loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۵۵}

شیعہ اور سنی میں اصلی فرق

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہم نے گزشتہ قسط میں ثابت کیا کہ اصلِ ولایت فقیہ کلامی بحث ہے۔ تاہم ولی فقیہ کی ذمہ داریوں اور اس کی اطاعت کے واجب ہونے یا نہ ہونے کے لحاظ سے فقہی بحث ہے۔فعل الہی سے مربوط ہونے کی وجہ سے کلام کا موضوع شمار ہوگی۔ اور مکلف کے فعل سے مربوط ہو نے کے مورد میں فقہ کا موضوع ہوگی۔ 

معاشروں پر حکمرانی کا مسئلہ

حضرت آدمؑ کے دور سے ہی بنی نوع انسان میں یہ مسئلہ محوریت پکڑ گیا کہ حکمرانی کس کی ہوگی؟ حتی ابلیس نے بھی حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ حضرت آدمؑ کی زمین پر حکمرانی ہو۔ جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کر رہا ہوں، اس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت اور خلافت حضرت آدمؑ کی ہوگی۔ یہی وہ مسئلہ رہا ہے جس پر تاریخ بھر میں خونی جنگیں ہوئیں، انسانیت کا قتل عام ہوا۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ اتنے حساس مسئلے پر باطل قوتیں خاموش رہیں۔ اور مسلمان معاشروں کو یہ سنگین اور اہمیت کا حامل ترین مسئلہ ان کے دینی مبانی کے مطابق حل کرنے کی اجازت دے دیں۔ آج کا استعمار نہیں چاہتا کہ اسلامی و الہی حکمران مسلمان معاشروں پر حاکم ہوں اس لیے ولایت فقیہ کو ہر صورت میں کچلنے کی کوشش میں ہے۔ ولایت فقیہ کیونکہ فتوی کی دنیا سے مربوط نہیں ہے بلکہ سیاست اور دنیوی حکمرانی سے مربوط بحث ہے اس لیے اس کو مشکوک بنانے کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر کھل کے دشمنی کر رہا ہے۔ اندرونی طور پر عالم نما افراد تیار کر کے ان کو ولایت فقیہ کے مدمقابل لاتا ہے اور اس بحث کو شکوک و شبہات میں ڈال کر ایک مناظرانہ موضوع بنا دینا چاہتا ہے۔ اور بیرونی طور پر اس نظام کے ساتھ مکمل طور پر بائیکاٹ، اقصادی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں تاکہ کسی طرح سے اس نظام کو گرا دیا جاۓ۔

ولایت فقیہ کے متعلق شبہات

گزشتہ دروس میں ہم نے ولایت فقیہ پر ہونے والے مختلف شبہات کے جوابات دیے۔ ایک شبہہ جو عموما بیان کیا جاتا ہے یہ کہ جو علماء ولایت فقیہ کو نہیں مانتے تھے اور اب وفات پا گئے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ کیا وہ ولایت فقیہ کو نہ جان کر جہالت کیی حالت میں وفات پا گئے۔اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ انسان نے صرف اس بات کا اللہ تعالی کی بارگاہ میں جواب دینا ہے جو اس کے لیے حجت تھی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ہمارے علماء نے فقیہ کے اختیارات پر گفتگو ہی نہ کی ہو۔ قدیم شیعہ علماء سے ہی یہ بحث چلتی آ رہی ہے کہ فقیہ کی ذمہ داری اور اس کا دائرہ اختیار کتنا ہے۔ اور پھر یہی سوال آپ ان علماء کے بارے بھی تو پوچھ سکتے ہیں جو اصلا تقلید کے ہی قائل نہ تھے۔ اخباری علماء جو تقلید نہیں کرتے تھے کیا وہ سب جہنمی ہیں؟ جی نہیں! ان کے لیے جو علم کی صورت میں عیاں تھا وہ ان پر حجت ہے۔ یہ ارتقاء آہستہ آہستہ شیعہ دنیا میں حاصل ہوا اور مکتب تشیع میں اب اصولی علماء چھاۓ ہوۓ ہیں۔ خود مرجعیت کا نظام بھی شروع سے اس طرح سے منظم نہیں تھا جیسے آج منظم ہے اور پوری دنیا کے شیعہ کو مرکزیت حاصل ہو گئی ہے۔ آج سے پانچ سو سال پہلے ہر گاؤں کا اپنا مجتہد ہوتا تھا، ہر مسجد کا اپنا مجتہد ہوتا، علامہ حلیؒ نے یہ کوشش کی اور ایک مجتہد و مرکز پر تشیع کو اکٹھا کیا۔ جو باتیں اس وقت علامہ حلیؒ پر کی گئیں بالکل وہی اعتراضات آج ولایت فقیہ پر ہوتے ہیں۔ مرجعیت کی مرکزیت حاصل ہونے سے تشیع میں فقہ اور فتوی کی دنیا متحد ہوئی۔ جبکہ ولایت فقیہ سے تشیع کی سیاسی قوت متحد ہو رہی ہے۔ آج شیعہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو وہ بغیر کسی ملک کی سرحدی حدود کی پرواہ کیے اپنے مجتہد کے فتوی پر عمل کرتا ہے۔ یہ کامیابی ہے اور ارتقاء کی علامت ہے لیکن یہ چیز پہلے موجود نہ تھی۔

امام خمینیؒ کا کارنامہ

امام خمینیؒ نے تشیع کو سیاسی اور اجتماعی طور پر متحد کیا۔ نظریاتی طور پر ولایت فقیہ کی بحث امام خمینیؒ سے پہلے فقہاء کی کتابوں میں موجود تھی۔ اور بہت سے علماء ولایت فقیہ مطلقہ کے قائل تھے۔ امام پہلی بار اس نظریہ کو عملی طور پر نافذ کرنے میں کامیاب ہوۓ۔ لذا اس بحث سے گھبرا جانا کہ فلاں مجتہد تو ولایت فقیہ کو نہیں مانتے، یا گزشتہ علماء میں سے بعض نے ولایت فقیہ کا انکار کیا ہے۔ اس سے کوئی حرج نہیں پڑتا۔ جب بہت سے فقہاء تقلید کے ہی قائل نہ تھے اور اخباری تھے، اگر ان پر کوئی حرج لازم نہیں آتا تو جو علماء ولایت فقیہ کے منکر تھے ان پر بھی کوئی حرج لازم نہیں آۓ گا۔ یہی علماء جو تقلید کے ہی قائل نہ تھے اور انہیں اخباریوں کے نام سے جاناجاتا ہے ان کے مکتب تشیع پر بہت احسانات ہیں۔ انہوں نے ہی احادیث کے منابع جمع کیے۔ پس یہ شبہہ اٹھانا کہ فلاں مرجع تقلید ولایت فقیہ کا قائل نہیں ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ امور حسبیہ میں سب علماء ہی اس بات کے قائل ہیں کہ فقہاء کو ولایت حاصل ہے۔ ممکن ہے انہوں نے اس موضوع کا مطالعہ ہی نہ کیا ہو۔ پس کوئی بات معلومات میں نہ آۓ اس سے ان کی شخصیت کی توہین نہیں ہوتی۔ اور نا ہی اس شخصیت کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی فقیہ ہر پہلو سے ساری معلومات کا حامل نہیں ہوتا۔ ایک ہی فقیہ کے پاس سائنسی، عسکری، اقتصادی، اور سیاسی معلومات ہوں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ حتی جس علم کا ماہر ہے اس میں بھی غلطی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور علماء نے ایک دوسرے پر شدید علمی تنقیدیں کی ہیں جو اس بات پر شاہد کے طور پر ان کی کتابوں میں درج ہیں۔ شیخ طوسیؒ جیسی شخصیت پر اگر تنقید ہو سکتی ہے تو آج کے کسی مرجع تقلید پر بھی تنقید ہو سکتی ہے۔ علمی تنقید کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس شخصیت کا احترام ہی نہ کیا جاۓ اور اس کو غلط قرار دے دیا جاۓ۔ وہ طلاب جو تنقید کرنے پر ناراحت ہو جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کرنے سے علماء کی توہین ہو جاتی ہے۔ علمی دنیا میں اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں ہوتا۔ مثلا اگر رہبر معظم کوئی فتوی دیتے ہیں جو امام خمینیؒ کے فتاوی سے مختلف ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب رہبر معظم امام خمینیؒ کے پیرو نہیں رہے۔

طالب علم کے علمی درجات

اساتیدِ اخلاق بیان فرماتے ہیں کہ طالب علموں کی علمی زندگی کے تین مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان کا استاد ہی ان کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے استاد کے علاوہ اور کسی کی بات کو حجت نہیں سمجھتے۔ سات آٹھ سال تک وہ اسی مرحلے میں رہتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں جب کچھ علم حاصل کرتے ہیں اور دیگر کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کو معلوم پڑتا ہے کہ ہاں صرف ان کا استاد نہیں ہے بلکہ دوسروں نے بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔ اس مرحلے میں اقوال کا ڈھیر، فتاوی کا ڈھیر لے آتے ہیں۔ جب ان سے بحث ہوتی ہے تو آگے سے کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں جو آپ بات کر رہے ہیں اس میں فلاں مجتہد نے تو یوں کہا ہے۔ اگر کوئی اور راۓ ان کو بیان کی جاۓ تو کہتے ہیں کہ قم کے اس مشہور و معروف بزرگ نے تو یوں نہیں کہا۔ ان کو کوئی بھی بات کریں وہ کہتے ہیں کہ درست نہیں ہے کیونکہ فلاں بڑی شخصیت نے تو اس کی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ معیار شخصیت نہیں ہوتی بلکہ علمی دلیل ہوتی ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدیؒ مرحوم فرمایا کرتے تھے میں سب بزرگ علمی شخصیات کا تہہ دل سے احترام کرتا ہوں لیکن کسی بھی علمی شخصیت کے علمی رعب میں نہیں آتا۔ صرف دلیل سے قانع ہونگا۔ پس کسی علمی دلیل کے جواب میں یہ کہنا کہ فلاں مجتہد نے یہ کہا، فلاں نے وہ کہا یہ اگرچہ پہلے مرحلے سے بہتر ہے لیکن علم یہ نہیں ہے۔ علم تیسرے مرحلے میں آتا ہے۔ اس مرحلے میں طالب علم مختلف اقوال کو رد کرتا ہے اور ایک قول کو قبول کر لیتا ہے۔ یا سب کو رد کر کے نیا قول اختیار کرتا ہے۔ نصاب کی کتابیں بھی اسی طرز پہ بنائی گئی ہیں۔ مقدمات میں ایک ہی مصنف کی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ پھر سطوح کی کتابیں آتی ہیں جس میں اقوال در اقوال ہوتے ہیں۔ آخر میں اجتہاد کا مرحلہ آتا ہے جس میں انسان مجتہد بنتا ہے۔ حقیقی عالم دین وہ نہیں ہوتا جس کے پاس اقوال کا ڈھیر ہو، عالم وہ ہوتا ہے جو دلیل سے ایک قول کو اختیار کرے۔ علمی دنیا میں یہ محاورہ مشہور ہے کہ نَحنُ اَبناَءُ الدَّلِیل۔ ہم دلیل کے فرزند ہیں۔ جہاں دلیل ہوگی وہاں ہم ہونگے۔ ولایت فقیہ پر اکثر اوقات پر جو بحث ہوتی ہے وہ اقوال کے گرد گھومتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کا علمی جائزہ لیا جاۓ۔ اجتہادی بحث کی جاۓ۔

ولایت فعل الہی اور کلامی مسئلہ

ولایت اگر معاشروں کی حکمرانی کے معنی میں لیں تو حقیقی طور پر اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ یہ مطلب گزشتہ اقساط میں تکراری طور پر گزرا ہے کہ ولایت حقیقی طور پر اللہ کی ہے۔ اللہ تعالی کی اتباع میں یہ ولایت نبی اور امام کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ سے پہلے انبیاء بھیجے جن کا کام امت کی ہدایت کرنا اور ان پر حکمرانی کرنا تھا۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالی نے شریعت دی اور امت پر ولایت کا حق بھی دیا۔ لیکن ان کے بعد امت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اصحاب کی ایک جماعت اس بات کی قائل تھی کہ اللہ تعالی کے رسولﷺ نے حکومت کے لیے ہمارے اوپر کسی کو بھی معین نہیں کیا۔ خود امت کی ذمہ داری ہے کہ خود میں سے کسی ایک کو حاکم کے طور پر معین کر لیں۔ با الفاظ دیگر اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ امام مقرر کرنا اللہ تعالی کا کام نہیں ہے اور نا ہی اللہ تعالی نے رسول کو اس بارے میں کوئی دستور دیا ہے۔ بلکہ خود امت پر ضروری ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیں۔ امامت اہل سنت کے ہاں فعل الہی نہیں ہے بلکہ فعل مکلف ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنا امام بنائیں۔ لیکن تشیع اس بات کا قائل ہے کہ اللہ تعالی کے رسولﷺ نے اپنے بعد امت کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ اللہ تعالی کے حکم سے ان پر حاکم و امام مقرر فرمایا۔ نا صرف مقرر کیا بلکہ امت سے بیعت کروائی گئی۔ امیرالمومنینؑ پہلے خلیفہ و امام ہیں اور اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہیں۔ پس سنی اور شیعہ میں اصلی اور بنیادی ترین اختلاف سیاسی اختلاف ہے۔ فقہی مسائل کا اختلاف نہیں ہے، نماز میں ہاتھ کھولنے اور باندھنے کا اختلاف نہیں ہے کیونکہ مالکی سنی تو ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں۔ اصل اختلاف یہ ہے کہ حکمران الہی ہوگا یا عوامی؟ امام منصوب ہوگا یا منتخب ہوگا؟ خلیفہ و امام کا انتصاب ہوگا یا انتخاب۔ ظاہر ہے اگر ہم حکمران کا چناؤ عوام پر ڈال دیں تو یہ فعلِ مکلف بن جاتا ہے اور اگر حکمران کا چناؤ خدا کے ذمہ لگا دیں تو یہ فعل الہی بن جاۓ گا۔ فعل مکلف ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ فقہی ہوگا اور فعل الہی ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ کلامی ہوگا۔ اہلسنت کے ہاں امامت کلامی مسئلہ نہیں ہے فقہی مسئلہ ہے۔ اور اہل تشیع کے ہاں امامت فقہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کلامی مسئلہ ہے۔

حاکم کا انتصاب یا انتخاب

معاشرے پر حاکم کون ہو؟ یہ مسئلہ بنیادی اور بہت اہم ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس بارے میں دین نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو۔ جیسا کہ بیان ہوا اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلے میں ہماری رہنمائی نہیں کی۔ ہم خود جس کو بھی حاکم بنا لیں یا جو بھی ہم پر حاکم کے طور پر مسلط ہو جاۓ اس کی اطاعت واجب ہے۔ جبکہ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی نے نا صرف اس مسئلے کی تبیین کی ہے بلکہ اس کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر یہ مسئلہ بیان نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ کی پوری ۲۳ سالہ زحمات بھی رد کر دی جاتیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا:
«يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته».
ترجمہ: اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔[1] مائدہ: ۶۷۔
ساری رسالت ایک طرف اور معاشرے کے اوپر رہبر و امام کا اعلان ایک طرف۔ معاشرے کے رہبر کا اعلان اور تعیین بہت ضروری ہے۔ یہ رہبر و امام صرف دینی مسئلوں کے حل کے لیے نہیں تھا بلکہ دین اور دنیا ہر دو میں حکمران مقرر ہو رہا تھا۔ غدیر خم میں امیرالمومنینؑ کے امام ہونے کا اعلان ہوا۔ صرف یہ نہیں کہ امام علیؑ صرف دینی مسئلوں میں رہنما ہونگے بلکہ حکمران اور خلیفہ بھی علیؑ ہونگے۔ آئمہ معصومینؑ کو صرف دین کا رہنما ماننا کافی نہیں، امامت کا مطلب یہ ہے کہ دینی اور دنیوی ہر دو صورتوں میں حکمرانی آئمہ کی ہے۔ آئمہ معصومینؑ کو  ساسة العباد کہا گیا ہے۔ بندوں کی سیاست اور ان کی مدیریت کرنے والے آئمہ معصومینؑ اللہ تعالی کی جانب سے معین ہیں۔ ہم کسی کو اپنا حاکم نہیں بنا سکتے۔ یہ حق صرف اللہ تعالی کا ہے۔ لذا حاکم کا یا امام کا انتخاب نہیں بلکہ انتصاب ہے۔

ووٹ دے کر حکمران چننا

نظام جمہوریت کی یہیں سے نفی ہو جاتی ہے کہ اس نظام میں حاکم کا چناؤ عوام کرتے ہیں۔ جبکہ نظام ولایت میں عوام حاکم نہیں بنا سکتی۔ شیعہ سنی کا اختلاف ہی یہی ہے۔ سنی کہتے ہیں کہ حاکم بنانا عوام کا کام ہے۔ جبکہ شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم بنانا انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے معاشروں پر حاکم مقرر فرماۓ ہیں صرف انہیں کی اطاعت کی جا سکتی ہے اور کسی حاکم کی اطاعت نہیں کر سکتے۔ آج کے دور میں اگر کوئی ووٹ ڈال کر حکمران چننے کے سلسلے پر اعتراض کرتا ہے تو حق بات کرتا ہے۔ کیونکہ شیعہ انتخاب کا قائل ہی نہیں ہے بلکہ انتصاب کا قائل ہے۔ انسان فقہی مسائل سے شیعہ سنی نہیں بنتا ۔ شیعہ سنی انسان اس سیاسی مسئلہ پر بنتا ہے۔ اگر انتخاب کا قائل ہے تو سنی ہے اور اگر انتصاب کا قائل ہے تو شیعہ ہے۔ پس اعتراض اس پر نہیں بنتا جو جمہوریت پر اعتراض کرتا ہے اعتراض تو اس پر بنتا ہے جو انتصاب کو چھوڑ کر انتخابی سیاست کو اختیار کر رہا ہے اور خود کو شیعہ بھی کہتا ہے۔ کیونکہ انتصاب اور انتخاب کا نظریہ صرف آئمہ معصومینؑ کے دور تک محدود نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ غیبت امام زمانؑ کے دور تک انتصاب کے قائل ہوں اور آج ۲۰۲۲ میں انتخاب کے قائل ہو جائیں۔ یہ نہیں کر سکتے کہ جب تک امام ظاہر تھے تو تو ہم کہیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے بس یہی حاکم ہیں کیونکہ منصوب ہیں، اور ان کے ہوتے ہوۓ اگر کوئی حاکم چاہے انتخاب سے بھی آتا ہے تو وہ ناجائزحاکم ہے کیونکہ اس کے ہوتے ہوۓ حق کا امام اور اللہ کی طرف سے منصوب امام موجود ہے۔ لیکن غیبت کے دور میں آپ کہیں کہ ہم بھی اپنا حاکم انتخاب کر لیتے ہیں۔ ۲۶۰ ہجری تک تو شیعہ ہوں اور بعد میں اہل سنت کے نظریہ انتخاب کو مان لیں؟ یہ درست نہیں ہے۔

زمانہ غیبت میں انتصاب کا نظریہ

۲۶۰ ہجری تک جب امام ظاہرا موجود تھے تب تک تو وہی ہمارے رہنما و امام ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے منصوب ہیں۔ اور اللہ تعالی پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت پر حکمران معین فرماۓ۔ کیا زمانہ غیبت میں اللہ تعالی نے یہ ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں؟ زمانہ غیبت میں اگر یہ ذمہ داری پوری نہیں کی تو پھر تو سنیوں کا نظریہ درست ہے کہ اللہ تعالی پر حاکم مقرر کرنا ضروری نہیں ہے اور خود عوام اپنا حاکم خود بنا سکتے ہیں۔ اس لیے پھر حضرت ابوبکر کی خلافت بھی درست ثابت ہوئی۔ لیکن اگر اللہ تعالی نے جیسا کہ رسول اللہﷺ کے دور میں یہ ذمہ داری پوری کی اور امت پر حکمران و امام مقرر فرمایا زمانہ غیبت میں بھی یہ ذمہ داری پوری کرے گا اور اب بھی انتصاب ہی ہوگا۔ امت خود کسی کو انتخاب کر کے حکمران نہیں بنا سکتی۔ کیونکہ انتصاب کی جو وجوہات اور دلیلیں ۱۱ ہجری کو حاصل تھیں وہی آج بھی حاصل ہیں۔ بلکہ اس سے شدید تر ہو گئی ہیں۔ اگر ۱۱ ہجری کا زمانہ دیکھیں تو اس وقت امت مختصر تھی، زمانہ سادہ تھا، مسائل اتنے کٹھن اور الجھے ہوۓ نہیں تھے۔ لیکن اس وقت پھر بھی خدا نے امت کو ان کے حال پر نہیں چھوڑا اور ان کی ہدایت و حکمرانی کے لیے امام معین فرمایا۔ تو کیا وہی مسائل آج موجود نہیں ہیں؟ آج کا جدید دور جب آبادیاں بڑھ چکی ہیں، زمانہ ترقی یافتہ ہو گیا ہے، مسائل پیچیدہ ہو گئے ہیں کیا آج کے دور میں انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے کوئی الہی حاکم مقرر نہیں کیا؟ اگر اس وقت بغیر حاکم کے رسول اللہﷺ نے امت کو نہیں چھوڑا تو یہ توقع امام زمانؑ سے کیسے کی جا سکتی ہے کہ جب وہ پردہ غیبت میں جا رہے ہیں تو امت کو ان کے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں؟ کیا بارہویں امام کے بارے میں وہی بات کرنا درست ہے جو اہل سنت رسول اللہﷺ کے بارے میں کرتے ہیں کہ رسول نے امت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور امت کی صوابدید پر ہے کہ جسے حاکم و خلیفہ بنا لیں۔ ۲۶۰ ہجری میں اگر یہی بات ایک شیعہ کرے کہ امام جب پردہ غیبت میں گئے تو امت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ میرے بعد بے شک جس کو بھی انتخاب کر لینااس کے شیعہ ہونے پر شک کرنا چاہیے ۔  امام یا نبی اپنے بعد اللہ تعالی کے حکم سے کسی کو منصوب کر کے جاتا ہے۔  پس جس طرح سے ۱۱ہجری میں ہم نے نظریہ انتصاب کو اختیار کیا آج بھی اسی نظریہ پر قائم رہیں نا کہ ۲۶۰ ہجری کے بعد آج کے حالات میں نظریہ انتخاب کے قائل ہو جائیں۔

امامت کی فقہی بحث

امامت اصل میں کلامی بحث ہے کیونکہ فعل الہی ہے۔ لیکن یہ بحث کہ امام کے وظائف کیا ہیں؟ امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ یہ فقہی بحث ہے۔ امت پر امام کی بات ماننا ضروری ہے یا نہیں یہ بحث بھی فقہی بحث ہے۔ لیکن خود امام علیؑ کا اللہ تعالی کی طرف سے حاکم منصوب ہونا کلامی بحث ہے۔ بعینہ اسی بحث کے ذیل میں ولایت فقیہ کا موضوع ہے۔ الہی حاکم کا معین ہونا کلامی بحث ہے لیکن اس کا حکم جاری کرنا، مثلا امر بالمعروف کرنا، نہی عن المنکر کرنا، اشرار سے جنگ کرنے کا حکم دینا، خمس و زکات موصول کرنا یہ سب فقہ سے مربوط ہیں۔ امیرالمومنینؑ کی جن لوگوں نے اطاعت نہیں کی انہوں نے حرام کام کیا۔ انہوں نے امت کو حکم دیا کہ قاسطین، مارقین اور ناکثین کے خلاف جنگ کریں اگر کسی نے اس حکم کی اتباع نہ کی اس نے در اصل معصیت الہی کو انجام دیا۔ امام کا کام معاشرے کی مدیریت کرنا ہے، اور امت کا کام اس کی اطاعت کرنا۔ ولایت فقیہ کے باب میں بھی امت کی ذمہ داری اطاعت کرنا ہے نا کہ دوسرے مراجع کی طرف رجوع کرنا۔ جب ولی فقیہ حکم دے وہاں اطاعت کی جاتی ہے۔ پس غیبت امام زمانؑ میں اہل سنت کے نظریے کے تحت حکمران کا چناؤ نہیں ہوگا۔ اہل سنت کے ہاں آسانی ہے وہ حاکمیت کو عوامی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی حکمران بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں کوئی معیار بیان نہیں ہوا۔ لیکن ہم شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ امت مسلمہ کی امامت اور ان پر ولایت کرنے والے شخص کو معیار ات پر اترنا ضروری ہے۔ یہ معیار ات صرف زمانہ ظہور کے لیے نہیں ہیں بلکہ انہیں معیارات کے مطابق زمانہ غیبت میں بھی حکمران بنے گا۔

تشیع سیاسی مکتب

ایک غلط سوچ ہمارے منبروں سے بیان ہوئی کہ سیاست کی بات نہ کی جاۓ۔ سیاست کی بات نہ کرنا تو اہل سنت کا نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنا سیاسی خلیفہ بنا کر نہیں گئے۔ انہوں نے جا کر کسی اور کو اپنا سیاسی رہنما بنا لیا۔ کیا اسی نظریہ کے ہم بھی قائل ہو جائیں؟ جی نہیں! اللہ نے زمانہ ظہور میں بھی امت کے لیے تدبیر رکھی اور زمانہ غیبت میں بھی تدبیر رکھی ہے۔ اللہ تعالی نے دین و شریعت بھیجی ہے۔ جس طرز زندگی کو اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے متعارف کروایا ہے وہ صرف زمانہ ظہور کے لیے نہیں ہے وہ آج اکیسویں صدی کے لیے بھی ہے۔ لیکن یہ دین اور نظام نافذ تب ہی ہوگا جب معاشروں کی امامت اس شخص کے پاس ہو جس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کی مدیریت و امامت کرے۔ اگر صاحب حق کو یہ حق نہ ملا تو دین اور شریعت کو پس پشت ڈال دیا جاۓ گا۔ نا صرف یہ دین نافذ نہ ہوگا بلکہ ختم ہو جاۓ گا۔ کیونکہ دین کا کامل طور پر معاشروں میں نفاذ بہت ہی مشکل کام ہے۔ حتی امیرالمومنینؑ جیسے حکمران کو بھی یہ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ اس میں نعوذباللہ کوتاہی امیرالمومنینؑ کی نہیں تھی بلکہ امت آمادہ نہ تھی کہ ان پر اسلامی احکامات مکمل طور پر نافذ ہوں۔ بہت طویل وقت درکار ہے پھر جا کر ایک چیز معاشرے میں رچتی بستی ہے۔ اللہ تعالی نے غیبت کے زمانہ میں امت کے لیے تدبیر کی ہے۔ وہ تدبیر ِالہی علم کلام کی بحث ہے۔

ولایت فقیہ تدبیر الہی

اللہ تعالی نے اسلام کو کامل و جامع دین بنا کر اتارا ہے۔ اس میں انسانیت کے لیے مکمل طور پر ہدایت موجود ہے۔ صرف آئمہ معصومینؑ کے ادوار میں ہی اسلام جامع و کامل نہیں بلکہ آج بھی کامل و جامع ہے۔ جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسلام آج کے دور کی بھی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور آج بھی کامل و جامع ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے معاشروں کی مدیریت کے لیے اللہ تعالی نے کیا تدبیر کی ہے؟ وہ تدبیر نظام امامت کی تبع میں نیابت کا نظام ہے جسے ہم ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو فلسفہ امامت کا ہے اور جس ضرورت کے تحت امامت ہے اسی ضرورت کے تحت ولایت فقیہ بھی ہے۔ ولایت فقیہ کا پھول سرزمینِ امامت میں اگا ہے۔ امامت نہ ہو تو یہ بھی نہیں ہے۔ امام زمانؑ کے وجود کو ماننے کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ نیابت کو بھی تسلیم کیا جاۓ۔  جو کردار زمانہ ظہور میں امام ادا کرتا ہے، وہی کردار اب نائب نے ادا کرنا ہے۔ جس ضرورت کے تحت اللہ تعالی نے امام قرار دیا تھا اسی ضرورت و فلسفہ کے تحت اس کا نائب بھی موجود ہے۔ نیابت صرف امام زمانؑ کے دور میں ہی شروع نہیں ہوئی بلکہ ہر امام نے متعدد نائب مقرر فرماۓ۔ مالک اشترؓ، محمد بن ابی بکرؓ، عثمان بن حنیف، عبداللہ بن عباسؓ یہ سب امام علیؑ کے نائب تھے۔ یہ افراد صرف فتوی دینے میں تو امیرالمومنینؑ کے نائب نہیں تھے کہ مالک مصر جائیں اور وہاں صرف فقہی مسائل بیان کریں۔ مالک اشترؓ کو جب اپنا نائب بنایا تو وہاں پر نیابت سے مراد مصر کی حاکمیت ہے۔ اسی طرح سے عثمان بن حنیف ؓکو بصرہ کا والی بنایا اس سے مراد یہ نہیں تھا کہ عثمان جائیں اور بصرہ میں صرف قضاوت کریں۔ نیابت سے مراد سیاسی منصب حکمرانی تھا۔

امیرالمومنینؑ اور نظریہ انتصاب

امیرالمومنینؑ نے مختلف علاقوں میں والی حضرات منصوب فرماۓ۔ سیرت آئمہ معصومینؑ میں انتخاب کہیں بھی نہیں ہے۔ یعنی ایسا کہیں بھی وارد نہیں ہوا کہ ایران کے علاقوں کے لیے کوئی حاکم مقرر کرنا تھا تو ایرانی عوام کے انتخاب سے ایرانی باشندہ حاکم مقرر کرتے بلکہ اپنے پاس سے افراد بھیجتے۔ نہج البلاغہ میں ہی ذکر ہے کہ ان غیر عرب علاقوں میں سارے والی حضرات ہی عرب تھے۔ اگر نظریہ انتخاب کو دیکھا جاۓ اس کے مطابق تو غیر عرب علاقوں پر عرب والی مقرر نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں تمام علاقوں میں ہی عرب والی بھیجے۔ اسی طرح سے امام حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی نمائندگی میں افراد کو منصوب کیا۔ نظریہ امامت انتصاب پر کھڑا ہے۔ انتصاب اور انتخاب کی بحث کلامی بحث ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کلامی مسئلہ میں فتوی نہیں لیا جاتا۔فقہی مسئلے میں فتوی لیا جاتا ہے۔ اگر حکمران کا چناؤ کلامی مسئلہ ہے تو یہاں مجتہد سے فتوی لینا بے معنی ہے۔

انتخابات اور ووٹنگ کے جواز میں فتاوی

پاکستان میں جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے ہمارے مومنین فورا مراجع کے فتاوی لے کر آ جاتے ہیں کہ دیکھیے فلاں مرجع تقلید نے تو حکمران انتخاب کرنے کے جواز میں فتوی دیا ہے اور کہا ہے کہ ووٹ دے سکتے ہیں۔ اگر تشیع معاشروں کے حکمران کے تقرر کے لیے انتخاب کا نہیں بلکہ انتصاب کا قائل ہے تو پھر یہ فتاوی مراجع نے کیوں دیے ہیں؟ یہاں پر ہمیں دو بحثوں کو جدا کرنا ضروری ہے۔ انسانوں کے اجتماعی امور کی باگ ڈور کس کے حوالے ہوگی؟ یہ بحث تشیع میں اتنی شفاف ہے کہ دو راۓ موجود نہیں ہے۔ مکتب تشیع اس بات کا قائل ہے کہ انسانوں پر حاکم صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے منصوب ہے۔ جو اللہ تعالی کی طرف سے منتصب نہیں ہے وہ شرعی حاکم نہیں ہو سکتا اور نا اس کی اطاعت کرنا جائز ہے۔ یہ کلامی بحث ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا حکمران کا تعین اور معاشروں کی مدیریت کا مسئلہ یہ وہ بحث ہے جو مکتب تشیع میں علم کلام میں پڑھی جاتی ہے۔ پس اس میں فتوی لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن جن فتاوی کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اس مورد کو بیان نہیں کر رہے ہوتے۔ اس لیے تمام فتاوی ہی مشروط ہوتے ہیں اور مراجع اگر کہہ کر فتاوی دیتے ہیں۔ ووٹ دینا یا نہ دینا ایک فقہی مسئلہ ہے۔ مثلا حالات تقیہ کے ہوں، عبادات آزاد نہ ہوں، مومنین کو زندانوں میں ڈالا جا رہا ہو، شیعہ کا اقتصاد نابود کیا جا رہا ہو، ان صورتوں میں مفادات کے حصول کی خاطر کسی غیر شرعی حاکم کی طرف رجوع کرنے کا مسئلہ جدا ہے۔ انتخاب کا مورد در اصل تقیہ کا مورد ہے۔ اگر تقیہ کی صورت نہ ہو تو تشیع نظریہ انتصاب کو ہی اختیار کرے گا۔ اگر اس کے مفادات کو کوئی خطرہ نہیں ہے تو وہ نظریہ انتخاب کو اپنے لیے جواز کے طور پر اختیار نہیں کر سکتا۔ با الفاظ دیگر شیعہ انتخاب کے نظریہ کو اس صورت میں اختیار کر کے ان غیر الہی حکمرانوں کو ووٹ دے سکتا ہے جب اس کی جان کو خطرہ ہو، اس کو دو وقت کی روٹی نہ مل رہی ہو، شیعہ نوجوان جیلوں میں ہوں، اور ان کے پاس جان بچانے کے لیے صرف حرام کا لقمہ ہے اگر سور کھاتے ہیں تو بچ جائیں گے ورنہ نہیں، اس صورت میں وہ اکل میتہ کے نظریہ کے تحت تب تک نظریہ انتخاب پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں جب تک وہ مجبوری ختم نہیں ہو جاتی۔ جب حالات معمول کے مطابق ہو جائیں تب شیعہ  پر فرض ہے کہ وہ مکتب کے حقیقی نظریہ امامت کے احیاء کے لیے کوشش کرے۔

پاکستانی تشیع اور تقیہ کا مورد

تشیع حکمران کے چناؤ کے لیے نظریہ انتصاب کا قائل ہے۔ نظریہ انتخاب کو صرف مجبوری کے ایام میں اختیار کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں شیعہ واقعی تقیہ کی حالت میں ہے؟ کیا سب شیعوں کو ہی جان کا خطر ہ ہے؟ کیا سب شیعہ علماء ہی شیخ باقر النمرؒ یا شیخ زکزاکی والی زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس ووٹ ڈالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے؟ اگر وہ نظریہ انتصاب کے مطابق اجتماعی تحرک انجام دیں تو کیا ان کا قتل عام ہو جاۓ گا؟ معلوم ہوتا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بہت سی دیگر اقلیتیں پاکستان میں ایسی ہیں جو اپنے اپنے رہبر کی پیروی کرتی ہیں اور قوت رکھتی ہیں۔ ان کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے کسی سیاسی حکمران کی حمایت نہیں کرنی پڑتی۔ تشیع نے جتنا وقت تقیہ میں گزارا ہے اور اپنے اعتقادات کا تحفظ کیا ہے ایسی کوئی بھی آفت پاکستان میں نہیں پڑی کہ اگر وہ نظریہ انتخاب کو ترک کر دے تو اس کو ختم کر دیا جاۓ گا۔ کیونکہ جس دلیل کے تحت تشیع ۱۲ اماموں کے دور میں نظریہ انتصاب پر ڈٹا رہا ہے اسی دلیل سے آج بھی ڈٹ کر کھڑا ہو سکتا ہے۔ تشیع نے اماموں کے دور میں کسی بھی انتخابی یا آمر حکمران کی اطاعت نہیں کی صرف ان اماموں کی اطاعت کی جن کو اللہ تعالی نے معاشروں کا حقیقی رہبر و رہنما بنایا ہے۔ تشیع نظریہ انتصاب پر ایسے حالات میں ڈٹا رہا ہے جب امام کا نام لینے والا قتل کر دیا جاتا۔ لیکن آج تشیع کے لیے حالات کھل چکے ہیں وہ امامت اور انتصاب کی بات کر سکتا ہے۔

ولایت فقیہ کا نظام اور امامت

جیسا کہ بیان ہوا کہ ولایت فقیہ وہ پھول ہے جو امامت کی سرزمین پر اگا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرتا ہے کہ آپ نے ولی فقیہ کو امام سے ملا دیا تو جواب یہ ہے کہ اچھی  بات ہے کہ ولی فقیہ کو امام سے ملا رہے ہیں۔ غیبت کے دور میں وہ شخص حاکم ہے جو امام سے قریب ترین ہے۔ اعتراض تو تب کرنا چاہیے تھا اگر امامت سے نہ ملاتے، امیر شام سے ملاتے، یا کسی دیگر طاغوتی نظام سے اس کو ملاتے۔ اگر کوئی شخص اپنے افعال، کردار، علم و عمل میں امام سے قریب ہے وہ تو زیادہ حقدار ہے حکمرانی کے لیے، بجاۓ ان افراد کے جو امام سے کسی بھی قسم کی مشابہت نہیں رکھتے۔ نیابت و ولایت فقیہ کا نظام ہے ہی اس لیے کہ ہم حقیقی امام کی امامت و حکومت کے لیے آمادہ ہو سکیں۔ نیابت کا نظام انسانیت کو نشو و نما دینے کے لیے ہے۔ ان چالیس سالوں میں اس نظام نے کسی بھی محاذ پر شکست نہیں کھائی۔ اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنوں نے لگاتار مسلسل کوششیں کیں لیکن یہ نظام شکست نا پذیر رہا۔ اگر کہیں زد پہنچی ہے تو اپنوں کی طرف سے ان منافقین کی طرف سے جو دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اندر سے ہی نظام سے دشمنی کر رہے ہیں۔ یہ وہ شہوانی طبقہ اور جاہل طبقہ ہے جو دین پر عمل تو کرتا ہے لیکن دین کا شعور نہیں رکھتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو غافل اور سست لالچی طبقہ ہے جو ہر دور میں ہی رہا جس نے امیرالمومنینؑ کی حکومت کو زد پہنچائی۔

نائب امام کے وظائف

امیرالمومنینؑ نے مالک اشترؓ کو مصر کی طرف روانہ کیا اور اپنی نیابت میں ان کو حکومت عطا کی۔ مالک اشترؓ مصر میں صرف فتوی دینے میں نائب نہ تھے بلکہ حکومت میں نائب تھے۔ مصریوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ نائب کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ امامت کی نیابت میں معاشروں کی مدیریت کرے۔ امر و نہی کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے باطل کو دباۓ یا ختم کرنے کی کوشش کرے، دین کی طرف دعوت دے یہ سب کام نائب کے ذمہ ہیں۔ نائب کی یہ ذمہ داریاں صرف زمانہ ظہور میں نہیں ہے بلکہ زمانہ غیبت میں بھی اللہ تعالی نے معاشروں کی مدیریت کے لیے یہی تدبیر رکھی ہے۔ غیبت سے پہلے جو نظام موجود تھا وہی نظام آج بھی موجود ہے۔ ولایت فقیہ پر اعتراض کرنے والوں کا یہ کہنا کہ آپ نے نیابت کہاں سے لائی ہے؟ نیابت ہم نے نہیں لائی یہ تو پہلے سے ہی موجود ہے۔ امیرالمومنینؑ کی حکومت میں تمام اسلامی ممالک کی طرف امام نے اپنے والیوں کو بھیجا۔ نیابت سے ہی اسلامی حدود کی حفاظت کرنا ممکن ہے۔ آج فرق صرف اتنا ہے کہ اصل امیر جس نے نائب مقرر کرنے تھے وہ پردہ غیبت میں ہیں۔ کیا غیبت آنے کی وجہ سے سارا نیابتی نظام ہی ختم ہو جاۓ گا؟ مثلا اگر امیرالمومنینؑ کے دور میں امام کوفہ میں دکھائی نہ دیں تو کیا مصر والوں پر مالک اشترؓ کی اطاعت کرنا ضروری نہیں رہے گا؟ کیا مصر والے مالکؓ کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی چونکہ امیرالمومنینؑ کوفہ میں غائب ہو گئے ہیں اور دکھائی نہیں دے رہے تو ہم بھی آپ کی اطاعت نہیں کریں گے؟ ہرگز نہیں! کیا ان حالات میں خود مالکؓ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ امام علیؑ کوفہ میں نظر نہیں آ رہے تو لذا میری اطاعت اب کوئی نہ کرے حکومت بے شک معاویہ لے لے۔ یا مالکؓ پہلے سے زیادہ شدت سے حکومت اپنے پاس رکھین گے تاکہ امام جب تشریف لائیں تو ان کو زیادہ مشکل پیش نہ آۓ۔ ان کے لیے معاشروں میں آمادگی پیدا کی جاۓ۔ پس جس طرح سے اس دور میں نائب امام علیؑ کی ذمہ داریاں تھیں آج بھی نائب امام زمانہؑ کی وہی ذمہ داریاں ہیں۔ 

نیابت کے نظام کی ترقی

شیعہ تاریخ بھر میں مظلوم رہا ہے۔ کئی دہائیاں شیعہ نے تقیہ میں گزاری ہیں۔ اس لیے شیعی تفکرات و نظریات نے آہستہ آہستہ ترقی کی۔ زمانہ شیعہ کے لیے کھلتا گیا اور مباحث بعد میں ابھرتی رہیں۔ نیابت کے نظریہ نے بھی اسی طرح سے ترقی کی۔ ایک دور تھا جس میں صرف فتوی کی حد تک  امام کے نائب مقرر ہوتے تھے۔ ان ادوار میں خود امام کے لیے حکومت کی راہ ہموار تھی اور نا ہی ان کے نائبین کے لیے۔ آئمہ معصومینؑ فتوی دینے کی حد تک اپنے نائب مقرر فرماتے، مگر یہ کہ کسی علاقے میں شیعہ کے لیے ماحول آسودہ ہو وہاں پر نائبین کو حکم دیتے کہ ان افراد کی مدیریت کریں۔ یہ دور ایک عرصہ تک رہا۔ بعد کے ادوار میں تشیع نے ایک حد تک ترقی کی اور قضاوت کے باب میں علماء تشیع نیابت کی ذمہ داریاں پوری کرنے لگے۔ اس دور میں لوگوں کے درمیان مسائل کا حل کرنا، ان کے جھگڑوں میں قضاوت کرنا اور شیعوں کے باہمی اختلافات کو دور کرنا نائبین امام کے اختیار میں تھا۔ علماء تشیع نے کئی حدود کو اجراء کیا، کئی گاؤں اور قصبوں کی عملی طور پر مدیریت انہیں علماء کے ہاتھ ہوتی۔ نیابت کے نظریہ میں مزید ترقی ہوئی اور آج معاشروں کی رہبریت کے باب میں نیابت کی بحث ہونے لگی۔ یہ وہ دور ہے جب تشیع کے لیے تقیہ ختم ہو چکا ہے، شیعہ افکار و نظریات عمومی محافل میں بحث ہونے لگی ہیں۔ امام خمینیؒ نے پہلی مرتبہ نیابت کے نظام کو سیاست کے باب میں عملی طور پر نافذ کیا۔ نیابت کا نظام آئمہ معصومینؑ کی طرف سے تشکیل شدہ نظام ہے۔ 

نائب امام کی کی نیابت سے مراد

نائب امام جامع الشرائط فقیہ کی زمانہ غیبت میں ذمہ داری کیا ہے؟اس کا  جواب یہ ہے کہ نائب کا کام بھی وہی ہے جو امام کا کام ہے۔ لیکن اس نے وہی کام نیابت میں کرنا ہے۔ فقیہ کا کام صرف فتوی اور قضاوت کرنا نہیں ہے بلکہ امت کی رہبری کرنا بھی فقیہ کی ذمہ داری ہے۔ جس دلیل سے فقہاء فتوی دینے اور قضاوت کرنے میں نائب ہیں اسی دلیل سے رہبریت میں بھی نائب ہیں۔ البتہ نائب کی ذمہ داری کیا ہے اور امت کا نائب کے مدمقابل کیا وظیفہ ہے؟ یہ ایک فقہی بحث ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ولایت فقیہ کو ہر دو علم میں بحث کیا جاتا ہے۔ ولایت فقیہ جب کلام میں ثابت ہو جاتی ہے تب اس کے ذیل میں فقہ میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ولی فقیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور امت کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اگر پہلی بحث نہ ہو تو دوسری بحث جو فقہ میں مطالعہ ہوتی ہے وہ بھی وجود میں نہیں آتی۔ علم کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم عوام کسی کو بھی اپنے اوپر حکومت کرنے کا حق نہیں دے سکتے۔ کیونکہ یہ حق خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے کہ کسی کو اپنے اوپر حاکم بنا لیں۔ اسی طرح سے فتوی دینے کا حق ہے۔ ہم ووٹنگ کے ذریعے کسی کو مفتی نہیں بنا سکتے۔ نا ہی عوام کی اکثریت سے کوئی شخص قاضی بن سکتا ہے۔ بلکہ یہ حق جس کو اللہ تعالی نے دیا ہے صرف وہی حاکم، مفتی یا قاضی ہو سکتا ہے۔ ولی فقیہ یا معاشرے کا حاکم ہمیشہ انتصابی ہوگا، وہ ہمیشہ منصوب ہوگا، حکومت کرنے کا حق بھی صرف اسی کو ہے اور لوگوں پر ضروری ہے کہ اس کی اطاعت کریں۔ تقلید صرف فتوی کے باب میں ہے۔ ولی فقیہ فتوی نہیں دیتا بلکہ حکم دیتا ہے۔ 

اصول دین اور ولایت فقیہ

لوگوں پر حکمران و امام بنانا اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے، زمانہ ظہور میں بھی یہ ذمہ داری اللہ تعالی کی ہے اورزمانہ غیبت میں بھی۔ اگر حاکم بنانا فعل الہی ہے تو زمانہ ظہور میں بھی کلامی مسئلہ ہے اور زمانہ غیبت میں بھی کلامی مسئلہ ہے۔ لذا جو لوگ ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ نہیں سمجھتے در اصل وہ امامت کو بھی کلامی مسئلہ نہیں سمجھتے۔ کیونکہ معیار ایک ہونا چاہیے جو معیار زمانہ ظہور میں ہے وہی معیار زمانہ غیبت میں بھی ہے۔ خود امامت کے بھی دو رخ ہیں۔ امام کا منصوب من اللہ ہونا فعل الہی ہے اور کلامی مسئلہ ہے۔ جبکہ امام کے وظائف کی بحث فقہی بحث ہے۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ ہے۔ خود ولی فقیہ کا نائب امام ہونا اور حاکم الہی ہونا کلامی مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے وظائف کیا ہیں؟ یہ فقہی بحث ہے۔ یہاں پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ولایت فقیہ کو کلامی مسئلہ مان لیں تو پھر اصول دین چھ ہونے چاہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے ایک مسئلہ کلامی ہو لیکن اصول دین میں سے نہ ہو۔ کیونکہ توحید، نبوت، اور امامت کی بہت سی جزوی ابحاث ہیں جو علم کلام میں بحث کی جاتی ہیں لیکن وہ اصول دین میں سے نہیں ہیں۔ نبوت کو اگر توحید کی جہت سے دیکھیں تو توحید اصل ہے اور نبوت جزء ہے۔ امامت کو اگر نبوت کی جہت سے دیکھیں تو یہاں نبوت اصل بن جاتی ہے اور امامت جز۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ اور امامت کی نسبت ہے۔ ولایت فقیہ جز ہے اور امامت اصل ہے۔ ولایت فقیہ اصول دین میں سے ہے اور نا اصول مذہب میں سے ہے۔ لیکن پھر بھی کلامی موضوع ہے۔ جس طرح سے توحید کے جزوی مسائل اگرچہ اصول دین نہیں ہیں مثلا قبر، حشر، پل صراط، برزخ وغیرہ کی ابحاث علم کلام میں آتی ہیں لیکن پھر بھی کلامی مسائل ہیں۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۶۔

منابع:

منابع:
1 مائدہ: ۶۷۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۴۳تا۱۴۶۔
Views: 54

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ کی ضرورت
اگلا مقالہ: خوارج کے نظریات اور امام علی کا موقف