loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۶}

شیعہ نظریات کی علمی ترقی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

دین اسلام نے علم ِنافع حاصل کرنے کا درس دیا ہے۔ روایات اہل بیتؑ میں علم ِغیر نافع سے پناہ مانگنے کی تلقین وارد ہوئی ہے۔ افسوس کے ساتھ بعض افراد علم غیر نافع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی سب موضوعات کو مشکوک کرنا اور اختلافی بنا کر پیش کرنا ہے۔ یہ کام ایک عالم دین کرنے لگ جاۓ تو اس کے شر سے کوئی موضوع سالم نہیں رہتا۔ پھر چاہے توحید کا نظریہ ہو، نبوت، امامت و عصمت کا نظریہ ہو۔ یہ ایک غلط روش ہے۔ دشمنان دین کی کوشش ہوتی ہے ایسے افراد کو جذب کریں اور ان سے اپنے لیے کام لیں۔ یہ نادان افراد بھی عمدا یا سہوا دشمن کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ولایت فقیہ کا موضوع بھی ان حملات کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ حالانکہ یہ موضوع مناظراتی نہیں ہے۔

بزمی تشیع اور رزمی تشیع

عام طور پر تشیع کے اعتقادات اور نظریات پر حملہ کرنے والے افراد کفار و مشرکین کے مراکز میں بیٹھے ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک ان سب کو نا صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ وسائل مہیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اندر سے لڑانے کی کوشش کریں اور نظریات کو مشکوک بنا کر پیش کریں جن کی بنا پر شیعہ آج ناقابل شکست بن چکا ہے ۔ ان سے منسلک بعض افراد حوزہ جات میں بھی موجود ہیں جو نادانی میں دشمن کے میدان میں کام کر رہے ہیں اور ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر تشیع کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صرف وہی موضوعات اٹھاتے ہیں جن سے تشیع ضعیف ہو، مثلا وہ فقہی احکام جن سے تشیع بدنام ہوتا ہے صرف وہی مسائل محل بحث بناتے ہیں، جیسا کہ زنجیر زنی اور قمہ زنی کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل کو مورد بحث قرار نہیں دیتے جن سے تشیع کو سیاسی و اجتماعی قوت حاصل ہو۔ بلکہ الٹا ایسے مسائل کی شدید نفی کریں گے اور کہیں گے کہ شیعہ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک امام کا ظہور نہیں ہو جاتا شیعہ کا فریضہ صرف ظلم سہنا ہے۔ یہ حقیقی تشیع نہیں ہے۔ یہ در اصل بزمی تشیع ہے جو حقیقی تشیع کے بالکل برعکس ہے۔ شیعہ ہمیشہ سے رزم اور پیکار کا قائل رہا ہے۔ اور آج بھی میدان میں شیعہ موجود ہیں جنہوں نے مسلسل استعمار کو شکست دی ہے۔ وہ شیعہ ہیں جو رزمی شیعہ ہیں، اگرچہ اقلیت میں ہیں اور دشمن ان کو کمزور کرنا چاہتا ہے لیکن نا صرف انہوں نے اپنا دفاع کیا ہےبلکہ مکتب اور آئمہ معصومینؑ کے حرموں کا بھی دفاع کیا ہے۔ اس شیعہ نے سنی کا بھی دفاع کیا ہے اور حتی غیر مسلم اقلیتوں کا بھی دفاع کیا ہے۔ اس با اقتدار تشیع کو کمزور کرنا دشمن کا ہدف ہے۔ دشمن کو ایسے بزمی شیعہ سے کوئی خوف نہیں جو چند عبادات انجام دیتا ہے، اس کا کسی سے لینا دینا نہیں ہے رسم انجام دے کر دس محرم کو خود کو ہی زخمی کر کے چلا جاتا ہے اس سے دشمن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

رزمی تشیع اور اس کے نظریات

حقیقی شیعہ وہ ہے جو قرآن کریم کے ذکر کردہ جامع و کامل دین کا پیرو ہے۔ دین کو کسی بھی مورد میں ناقص نہیں سمجھتا۔ رسول اللہﷺ کے بعد امت کے دو حصے ہو گئے۔ ایک کثیر جماعت نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے بعد امت پر حکمرانی کا مسئلہ ہم خود بیٹھ کر حل کر لیں گے۔اور جس کو چاہیں گے اپنا حاکم و امام بنا لیں گے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی نے ہمیں کوئی رہنمائی نہیں دی کہ کس کو حاکم بنائیں؟ حاکم کے معیار کیا ہیں اور نا ہی رسول اللہﷺ نے ہماری کوئی رہنمائی کی ہے کہ میرے بعد امت کا امام و حاکم کون ہوگا۔ با الفاظ دیگر یہ جماعت ایک ایسے دین کی پیرو بن گئی جس میں امامت و خلافت جیسے اہم ترین مسئلے پر دین کی طرف سے یا اللہ تعالی کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں۔ اس جماعت نے امامت و خلافت کو فقہی مسئلہ مان لیا اور کہا کہ عوام جس کو انتخاب کر لیں وہی حاکم و امام ہوگا۔ جبکہ ایک قلیل جماعت اس بات کی قائل تھی کہ دین نے حاکمیت و امامت کے مسئلے کو بیان کیا ہے۔ حاکم و امام صرف وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالی یہ حق دیدے۔ ہم انسان کسی کو بھی اپنا امام و حاکم مقرر نہیں کر سکتے۔ یہ اللہ تعالی کے ذمہ ہیں۔ یہ کام اللہ تعالی نے کیا ہے، رسول اللہ کو غدیر خم میں نا صرف امام و حاکم کے اعلان کا حکم دیا بلکہ رسول اللہﷺ نے اس کی بیعت بھی کروائی۔ یہیں سے امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک نے کہا کہ امت کا رہبر حضرت ابو بکر ہے۔ جس کو خود امت نے انتخاب کیا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ نے کہا کہ امت کو رہبر انتخاب کرنے کا حق ہی نہیں ہے، حاکم و رہبر انتخاب نہیں ہوتا بلکہ انتصاب ہوتا ہے۔ حاکم منصوب کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے۔ شیعہ کے بقول ۱۲ امام امت کے حقیقی امام و رہنما ہیں۔ ان کے علاوہ کسی اور کو امت پر حاکمیت کرنے کا حق نہیں۔ اس لیے تمام خلفاء اور بعد میں آنے والی بنو امیہ و بنو عباس کی حکومتوں کو شیعہ جائز حکومت نہیں مانتا۔ انتصاب کا نظریہ ۲۶۰ ہجری تک چلا۔ اور شیعہ اس بات کا قائل رہا کہ حاکم تو پہلے سے منصوب شدہ موجود ہے تو ان مسلط حکمرانوں کو حکومت کا کیا جواز بنتا ہے؟ ۲۶۰ ہجری کے بعد حالات مختلف ہوۓ۔ وقت کے امام غیبت میں چلے گئے۔ اب مسئلہ پیش آیا کہ ہم تو حکمران کے عوام کے ہاتھوں انتخاب کے قائل ہی نہیں ہیں تو اب جبکہ امام پردہ غیبت میں ہیں حاکم کون ہوگا؟ ۲۶۰ ہجری کے بعد حاکم انتخابی ہوگا یا انتصابی؟ معاشروں کی حاکمیت کی ذمہ داری کس کے پاس ہو؟ اس شخص کے پاس جو عوام منتخب کر لے یا اس شخص کے پاس جو اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہو؟ اگر انتخاب والی صورت قبول نہیں ہے تو پھر دوسری صورت میں حاکم کون ہوگا کیونکہ حقیقی امام تو پردہ غیبت میں چلے گئے۔

زمانہ غیبت میں نظریہ انتصاب کا تسلسل

جس طرح سے رسول اللہﷺ کے بارے میں اہل سنت کا یہ گمان کرنا درست نہیں ہے کہ وہ امت کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ کر بغیر حاکم کی تعیین کیے چلے گئے اسی طرح سے امام زمانؑ کی نسبت بھی یہ بدگمانی درست نہیں۔ جس طرح سے رسول اللہﷺ کے بعد امت کا خود حاکم منتخب کر لینا درست نہیں ہے اسی طرح سے امام زمانؑ کے بعد بھی امت کا خود حاکم منتخب کر لینا درست نہیں ہے۔ درست نظریہ انتصاب ہے۔ ۱۱ ہجری میں بھی امت کو انتصاب کے نظریے کے مطابق چلنا چاہیے تھا اور ۲۶۰ ہجری میں بھی نظریہ انتصاب اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ معاشروں کو تو حاکم و امام کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ اگر یہ ضرورت ۱۱ ہجری کو تھی تو یہی ضرورت ۲۶۰ ہجری کے بعد بھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے ۱۱ ہجری کے لیے کسی نا کسی کو امامت و حکمرانی کے لیے منتصب کیا ہے تو ۲۶۰ ہجری کو بھی حتما یہ اہتمام کرنا ضروری ہے۔

زمانہ غیبت اور تقیہ کا ماحول

لیکن عملی طور پر شیعہ ان نظریات کو اختیار نہیں کر سکا۔ شیعہ کو دبا دیا گیااور منتصب امام کی حکومت تشکیل نہ پا سکی۔ خود آئمہ معصومینؑ کے دور میں بھی یہ کوششیں ہوئیں کہ حکومت کسی طرح سے حق کے امام کے پاس آجاۓ لیکن نہ ہو سکا۔غیبت کے بعد بھی یہ کام نہ ہو سکا۔ شیعہ کے امام شہید کر دیے گئے اور پیروکار تقیہ میں چلے گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں شیعہ کے لیے ایک حد تک حالات سازگار ہوۓ۔ غیبت سے پہلے اور اس کے بعد کا دور بہت سخت تھا۔ تقیہ کی وجہ سے تشیع کے صرف انفرادی موضوعات ہی زیر مطالعہ رہے۔ حتی آئمہ معصومینؑ کو تقیہ اختیار کرنا پڑتا، ان کو اتنی شدت کے ساتھ تحت نظر رکھا جاتا کہ ہر محفل میں جاسوس بٹھا دیتے۔ ایسی کوئی بھی بات امام سے صادر ہوتی فورا گرفتار کر لیا جاتا اور زندان میں ڈال دیا جاتا۔ البتہ آئمہ معصومینؑ نے تدابیر اختیار کیں کہ دین کو کامل طور پر اپنے شیعوں کے لیے تبیین کر دیا۔ بعد میں جب حالات سخت تر ہو گئے تو ایسا دین پڑھایا اور بحث ہوتا رہا جو صرف ذاتی مسائل اور مکلف کی تکلیف کو دور کرنے کی حد تک تھا۔ تشیع کو سیاسی و اجتماعی نظریات کو پڑھنے یا پڑھانے کی اجازت نہ تھی ۔ یہاں تک تشیع پھیل گیا اور سیاسی و اجتماعی نظریات بھی علماء نے بحث کرنا شروع کر دیے۔ مختلف علوم میں آراء بیان ہونے لگیں۔ اور آج فقہاء ان تمام مسائل پر اجتہادکرتے ہیں ۔

شیعی نظریات میں ارتقاء

جیسےجیسے تقیہ کا ماحول ختم ہوتا گیا شیعہ فقہاء نے نظریات کو بھی ارتقاء دی۔ حتی معاصر فقہاء نے جدید مسائل میں استنباط کیا جو آج سے پہلے کسی بھی دور میں موجود نہ تھے۔ مثلا بارڈر کراس کرنے کے مسائل، اربعین کے موقع پر یہ سوال بہت کیا جاتا ہے کہ آیا بغیر ویزہ کے اربعین کی زیارت کے لیے عراق میں داخل ہو سکتے ہیں؟ ویزا اور پاسپورٹ کے مسائل، بینکنگ کے مسائل، انٹرنیٹ وغیرہ۔ پس ایک ارتقاء نظر آتا ہے جو قدیم فقہاء سے آہستہ آہستہ چلا اور آج ترقی کر چکا ہے۔ لیکن اس ارتقاء کی ایک وجہ علمی اختلاف تھا۔ فقہاء نے شدید تنقید کی، تنقید علمی رشد کا باعث بنتی ہے جس کا سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ بہت سے نظریات بعد میں ترقی پا گئے۔ ورنہ قدیم علماء میں اس موجودہ شکل میں نہ تھے۔ عصمت کا نظریہ شدید اختلافی نظریہ رہا ہے۔ آج دنیا بھر کے شیعہ آرام سے اس نظریہ کے قائل ہیں کہ امام معصوم ہیں لیکن کیا یہ نظریہ پہلے سے ہی اسی طرح سے تھا؟ جی نہیں! اس نظریہ نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور اب عصمت کا نظریہ تشیع میں راسخ ہو چکا ہے۔ حتی کہ ۱۲ اماموں کا نظریہ ہے۔ آپ کے خیال میں کیا چھٹے اور ساتویں امام کے دور کے شیعوں کو ۱۲ اماموں کے نام پتہ تھے؟ جواب یہ ہے کہ خود زمانے کے امام کا بھی بعض اوقات پتہ نہ ہوتا۔ اور بڑے بڑے نامور شیعوں کو بھی ایک عرصہ بعد پتہ چلتا کہ ہمارے زمانے کے امام فلاں ہیں۔ کیونکہ تقیہ کا دور تھا۔ اگر سب کو ہی عام پتہ ہوتا اسی وقت امام کو قتل کر دیا جاتا۔ اس لیے جیسے ہی ایک امام شہید ہوتا شیعوں میں کئی فرقے وجود میں آ جاتے۔ امام کی اولاد میں ہی شیعوں کا اختلاف ہو جاتا۔ ایک گروہ امام کے ایک فرزند کو امام مان لیتا اور دوسرا گروہ دوسرے بیٹے کو۔ان وجوہات کی بنا پر اس دور کے شیعوں کے ایمان پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ دور ہی سخت تھا۔ خود امام علیؑ پر کتنے سو سال سب و شتم کیا جاتا رہا، آئمہ معصومینؑ کی احادیث نقل کرنا جرم سمجھا جاتا تو ایسے میں کس طرح سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ شیعہ کے سیاسی نظریات کو کھل کر بیان کرتے اور اس کو عملی زندگی میں اختیار کرتے۔ سیاسی میدان دشمن کے پاس تھا جو قوت سے ایسے شیعہ افراد پر نظر رکھتا جو سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے یا تشیع کے سیاسی نظریات بیان کرتے۔ پس یہ کہنا کہ تشیع ۲۶۰ ہجری کے بعد نظریہ انتصاب پر عمل پیرا کیوں نہ ہو سکا تو اس کا جواب تقیہ ہے۔ نا یہ کہ مکتب تشیع میں سیاسی نظریات موجود ہی نہ ہوں اور بعد میں خود سے گھڑے گئے ہوں۔ تشیع ۱۱ہجری کو بھی انتصاب کا قائل تھا، ۲۶۰ ہجری میں بھی اور آج بھی نظریہ انتصاب کو مانتا ہے۔

ولایت فقیہ میں فقہی بحث

شیعہ فقہاء میں کوئی بھی فقیہ اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ایک فقیہ کو حکومت نہیں کرنی چاہیے۔ یا اگر کوئی فقیہ حکومت بناتا ہے تو وہ غیر اسلامی ہوگی۔ بلکہ تمام فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر شرائط مہیا ہوں تو فقیہ کو چاہیے کہ وہ اسلام کے مطابق حکومت چلاۓ۔ بحث صرف اس میں ہے کہ کیا فقیہ پر اسلامی حکومت قائم کرنا واجب ذمہ داری ہے یا نہیں؟ کیا اس کا وظیفہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت بنانے کی کوشش کرے؟ یہ بحث اختلافی ہے۔ آیت اللہ خوئیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ فقیہ کی واجب ذمہ داری میں سے نہیں ہے کہ وہ حکومت اسلامی کا قیام کرے۔ ہاں اگر اس کو حکومت اسلامی قائم کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اسلام کے مطابق اس کو چلاۓ۔ فقیہ کی واجب ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ امور حسبیہ میں جہاں ممکن ہو سکے دخالت کرے اور امور کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ امام خمینیؒ اس بات کے قائل ہیں کہ فقیہ کی واجب ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی حدود کی حفاظت کرے، دین کو متعارف کرواۓ، دینی احکام کے اجراء کی کوشش کرے۔ اور یہ سب اس وقت ممکن ہے جب قوت حاصل ہو، اگر قوت حاصل نہیں کرتا تو دین کو جاری نہیں کر سکتا۔ فقہ میں موضوعاتی بحث یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ایک کثیر مدت تک یہ بحث صرف کتابوں میں ہی بند تھی، دین کے اجراء کی باتیں کتابوں میں گم تھیں، علماء کو ملتی ہی نہیں تھیں۔ لیکن امام خمینیؒ نے اس بحث کو کتابوں سے نکال کر عملی صورت دی۔ یہ وہ نظریہ تھا جس کو بیان کرنے کے لیے بھی جرات چاہیے تھی، لیکن گویا امام زمانؑ کے معجزات میں سے ہے کہ اس پوشیدہ نظریہ کو عملی صورت مل گئی اور اس نے اپنے نائب کی جھلک میں حقیقی اسلامی حکومت کا ایک سایہ اس امت کو دکھایا۔

امام خمینیؒ سے پہلے نظریہ ولایت

جیسا کہ گزشتہ اقساط میں بیان ہوا کہ تشیع کے نظریات نے مرحلہ بمرحلہ ترقی۔ امام خمینیؒ سے پہلے یہ موضوعات بیان ہی نہیں ہوتے تھے۔ فقہاء کتاب البیع میں ولی کی حدود کو حاشیے میں بیان کر کے گزر جاتے۔ ولایت کی بحث کتاب البیع کی انتہائی جزوی بحث شمار ہوتی تھی۔ بعض فقہاء کرام نے یہاں سے روایات اٹھائیں اور تبصرہ کیے۔ اجتہادی ابحاث کیں اور پھر اسی بحث کو مناظرانہ بحث بنا دیا گیا۔ حوزہ جات علمیہ میں اس کے فقہی تناظر کو بحث کیا جاتا ہے۔ اس لیے محدود پیمانے پر جائزہ لیتے ہیں۔ قضاوت کے باب میں بھی اس کو ایک حد تک بحث کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب فقہاء قوت میں نہ تھے۔ اجتماعی امور ان کے ہاتھ میں نہ تھے۔ لیکن آج کے دور میں تشیع مضبوط ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تشیع طاقتور مکتب بن کر ابھرا۔ اس سے پہلے شیعہ وہ طبقہ تھا جن پر حکومت کرنا دیگر اقوام پر حکومت کرنے سے زیادہ آسان تھا۔ شیعہ ہر حالت میں ہی تقیہ میں رہنے کا قائل ہو چکا تھا۔ اور جو لوگ تقیہ کی زندگی گزارتے ہیں ان پر کسی بھی قسم کی حکومت مسلط کرنا آسان ترین کام ہوتا ہے۔ جوقوم سیاست و حکومت کے حوالے سے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتی اور اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیسی حکومت ہے اور کون حاکم ہے ایسی قومیں آسان ترین ہدف ہوتی ہیں۔ اگر کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ ان کا ہدف صرف معمول کے مطابق زندگی گزارنا، عبادات انجام دینا اور علم حاصل کرنا ہے اور اجتماعی امور میں آگے نہ بڑھے ،اسے کچلنا آسان ہوتا ہے۔ امام خمینیؒ نے شیعہ کو اندھیر نگری سے نکالا اور حقیقی تشیع سے متعارف کروایا۔ ان کو سمجھایا کہ گھروں میں بیٹھے رہنا اور اجتماعی امور سے رخ موڑ لینا شیعہ کا وتیرہ نہیں۔ شیعہ کی ذمہ داری اپنے وقت کے امام کے لیے عالمی حکومت کے حالات سازگار کرنا ہے۔ ایسی حکومت جو ظلم و ستم کو ختم کر کے عدل و انصاف سے دنیا کو بھر دے گی، ایسی حکومت کی شیعہ کے دل میں آرزو پیدا کی اور اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لیے ان کو متحرک کیا۔ 

سیکولر تفکر اور شیعہ تفکر

مغربی تفکر نے مسلم دنیا کو بہت حد تک متاثر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ انفرادی طور پر جس دین کے بھی پیرو بنتے ہیں بنے رہیں لیکن اجتماعی اور سیاسی میدان میں دینی بات کو نہیں لے آنا۔ سیاست میں دینی تفکر کو ڈالنے کی کوشش نہیں کرنا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ دین کو دین کے ذریعے سے ہی ختم کر سکتے ہیں اس لیے انہوں نے بھی ایسے علماء  تیار کیے جو ولایت فقیہ کو مشکوک بنا کر پیش کریں۔ وہ دینداروں کے ذریعے ہی سیکولرزم کی تبلیغ کرواتے ہیں۔ سیکولرزم کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دین کے ہی دشمن ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دین کا اجتماعی امور میں دخل نہ ہوبے شک دین کو انفرادی زندگی میں رکھا جاۓ۔ اور یہی بات ولایت فقیہ کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقیہ کو صرف فتوی دینے کی حد تک رکھنا چاہیے اس کا سیاست اور اجتماعی امور میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ ولایت فقیہ کا مطلب ہی سیاسی اور اجتماعی امور میں فقیہ کی دخالت کرنا ہے۔ ایسے فقہاء سے پھر استعمار دشمنی بھی کرتا ہے۔ ان کے لیے ایسے فقیہ خطرناک نہیں ہیں جو صرف کتابیں پڑھتے ہیں، زیارات پر جاتے ہیں، مجالس پڑھتے ہیں اور دین کو سیاسی و اجتماعی امور میں دخل نہیں دیتے۔ در اصل یہی سیکولرزم ہے۔ دین کو اجتماعی امور سے دور کر لینا ہی سیکولرزم ہے۔ استعمار کو ایسا فقیہ چاہیے جو سارا دن کتاب میں لگا رہے اور اجتماعی امور سے بے خبر ہو۔ جس کو یہ تک پتہ نہ ہو کہ گھر کیسا ہو، گلی کیسی ہو، معاشرہ کیسا ہو؟ اس سطح کا مولوی ان کو چاہیے۔ اور ایسے علماء کو وہ خود پروموٹ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دکھا سکیں کہ دین یعنی یہ شخصیت، دین یعنی یہ تفکر۔[1] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۷۔

منابع:

منابع:
1 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۷۔
Views: 21

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شیعہ و سنی میں اصلی فرق
اگلا مقالہ: امامت و خلافت اہل سنت کی نظر میں