loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط نمبر ۵۷}

امامت و خلافت اہل سنت کی نظر میں

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

 معاشروں کے اوپر ایک خلیفہ ،امام یا حاکم کے ضروری ہونے میں شیعہ اور سنی ہر دو قائل ہیں اختلاف صرف اس بات کا ہے کہ وہ امام اللہ تعالی بناۓ گا یا امت خود بناۓ گی۔برادران اہل سنت کے نزدیک  معاشروں پر ایک حاکم کا ہونا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ لیکن عملی طور پر اس مسئلے کے ساتھ اصول دین سے بھی بڑھ کر برتاؤ کرتے ہیں۔اہل سنت اس تضاد کا شکار کیوں ہوۓ اس تحریر میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔

قبائلی نظام اور حاکمیت کا تصور

دور جاہلیت میں عرب معاشرے پر باقاعدہ طور پر حکومت نہ تھی۔ قبائلی نظام تھا۔ عربوں کے اندر شدید قبائلی تعصب پایا جاتا جو آج بھی موجود ہے۔ قبیلہ کے افراد ایک دوسرے سے نسبت و رشتہ داری کے افراطی حد تک پابند تھے۔ جنگ کے دوران ایک جنگجو رجز پڑھتا تو اپنے قبیلہ کا ذکر کرتا اور اس پر فخر و مباہات کرتا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر کا ثقیفہ بنی ساعدہ میں انتخاب بھی در اصل قبائلی بنیاد پر ہوا۔ انصار کے مقابلے میں ان کا استدلال یہ تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کے قرابت دار ہیں اس لیے ان کو خلافت کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ خلافت کے لیے رسول اللہﷺ کا قرابت دار ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ شخص کی اہلیت دیکھنا اور اس کا دینی و شرعی جواز رکھنا ضروری ہے۔ بعض نادان افراد نے مکتب تشیع پر بھی یہی الزام لگانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ بھی تو خلافت و امامت کو قریش میں سے بنی ہاشم اور صرف اولاد فاطمہؑ کا حق قرار دیتے ہو؟ کس نے کہا کہ صرف اولاد فاطمہؑ میں سے ہی امام ہوگا؟ حالانکہ امامت کا سلسلہ قبائلیت کی بنا پر نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک قدر و قیمت و کردار اہم ہے۔ ورنہ اگر اولاد حضرت یعقوبؑ کو دیکھیں تو ان میں سے یوسفؑ صرف ایک ہے۔ سب بھائی آل یعقوب ہونے کی وجہ سے برابر نہیں ہیں اور نا ہی وہ نبی بن سکتے ہیں۔ مکتب تشیع میں بھی جب امامت کی بات ہوتی ہے وہاں قبیلہ بنی ہاشم و اولاد فاطمہؑ کی بنا پر امامت نہیں چلتی بلکہ قرآن کریم کے قاعدے کے مطابق اس امر کا حقدار وہی ہے جو اہل ہو:
«لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ».
ترجمہ: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔[1] بقرہ: ۱۲۴۔
جب حضرت ابراہیمؑ کو امامت کا منصب ملا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میری ذریت میں سے بھی امام قرار دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ امامت کا عہد تمہاری نسل میں صرف ان کو ملے گا جو ظالم نہ ہوں۔مکتب تشیع کے نزدیک معیار حسب و نسب نہیں ہے۔ اگرچہ تاریخ بشریت میں اہل بیتؑ سے بڑھ کر کسی کا بھی حسب و نسب نہیں ہے لیکن معیار خود ان کی قدر و قیمت ہے۔
ایک روایت میں وارد ہوا ہے:
«قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ يَوْمَ الْقِيامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ قَالَ كُلُّ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ إِمَامٌ وَ لَيْسَ بِإِمَامٍ قُلْتُ وَ إِنْ كَانَ فَاطِمِيّاً عَلَوِيّاً قَالَ وَ إِنْ كَانَ فَاطِمِيّاً عَلَوِيّاً».
ترجمہ: راوی  کہتا ہے کہ میں نے امام سے کہا کہ میری جان آپ پر فدا ہو قیامت کے دن وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کے اوپر جھوٹ بولا، ان سے مراد کون ہیں؟ امام نے فرمایا ہر وہ شخص جس نے گمان کیا کہ ہ امام ہے  جبکہ حقیقت میں وہ امام نہ تھا۔ میں نے امام سے پوچھا چاہے وہ فاطمی اور علوی ہی  کیوں نہ ہو؟ امام نے فرمایا: ہاں چاہے وہ فاطمی و علوی ہی کیوں نہ ہو۔[2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۲۵۴۔
معیار قبائلیت نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ جو بھی اولاد حضرت فاطمہؑ سے ہو وہ امامت کا حقدار ہے۔ بلکہ جسے امامت اللہ تعالی کی طرف سے عطا ہوئی ہو صرف وہ امام ہے۔

شیعہ اور سنی کے نزدیک خلیفہ کی ضرورت

اہل سنت کی ایک فقہی تقسیم ہے جسے ہم حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے جانتے ہیں۔ اور ایک کلامی تقسیم ہے۔ جنہیں حنابلہ، معتزلہ اور اشاعرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اشاعرہ نقلی دلیل کی بنا پر اس بات کے قائل ہیں کہ خلیفہ یا امام ہونا چاہیے جبکہ دیگر مکاتب بھی عقلی و نقلی ہر دو دلیلوں کی بنا پر قائل ہیں کہ خلیفہ و امام کے بغیر امت نہیں ہو سکتی۔ يہ روایت شیعہ اور سنی ہر دو منابع میں وارد ہوئی ہے کہ وہ شخص جس کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو یا جس شخص کی گردن پر کسی امام کی بیعت نہ ہو وہ جہالت یا کفر کی حالت میں مرے گا۔ یہ روایت مختلف الفاظ سے وارد ہوئی ہے لیکن سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔[3] شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۰۹۔ [4] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۴۶۔ [5] نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۷۸۔ [6] بیهقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، ج۸، ص۲۷۰۔ [7] حنبلی، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲۸، ص۸۸۔ معتبر منابع میں وارد ہونے والی حدیث کے بعد تقریبا تمام علماء اسلام سواۓ خوارج کے اس بات کے قائل ہیں کہ امت کا امام ہونا ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام کیسے بنے گا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس سے امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ سنی اس بات کے قائل ہیں کہ حکمران بنانے کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کوئی ہدایت بیان نہیں فرمائی۔ اور نا ضابطہ بیان کیا ہے کہ حاکم و امام کن خصوصیات کا مالک ہو؟ رسول اللہﷺ نے بھی اپنے بعد کسی شخص کو حاکم و امام کے طور پر معین نہیں فرمایا۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر کو پہلا خلیفہ مانتے ہیں۔ لیکن مکتب تشیع اپنی خاص دلیلوں کے تحت امام علیؑ کو پہلا خلیفہ سمجھتے ہیں۔

اہل سنت کے نزدیک خلیفہ بنانے کے طریقے

جیسا کہ بیان ہوا اہل سنت حاکم کے چناؤ میں کسی ایک ضابطہ کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک چاروں خلیفہ راشد الگ الگ طریقوں سے انتخاب ہوۓ۔ اس لیے وہ اس بات کے قائل ہیں جس طریقے سے بھی حاکم بن جاۓ ٹھیک ہے۔

۱۔ اہل حل و عقد

خلیفہ یا امام کے انتخاب کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی ایک جماعت خلیفہ کو منتخب کر لے۔  خلیفہ ابو بکر اسی طرز پر بناۓ گئے۔ تاہم یہ طریقہ خود خلیفہ دوم کے نزدیک غلط تھا۔ اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح البخاری میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عمر نے کہا کہ خلیفہ اول کی خلافت ایک فلتہ (ایک ایسا کام جو بغیر تدبیر کے ناگہانی طور پر کیا جاۓ) تھی اور اللہ نے ہمیں اس کے شر سے بچا لیا۔[8] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج۸، ص۱۶۸۔ اگر یہ بیعت ٹھیک تھی تو اس کو شر کیوں کہا گیا ؟ اور اگر شر ہی تھا سوال پیدا ہوگا کہ اس شر پر سواۓ چند افراد کے سب راضی کیوں ہوۓ رہے؟

۲۔ وصیت خلیفہ

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پہلا خلیفہ وصیت کرے کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہونگے۔ حضرت عمر کی خلافت حضرت ابوبکر کی وصیت کی وجہ سے ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کر کے جائیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو خلیفہ اول کی دوراندیشی و عقلمندی تھی کہ وہ یہ کام کر کے اگر وہ یہ کام نہ کر کے جاتے تو امت میں فتنوں کا ڈر تھا، امت میں خلافت کے مسئلے کو لے کر دراڑ پڑ جاتی۔ لیکن یہ دلیل دیتے ہوۓ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر خلافت کے مسئلے پر حضرت ابوبکر کو امت کے بارے میں اندیشہ تھا تو رسول اللہﷺ کو اندیشہ نہیں تھا؟ کیا رسول اللہﷺ نعوذباللہ دور اندیش نہیں تھے کہ انہوں نے تو اپنے بعد امت کے لیے کسی کو تعیین نہیں کیا لیکن حضرت ابوبکر اتنے دور اندیش تھے کہ وہ خلیفہ تعیین کر کے گئے؟

۳۔ شوری کا نظریہ

 تیسرا نظریہ یہ ہے کہ امت کے بزرگان کی ایک شوری بنائی جاۓ اور وہ شوری خلیفہ منتخب کرے۔ حضرت عثمان اس روش پر خلیفہ بناۓ گئے۔

۴۔ امت کا اجماع

اس طریقے میں پوری امت ایک نام پر جمع ہو جاتی ہے۔ حضرت علیؑ اس طرز پر خلیفہ بنے۔ امام علیؑ خود کو خلافت سے کنارہ کش کرتے رہے لیکن امت کا اصرار تھا کہ آپ ہی خلافت کی ذمہ داری سنبھالیں۔ جبکہ ہم پچھلے خلفاء کو دیکھیں تو انہوں نے خود کو خلافت کے لیے پیش کیا۔ پہلے دو خلفاء تو رسول اللہﷺ کے جنازے کو چھوڑ کر ثقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے۔ [9] حوالہ درکار ہے۔ اور خود کو خلافت کے لیے پیش کیا۔ امام علیؑ نے کہا کہ مجھے خلافت نہیں چاہیے۔[10] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۹۰۔

۵۔ لشکر کشی 

اہل سنت نے اب ایک پانچواں طریقہ بھی ایجاد کر لیا ہے۔ کیونکہ بقیہ چار طریقوں سے تو خلیفہ بننے سے رہا۔ اہل سنت کے ہاں اتنا شدید اختلاف ہے کہ وہ کسی ایک شخصیت پر متفق ہی نہیں ہوسکتے۔ ایک قلیل جماعت خلیفہ بناۓ اور ساری سنی عوام اس پر راضی ہو جاۓ ناممکن ہے۔ دوسرا طریقہ وصیت والا بھی ناممکن ہے۔ جب پہلا آۓ گا تو دوسرے خلیفہ کی وصیت کرے گا۔ شوری کا نظریہ بھی ممکن نہیں۔ شوری میں کونسے افراد بیٹھیں گے؟ ایک متفقہ شوری نہیں بن سکتی۔ چوتھا طریقہ بھی عملی طور پر ناممکن ہے کہ ایک شخص پر پوری امت اکٹھی ہو جاۓ۔ لذا اب انہوں نے پانچواں طریقہ یہ نکالا ہے کہ لشکر کشی کر کے حملے کیے جائیں۔ مخالفین کو قتل کیا جاۓ اور موافقین و خاموش رہ جانے والوں پر حکومت کی جاۓ۔ بعد میں سب ہی ڈر کر ہمارے ساتھ ہو جائیں گے۔ طالبان اور داعش اسی نظریے کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض اہل سنت علماء اس روش کے مخالف ہیں جیسا کہ پاکستان کی مشہور و معروف شخصیت ڈاکٹر اسرار کا کہنا تھا کہ ہم سفید انقلاب لائیں گے۔ان کا مطلب تھا کہ ہم خون کا ایک قطرہ بہاۓ بغیر انقلاب لائیں گے اور اس طرح سے حکومت اسلامی قائم ہو جاۓ گی۔اہل سنت اصل میں خلافت راشدہ کے قائل ہیں۔ لیکن وہ ملوکیت کو بھی غیر اسلامی نظام نہیں سمجھتے۔ ملوکیت کو خلافت راشدہ سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ ان کا اصرار ہے کہ بعض حکمرانوں کو حتما خلیفہ راشد ہی قرار دیا جاۓ اگرچہ ان کا طرز حکمرانی ملوکیت والا تھا۔ جیسا کہ معاویہ، عمر بن عبدالعزیز، ہارون اور مامون کی حکومتیں ہیں۔ متعصب سنی ان کے تقدس کے قائل ہیں۔ انہوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے چند حکمرانوں کو چنا اور ایک ضابطہ ایجاد کیا کہ لشکر کشی کر کے ملوکیت کی طرز حکومت بھی قابل قبول ہے۔

اہل سنت کے آپس میں اختلاف

جیسا کہ بیان ہوا پہلے چار طریقوں سے خلافت کا نظام لانا ان کے لیے تقریبا نا ممکن ہے۔ اہل حدیث نے بریلویوں اور دیوبندیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہوا ہے۔ اور بریلوی و دیوبندی علماء نے اہل حدیث کو گستاخ رسول ہونے کا فتوی دیا ہوا ہے۔ گستاخ رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب اہل حدیث مرتد ہیں اور ان کی سزا موت ہے۔ خود بریلویوں اور دیوبندیوں کے اختلاف بھی الی ماشاء اللہ بہت زیادہ ہیں۔ ایک دوسرے کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں ان کے اکابر علماء نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خود بریلوی فرقے کے اندر کے اختلافات کو دیکھ کر بھی انسان حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ دیوبندیوں کے اندر حیاتی اور مماتی فرقے کا اختلاف اتنا شدید اختلاف ہے کہ وہ اسی مسئلے پر ہی ایک دوسرے کے مشرک ہونے کے احکام لگاتے ہیں۔[11] سائٹ افتاء دیوبند۔ تو ایسے میں کیسے ممکن ہے وہ ایک خلیفہ پر جمع ہو جائیں یا ایک شوری بنا کر اسے خلیفہ بنانے کا اختیار دے دیں۔

استعمار کی شیعہ دشمنی

آج استعمار بھی شیعوں کو اہل سنت کی طرح ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ شیعہ ایک مرکز میں جمع ہوں۔ کبھی اصولی و اخباری کہہ کر تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی بعض فقہی مسائل کی بنا پر شیعہ کو آپس میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شہادت ثالثہ ہو، تقلید کا مسئلہ ہو یا دیگر فرعی مسائل۔ ان مسائل میں علمی اختلاف کرنا سب کا حق بنتا ہے۔ لیکن ان مسائل میں اختلاف یہ سبب نہیں بنتا کہ مخالف کو دائرہ تشیع سے ہی خارج قرار دے دیں۔ کسی بھی فقہی مسئلہ کی بنا پر مکتب سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روش جاہل طبقے نے شروع کی ہوئی ہے کہ ایک فقہی مسئلے کی بنا پر ایک شیعہ عالم دین کو ہی دائرہ تشیع سے خارج کر دیتے ہیں اور اسے دیوبندی کہہ دیتے ہیں۔ خود علماء تشیع اس چیز کے قائل نہیں ہیں۔ فرض کیا اگر کسی عالم دین نے تجزیہ تحلیل کرتے ہوۓ یہ کہہ دیا کہ مختار ثقفی اپنے قیام میں حق پر نہ تھے تو اس سے مختار ثقفی کی توہین نہیں ہو  جاتی، اور نا ہی اس کا جہنمی ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ مختار ثقفی کا قیام اصول دین میں سے تو نہیں ہے اور نا ہی وہ معصوم امام ہیں کہ جن پر علمی اختلاف کرنے سے انسان دائرہ تشیع سے خارج ہو جاۓ۔ بالکل اسی طرح سے اگر ہم کہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں قیام کیا وہ باطل تھا۔ اس سے ام المومنین کی توہین نہیں ہو جاتی۔ اگر ام المومنین کے بارے میں یہ جملات کہنے سے ان کی توہین نہیں ہوتی تو مختار ثقفی کی بھی توہین نہیں ہوتی۔ ورنہ پھر اہل سنت کو بھی حق دیں کو وہ اس جملے کے کہنے پر شیعہ حضرات کو توہین کرنے والا قرار دے دیں۔ یہ درست روش نہیں ہے۔ اگر علمی اختلاف و تنقید کا دروازہ بند کر دیں اور ایسی باتیں کرنے والے پر توہین کا الزام لگا کر اسے مکتب تشیع سے ہی خارج کر دیں تو پھر تو ہر دوسرے تیسرے مسئلے پر یہی کام کرنا ہوگا۔ افراط اور تفریط درست روش نہیں ہے۔

خوارج اور غالی فرقہ

خوارج اور غالی دونوں گروہ امام علیؑ کے بارے میں افراط و تفریط کرنے کی وجہ سے گمراہ شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ہی امیرالمومنینؑ کے گروہ سے مربوط ہیں۔ خوارج کا لشکر معاویہ کے لشکر سے تو نہیں نکلا تھا۔ امام علیؑ کے لشکر میں ہی یہ سب لوگ موجود تھے۔ لیکن انہوں نے تفریط کی۔ غالی طبقہ بھی امام علیؑ کے ساتھ افراطی طور پر محبت کرنے والا طبقہ شمار ہوتا ہے۔ لیکن یہ دونون حق پر نہیں ہیں۔ مکتب تشیع معتدل ترین مکتب ہے۔ افراط اور تفریط سے خالی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی فقہی مسئلے پر اختلاف کی بنا پر اگلے کو کافر قرار دیدے۔ اہل سنت یہی غلط کام کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں خلافت و امامت فقہی مسئلہ ہے تو پھر فقہی مسئلے کی بنا پر وہ اہل تشیع کو کیسے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ جبکہ خلفاء کی خلافت اصول دین میں سے تو نہیں۔ جب ایک مسلمان اصول دین کو مان رہا ہے تو پھر فقہی مسئلے کی بنا پر کافر کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ افراط ہے۔ اسی طرح سے اہل سنت کا صحابہ کے بارے میں عدالت کا نظریہ ہے۔ کہنے کو تو صحابہ کو صرف عادل مانتے ہیں لیکن عصمت سے بڑھ کر ان کو درجہ دیتے ہیں۔ ہم اہل تشیع تو صرف ۱۴ معصومینؑ کے قائل ہیں وہ سب ہی صحابہ کے افراطی طور پر عدالت کے قائل ہیں۔

اہل سنت کے نظریہ اور عمل میں تضاد

نظریاتی طور پر اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ امت کا رہبرہونااور امام کی تقرری ایک فقہی مسئلہ ہے۔ یہ ذمہ داری لوگوں کی ہے کہ کسی کو بھی اپنا حاکم بنا لیں۔ اللہ تعالی نے اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں بیان کی۔ دین میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا کہ ہم کس کو حکمران بنائیں۔ جبکہ کلامی مسئلہ وہ ہوتا ہے جو قرآن کریم میں ذکر ہو اور رسول اللہﷺ نے باقاعدہ اس کی تشریح کی ہو۔ اس لیے امامت و خلافت ایک فقہی مسئلہ ہے۔ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کی حدود کے اجراء ، اسلامی حدود کی حفاظت کے لیے ایک حاکم منتخب کرے۔ چونکہ اسلامی حدود کا اجراء واجب ہے اور یہ سب حاکم کی تعیین پر موقوف ہیں اس لیے حاکم کا انتخاب بھی واجب ہے۔ لیکن یہ صرف کہنے کی حد تک ہے حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت عملی طور پر خلافت کو اصول دین ہی سمجھتے ہیں۔ جان بوجھ کر اس کو کلامی و اصول دین کا مسئلہ قرار نہیں دیتے۔

خلافت کے نظریہ پر تضاد کی وجہ

اہل سنت مجبور ہیں کہ خلافت کے نظریہ کو اصول دین میں سے قرار نہ دیں۔ لیکن کتابوں میں اور کہنے کی حد تک اس کو فقہی مسئلہ قرار دیں۔ لیکن جب اس کو فقہی مسئلہ قرار دیتے ہیں تو خود پھنس جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امامت کے مسئلے کو اصول دین میں سے قرار دے دیں اور اسے کلامی مسئلہ مان لیں تو پھر ان کو بتانا پڑے گا کہ خلیفہ ابو بکر کی خلافت پر نص کہاں ہے؟ کیونکہ کلامی مسئلہ یا اصول دین وہ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں ان کی نص موجود ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مسئلے کی تشریح کی ہے۔ اب اگر وہ کہتے ہیں کہ یہ اصول دین میں سے ہے اور فعلِ الہی ہونے کی بناپر کلامی مسئلہ ہے تو شیعہ پوچھیں گے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر قرآن کریم سے نص لے آئیں۔ دین نے کہاں پر حضرت ابوبکر کی واضح طور پر خلافت کا حکم دیا ہے؟ رسول اللہﷺ نے کہاں پر حضرت ابوبکر کو اپنے بعد امت کا جانشین و امام مقرر فرمایا؟ اگر نص ہے تو پیش کریں۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے اس مصیبت سے بچنے کے لیے وہ حضرت ابو بکر کی خلافت کو اللہ تعالی، یا رسول اللہﷺ سے منصوب ہی نہیں کرتے اور فورا کہتے ہیں کہ ان کو خلیفہ امت نے بنایا۔ خلیفہ بنانا تو خدا کا کام ہی نہیں اور نا ہی رسول اللہﷺ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بعد جانشین کی تعیین کریں۔ اس لیے امت نے خلیفہ بنا لیا اور یہ فعل مکلف سے مربوط بحث ہے فقہی بحث ہے۔ 

فقہی مسئلہ پر اختلاف اور کفر کے فتاوی

عملی طور پر اہل سنت اس فقہی مسئلے پر اختلاف کی بنا پر شیعہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ جبکہ خود اہل سنت کی چار مکاتب فقہی میں شدید ترین فقہی اختلافات ہیں۔ ان میں سے کسی بھی فقہی مسئلے کی بنا پر وہ دوسرے فرقے کو اسلام سے خارج نہیں کرتے۔ لیکن خلافت کے مسئلے پر کافر قرار دیتے ہیں۔ اتنی شدت تو شیعہ حضرات بھی نہیں دکھاتے کہ جو امیرالمومنینؑ کو پہلا امام نہیں مانتا وہ کافر ہے۔ حالانکہ شیعہ کے ہاں امامت اصول دین میں سے ہے۔ لیکن یہ لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کو لے کر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے مطابق یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ کفر کا فتوی دینے کی دلیل میں کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر امت کا اجماع ہو گیا تھا اس لیے جو امت کے اجماع سے نکل جاۓ وہ مرتد و کافر ہے۔ جبکہ یہ بات خود اہل سنت کی کتب سے ہی ثابت نہیں ہے کہ کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر امت کا اجماع ثابت ہو گیا ہو۔ اہل سنت کتب میں ہی وارد ہوا ہے کہ بنت رسول حضرت فاطمہؑ نے آخر وقت تک حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور ان سے ناراضگی کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔ [12] بخاری ، محمد بن اسماعیل صحیح البخاری، ج۴، ص۷۹۔  اسی طرح سے سعد بن عبادہ اور امیرالمومنینؑ نے بھی بیعت نہیں کی۔ معلوم ہوا اس مسئلے پر اجماع بھی نہیں۔[13] رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۳۵۔ [14] رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۳۔ [15] رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۵۔ [16] رازی، فخر الدین، المحصول، ج۴، ص۱۸۴۔

خلافت حضرت ابوبکر کا منکر

آپ کسی بھی سنی سے پوچھ لیں وہ حضرت ابوبکر کی خلافت کو نا ماننے والے کو مومن نہیں سمجھتا۔ کہنے کو تو کہے گا کہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس فقہی مسئلے کی مخالفت کی بنا پر آپ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے گا۔ متعہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں خود صحابہ کے درمیان اختلاف تھا۔ اہل سنت کتب میں وارد ہوا ہے کہ بعض صحابہ نے متعدد مرتبہ متعہ کیا لیکن اس مسئلے کی بنا پر کوئی بھی صحابی کافر نہیں ٹھہرتا۔ اگر یہ فقہی مسئلہ ہے اور اس کی بنا پر کسی کو کافر قرار نہیں دے سکتے تو پھر خلافت و امامت بھی تو فقہی مسئلہ ہے اس کی بنا پر کیسے کسی کو کافر قرار دے رہے ہیں؟ اگر اصول دین کا مسئلہ ہے تو قرآن و روایت سے نص لے آؤ۔ خلافت ابی بکر کو تواتر سے ثابت کرو، یا حد اقل خبر واحد کی حد تک پہنچی ہوئی روایات سے ہی ثابت کر دو۔ لیکن یہ ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ اس کو مکلف کے فعل سے مربوط مسئلہ سمجھتے ہو، اصلا خلافت ابی بکر کو قرآن و روایات سے ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔

خلافت کے متعلق دو نظریات

۱۔ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ خلافت ایک فقہی مسئلہ ہے۔تاہم عملی طور پر برتاؤ اصول دین والا کرتے ہیں۔
۲۔ ایک قلیل گروہ اس بات کا قائل ہے کہ خلافت اصول دین میں سے ہے۔ ان قلیل علماء کے نزدیک خود رسول اللہﷺ نے ابوبکر کو خلیفہ بنایا۔ ان کی دلیلیں ضعیف روایات پر مشتمل ہیں۔ جن کو خود اہل سنت علماء رد کرتے ہیں لیکن یہ تسامح اختیار کرتے ہوۓ ان روایات سے خلافت ابو بکر کو اصولی و کلامی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ایک اور  دلیل دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں ایسا اور کوئی مسئلہ نہیں جس پر اتنی جنگیں ہوئی ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان جنگیں نماز، روزہ اور حج کے اختلافی مسائل کو لے کر تو نہیں ہوئیں۔ ثقیفہ بنی ساعدہ کا اختلاف، جمل، صفین، نہروان، بسر بن ابی ارطاۃ کا قتل عام، خانہ کعبہ پر حملے، حجاج کی خون ریزیاں، کربلا کا واقعہ، یہ سب مسئلہ خلافت کی اساس پر ہوا۔ معلوم ہوتا ہے یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں ہے جس پر مسلمانوں نے اتنی خونریز جنگیں کی ہیں۔ ابھی بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث یہی مسئلہ ہے۔

قول دوم پر شواہد

۱۔ شاہ ولی اللہ

شاہ ولی اللہ پاک و ہند کے معروف علماء اہل سنت میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب ازالۃ الخفاء عن خلافة الخلفاء لکھی ہے۔ اس کتاب کے مقدمے کے پہلے صفحے پر ہی وہ خلفاء راشدین کی خلافت کو اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں۔[17] دہلوی، شاہ ولی اللہ، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، ج۱، ص۷۹۔
حجت البالغہ، خلفاء کی خلافت پر جو اعتراض ہیں ان سب شبہات کو زائل کر رہے ہیں۔

بیضاوی، منہاج الوصول الی علم الاصول، شیعوں کی طرف سے ادعا ہے ۔۔۔ خلافت کو نا ماننا بدعت و کفر ہے۔ کفر اصول دین سے تعلق رکھتا ہے یا فقہ سے۔

القام الحجر لمن سب ابی بکرو عمرسیوطی۔۔۔

۱۔ اس کتاب کا پہلا چیپٹر ان کے فضائل پر ہے،دوسرا چیپٹر میں کہتے ہیں کہ جو سب و شتم کرے و ہ فاقسق ہے،

تیسرا کہا کہ کافر ہے۔جو ابوبکر کو گالی دے وہ مرتد زندیق ہے۔

چوتھا، جو خلافت ابی بکر اور عمر  کا نکار کرے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خلافت کا انکار صرف، مرتد ہے، واجب القتل، خودکش حملے ان فتوای کی وجہ سے آتے یہں۔ یہ بحث اصولی ہے یا فقہی، فروع دین کا انکار کفر ہوتا ہے ای اصول دین کا انکار،

ابن تیمہ کے کلمات: اس سے بڑھ کر حساس تر مسلہ نہیں ہے اس لیے یہ اصول دین یمں سے ہے۔ امامت ابی بکر عمر کا مخالف کفر او بدعتی ہے۔ تکراری طور پر کہا۔ اس اساس پر آج بھی افراد کو کافر کہتے ہیں۔

نتیجہ

اہل سنت کی نظر کے مطابق خلافت و امامت فقہی مسئلہ ہے لیکن عملی برتاؤ اس کے ساتھ وہ والا کرتے ہیں جو اصول دین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ صحابہ کو معصوم نہیں مانتے صرف عادل مانتے ہیں لیکن عملی برتاؤ ان کے ساتھ معصوم والا کرتے ہیں۔ پاکستان کے مشہور و معروف اہل سنت خطیب کی بلال نامی شخص کے ساتھ ایک کال اس پر واضح ثبوت ہے۔ یہ بات چیت نیٹ پر موجود ہے جس میں وہ شخص مولانا طارق جمیل صاحب کو بار بار کہتا ہے کہ آپ نے کیسے شیعوں کو مسلمان کہا ہوا ہے جبکہ وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرتے ہیں۔ اب مولانا صاحب اس کو بار بار کسی نا کسی طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دفاع کے طور پر کسی کتاب کا حوالہ بھی نہیں دیتے کیونکہ اگر حوالہ دیتے ہیں تو اگلا اس مصنف کو بھی اڑا دے گا۔ یہ لوگ صحابہ کو نہیں چھوڑتے تو مصنفین و محدثین کی کیا مجال؟ حتی رسول اللہﷺ کی شان میں کمی آتی ہے تو برداشت کر لیں لیکن عظمت خلیفہ میں کمی آ جاۓ تو گویا کافر ہو گئے۔[18] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۷۔

Views: 36

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شیعہ نظریات کی علمی ترقی
اگلا مقالہ: تم ہی بتاؤ … کیا ایسا نہیں