loading

رہبر معظم کے عید غدیر کے متعلق ۳۰ ارشادات

۱۔ عید غدیر ، عیداللہ اکبر ہے اور باقی سب اسلامی عیدوں سے بالاتر ہے۔[1] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۔ ہدایت اور حکومت کے سلسلے میں امت اسلامی کی ذمہ داری کو غدیر کے واقعے میں معین کیا گیا۔[2] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۳۔ غدیر کا واقعہ اسلام کی عظمت اور اس کی جامعیت کی نشانی ہے۔[3] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۴۔ غدیر کی مبارک عید، خداوند متعال کی طرف سے عنایت شدہ سب سے بڑی عید ہے جو تاریخ اسلام کی بہت ہی اہم اور امت کے لیے راہ کو معین کرنے والی عید ہے۔[4] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۵۔ غدیر ایک اسلامی مسئلہ ہے، فقط شیعہ سے مربوط مسئلہ نہیں ہے۔[5] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۶۔ غدیر میں جس عظیم مطلب کو بیان کیا گیا ہے وہ تمام مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ غدیر میں بتایا گیا کہ عدل کی حاکمیت ہوگی، فضیلت اور اللہ تعالی کی ولایت کی حاکمیت ہوگی۔[6] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۷۔ غدیر وہ دن ہے جس دن دشمن دین سے مایوس ہو گئے۔ ایسا دین میں کیا اضافہ ہوا کہ جس سے دشمن مایوس ہو گیا؟ غدیر کے دن اسلامی معاشرے کی رہبریت کے مسئلہ کو حل کیا گیا، اور اس دن اسلامی معاشرے کی امامت کا نظریہ کھل کر و حکومتی نظام کو پیش کیا گیا۔[7] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۸۔ عید غدیر کے دن اسلام کا ایک قاعدہ و ضابطہ تعیین کیا گیا۔ رسول اللہﷺ نے آخر عمر میں امامت و ولایت کا قاعدہ وضع فرمایا۔[8] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۹۔ بشر نے مختلف اقسام کے حکومتی نظاموں کا تجربہ کیا ہے۔ اسلام ان حکومتوں، سپر طاقتوں، اور اقتدار پرستوں کو قبول نہیں کرتا۔ اسلام صرف نظام امامت کو قبول کرتا ہے۔ اسلام کا قاعدہ یہ ہے۔ عید غدیر اسی مطلب کو بیان کرتی ہے۔[9] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۰۔ رسول اللہﷺ نے ۲۳ سال مجاہدت فرمائی۔ ایسی کیا اہم بات تھی کہ جو انجام نہ پاۓ تو گویا یہ ۲۳ سالہ زحمت بھی قبول نہیں۔ «و ان لم تفعل فما بلغت رسالته» یہ کوئی فرعی بات تو ہو نہیں سکتی تھی۔ یہ بہت ہی اہم بات تھی اور وہ کیا بات تھی؟ امامت کے نظام کی بات تھی۔[10] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۱۱۔ سورہ مبارکہ کی آیت مجیدہ:«الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی»، اس مطلب پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ یہ نعمت، نعمت اسلام، نعمت ہدایت، بشریت کو صراط مسقیم دکھانے کی نعمت صرف اس وقت تمام اور کامل ہو سکتی ہے جب پیغمبر گرامیﷺ کے بعد راہ اور نقشہ امت کے لیے واضح ہو۔[11] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۱۲۔ غدیر کے واقعے میں دو حقیقت پنہاں ہیں۔ ایک حقیقت امیرالمومنینؑ کا رسول اللہﷺ کے بعد امت کا بعنوان امام منصوب ہونا۔ اور دوسری حقیقت رسول اللہﷺ کے بعد حکومت، سیاست اور امت کی مدیریت و امامت کے مسئلے کا واضح ہونا۔[12] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۳۔ غدیر پر اعتقاد، ولایت اور امامت پر اعتقاد جو مذہب تشیع کا اصلی رکن ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو دیگر کلامی مسائل کی طرح مسلمانوں کے درمیان اختلافی مسئلہ نہیں بننے دینا چاہیے۔[13] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۴۔ اگر مسلمانانِ عالم حقیقت میں رُشد اور وافی ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پورے جہان اسلام کے لیے واقعہ غدیر اس ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔ یہ ایک عظیم واقعہ تھا، اس کے واقع ہونے اور رسول اللہﷺ سے ان کلمات کے صادر ہونے کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔[14] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۱۵۔ اگر تاریخی نگاہ سے اسلام کو دیکھا جاۓ اور حوادث صدرِ اسلام کو تحلیل کیا جاۓ تو غدیر کا موضوع ایک ایسا موضوع بنتا ہے کہ اگر جس طرح سے اس کے لیے تدبیر کی گئی تھی اس پر امت عمل کر لیتی تو کوئی شک نہیں کہ بشر کی تاریخ اور اس کا مسیر بدل جاتا اور آج کا انسان جہاں پر کھڑا ہے اس سے بہت آگے ہوتا۔[15] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۶۔ غدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے کہ اگر ہم اس پر غور و فکر کریں تو آج کے اسلامی معاشرے اور بالخصوص ہمارے ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے میں بہت مدد کر سکتا ہے۔ کیونکہ غدیر پر فکر کرنے سے ہم اصلی راہ کو گم نہیں کریں گے۔[16] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۱۷۔ غدیر کا مسئلہ ہمارے لیے ایک شاخص، معیار اور میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ قیامت تک کے لیے مسلمان اس معیار اور میزان کو اپنے سامنے رکھیں اور امت اسلامی کی عمومی ذمہ داری اور راہ کو غدیر کے ذریعے معین کریں۔[17] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۱۸۔ شیعہ کو ولایت پر افتخار کرنا چاہیے اور غیر شیعہ کو بھی چاہیے کو ولایت کو پہچاننے کی کوشش کرے۔[18] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۹۔ اگر ہم اسلامی اتحاد کی بات کرتے ہیں اور اس نظریے پر پایبند کھڑے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غدیر جیسے مسئلے کو فراموش کر دیں گے۔ غدیر اسلام کا اہم ترین، پیشرفتہ ترین، اصلی اور نجات بخش ترین مسئلہ ہے۔ غدیر کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے۔[19] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۰۔ جو لوگ اسلام کو اجتماعی مسائل سے دور سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ اسلام کو صرف ذاتی مسائل اور انسان کی خصوصی زندگی سے مربوط دین قرار دیں۔ اسلام کو سیکولر نگاہ سے دیکھنا چاہتے ہیں ان سب کا جواب غدیر ہے۔[20] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۱۔ آج دشمن چاہتا ہے کہ غدیر کے مسئلے کو اختلافی بنا کر برادر کشی، جنگ اور خونریزی کو ابھارا جاۓ۔ جبکہ غدیر مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور برادری کا باعث بننا چاہیے۔[21] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔  

۲۲۔ غدیر میں امیرالمومنینؑ کا رسول اللہﷺ کی جانب سے بعنوان ولی امر امت اسلامی مقرر ہونا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ در حقیقت اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ معاشرے کی مدیریت اور سیاست کو لے کر کتنے حساس تھے اور اس امر میں دخالت کرتے۔[22] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۳۔ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس کے پاس سیاسی نظام موجود ہے۔ اسلام میں حکومت کو اسلامی مقررات کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ اصطلاح میں یا عرف اسلامی میں اسلامی حکومت کو ولایت کہتے ہیں۔ اور روز غدیر در اصل روزِ ولایت ہے۔[23] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ ۔[24] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۴۔ عید غدیر در اصل عیدِ ولایت و عیدِ سیاست ہے۔[25] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۵۔ اسلامی حکومت کے نمونے (Role Model) کی تبیین در اصل غدیر کا اصلی پیغام ہے۔[26] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۶۔ غدیر کا واقعہ ہمارے لیے اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اسلام نے حکومت، سیاست اور امت اسلامی کی سرپرستی کو کتنی اہمیت دی ہے۔[27] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۷۔ غدیر کو مدنظر رکھتے ہوۓ معلوم ہوتا ہے کہ امت اسلامی پر حکومت کا مسئلہ بہت ہی اہم اور اول درجے کا مسئلہ ہے۔ حکومت اور حاکمیت کی نسبت ہم غیر مربوط نہیں ہو سکتے۔[28] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۸۔ اسلامی معاشروں اور مسلمان امتوں کی مدیریت کرنے کے معیار یہ ہیں: خدا پرستی، خدا کی راہ میں مجاہدت کرنا، جان اور مال کو اسلام کے لیے فدا کرنا، مشکلات اور سختیوں کا مقابلہ کرنا، اور دنیا سے منہ موڑنا۔ ان معیاروں کی چوٹی پر ہم صرف ایک شخصیت کو دیکھتے ہیں اور وہ امیرالمومنینؑ کی ذات ہے۔ یہ غدیر کا سب سے بڑا درس ہے۔[29] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۲۹۔ غدیر کی مناسبت سے ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت اسلامی پر بر حق امام امیرالمومنینؑ تھے۔ شیعہ عقائد کی اصلی ترین اساس یہی عقیدہ ہے۔[30] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۳۰۔ جس حکومت کا غدیر میں اعلان ہوا یعنی ولایت اگر مسلمانوں کے اندر اس نظام کو بیان کیا جاۓ تمام کمزوریاں دور کی جا سکتی ہیں۔ اقتصاد کا علاج، استعمار کا علاج، اور آمریت کا علاج یہی ولایت ہے۔[31] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

Views: 19

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: سیاست امام رضاؑ میں اخلاقیات
اگلا مقالہ: نہضت امام حسین کے بنیادی اصول