loading

{  قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل  }

قرآنی لفظ شربَ کی صرفی تحلیل

تحریر: حافظ شیخ تقی
01/25/2023

شرب قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم میں متعدد آیا ت میں وارد ہوا ہیں ۔راغب اصفہانی اور دیگر اہل لغت نے تصریح کی ہے کہ اس لفظ کے مادہ  ’’ش-ر-ب‘‘ کے معنی ہر وہ مائع اور بہنے والی چیز ہے جو پینے کے لیے استعمال ہوتی ہے،  چاہے وہ پانی ہویا پانی کے علاوہ کوئی اور مشروب ہو۔ [1]راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۵۷۔ مفسرین نے اس آیت کے تفسیر میں شرب کے معنی پانی پینے کے کیے ہیں۔ ’’لفظِ شرب‘‘ اور اس کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے:

شَرِبَ

یہ لفظ ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے فَعِلَ یَفۡعَلُ،عَلِمَ یَعۡلَمُ کے وزن پر آتاہے ۔قرآن کریم میں اس باب سےاس کا فعل ماضی ایک آیت کریمہ میں’’ سورہ بقرہ ۲۴۹‘‘ میں وارد ہوا ہے  جس میں ارشادباری تعالیٰ ہوتا ہے:{ فَلَمَّا فَصَلَ طالُوتُ بِالْجُنُودِ قالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَليكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي؛  پس جب طالوت اپنے لشکر لے کر نکل کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہاگ اللہ  ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جس شخص نے اس نہر سے پیا تو وہ مجھ میں سے نہیں   }.[2]بقرۃ: ۲۴۹۔ اس آیت کریمہ میں لفظِ شرب نہر سے پانی پینے کے معنی میں ہے۔ باب ثلاثی مجرد سے شرب کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں  ۔ ان سب مشتقات میں بہنے اور مائع کے پینے کا معنی موجود ہے۔
اس باب سے فعل ماضی کے علاوہ فعل مضارع بھی قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔سورہ مؤمنون آیت ۳۳ ، سورہ انسان آیت ۶ اور سورہ مطففین آیت ۲۸ میں فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’يَشْرَب‏‘‘استعمال ہوا ہے جس کا معنی ’’اس زمانہ حال یا مستقبل میں پینا ‘‘ ہے۔ سورہ انسان آیت ۵ میں فعل مضاری جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’يَشْرَبُون‏‘‘استعمال ہوا ہے جس کا معنی ’’ان متعدد افراد کا پینا‘‘ بنے گا۔ سورہ مؤمنون آیت ۳۳ میں فعل مضارع آیت جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ’’تَشْرَبُون‏‘‘وارد ہوا ہے جس کا معنی ’’تم لوگوں کا پینا‘‘ بنتا ہے۔

سورہ بقرہ آیت ۱۸۷، سورہ اعراف آیت ۳۱، سورہ طور آیت ۱۹، سورہ حاقہ آیت ۲۴، سورہ مرسلات آیت ۴۳، میں اس باب سے فعل امر ، جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ’’وَ اشْرَبُوا‘‘ آیا ہے جس کا معنی’’ تم لوگ پیو ‘‘بنے گا۔سورہ مریم آیت ۲۶ میں باب ثلاثی مجرد سے فعل امر ، مفرد مؤنث مخاطب کا صیغہ ’’َ اشْرَبي‏‘‘وارد ہوا ہے جس کا معنی ’’تم ایک خاتون پیو‘‘ کے بنتا ہے۔

مَشْرَب:

قرآن کریم میں دو مرتبہ کلمہ’’ مَشْرَب ‘‘آیا ہے۔

شِرْب:

قرآن کریم میں دو آیات میں کلمہ ’’شِرْب‘‘ وارد ہوا ہے۔

شُرْب:

قرآن کریم میں ایک مورد میں کلمہِ شُرب وارد ہوا ہے۔

تبصرہ:

اس آیت کریمہ میں شرب چونکہ فعل ماضی مفرد مذکر غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے جس کا فاعل ھو ضمیر ہے ۔اس کے معنی یہاں پے پینے کے لیے استعمال ہوئے ہے۔
قرآن کریم لفظ شَرِبَ متعد د آیات میں ثلاثی مجرد کےابواب میں سے فَعِلَ یَفۡعَلُ ،عَلِمَ یَعۡلَمُ کے وزن پرآیا ہے ۔قرآن کریم میں اس ثلاثی مجرد کے باب سے شرب کا فعل ماضی،فعل مضارع ،فعل امر ،فعل نہی اورفعل نفی و استفہام وارد ہوئے ہیں ۔ان سب موارد میں اس کا اصلی لغوی معنی یکساں دے گا لیکن مشتق ہونےکے اعتبار سے جومعنی میں تبدیل واقع ہورہی ہے

Views: 39

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: تفکر قرآن و حدیث کی روشنی
اگلا مقالہ: قرآنی لفظ نکث کی صرفی تحلیل