loading

سیکولرازم کی حقیقت

تحریر: سید محمد حسن رضوی


اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کی آبادکاری اور اس کے انفرادی و اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جامع دین کو اتارا اور شریعت کے ذریعے سے امورِ زندگانی کو منظم کیا۔ انسان اپنی زندگی میں بے شمار خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔ ایک طرف اس کے اردگرد بڑی تعداد میں ایسی چیزیں ہیں جو اس کی زندگی کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں جبکہ دوسری طرف زندگی کی رونق و زیبائی اور کمال و کامیابی کو دینِ حق سے فکری و عملی وابستگی کو قرار دیا ۔ حیاتِ انسانی اس طرح سے رکھی گئی ہے کہ ظاہری زندگی کے دوش پر اگلے جہان کی آباد کاری و تباہی کاری رکھ دی گئی۔ جس کی ظاہری زندگی نعمتِ الہٰی کے شکر اور ایمان و عمل صالح کے قالب میں گزری وہ شخص موت کے بعد آسائشوں اور سکون و آرام میں ہو گا اور اگر کفرانِ نعمت اور گمراہی و فساد کو انجام دیا تو اگلا جہان مصیبت و تکلیف دہ زندگی کی آماجگاہ بن جائے گا۔

سیکولرازم کا لغوی معنی:

سیکولرازم، لاطینی (Latin) زبان کا لفظ ہے جوکہ لفظ (Saeculum) سے لیا گیا ہے۔ ’’سیکولر‘‘  کا لغوی معنی (Unholy) یعنی غیر مقدس کے ہیں۔ مقدس کو  (Holy) کہا جاتا ہے جس کے مقابلے میں Unholyآتا ہے۔ یہیں سے سیکولر کے لغوی معنی لا دین یا لا دینیت کے کیے گئے ہیں۔ سیکولرازم کے دیگر معانی توہین اور بے حرمتی کے بھی وارد ہوئے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی سیکولر افکار کے پیرو کسی بھی مذہب کے تقدس اور مقدس شخصیت کے احترام و تقدس کو قبول نہیں کرتے اور تقدس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

سیکولرازم کا اصطلاحی معنی:

جہاں تک اس کے اصطلاحی معانی کا تعلق ہے تو اس کی تشریح مختلف اضافہ جات کے ساتھ کی گئی ہے۔ سیکولرازم کے بانی جارج جیکب ہولیوک (1817–1906)کے مطابق سیکولر سے مراد دنیاوی امور بالخصوص سیاسی اور اجتماعی امور سے دین کو کامل بے دخل کرنا ہے۔ غربی دنیا میں کلیسا کی شکست اور سائنسی انقلاب کی بناء پر معاشرے میں مختلف تفکرات اٹھے جن میں سے زیادہ مقبولیت اور تاثیر سیکولر طرزِ تفکر کو حاصل ہوئی۔ کلیسا کے ظلم وستم، عوام الناس کے استحصال ، فرسودہ نظریات ، علم اور ایجادات کے انکار اور جبری اقتدارکی بناء پر لوگ چرچ اور کلیسا سے متنفر ہو گئے اور یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ اپنے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی معاملات سے دین کو بے دخل کر دیا جائے اور عقل و دانش کو مسلط کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ کلیسا کے باطل افکار اور ظالمانہ روش و اقتدار کی نفی کی جاتی معاشرے نے کامل دین سے ہی رخ پھیرنا شروع کر دیا۔سیکولراز م کا مختلف معاشروں اور کمیونٹیز سے شدید ٹکراؤ رہا ہے جس کی بناء پر اس کے معانی بھی اسی فضاء کے مطابق ڈھال پر پیش کیے گئے ہیں۔ ذیل میں چند معانی پیش کیے جاتے ہیں لیکن اگر دقت کریں تو واضح نظر آئے گا کہ سب معانی میں ایک اصلی  وحقیقی معنی کو بیان کر رہے ہیں اور وہ ’’دین کو سیاست سے جدا کرنا ‘‘ اور سیاسی و اجتماعی امور میں دین کو کامل طور پر بے دخل قرار دینا ہے۔

پہلا معنی: دین کی سیاست سے جدائی

جارج  جیکب کا تعلق ایک مذہبی عیسائی گھرانے سے تھا۔ اس کی نشوونما دینی ثقافت کے اندر ہوئی۔ مذہبی لوگوں کی بے دینی اور اوجِ کمال کی دنیا داری نے جارج کو دین سے متنفر کر دیا اور وہ گمراہی و ضلالت کا شکار ہو کر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ہی کا منکر ہو گیا اور منہ پھٹ اور بے لاگ زبان ہونے کی وجہ سے دین کی اعلانیہ توہین کیا کرتا۔ اس نے شدت سے یہ نعرہ بلند کیا کہ سیاست اور اجتماعی دنیا میں کوئی خدا نہیں ہے اور کوئی دین معاشرے کے سیاسی و اجتماعی امور کے لیے آیا ہے۔ جارج جیکب نے ۱۸۵۱ء میں اس نظریہ کو پیش کیا اور اس طرح وہ سیکولرازم کا بانی کہلایا اور اپنے ان نظریات کی وجہ سے اس نے کلیسا کی رہی سہی طاقت کو بھی ختم کر دیا ۔اس کے نظریے بنیاد اس اصول پر تھی کہ دین ہر شخص کا ذاتی اور شخصی مسئلہ ہے، اگر کسی نے اللہ تعالیٰ کو ماننا ہے تو وہ اپنی شخصی زندگی میں جو عبادت اور پرستش کرتا ہے کرے ہمیں اس کے اس عمل سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لیکن وہ سیاسی اور اجتماعی امور میں دین کو دخل نہیں دے سکتا۔ یہاں سے جارج جیکب اور بعض مفکرین نے سیکولرازم کی تعریف ’’ سیاست سے دین کی جدائی‘‘ کے عنوان سے کی۔ جارج جیکب شدت کے ساتھ الحاد اور لا دینیت کی آواز کو بلند کیا  اور آشکار اللہ تعالیٰ اور دین کا انکار کرتا۔ یہ تحریک آغاز میں قوت کی حامل نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ اس کو معاشرے میں پذیرائی حاصل ہوئی اور مختلف شعبہ جاتِ زندگی نے اس نظریے کو اختیار کرنا شروع کر دیا۔

دوسرا معنی:معاشرے پر عقل کی حاکمیت

اسلامی معاشروں میں سیکولرازم کو مختلف تعلیمی اور سیاسی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ اس تفکر کے نتیجے میں اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی ہر کوئی کوشش کر سکتا ہے۔ اسلامی ممالک میں دین اسلام سے مسلمانوں کے والہانہ لگاؤ کی بناء پر سیکولر ازم کو اپنا روپ اور تشریح تبدیل کرنا پڑی ۔ لہٰذا برصغیر میں اس گمراہ کن نظریے کی آمد ’’عقل و فکر کی حاکمیت‘‘ کے معنی کی صورت میں سامنے آئی۔ برصغیر میں سیکولر کا معنی عقل و فکر کے نتیجے میں اپنے سیاسی و اجتماعی امور کو چلنے کے کیے گئے اور دین کے تقدس و احترام کو اپنی جگہ قائم رکھنے کی بات کی گئی ۔ حقیقت میں اس تشریح میں بھی  سیکولرازم کے اندر چھپی روحِ الحاد اس اصل کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ سیاست و معاشرتی امور کا دین سے تعلق نہیں ہے۔ ہم جب دین کے مقابلے میں عقل و فکر کو لے کر آئیں گے تو یہاں دین و عقل میں جمع کرنے کی بجائے دین پر اپنی ذاتی سوچ و فکر کو مسلط کرنے کی صورت میں نتیجہ برآمد ہو گا۔ لہٰذا عقل کے خود ساختہ معنی کر کے معاشرے کے با اختیار طبقے کی مرضی کا تسلط سیکولرازم کے سامنے آیا۔

تیسرا معنی:مفاہمت و وسعت نظری

عصرِ حاضر میں سیکولر ازم کی تشریح باہمی مفاہمت اور وسعتِ نظری کے عنوان سے کی جاتی ہے۔ عالم اسلام میں سیکولر ذہنیت کے مالک برملا طور پر کہتے ہیں کہ سیکولر کا مطلب دین مخالف نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ’’دنیاوی امور‘‘ کے ہیں۔  ہم مذہب یا دین کے مخالف نہیں ہیں اور نہ ہی دین کے اجتماعی کردار کے منکر ہیں بلکہ ہمارا یہ کہنا ہے کہ ریاست دینی نظریات اور افکار کے ذریعے نہیں چل سکتی اس لیے ریاست کے سیاسی اور اجتماعی مسائل میں کسی قسم کی دینی مداخلت نہ کی جائے۔ بقیہ ہر کوئی دین کو اختیار کرے اور معاشرے کے اندر دینی مراسم کو بجالائے اور اپنے مذہبی تشخص کے ہمراہ زندگی بسر کرے۔ اس بناء پر سیکولرازم کے طرفداروں کا کہنا ہے کہ قائد اعظم نے اپنی مختلف تقاریر میں کہا ہے کہ ہم اب آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ ان کا اس بیان سے مقصود یہ تھا کہ ہر کوئی اپنی نجی زندگی میں اپنے مذہبی اعتقادات کے مطابق زندگی بسر کرے، جس نے مسجد جانا ہے وہ مسجد بنائے اور امورِ عبادت انجام دے، اسی طرح ہندؤ مندر میں آزاد ہے اور عیسائی کلیسا و چرچ میں۔ لیکن معاشرے کے اجتماعی و سیاسی امور کسی ایک دینی فکر کے تابع نہیں ہوں گے بلکہ دنیاوی امور ہر دین و مذہب کی قید سے آزاد ہو کر انجام دیں گے۔ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ سیکولرازم کا ہمیشہ دین سے اجتماعی و سیاسی  پہلو سے شدید ٹکراؤ رہا ہے۔

پاکستان میں حالیہ دور میں سیکولر دانشوروں کی جانب سے لکھی جانے والی تحریروں میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ سیکولر ازم مذہب یا دین کا دشمن نہیں ہے اور یہ منفی پروپیگنڈہ ہے کہ سیکولرازم کا دین سے ٹکراؤ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر سیکولر کسی نہ کسی دین کا قائل ہے اور مذہبی مراسم انجام دیتا ہے۔ سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنی مذہبی اعتقادات کو دخل نہ دیا جائے بلکہ اپنی ریاستی اور اجتماعی مسائل عقل و دانش اور مفاہمت و وسعت نظری سے حل کیے جائیں۔ اگر ہم ان تحریروں میں بھی غور کریں تو معلوم ہو گا کہ سیکولرازم کا پہلا معنی اس میں بھی موجود ہے اور صرف چند الفاظ تبدیل ہیں یا زاویہِ گفتگو جدا ہے ورنہ بات وہی کی گئی ہے جو جارج جیکب نے کی تھی۔

Views: 68

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: امام مہدی کے ۳۱۳ انصار شیعہ وسنی احادیث میں
اگلا مقالہ: تحریف قرآن اور بعض علماء اہل سنت