص۱۸۴۔ [38] یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۸۶۔ آخری جنگ میں اس کو پیشاب آیا رفع حاجت کے لیے گیا تو وہیں کسی نے چھپ کر اس کا کام تمام کر دیا۔ [39] سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج۱۱، ص۱۴۱۔ جب لشکر کا کمانڈر مارا گیا تو ساری فوج بھی بپھر کر بھاگ کھڑی ہوئی اور اس طرح سے بڑا ریاستی لشکر ہارا، حکومت بنو عباس کے پاس آ گئی۔ بنو عباس نے آتے ساتھ ہی بنو امیہ کے افراد کو چن چن کر قتل کیا جہان کہیں بھی کوئی اموی ملتا اس کو قتل کر دیا جاتا۔ بنو امیہ کا ایک معروف نام عبدالرحمن الداخل جس کا پورا نام عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام بن عبدالملک بن مروان ہے، وہاں سے فرار ہو کر حجاز سے پہلے افریقہ گیا اور پھر سپین جا کر اندلس میں اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔ وہاں پر مسلمانوں نے ۸۰۰ سال حکومت کی، مسجد قرطبہ انہیں حکومتوں کی یاد ہے، اور بہت سے مشاہیر اہلسنت پھر اسی سرزمین سے بعد میں نمایاں ہوۓ۔[40] ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۸، ص۵۳۵۔ [41] ذهبی، محمد بن احمد، العبر، ج۲، ص۸۴-۸۵۔

بنو عباس کے دور کا آغاز

امام صادقؑ نے بنو عباس کے پہلے دو بادشاہوں کا دور دیکھا یہ دونوں بادشاہ پست ترین و انتہائی فاسد تھے۔ بنو عباس نے بنو امیہ سے حکومت چھیننے کے لیے جس چیز کو وسیلہ بنایا وہ ہمارے لیے بہت مہم ہے۔ انہوں نے نعرہ ایسا لگایا جو جو بہت جذاب تھا۔ یعنی پاکستان میں حو سیاسی پارٹیاں شیعوں کو جذب کرنے کے لیے لگاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ جذاب تر نعرہ تھا۔ اور اس نعرے نے کام بھی ویسا ہی کیا شیعوں کو بہت شدت سے جذب کیا۔ بنو عباس نے نعرہ یہ لگایا کہ چونکہ بنو امیہ اہل بیتؑ کے قاتل ہیں ہم ان سے حکومت چھین کر رضاۓ آل محمد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ «الرضا من آل محمد» کے نعرے نے اس طرح سے شیعوں اور ان شیعی سیاسی تنظیموں کو جذب کیا کہ آگے بڑھ بڑھ کر ہر شیعہ سیاسی لیڈر بنو عباس کے لیے لڑ رہا تھا۔[42] طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۳۴۴۔

بنو عباس کا نعرہ اور آج کے سیاسی حکمرانوں کا نعرہ

خود بنو عباس ہاشمی خاندان سے تھے۔اور پھر نعرہ بھی اہل بیتؑ کے حق میں لگایا اس لیے عام مسلمان اس نعرے کا شکار ہوۓ۔ عام لوگوں پر بنو امیہ کے جرائم، ان کی اہل بیتؑ سے دشمنی سب پر آشکار تھی جب یہ نعرہ لگا ادھر سے بنو عباس جو کہ عبداللہ بن عباس کا خاندان ہے، ابن عباس امیرالمومنینؑ کی فوج کے بہت بڑے کمانڈر رہے ہیں اور رسول اللہﷺ سے رشتہ داری کی بنا پر اس وقت کے لوگوں نے بھرپور حمایت کی۔ کسی کو یہ تھوڑی پتہ تھا کہ یہ آ کر کیا کریں گے؟ ہاں اگر پتہ ہوتا کہ یہ خود اہل بیتؑ پر ظلم کریں گے تو شاید بہت سے مسلمین یہ کام نہ کرتے۔ کیونکہ ایسا ہوتا ہے بعض اوقات کہ ہمیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں حکمران آ کر کیا کرے گا مثلا خان صاحب ہیں ہمارے شیعوں کو معلوم ہے اور خاص کر شیعہ رہنماؤں کو تو یقین ہے کہ اگر خان صاحب دوبارہ آ جائیں تو کیا ہوگا؟ مثلا ان کو پتہ ہے کہ اگر خان صاحب دوبارہ آ بھی جائیں تو نہ تو امریکہ سے دشمنی کریں گے، نہ ملک کو غلامی سے نجات دیں گے، نہ ہی آل سعود کے لیے ڈرائیونگ کرنے سے رکیں گے۔ یہ سب کو یقین ہے لیکن پھر بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے یہ سب کام کرنے تھے تو جب تک حکومت ان کے پاس تھی تب بہتر طریقے سے کر سکتے تھے۔ بہرحال بنو عباس کا سب کو پتہ نہیں  تھا۔ انہوں نے نعرہ شیعہ پسند لگایا اور کہا کہ آل محمدؑ کی رضا کے لیے سب لوگ آ جائیں، اس وقت بھی سب لوگ بھاگے بھاگے آ گئے جیسے آج بھی ہم بعض شیعہ رہنماؤں کو دیکھتے ہیں کہ فاسق حکمرانوں کے پیچھے ریلیوں اور لانگ مارچ میں بھاگے بھاگے بنا دعوت کے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر انہیں علماء سے بند کمرے میں پوچھا جاۓ کہ جس کام کے لیے آپ آۓ ہیں کیا یہ سچ میں ہو جاۓ گا تو کہتے ہیں مشکل ہے۔ بھئی اگر کوئی واقعا الجھن والی بات ہوتی تب بھی جواز نکل آتا لیکن ایک شخص ہے اس کا سابقہ بھی آپ کے سامنے ہے اس نے آل سعود کی بدترین طریقے سے غلامی کی ہے وہ آپ کو کیسے آزادی دلا سکتا ہے جو خود غلام ہے وہ آپ کو کیسے آزاد کرواۓ گا؟

بنو عباس کی حمایت اور آج کے سیاسی حکمرانوں کی حمایت

اگر آج خان صاحب یا کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے کا آپ جواز نکال آتے ہیں تو اس وقت کے شیعوں اور عام مسلمانوں کو بھی پھر یہ مت کہیں کہ انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کی جنگ میں بنو عباس کا ساتھ کیوں دیا؟ وہ لوگ بھی نعروں کا شکار ہوۓ۔لیکن پھر بھی کہتے خود کو امام صادقؑ کا شیعہ تھے۔یہ کیسے شیعہ تھے جنہوں نے آئمہ معصومینؑ کے قاتلوں کو اقتدار تک پہنچوا دیا۔ کیا اس دور کی صورت حال میں امام صادقؑ کے پاس نعوذباللہ کوئی پلان یا منصوبہ نہ تھا؟ اگر کوئی پلان یا منصوبہ تھا تو وہ کیا تھا؟ آج کے شیعہ کہتے ہیں کہ آج کے دور میں ہم کیا کریں؟ ہمارے پاس تو ان سیاسی جماعتوں کی حمایت کے سوا اور کوئی چارہ ہی نیہں۔ جواب میں کہا جاۓ گا کہ ہم وہی کچھ کریں جو اس وقت کے حقیقی شیعوں نے کیا۔ ان سب کے لیے بھی تو امام کے فرمان کی رسائی نہ تھی؟ صرف ایک قلیل جماعت نے امامؑ کی پیروی کی باقی سب سیاسی نعروں کا شکار ہو گئے۔ آج شیعہ پوچھتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کس سیاسی پارٹی کا ساتھ دیں؟ ہمارے پاس روڈ میپ نہیں ہے۔ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اگر کریں تو کیا کرنا ہے۔ آج کے شیعہ کو اپنا روڈ میپ امام صادقؑ سے لینا چاہیے۔ جو کام اس دور میں امامؑ نے کیا وہی کام آج ہم بھی کریں۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر اقتدار کی شہوت میں فاسق حکمرانوں پر حسن ظن نہ رکھیں۔ شیاطین سے امید لگانا امام صادقؑ کی روش نہیں۔

پاکستانی علی بن یقطین اور حقیقی علی بن یقطین

ہمارے پاس ۲۶۰ سالہ آئمہ معصومینؑ کی زندگانی کا دور موجود ہے۔ اس دور میں ان کی سیاسی سیرت  بھی ہمارے پاس ہے۔ یہ وہ دور ہے جو سراسر ہمارے لیے نمونہ اور باعث ہدایت ہے۔ آج اگر ہمارے ملک میں کوئی سیاسی الجھن پیش آتی ہے تو ہمیں اس کو آئمہ معصومینؑ کی سیرت میں رجوع کر کے حل کرنا چاہیے۔ ایک مثال جو پاکستان کے موجودہ فاسد سیاسی نظام میں شمولیت کے لیے اکثر طور پر دی جاتی ہے علی بن یقطین کی ہے۔ علی بن یقطین امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے وفادار اصحاب میں سے ہیں، ان کے شیعہ اور موثق ہونے میں کسی کو تردید نہیں، امام کاظمؑ کی جانب سے حکومت وقت میں نفوذ پیدا کیا اور ہارون رشید کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے۔[43] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۸، ص۱۶۷-۱۶۸۔ [44] امین، سید محسن، اعیان الشیعه، ج۸، ص۳۷۱۔ [45] شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۵۴۔ [46] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۲۷۳۔ دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ جب علی بن یقطین اس وقت کے طاغوتی نظام کا حصہ بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ کیا فرق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت فرق ہے۔ علی بن یقطین طاغوتی حکومت سے بیزار تھے، لیکن آپ طاغوتی حکومت کے سپورٹر، علی بن یقطین ہارون پر لعنت بھیجا کرتا تھا اور آپ فاسق حکمرانوں کی تعریف اور ان کی مشروعیت کے جواز دیتے ہیں، علی بن یقطین اس فاسد نظام سے اپنی جان چھڑوانا چاہتے تھے، وزارت کو ترک کرنا چاہتے تھے لیکن امام نے ان کو حکم دیا کہ آپ یہ کام مت کریں۔

روایت میں وارد ہوا ہے:

أَنَّ قَلْبِي يَضِيقُ مِمَّا أَنَا عَلَيْهِ مِنْ عَمَلِ السُّلْطَانِ وَ كَانَ وَزِيراً لِهَارُونَ- فَإِنْ أَذِنْتَ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ هَرَبْتُ مِنْهُ فَرَجَعَ الْجَوَابُ لَا آذَنُ لَكَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عَمَلِهِمْ وَ اتَّقِ اللَّهَ.

ترجمہ:میرے سینے میں (طاغوتی) حکمران کا وزیر ہونے کی وجہ سے بہت سنگینی ہے (علی بن یقطین ہارون کے وزیر تھے) میں آپ کے قربان جاؤں اگر اجازت دیں تو اس سے فرار کر جاؤں۔ امام نے ان کے جواب میں فرمایا میں اس کی اجازت نہیں دونگا اللہ سے ڈرو اور اپنے فریضے کو ادا کرو۔[47] شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص۱۴۳۔

علی بن یقطین نے امام سے صرف ایک دفعہ تکلفا وزارت سے فرار کی اجازت طلب نہیں فرمائی بلکہ ایک اور جگہ پر وارد ہوا ہے کہ جب امام بغداد تشریف لاۓ تو دوبارہ علی بن یقطین نے امام سے بالمشافہ طور پر اجازت مانگی کہ ان کو ہارون کے دربار سے نکلنے کی اجازت دیں لیکن امام نے اس بار بھی منع فرما دیا۔[48] قہپائی، عنایت اللہ، مجمع الرجال، ج۴، ص۲۳۷۔ آج کونسا عالم ہے جو خان صاحب پر لعنت کرے، جو پارلیمنٹ سے بیزار ہو، جو وزارت ملنے پر اپنے اندر بوجھ محسوس کرتا ہو الٹا منصب کے لیے بھاگے بھاگے دکھائی دیتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اپنی خصوصی ترین محافل میں یا گھروں میں اپنے ہی بچوں کے اندر بیٹھ کر طاغوتی حکمرانوں پر لعنت بھیجی ہے؟ یاالٹا  ان کی تعریف کرتے ہیں؟ ان حکمرانوں کے دل تو ولایت و امامت کے نور سے منور بھی نہیں ہیں دل ویران ہیں ان کے اندر کونسی عدل و انصاف کی جھلک آپ نے دیکھ لی؟ لذا بہت فرق ہے۔ علی بن یقطین کی زندگی کہاں اور ہماری زندگیاں کہاں؟ یہ جو آج کل علی بن یقطین بننے کے لیے بھاگتے ہوۓ نظر آتے ہیں ان میں سے کتنوں کے اندر مدیریت کی صلاحیت ہے؟ کتنے افراد نے مدرسے، سکول، یا رفاہی اداروں کی مدیریت کی ہے؟ آپ سے ایک مدرسہ ٹھیک سے نہیں چلتا پورے ملک کو کیسے چلائیں گے؟ علی بن یقطین ذاتی محافل میں حکمرانوں کی تعریفیں نہیں کرتے تھے کہ ان کی باتیں سن کر شیعہ نوجوان اپنا رہبر و امام فاسق حکمرانوں کو مان لیتے۔ حکومت اور اقتدار کے لیے ٹوٹ نہیں پڑتے تھے، جب یہ سب کہا جاتا ہے تو آگے سے کہتے ہیں کہ تم لوگ بد ظن ہو۔ علی بن یقطین کو تو ہارون رشید سے کوئی حسن ظن نہیں تھا۔ جس کا دل ہی بنجر ہے اس سے کونسی توقع؟ علی بن یقطین کی طرح آپ موجودہ حکمرانوں سے تبرا کریں، اس دور میں ہارون رشید سے تبرا کرنا تو پھر بھی بہت مشکل تھا کیونکہ عام لوگوں میں اس کو بہت مقدس اور دینی چہرے والا شخص قرار دیا جاتا ہے۔ اہلسنت اس کو چھٹا خلیفہ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ساتویں امام کا قاتل ہونا کہیں سے بھی ثابت نہیں۔ لیکن آج کے دور میں تو ایسی کوئی بھی مشکل نہیں، نا ہی تقیہ کا دور ہے آپ ان حکمرانوں پر تبرا کر کے دکھائیں پھر علی بن یقطین بنیں۔

امام جعفر صادقؑ کا روڈ میپ

آج پاکستان کا شیعہ یہ سوال فاسق سیاسی حکمرانوں سے تو نہیں کرتا کہ آپ کا ملک کو بچانے کا روڈ میپ کیا ہے لیکن پیروان امامت سے ضرور پوچھتا ہے کہ آپ کا نظام ولایت و امامت کے لیے روڈ میپ کیا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ جس روڈ میپ پر امام صادقؑ نے اپنے دور پر امت کو چلایا وہی منصوبہ ہمارا بھی ہے۔ امام صادقؑ نے اس وقت کی سیاسی پارٹیوں میں شیعہ کو داخل نہیں ہونے دیا اور تشیع کی صلاحیتوں سے نا بنو عباس کو استفادہ کروانے دیا اور نا ہی بنو امیہ کو۔ ہاں اس وقت بھی نادان شیعہ تھے جو نعرے سن کر گمراہ ہوۓ اور آج بھی یہ افراد موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب میں امام صادقؑ کیا کر رہے تھے؟ آج کے شیعہ کی تحلیلی نظر سے دیکھا جاۓ تو سواۓ امام صادقؑ کے نعوذباللہ سب شیعہ ہی میدان میں موجود تھے صرف امام صادقؑ ہی مدرسے میں بیٹھے تدریس کر رہے تھے۔ لیکن یہ خام خیالی ہے امامؑ کے پاس روڈ میپ موجود تھا جس پر وہ خود بھی پابند رہے اور اپنے حقیقی شیعوں کو بھی اس پر چلنے کی تلقین فرمائیں۔ یہ روڈ میپ کیا تھا اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔

رہبر معظم کی نظر میں امام صادقؑ کا قیام

رہبر معظم کی ایک مشہور و معروف کتاب ۲۵۰ سالہ انسان ہے۔ یہ کتاب تین حلقات پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا حلقہ ترجمہ ہو چکا ہے۔ رہبر معظم کی تحلیل کے مطابق ۱۲ آئمہ معصومینؑ کو ہم ایک ہی شخصیت کے ذیل میں دیکھ سکتے ہیں جس نے ۲۵۰ سال عمر کی ہے۔اس شخصیت نے مختلف ادوار میں مختلف تدابیر اختیار کیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر ہم فرض کر لیں ایک شخص نے ۱۱ ہجری سے ۲۶۰ ہجری تک عمر پائی، ۱۱ ہجری میں اس کی الگ تدبیر تھی، ۴۰ ہجری میں یہی شخصیت صلح کرتی ہے، ۶۱ ہجری میں قیام اور بعد میں آنے والے ادوار میں الگ الگ تدبیر اختیار کرتی ہے۔ رہبر فرماتے ہیں کہ اگر امام زمانہؑ ۱۱ ہجری میں ہوتے تو وہی کام کرتے جو امام علیؑ نے کیا اور اگر امام علیؑ ۲۶۰ ہجری میں ہوتے تو حتما غیبت میں چلے جاتے۔ اگر امام حسنؑ ۶۱ ہجری میں ہوتے تو یزید سے جنگ کرتے اور اگر امام حسینؑ ۴۰ ہجری میں امام حسنؑ کی جگہ ہوتے تو یقینا صلح کرتے۔ شخص ایک ہے سب کا کردار ایک ہے۔ صرف زندگی کے مختلف مراحل ہیں۔ ایک ہی شخص زندگی کے ایک مرحلے میں صلح کر رہا ہے اور دوسرے مرحلے میں جنگ کر رہا ہے۔ اس ایک شخصیت کی ۲۵۰ سالہ زندگی کو رہبر معظم نے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور ۱۱ ہجری سے ۳۵ ہجری تک کا ہے۔ دوسرا دور ۳۵ سے ۴۰ ہجری کا ہے۔ تیسرا دور ۴۰ ہجری سے لے کر ۶۱ ہجری اور چوتھا ۶۱ ہجری سے غیبت صغری تک کا دور ہے۔ان سب ادوار کی رہبر معظم خصوصیات بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اس ۲۵۰ سالہ شخصیت نے اپنی تدبیر کو بھی بدلا۔[49] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۱۶۔

پہلے دور کی خصوصیات

 یہ وہ دور ہے جب اندرونی دشمن اندر سے اور بیرونی دشمن باہر سے اسلام کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تازہ تازہ اسلام تبلیغ ہوا ہے اور اسلامی حکومت تازہ تشکیل پائی ہے، لوگ رسول اللہﷺ کے بعد اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں، ان حالات میں امام تدبیر اختیار کرتے ہیں کہ اگر میرا حق جاتا ہے تو جاتا رہے لیکن اسلام کو بچا لیا جاۓ۔ ایسے میں امام وقتا فوقتا حکومت وقت کی مدد کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں، لیکن اپنے مؤقف پر پھر بھی ڈٹے ہوۓ ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن چونکہ اسلام کا مفاد کسی اور چیز میں ہے اس لیے مسلحانہ قیام نہیں کرتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے حکومت کی حمایت کی۔ جی نہیں! در اصل انہوں نے اسلام کی حمایت کی۔ اگر کسی جنگ میں کوئی مشورہ دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کی حمایت یا مدد کی بلکہ اسلام اور مسلمین کے اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھا۔ جیسا کہ امام فرماتے ہیں:

«فَأَمْسَکْتُ یَدِی حَتَّی رَأَیْتُ رَاجِعَهَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْإِسْلاَمِ یَدْعُونَ إِلَی مَحْقِ دَیْنِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِفَخَشِیتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الْإِسْلاَمَ وَ أَهْلَهُ أَنْ أَرَی فِیهِ ثَلْماً أَوْ هَدْماً تَکُونُ الْمُصِیبَهُ بِهِ عَلَیَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلاَیَتِکُمُ الَّتِی إِنَّمَا هِیَ مَتَاعُ أَیَّامٍ قَلاَئِلَ».

ترجمہ: ان حالات میں میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمدﷺ کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوۓ میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لیے اس سے بڑھ کر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جاۓ جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے۔[50] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۶۲۔ امام نے جب دیکھا کہ ایک طرف میرا حق ِحکومت جا رہا ہے اور دوسری طرف مکمل اسلام۔ تو امام نے اپنا حق جانے دیا اور اسلام کو بچا لیا۔

دوسرے اور تیسرے دور کی خصوصیات

۳۵ سے ۴۰ ہجری  تک کا دور نظام امامت و ولایت کی حاکمیت کا دور ہے۔ اس دور میں دین، عدل اور حق کی حاکمیت کو امام نے برقرار کرنے کی کوشش کی لیکن ایسے فتنے اٹھے جنہوں نے اس وقت کی ساری امت کو متاثر کیا۔ اور آج تک امت اسلامی اس دور میں ہونے والے فتنوں سے متاثر ہو رہی ہے۔ یہ دور اگرچہ دین کی درخشانی کا دور ہے لیکن شدید فتنوں نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس کے بعد تیسرا دور ہے جس میں ہمارے آئمہؑ سے ان کا حق دوبارہ چھین لیا جاتا ہے اور اقتدار و امت کی رہبری حقیقی امام سے غاصب امام معاویہ کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس دور میں بھی امام حسنؑ کوشش کرتے ہیں لیکن امت اتنی آمادگی نہیں رکھتی کہ قیام کر سکیں یہاں تک امام حسینؑ ۶۰ ہجری کو اپنا قیام شروع کرتے ہیں ۔[51] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۶۵۔

چوتھے دور کی خصوصیات

۱۔ پہلی خصوصیت:

اس دور کی خصوصیات بیان کرتے ہوۓ رہبر معظم بیان فرماتے ہیں کہ آئمہ معصومینؑ نے اس دور میں امت کو نئے انقلاب اسلامی کے لیے آمادہ کرنا شروع کیا۔نئے انقلاب سے کیا مراد؟ کیا پہلے بھی کوئی اسلامی انقلاب گزرا ہے؟ رہبر فرماتے ہیں پہلا انقلاب رسول اللہ ﷺ کے دور میں آیا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد اس انقلاب کا رخ موڑ دیا گیا۔ امام سجادؑ اور ان سے بعد میں آنے والے آئمہ معصومینؑ امت کے اندر نئے انقلاب کے لیے ذہن سازی کر رہے ہیں۔ اس انقلاب کا مقصد اور ہدف یہ تھا کہ جو غلطیاں ماضی میں امت سے ہوئیں ان کی اصلاح ہو اور حکومت کو دوبارہ اسلامی بنایا جاۓ۔ معاشرے اور اس کے نظام کو قرآنی مبنا پر کھڑا کیا جا سکے۔[52] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۷۔ آج اگر ہم اپنے معاشروں میں نظر دوڑائیں تو انقلاب کا  نام تک ختم کر دیا گیا، حتی بڑے بڑے علماء انقلاب کا نام لینے سے ڈرتے ہیں۔ انقلاب کے لیے کوئی بھی ذہنی آمادگی نہیں کرواتا، ان کے لیے صرف حکمرانوں کے لانگ مارچ میں شرکت کرنا ہی سب سے بڑا میدان میں حاضر ہونا اور انقلاب ہے۔ رہبر فرماتے ہیں کہ لوگوں کے اندر انقلاب کے لیے آمادگی پیدا کرنا دراصل میدان میں حاضر ہونا ہے جو کام امام باقرؑ اور صادقؑ انجام دے رہے ہیں۔ ابھی یہاں پر بعض افراد سمجھتے ہیں کہ انقلاب کی تیاری کا مطلب دہشتگردانہ منصوبہ بندی کرنا ہے۔ یا اپنے ہی ملک کے اداروں پر چڑھ دوڑنا ہے گولیاں اور تلواریں نکال لینی ہیں۔ جی نہیں! انقلاب کی آمادگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں، ایک انقلاب رسول اللہ ﷺ لے آۓ، جس میں آپﷺ نے خود کبھی بھی تلوار لے کر حملہ ور نہیں ہوۓ بلکہ ہمیشہ دفاع کیا اسی طرح سے ایک انقلاب امام سجادؑ کے بعد آئمہ معصومینؑ نے شروع کیا، علمی، تربیتی اور فکری انقلاب۔ لوگوں کی دین حق کی طرف رہنمائی کا انقلاب، تقریبا تمام آئمہ معصومینؑ نے یہ کام کیا امیرالمومنینؑ کو سب سے بڑا شکوہ جو اپنے ساتھیوں سے تھا وہ یہی تھا کہ لوگ مجھ سے رہنمائی نہیں لیتے اور فرماتے کہ مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ مجھے اپنے اندر نہ پاؤ۔[53] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۸۹، ص۲۸۰۔ یا ایک اور جگہ پر امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

«وَ لَیْسَ أَمْرِی وَ أَمْرُکُمْ وَاحِداً إِنِّی أُرِیدُکُمْ لِلَّهِ وَ أَنْتُمْ تُرِیدُونَنِی لِأَنْفُسِکُمْ».

ترجمہ: میرا اور تمہارا معاملہ یکساں نہیں ہے میں تمہیں اللہ کے لیے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کے لیے چاہتے ہو۔[54] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۳۴۔

 آئمہ معصومینؑ چاہتے ہیں کہ حاکم کو اللہ کے لیے چاہو، مفادات کے لیے مت چاہو، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست مفاد کی بنا پر ہے۔ دونوں مؤقف جدا ہیں، ایک مؤقف یہ ہے کہ اللہ کے لیے چاہو اور دوسرا مؤقف ہے کہ ذاتی مفادات کے لیے چاہو، ہمارا سوال ہے اس فاسد نظام، اور خان صاحب یا دوسری سیاسی پارٹیوں کی حمایت اللہ کے لیے ہے یا ذاتی مفادات کے لیے؟ اگر اللہ کے لیے نہیں ہے تو کس جواز سے اس کی حمایت کر رہے ہیں؟ آئمہ معصومینؑ کو فقط نعرے تو نہیں چاہیں اگر ان کا شیعہ بننا ہے تو ان کے سیاسی مؤقف کے مطابق چلنا ہوگا۔

آگے رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امام صادقؑ کا منصوبہ لانگ ٹرم پلان تھا۔ شارٹ ٹرم پلان گزر گیا، غیبت کا دور آنے والا ہے جو بھی منصوبہ بندی ہوگی وہ لانگ ٹرم پلاننگ کے تحت ہوگی۔ [55] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم،ص۵۶۔ ابھی جب پاکستان میں انقلاب کی بات کی جاۓ تو کہتے ہیں کہ یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے ابھی شارٹ ٹرم منصوبہ چاہیے۔ لانگ ٹرم منصوبے پر کون عمل کرے بھلا؟ اور اگر انہیں شارٹ ٹرم پالیسی پر چلنے والے افراد سے پوچھیں کہ آج تک آپ نے کیا علمی و رفاہی خدمات انجام دی ہیں؟ جواب صفر ہے۔ ہاں! جو دراز مدت منصوبہ پر عمل کرنے کے قائل ہیں ان کی علمی خدمات بھی ہیں اور رفاہی بھی۔

۲۔ دوسری خصوصیت:

رہبر معظم فرماتے ہیں کہ جب انقلاب اسلامی کے لیے آمادہ سازی کر لیں تو اگلا مرحلہ ایک ایسے طبقے کو وجود دینا ہے جو خالصتا مقاومت سے مربوط ہو۔[56] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۷،۷۱۸۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے ہمارے یہاں پاکستان میں شیعہ ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ کسی نا کسی سیاسی پارٹی سے پیوستہ رہیں۔ کبھی حکومتی اداروں اور کبھی سیاسی پارٹیوں سے خود کو اٹیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ امام کی اپنے دور میں کوشش یہ تھی کہ ایسا طبقہ تیار ہو جو صرف مقاومت کرےاور امامت سے مربوط ہو۔ اب یہاں پر بھی جب کہا جاتا ہے کہ مقاومت کریں تو فورا ایک طبقہ اٹھ کر اعتراض کرتا ہے کہ اچھا تو آپ ہمیں اپنے ہی ملک کے خلاف لڑنے پر اکسا رہے ہیں؟ جی نہیں! اپنوں کے خلاف قیام نہیں کرنا بلکہ ظلم و ستم کے خلاف، طاغوتیت کے خلاف مبارز طبقہ پیدا کرنا ہے۔ جب امام خمینیؒ انقلاب لے آۓ تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اپنے ہی ملک کی فوج اور پولیس پر فائرنگ کریں۔ حالانکہ شاہ ایران نے بہت شدت سے امام کی نہضت کو کچلا اور افراد کو شہید کیا لیکن امام نے فرمایا کہ یہ فوج تو ہماری فوج ہے شاہ کی فوج تھوڑی ہے۔ اس کے خلاف نہیں لڑنا، انقلاب یا مقاومت کا کبھی بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ اپنی ہی فوج پر حملہ کر دیں یا ملک کے اندر ایک نیا ملک بنا لیں۔ صرف غیر الہی قوانین کو مٹانا ہے۔ اور ایسے افراد تیار کرنے ہیں جو حبیبؓ، عمار یاسیرؓ، مالک اشترؓ و ابوذر کی طرح ہوں۔ یہ ہیں وہ شخصیات جو ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں۔ مقاومت اور مبارزے کا نمونہ یہ لوگ ہیں، مختار ثقفی نہیں۔ یہاں پر ان کو نمونہ قرار نہ دے کر کوئی توہین کرنا مقصود نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ مختار جنتی نہیں بلکہ مومن ہے جنتی بھی ہے، لیکن مقاومت کا سمبل آج بھی ابوذرؓ ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر حال میں امام کی اتباع کی اور خود کو امام تک پہنچایا لیکن مختار ہمیں بہت سارے مقامات پر غائب نظر آتے ہیں۔ جبکہ مقاومت کے لیے ہمیں کامل و بے نقص نمونہ چاہیے جس کی زندگی کاملا آشکار ہو اور اس کے کسی عمل کے لیے ہمیں تاویلات نہ کرنا پڑیں۔

۳۔ تیسری خصوصیت:

رہبر معظم فرماتے ہیں کہ اس دور میں آئمہ معصومینؑ نے معاشرے پر حاکم فاسد نظام سے لوگوں کو ناامید اور مایوس کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے مظالم کو بیان کیا۔[57] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۸۔ ابھی حالت یہ ہے کہ پاکستان میں الٹا علماء کرام کا ایک طبقہ موجودہ نظام سے امیدیں لگاۓ بیٹھا ہے اور جب ان کو حکمرانوں کے مظالم اور مفاسد بتاۓ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہم سے مربوط نہیں ہیں بلکہ ہمیں اپنے مفادات چاہیں۔ لیکن امام صادقؑ کیا کر رہے ہیں؟ حکومتوں کے مظالم عوا م پر عیاں کر رہے ہیں۔ اس طرح سے ہمارے آئمہ معصومینؑ نے حکومتوں کے خلاف قیام کیا۔ واضح رہے کہ کبھی بھی ہمارے آئمہ معصومینؑ نے ہمیں دہشتگردی یا ٹارگٹ کلنگ کا درس نہیں دیا بلکہ الٹا ایسے افراد کی مذمت کرتے جو ایسا کام کرتے۔ لذا کسی کے ذہن میں غلط فہمی نہ رہے کہ فاسق طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کا مطلب یہ ہے کہ ہم دہشتگردی یا افراد کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیں۔ حریز سجستانی امام صادقؑ کے شاگرد ہیں۔ یہ تجارت کے لیے ایران کے اطراف سیستان بلوچستان میں تجارت کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ بلوچستان میں اس وقت خوارج رہتے تھے، آج بھی یہ تفکر ان علاقوں میں موجود ہے۔ حریز کے دل میں خوارج کے خلاف بہت شدید نفرت تھی یہ رات کی تاریکی میں چھپ کر خوارج کو قتل کرتے۔ با الفاظ دیگر خوارج کی ٹارگٹ کلنگ کرتے۔ جب واپس مدینہ امام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا تو امام نے شرفیاب ہونے سے منع فرما دیا۔ دربان سے درخواست کی کہ ایک بار دوبارہ امام سے ملاقات کا کہیں۔ دوسری مرتبہ بھی امام نے اذن ورود نہ دیا۔ تیسری بار حریز سجستانی نے دربان کی منت سماجت کی اور کہا کہ تم اپنی طرف سے میری سفارش کرو۔ اس بار امام نے دربان کے کہنے پر اندر آنے کی اجازت دی اور حریز کے اس ٹارگٹ کلنگ کے عمل پر بہت ناراحت ہوۓ۔ حریز نے توبہ کی اور ہمیشہ کے لیے اس عمل سے رک گئے۔ اگرچہ خوارج مستحق مرگ ہیں کیونکہ امام معصوم پر سب و شتم اور ان سے نفرت کا اظہار کرتے لیکن پھر بھی آئمہ معصومینؑ نے ان کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔[58] شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۱، ص۳۸۴۔ مکتب تشیع میں کسی بھی قسم کی ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی یا خودکش دھماکوں کی اجازت نہیں۔

۴۔ چوتھی خصوصیت:

اس دور میں آئمہ معصومینؑ نے قائم کا تعارف کروایا۔ [59] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۲۲۔ قائم سے مراد ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس کو کھڑے ہو کر سلام کر دیں کافی ہے۔ جبکہ قائم کا معنی یہ نہیں ہے۔ بلکہ قائم آل محمدؑ سے مراد وہ ہیں جو اسلام، تشیع اور حق کی سربلندی کے لیے قیام کریں گے۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ ہم سب ہی قائم ہیں ہم سب کا وظیفہ حق کے لیے قیام کرنا ہے۔[60] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۳۶۔

امام جعفر صادقؑ کا سیاسی میدان

ایک الزام جو پاکستان کے مجاہد علماء کرام پر لگایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ میدان میں حاضر نہیں ہوتے۔ یہ الزام لگانے والوں کے مطابق میدان میں حاضر ہونے کا مطلب سیاسی پارٹیوں کے لانگ مارچ میں حاضر ہونا ہوتا ہے، دھرنے اور احتجاج کرنے کو میدان میں حاضر ہونا سمجھتے ہیں۔ یہی الزام ہمارے آئمہ معصومینؑ پر بھی تھا کہ آپ میدان میں حاضر نہیں ہیں کسی کا تو ساتھ دیں، کسی کی تو حمایت کریں اور کسی کی تو مخالفت کریں، میدان میں حاضر ہوں، لیکن امام صادقؑ نے ان حالات میں کونسا میدان اپنے لیے قرار دیا؟ امامؑ صادقؑ کے سیاسی مؤقف کو رہبر معظم تبیین کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں:

۱۔ تبیین اسلام ناب

سب سے پہلا کام جو امام صادقؑ نے انجام دیا وہ اسلام ناب کی تبیین کرنا تھی۔ امامؑ نے وہ دین بیان کیا جو رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا دین ہے۔[61] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۲۔ پس معلوم ہوا جو عالم دین اسلام ناب کی تبیین کرتا ہے وہ مدرسے کی چار دیواری میں نہیں بیٹھا بلکہ امام صادقؑ کی طرح میدان میں حاضر ہے۔ دین اسلام ناب کی تبیین ایک سٹریٹجی تھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ امام حقیقی دین کو تبیین اور تبلیغ کرتے ہیں۔ لیکن اسی حال میں کسی بھی حکمران پارٹی کی حمایت بھی نہیں کرتے، نا ہی کسی حکمران کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں، ہاں آئمہ معصومینؑ کو جبری طور پر درباروں میں بلوایا جاتا رہا ہے لیکن خود اپنی مرضی سے کسی حکمران کے دروازے پر حاضر نہیں ہوۓ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ آج ہمیں بھی یہی کام کرنا ہے، دین کی تبلیغ کا دائرہ وسیع کر دیں۔ آپ امام کی اس تحریک کو آئینہ قرار دیتے ہوۓ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اور امام کے سچے پیرو کو تلاش کر سکتے ہیں جو حقیقی طور پر امام کی اس سیرت پر عمل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جس عالم دین کی تبلیغات کی جانب سے زیادہ خدمات ہوں، جس کے مدرسے کی جانب سے مبلغین مختلف علاقوں میں تبلیغ پر جاتے ہوں، جو سیاست میں امامت کا مبلغ ہے اور ہمیشہ اسلام ناب کی بات کرتا ہے اس کو پہنچانیں اور حق و دین کی اشاعت میں اس کا ساتھ دیں۔ حقیقی طور پر میدان میں وہی عالم حاضر ہے۔

۲۔ مسئلہ امامت کی تبیین

رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امام جعفر صادقؑ نے دوسرا جو اہم ترین کام کیا مسئلہ امامت و ولایت کی تبیین و تبلیغ تھا۔ بطور نظام تمام آئمہ معصومینؑ نے ہی امامت کو پیش کیا ہے۔ [62] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۴۔ امام جعفر صادقؑ کا سیاسی میدان یہ نہیں تھا کہ کسی طاغوتی نظام کی تبلیغ کرتے بلکہ نظام امامت کی تبیین کی۔ آج ہم خود دیکھیں اپنے ملک عزیز میں کونسا عالم دین امامت کی بات کرتا ہے۔ امت کو راہ نجات کے طور پر کونسا نظام متعارف کرواتا ہے؟ اگر کوئی عالم دین امامت کے بجاۓ کسی اور نظام کی اطاعت کی تبلیغ کرتا ہے سمجھ جائیں سیرت امام سے دور ہے۔ جو یہ کام نہیں کرتا وہ خط امام سے دور ہے۔ امام کی نیابت میں علماء کرام کا وظیفہ اسلام اور مسئلہ امامت کی تبلیغ و تبیین کرنا ہے۔ کسی بھی عالم دین کو یہ حق نہیں بنتا کہ وہ جمہوریت یا کسی سیاسی پارٹی کے حکمران کی حمایت کریں۔ خوش نما نعروں کے فریب میں مت آئیں۔ یہی نعرے جو آج بلند ہیں فقر ختم کرنے کا نعرہ، اقتصاد بہتر کرنے کا نعرہ، یہ بنو عباس نے بھی لگاۓ اور ان کے دور میں تو واقعی طور پر مسلمانوں کی حالت بہت بہتر ہوگئی تھی آدھی سے زیادہ دنیا فتح کر لی تھی انہوں نے، لیکن امام نے کسی کی بھی حمایت نہ کی۔

۳۔ تربیت یافتہ افراد کو جمع کرنا

تیسرا کام جو امامؑ نے انجام دیا ایک ایسی جماعت کی تشکیل تھی جو علمی اور فکری طور پر تربیت یافتہ ہوں اور مملکت اسلامی کے مختلف علاقوں میں امامت کے مبلغ بن سکیں۔[63] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۶۔ الکافی میں امام صادقؑ سے روایت وارد ہوئی ہے کہ ایک شخص امام کے پاس آتا ہے اور اپنی تنگدستی کی شکایت کرتا ہے۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ صبر کرو ان شاء اللہ فرج حاصل ہوگی۔ اس کے بعد امامؑ اس شخص سے کوفہ کے زندان کے بارے میں پوچھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کوفہ کے زندان میں رہنے والوں کا کیا حال ہے۔ اس شخص نے کہا کہ کوفہ کا زندان بہت بری جگہ ہے اور وہاں رہنے والے افراد سخت تنگی میں ہیں۔ امام نے فرمایا دنیا مومن کے لیےکوفہ کے زندان کی طرح ہے۔ یہاں پر امام اس شخص کی تربیت کر رہے ہیں کہ دراصل ہم سب زندان میں ہیں ،ہم جو نظام امامت کے لیے کوشش نہیں کرتے اور خود کو آزاد محسوس کر رہے ہیں حقیقی زندان میں تو ہم ہیں۔[64] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۰۔ ۔امامؑ کے بعض بہت خاص شاگرد تھے جو انڈر گراؤنڈ فعال تھے اور مختلف علاقوں مثلا خراسان، سجستان، مصر، بصرہ اور کوفہ میں افراد کو امامت سے روشناس کرتے اور اسلام جعفری سے متعارف کراتے۔ آج آپ پاکستان میں دیکھیں کون افراد کی تربیت پر زور دے رہا ہے؟ کون نوجوانوں پر کام کر رہا ہے؟ اور ان کی دینی تربیت کر کے معاشروں اور آیندہ کی نسلوں کو امامت و مہدویت کے نظام کے لیے تیار کر رہا ہے؟ اگر کوئی عالم دین یہ کام کر رہا ہے تو اس کو یہ مت کہو کہ یہ مدرسے میں بیٹھا ہے اور ہم طاغوتی حکمران کے لانگ مارچ میں شرکت کر کے میدان میں حاضر ہیں۔

۴۔ طاغوتی نظام کے خلاف ہر ممکنہ اقدام

رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امامؑ نے حتی الامکان کوشش کی کہ اس وقت کے فاسد و طاغوتی نظام کو کسی نہ کسی طرح سے کمزور کیا جا سکے۔ ہر ممکنہ اقدام جو اس نظام کی تضعیف کا باعث بنے امام انجام دیتے۔[65] خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۷۔ یہاں پر نظام اور اداروں کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلابی طبقے کا ہدف ملک پر فاسد نظام کا خاتمہ ہوتا ہے اس ملک کے سے دشمنی کرنا ہدف نہیں۔ امام نے کسی بھی ادارے پر حملہ نہیں کروایا اور نا ہی اس وقت کی حکومت کی فوج یا پلیس کو مروایا۔ مخالفت اور دشمنی نظام سے ہے، اداروں سے نہیں۔ اصلی مسئلہ نظام کرتا ہے ادارے نہیں۔ اس لیے اگر کسی ادارے کے ساتھ تعاون کرنا پڑ جاۓ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس نظام کے حامی بن گئے ہیں۔ دشمنی اداروں سے نہیں بلکہ نظام سے کرنی ہے۔

منابع:

منابع:
1 ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۹۹۔
2  ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۴۰۰۔
3 کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۷۲۔
4 مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۸۰۔
5 ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، تاریخ الامم و الملوک، ج۴، ص۳۷۵۔
6 مدرسی، سید محمد تقی، زندگانی رئیس مذہب تشیع حضرت جعفر بن محمد، ص۷۔
7 مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۸۰۔
8 کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۷۲۔
9 سائٹ ویکی فقہ۔
10 ذحیلی، وہبہ ، آثار الحرب فی فقہ الاسلامیہ، ص۲۱۔
11 مقریزی، تقی‌الدین، امتاع الاسماع، ج۸، ص۳۸۸۔
12 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۶۱۔
13 دینوری، ابن‌قتیبه، الامامه والسیاسه، ج۱، ص۱۱۴۔
14 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۲۸۔
15 شیخ مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۱، ص۱۹۰۔
16 ابن ابی الحدید، عبداللہ، شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص۴۴۔
17  ابن عبد ربہ، شهاب‌الدین، العقد الفرید، ج۵، ص۱۱۔
18 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۸۶۔
19  بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ص۱۶۶-۱۶۷۔
20 ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، ج۵۹، ص۱۱۱۔
21  یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۴۔
22 بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۳۵۸ ۳۵۹۔
23  ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، ج‌۲، ص‌۷۱۴۔
24 بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۶، ص۲۵۶۔
25 عسقلانی، ابن حجر، العصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۶، ص۲۰۴۔
26  طبری، محمد بن جریر، تاریخ الرسل والملوک، ج۴، ص۳۷۴۔
27 عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۲، ص۷۶۶۔
28 حاکم نیشاپوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۴۱۶۔
29 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۰۲۔
30 ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نہج البلاغہ، ج۷، ص۳۷۔
31 ابن‌الاثیر، مجدالدین، النہایۃفی غریب الاثر، ج۵، ص۸۰۔
32 طبری، ابن جریر، تاریخ طبری ،ناشرنفیس اکیڈمی ،مترجم حیدر طباطبائی، ج۴، ص۲۹۱ ۔
33 ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، ج۳، ص۱۳۸۹۔
34 دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج‌۸، ص۲۵۹۔
35 دینوری، ابوحنیفه احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۳۲۵ ۳۲۶۔
36 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۰۴۔
37 ابن طباطبا، محمد بن علی، تاریخ فخری، ج۲، ص۱۸۴۔
38 یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۸۶۔
39 سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج۱۱، ص۱۴۱۔
40 ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۸، ص۵۳۵۔
41 ذهبی، محمد بن احمد، العبر، ج۲، ص۸۴-۸۵۔
42 طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۷، ص۳۴۴۔
43 طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۸، ص۱۶۷-۱۶۸۔
44  امین، سید محسن، اعیان الشیعه، ج۸، ص۳۷۱۔
45 شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۵۴۔
46 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۲۷۳۔
47 شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص۱۴۳۔
48 قہپائی، عنایت اللہ، مجمع الرجال، ج۴، ص۲۳۷۔
49 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۱۶۔
50 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۶۲۔
51 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۶۵۔
52 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۷۔
53 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۸۹، ص۲۸۰۔
54 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۱۳۴۔
55 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم،ص۵۶۔
56 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۷،۷۱۸۔
57 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۱۸۔
58 شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، ج۱، ص۳۸۴۔
59 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ۳، ص۷۲۲۔
60 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۳۶۔
61 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۲۔
62 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۴۔
63 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۶۔
64 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۰۔
65 خامنہ ای، سید علی، انسان ۲۵۰ سالہ، حلقہ سوم، ص۷۳۷۔
Views: 408

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: سیاست
اگلا مقالہ: سیاست امام رضاؑ میں اخلاقیات