امام مہدیؑ کے ۳۱۳ انصار شیعہ وسنی احادیث میں
تحریر: سید محمد حسن رضوی
امام مہدیؑ کے ظہور اور ان کے عدل و انصاف کے ساتھ عالمی حکومت کے قیام کا اعتقاد مسلمانوں کے بنیادی نظریات میں سے ایک ہے۔ شیعہ و سنی ہر دو قائل ہیں کہ امام مہدیؑ ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور دین اسلام کو دنیا پر غلبہ دیں گے۔ اسی طرح شیعہ و سنی منابع حدیث میں امام مہدیؑ کے ۳۱۳ اصحاب خاص کا تذکرہ معتبر احادیث میں وارد ہوا ہے۔ حتی بعض احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ تین سو تیرہ میں کتنے مرد اور کتنی خواتین ہوں گی۔ یبلا شک و شبہ امام مہدیؑ کے انصار و اعوان میں خواتین شامل ہیں لیکن یہ بات قابل تحقیق ہے کہ آیا ۳۱۳ اصحاب میں کوئی خاتون شامل ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہی تین سو تیرہ اصحاب امام مہدیؑ کے جنگوں اور آغاز حکومت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اس تحریر میں ہم امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ اصحاب سے متعلق احادیث کی سندی تحقیقی پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ تحلیلی گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا ۳۱۳ میں خواتین شامل ہیں یا نہیں۔
فہرست مقالہ
اہل سنت منابع حدیث میں ۳۱۳ کا تذکرہ:
اہل سنت منابع احادیث میں متعدد ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں امام مہدیؑ کے انصار و اعوان کا مرد ہونا ذکر ہوا ہے۔ ذیل میں چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:
پہلی حدیث
المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری کی معروف و نادر کتاب ہے جس میں انہوں نے بخاری و مسلم کی شرط اترنے والی ان احادیث کو جمع کیا ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج نہیں ہیں۔ حاکم نیشاپوری چوتھی پانچویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے بعد آٹھویں صدی ہجری سے تعلق رکھنے والے معروف رجالی شمس الدین ذہبی آئے اور انہوں نے المستدرک پر تعلیقہ لکھا اور جہاں جہاں ان کی نظر میں حاکم نے حکم لگانے میں تساہل سے کام لیا ہے وہاں تصحیح کی اور اپنی تحقیق کے مطابق حکم لگایا ہے۔ اگرچے ذہبی متشدد مانے جاتے ہیں لیکن اہل سنت میں المستدرک ذہبی کے تعلیقہ کے بغیر عموما مطالعہ نہیں کی جاتی۔ ذیل میں ہم امام مہدیؑ اور ان کے ۳۱۳ انصار سے متعلق حدیث کو المستدرک سے نقل کرتے ہیں جس کو ذہبی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ حاکم اپنی سند بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: { حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، ثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنِي عَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْمَهْدِيِّ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَيْهَاتَ، ثُمَّ عَقَدَ بِيَدِهِ سَبْعًا، فَقَالَ: ذَاكَ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ: اللَّهَ اللَّهَ قُتِلَ، فَيَجْمَعُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ قَوْمًا قُزُعًا كَقَزَعِ السَّحَابِ، يُؤَلِّفُ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَا يَسْتَوْحِشُونَ إِلَى أَحَدٍ، وَلَا يَفْرَحُونَ بِأَحَدٍ، يَدْخُلُ فِيهِمْ عَلَى عِدَّةُ أَصْحَابِ بَدْرٍ، لَمْ يَسْبِقْهُمُ الْأَوَّلُونَ وَلَا يُدْرِكُهُمُ الْآخِرُونَ، وَعَلَى عَدَدِ أَصْحَابِ طَالُوتَ الَّذِينَ جَاوَزُوا مَعَهُ النَّهَرَ؛ محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ ہم علیؑ کے پاس موجود تھے، وہاں ایک شخص نے ان سے مہدیؑ کے بارے میں سوال کیا ، امام علیؑ نے فرمایا: بہت دور ہے، پھر امام علیؑ نے سات مرتبہ اپنے ہاتھ کو بند کیا اور فرمایا: وہ (مہدیؑ) آخری زمانے میں خروج کریں گے، جب کوئی شخص خدارا خدارا کہے گا تو قتل کر دیا جائے گا، پھر اللہ تعالی مہدیؑ کے لیے ایسی جماعت جمع فرمائے گا جو بادل کے ٹکڑوں کی مانند بکھرے ہوئے ہوں گے ، اللہ ان قلوب میں ایسی الفت پیدا کرے گا کہ وہ کسی سے بھی نہیں ڈریں گے اور نہ کسی سے خوش ہوں گے، ان میں اصحابِ بدر کی تعداد کے برابر افراد داخل ہوں گے، نہ ان سے پہلے والے ان پر سبقت حاصل کریں پائیں گے اور نہ بعد والے ان کے مقام کو پہنچ سکیں گے، وہ اصحابِ طالوت جنہوں نے طالوت کے ہمراہ دریا کو پار کیا تھا کی تعداد کے برابر ہوں گے ۔}[1]حاکم نیساپوری، محمد بن عبدالله (متوفی 405 ھ)، المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص596۔ اس حدیث کی سند کے بارے میں حاکم نے لکھا ہے: هذا حديث صحيح علی شرط الشيخين ولم يخرجاه؛ یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو اپنی کتاب میں درج نہیں کیا۔[2]حاکم نیساپوری، محمد بن عبدالله (متوفی 405 ھ)، المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص596۔[3]مقدسی شافعی سلمی، یوسف بن یحیی بن علی (متوفی 685ھ)، عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ج1، ص199۔
دوسری حدیث
طبرانی نے معجم الاوسط اور معجم الکبیر میں ایک حدیث ذکر کی ہے جس میں امام مہدیؑ کے اصحاب کا تذکرہ ہے۔ طبرانی نے نقل کیا ہے:{ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُوسَى الشَّامِيُّ الْبَصْرِيُّ، ثنا سَهْلُ بْنُ تَمَامِ بْنِ بَزِيعٍ، ثنا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُبَايَعُ لِرَجُلٍ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ عِدَّةُ أَهْلِ بَدْرٍ، فَيَأْتِيهِ عَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ، وَأَبْدَالُ أَهْلِ الشَّامِ، فَيَغْزُوَهُمْ جَيْشٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ، يَغْزُوهُمْ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيَلْتَقُونَ فَيَهْزِمُهُمْ، فَكَانَ يُقَالُ: الْخَائِبُ مَنْ خَابَ مِنْ غَنِيمَةِ كَلْبٍ ؛ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رکن اور مقام کے درمیان اہل بدر کی تعداد کے برابر اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، اس کی خدمت میں اہل عراق کی جماعتیں اور اہل شام کے ابدال آئیں گے، اہل شام میں سے ایک لشکر ان سے لڑے گا یہاں تک کہ وہ لشکر جب بیداء کے مقام پر پہنچے گا تو ان سمیت زمین دھنس جائے گی، قریش میں سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہو گا جس کے ماموں بنی کلب سے ہوں گے، وہ اس سے جنگ کریں گے اور اللہ انہیں شکست دے گا ، کہا جاتا ہے: وہ شخص برباد ہوا جو کلب کی غنیمت محروم رہ گیا۔}[4]طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب (متوفی 360ھ)، المعجم الکبیر، ج23، ص295۔
اس حدیث میں متعدد جگہیں قابلِ تشریح ہیں۔ طبرانی نے اس مضمون کی بقیہ احادیث نقل کی ہیں جن سے مبہم حصوں کی وضاحت ہو جاتی ہے، جیساکہ طبرانی نے اسی حدیث کو کچھ فرق کے ساتھ معجم الکبیر میں مجاہد کی سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:{ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الصَّبَّاحِ الرَّقِّيُّ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَيَجِيئُهُ نَاسٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُجَهَّزُ لَهُمْ جَيْشًا مِنَ الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ، فَيَأْتِيهِمْ عَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ، وَيَنْشُو رَجُلٌ بِالشَّامِ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيُجَهِّزُ إِلَيْهِمْ جَيْشًا، فَيَهْزِمُهُمُ اللهُ، وَتَكُونُ الدَّائِرَةُ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ يَوْمُ كَلْبٍ، وَالْخَائِبُ مَنْ خَابَ مِنْ غَنِيمَةِ كَلْبٍ، وَيَسْتَخْرِجُ الْكُنُوزَ، وَيَقْسِمُ الْأَمْوَالَ، وَيُلْقَى الْإِسْلَامُ بِجِرَابِهِ إِلَى الْأَرْضِ، يَعِيشُ فِي ذَلِكَ سَبْعَ سِنِينَ أَوْ سِتَّ سِنِينَ ؛ ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف برپا ہو جائے گا، پھر بنی ہاشم میں سے ایک شخص مدینہ سے مکہ کی طرف خروج کرے گا اور لوگ اس کے پاس آئیں گے اور رکن و مقام کے مابین اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے جبکہ وہ ناپسند جان رہا ہو گا، پھر شام سے ان کے لیے ایک لشکر تیار کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ جب بیداء کے مقام پر پہنچیں گے تو زمین ان سمیت دھنس جائے گی ، ان ساتھ عراق والوں کی جماعتیں اور اہل شام کے ابدال مل جائیں گے، اور اہلِ شام میں سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہو گا جس کے ماموں بنی کلب سے ہوں گے ، وہ ان کے خلاف ایک لشکر آمادہ کرے گا جسے اللہ شکست دے دے گا اور ان پر شکست طاری ہو جائے گی اور وہ روزِ کلب ہو گا ، برباد ہونے والا وہ ہے جو کلب کی غنیمت سے محروم رہ گیا، وہ خزانوں کو نکالے گا اور اموال کو تقسیم کرے گا اور اس کی تلوار کی برکت سے اسلام پوری زمین پر چھا جائے گا، وہ سات سال یا چھ سال زندگی بسر کرے گا۔} [5]طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب (متوفی 360ھ)، المعجم الکبیر، ج23، ص۔
عمران بن قطان کی توثیق و تضعیف
طبرانی کی پہلی روایت کی سند صحیح ہے سوائے عمران بن قطان کے ۔ عمران بن قطان کو بعض علماء رجال نے ثقہ قرار دیا ہے اور بعض نے ضعیف۔ صاحب مجمع الزوائد ہیثمی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: رواه الطبرانی في الکبير والاوسط باختصار وفيه عمران القطان وثقه ابن حبان وضعفه جماعة وبقية رجاله رجال الصحيح ؛ اس حدیث کو طبرانی نے معجم الکبیر اور معجم الاوسط میں اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے ، اس حدیث کی سند میں عمران بن قطّان ہے جس کی وثاقت ابن حبان نے کی اور علماء رجال کی ایک جماعت نے عمران کو ضعیف قرار دیا ہے ، جبکہ اس حدیث کے بقیہ راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔[6]ہیثمی، نور الدین علی بن ابی بکر (متوفی 807 ھ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص314۔ ابن حبان کے علاوہ دیگر علماء رجال نے بھی عمران بن قطان کی توثیق کی ہے۔ ابن حجر عسقلانی ابن قطان کی توثیق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: عمران بن داور بفتح الواو بعدها راء، أبو العوام، القطان، البصری، صدوق، يهم ؛ عمران بن داوَر – وہ واؤ جس کے بعد را ہے اس پر فتحہ کے ساتھ – ابو العوام ، قطان، بصری، صدوق ہے اس کے بارے میں وہم ہے۔[7]عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر (متوفی852ھ)، تقریب التہذیب، ج1، ص429۔ عجلی ابن قطان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اسے ثقہ قرار دیتے ہیں: عمران بن داور العمی بصری ثقة ؛ عمران بن داور عمی بصری ثقہ ہے۔[8] عجلی، احمد بن عبدالله بن صالح (متوفی 261ھ)، معرفۃ الثقات من رجال اخل العلم والحدیث ومن الضعفاء وذکر مذاہبهم … Continue reading
تیسری حدیث
نعیم بن حماد کتاب الفتن میں رسول اللہ ﷺ سے صحیح السند حدیث نقل کرتے ہیں جس میں امام مہدیؑ کے انصار کا اہل بدر کی تعداد کے برابر ہونے کا تذکرہ ہے۔ نعیم بیان کرتے ہیں: { حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ الْمَقْدِسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ تَحَازُبُ الْقَبَائِلِ، وَعَامَئِذٍ يُنْتَهَبُ الْحَاجُّ، فَتَكُونُ مَلْحَمَةٌ بِمِنًى، فَيَكْثُرُ فِيهَا الْقَتْلَى، وَتُسْفَكُ فِيهَا الدِّمَاءُ حَتَّى تَسِيلَ دِمَاؤُهُمْ عَلَى عَقَبَةِ الْجَمْرَةِ، حَتَّى يَهْرُبَ صَاحِبُهُمْ، فَيُؤْتَى بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ فَيُبَايِعُ وَهُوَ كَارِهٌ، وَيُقَالُ لَهُ: إِنْ أَبَيْتَ ضَرَبْنَا عُنُقَكَ، فَيُبَايِعُهُ مِثْلُ عِدَّةِ أَهْلِ بَدْرٍ، يَرْضَى عَنْهُ سَاكِنُ السَّمَاءِ، وَسَاكِنُ الْأَرْضِ؛ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ذو القعدہ میں قبائل ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اس سال حاجی کو اٹھا لیا جائے گا، پھر منَی کے مقام پر سخت جنگ ہو گی جس میں کثیر لوگ قتل ہو جائیں گے اور وہاں اتنا خون بہایا جائے گا کہ ان کا خون عقبہ جمرہ|عقبہِ جمرہ پر بہنے لگے گا ، یہاں تک کہ ان کا صاحب بھاگ جائے گا ، پھر اسے رکن اور مقام کے درمیان لایا جائے گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی جبکہ وہ ناپسند جان رہے ہوں گے، انہیں کہا جائے گا: اگر آپ نے انکار کیا تو ہم آپ کی گردن اڑا دیں گے ، پھر اہل بدر کی تعداد کے برابر افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ، ان سے آسمان کے مکین اور زمین کے رہنے والے سب راضی ہوں گے۔}[9] مروزی، نعیم بن حماد (متوفی 288ھ)، کتاب الفتن، ج1، ص211۔
سند حدیث کی تحقیق
نعیم بن حماد کی نقل کردہ روایت میں درج ذیل راوی وارد ہوئے ہیں جن کی وثاقت کا بیان پیش خدمت ہے:
1۔ عبد الملک بن ابی سلیمان : آپ کا شمار صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راویوں میں ہوتا ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں عبد الملک کی توثیق اس طرح سے بیان کی ہے: عبدالملک بن ابی سلیمان میسرة العرزمی… المفتوحة صدوق ؛ عبد الملک بن ابی سلیمان میسرۃ عرزمی صدوق ہیں۔[10]عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر (متوفی852ھ)، تقریب التہذیب، ج1، ص363۔ عجلی عبد الملک کی توثیق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عبد الملک بن ابی سليمان العرزمي کوفي ثقة ثبت في الحديث ؛ عبد الملک بن ابی سلیمان عرزمی ، کوفی ثقہ ہیں ، حدیث میں ثابت ہیں۔[11]عجلی، احمد بن عبدالله بن صالح (متوفی 261ھ)، معرفۃ الثقات من رجال اہل العلم والحدیث ومن الضعفاء وذکر مذاہبهم … Continue reading ابنسعد نے ان الفاظ میں توثیق کی ہے: عبد الملک بن ابی سليمان العرزمی… وکان ثقة مامونا ثبتا ؛ عبد الملک بن ابی سلیمان عرزمی ثقہ ہیں ، قابل اطمینان ہیں ، ثابت ہیں۔[12]ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع (متوفی230ھ)، الطبقات الکبری، ج6، ص350۔ ذہبی نے عبد الملک کو حافظِ کبیر کہا ہے جیساکہ وہ لکھتے ہیں: عبد الملک بن ابی سليمان العرزمی الکوفی الحافظ الکبير؛ عبد الملک بن ابی سلیمان ، کوفی ، بہت بڑے حافظ تھے۔[13]ذہبی شافعی، محمد بن احمد بن عثمان (متوفی 748 ھ)، تذکرة الحفاظ، ج1، ص117۔
2۔ عمرو بن شعیب : یہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ابن حجر عسقلانی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : عمرو بن شعیب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص صدوق ؛ عمرو بن شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عاص صدوق ہے۔[14]عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر (متوفی 852ھ)، تقریب التہذیب، ج1، ص423۔ عجلی توثیق کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عمرو بن شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص ثقة؛ عمرو بن شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عاص ثقہ ہیں۔[15]عجلی، احمد بن عبدالله بن صالح (متوفی 261ھ)، معرفۃ الثقات من رجال اہل العلم والحدیث ومن الضعفاء وذکر مذاہبهم … Continue reading
3۔ شعیب بن محمد : ان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: شعيب بن محمد بن عبد الله بن عمرو بن العاص صدوق ثبت ؛ شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عاص سچے اور ثابت ہیں۔[16]عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر (متوفی852ھ)، تقریب التہذیب، ج1، ص267۔ ابن حبان نے شعیب بن محمد کا ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں شعیب بن محمد بن عبد اللہ ثقہ ہیں۔[17]تمیمی بستی، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد (متوفی354 ھ)، الثقات، ج6، ص437۔
4۔ عبد الله بن عمرو بن عاص : یہ عمرو بن عاص کے بیٹے تھے اور صحابی تھے ۔ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب الاصابۃ میں لکھا ہے: عبد الله بن عمرو بن العاص بن وائل …كنيته أبو محمد عند الأكثر؛ عبد اللہ بن عمرو بن عاص بن وائل … ان کی کنیت اکثر کے نزدیک ابو محمد ہے۔ [18]عسقلانی شافعی، احمد بن علی بن حجر (متوفی852ھ)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج4، ص165۔ ذہبی نے تصریح کی ہے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص صحابی تھا۔ اہل سنت صحابی کی عدالت کو ایک کلی عنوان کے تحت ثابت کرتے ہیں جسے عدالتِ صحابہ کے نظریہ سے جانا جاتا ہے۔ [19]ذہبی، محمدبن احمد(متوفی ۷۴۸ھ)، سیر أعلام النبلاء، ج ۱۷، ص ۴۶۵، رقم: ۲۳۹/۲۳۲۔
چوتھی حدیث
نعیم بن حماد نے اس حدیث کو زہری سے نقل کیا ہے جس میں امام مہدیؑ کے ۳۱۴ افراد کا ذکر وارد ہوا ہے۔ نعیم تحریر کرتے ہیں:{ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَرْوَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: يَخْرُجُ الْمَهْدِيُّ مِنْ مَكَّةَ بَعْدَ الْخَسْفِ فِي ثَلَاثِمِائَةٍ وَأَرْبَعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، عِدَّةُ أَهْلِ بَدْرٍ ؛ زہری کہتے ہیں: مہدیؑ زمین دھنسنے کے بعد مکہ سے خروج کریں گے جبکہ ان کے ساتھ تین چودہ مرد ہوں گے جوکہ اہل بدر کی تعداد کے برابر ہوں گے۔} [20]مروزی، نعیم بن حماد (متوفی288ھ)، کتاب الفتن، ج1، ص217۔
پانچویں حدیث
نعیم بن حماد نے ایک اور حدیث ان الفاظ میں نقل کی ہے:{ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: ” ثُمَّ يَظْهَرُ الْمَهْدِيُّ بِمَكَّةَ عِنْدَ الْعِشَاءِ وَمَعَهُ رَايَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَمِيصُهُ وَسَيْفُهُ، وَعَلَامَاتٌ وَنُورٌ وَبَيَانٌ …. فَيَظْهَرُ فِي ثَلَاثمِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، عِدَّةُ أَهْلِ بَدْرٍ ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں: پھر عشاء کے وقت مکہ سے مہدیؑ ظہور کریں گے اور ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کا پرچم ہو گا اور آنحضرت ﷺ کی قمیص اور تلوار ہو گی اور علامات، نور اور بیان ہو گا…. وہ اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ افراد میں ظہور کریں گے۔} [21] عثمان مروزی، نعیم بن حماد: کتاب الفتن، ج۱، ص۲۱۳۔
چھٹی حدیث
فاکہی نے اپنی کتاب اخبار مکہ میں ابن سیرین سے روایت نقل کی ہے جس میں ۳۱۳ انصار کا تذکرہ ہے۔ ابن سیرین کہتے ہیں:{ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: يُبَايَعُ الْمَهْدِيُّ بَيْنَ الْحَجَرِ وَالْمَقَامِ عَلَى عِدَّةِ أَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثِمِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ؛ ابن سیرین کہتے ہیں: حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان مہدیؑ کے ہاتھوں بیعت لی جائے گی جن کی تعداد اہل بدر کے تین سو تیرہ کے برابر ہو گی۔}[22] فاکہی، محمد بن اسحاق بن عباس، اخبار مکۃ فی قدیم الدہر و حدیثہ، ج۱، ص۴۶۹۔
ساتویں حدیث
مقدسی نے اپنی کتاب عقد الدرر فی اخبار المنتظر میں روایت نقل کی ہے جس میں امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ انصار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:{ ثُمَّ قاَلَ (علیهالسّلام): فیجمع الله (عزّوجلّ) أَصْحَابَهُ عَلَی عَدَدِ أَهْلِ بَدْرٍ، وَعَلَی عَدَدِ أَصْحَابِ طَالُوْتَ، ثَلَاثُمِائَة وَثَلَاثَة عَشَرَ رَجُلاً … ؛ پھر اللہ عز و جل اہل بدر اور اصحابِ طالوت کی تین سو تیرہ تعداد کے برابر ان کے اصحاب جمع فرما دے گا۔} [23] شافعی سلمی، یوسف بن یحیی بن علی، عقدالدررفی اخبار المنتظر، ج۱، ص۱۶۱۔
آٹھویں حدیث
مقدسی نے اسی طرح سے اپنی کتاب عقد الدرر میں ایک اور روایت اس طرح سے نقل کی ہے:{ وَقِیْلَ: إِنَّهُ یَخْرُجُ مِنْ وَادٍ بِأَرْضِ الشَّامِ…، وَیَکُونُوْنَ عَلَی عَدَدِ أَهْلِ بَدْرٍ، ثلاثمائة وثلاثة عَشَرَ رَجُلاً، ثُمَّ تَجْتَمِعُ إِلَیْهِ الْمُؤْمِنُونَ ؛ اور کہا جائے گا: وہ سر زمینِ شام کی ایک وادی سے خروج کرے گا … وہ اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ ہو گی، پھر ان کے لیے مؤمنین جمع ہو جائیں گے۔} [24] شافعی سلمی، یوسف بن یحیی بن علی، عقدالدرر فی اخبار المنتظر، ج۱، ص۱۵۰۔ ان روایات کے مطابق امام مہدیؑ کے انصار کی تعداد کی ۳۱۳ ذکر کی گئی ہے جو سب کے سب مرد ہوں گے۔ ان احادیث میں کسی خاتون کا نام نہیں لیا گیا یا اس کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا۔ البتہ طبرانی نے اپنی کتاب معجم الاوسط میں رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام مہدی کے انصار کی تعداد ۳۱۴ بیان ہوئی ہے اور اس میں ایک خاتون کے ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس بارے میں طبرانی نقل کرتے ہیں:{ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: نَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَسِيرُ مَلِكُ الْمَشْرِقِ إِلَى مَلِكِ الْمَغْرِبِ فَيَقْتُلُهُ، ثُمَّ يَسِيرُ مَلِكُ الْمَغْرِبِ إِلَى مَلِكِ الْمَشْرِقِ فَيَقْتُلُهُ، فَيَبْعَثُ جَيْشًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ، ثُمَّ يَبْعَثُ جَيْشًا فَيَسْبِي نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، فَيَعُوذُ عَائِذٌ بِالْحَرَمِ، فَيَجْتَمِعُ النَّاسُ إِلَيْهِ كَالطَّائِرِ الْوَارِدَةِ الْمُتَفَرِّقَةِ حَتَّى تُجْمَعَ إِلَيْهِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَأَرْبَعَ عَشْرَ فِيهِمْ نِسْوَةٌ، فَيَظْهَرُ عَلَى كُلِّ جُبَارٍ وَابْنِ جُبَارٍ، وَيُظْهِرُ مِنَ الْعَدْلِ مَا يَتَمَنَّى لَهُ الْأَحْيَاءُ أَمْوَاتَهُمْ، فَيَحْيَا سَبْعَ سِنِينَ، فَإِنْ زَادَ سَاعَةً فَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، ثُمَّ مَا تَحْتَ الْأَرْضِ خَيْرٌ مِمَّا فَوْقَهَا ؛ ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشرق کا بادشاہ مغرب کے بادشاہ کی طرف جائے گا اور اسے قتل کر دے گا، پھر مغرب کا بادشاہ مشرق کے بادشاہ کی طرف بڑھے گا اور اسے قتل کر دے گا، پھر وہ مدینہ کی طرف ایک لشکر بھیجے گا جہاں زمین ان سمیت دھنس جائے گی، پھر وہ ایک لشکر بھیجے گا جو مدینہ کے لوگوں کو قیدی بنا لے گا اور پناہ لینے والا حرم میں اس سے پناہ لے گا، پھر لوگ اس کی طرف اس طرح جمع ہو جائیں گے جیسے آنے والے بکھرے ہوئے پرندے ، حتی ان کے لیے تین سو چودہ افراد جمع کر دیئے جائیں گے جن میں بعض خواتین بھی ہوں گی، وہ ہر ظالم و جبار اور فرزندِ ظلم و جبر پر غلبہ حاصل کریں گے اور عدالت کے ساتھ اس کو ظاہر کریں گے جس کی تمنا زندہ اپنے مُردوں کے لیے کیا کرتے تھے، وہ سات سال زندہ رہے گا، اگر مدتِ عمر بڑھ جائے تو چودہ سال رہیں گے، جو زمین کے نیچے ہے وہ اس سے بہتر ہو گا جو زمین کے اوپر ہے۔}[25] طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الاوسط، ج۵، ص۳۳۴۔ ہیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:{ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَهُوَ مُدَلِّسٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ؛ طبرانی نے حدیث کو معجم الاوسط میں نقل کیا ہے، اس حدیث کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہے جوکہ مدلس ہیں اور حدیث کے باقی راوی ثقہ ہیں۔}[26] ہیثمی، نورالدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۷، ص۳۱۵۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے قابل اشکال ہے جیساکہ ہیثمی نے تصریح کی ہے ۔ نیز اس کے علاوہ وہ تمام احادیث ہیں جن میں خواتین کا تذکرہ وارد نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ تنہا روایت ان معتبر اور مقبول احادیث سے متعارض ہے اس لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
شیعہ منابع حدیث
اس مضمون کی احادیث شیعہ منابع روائی میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ اس کثرت کے پیش نظر ان کی سندی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس معنی پر مشتمل ایک روایت کی سندی تحقیق ہم پیش کریں گے اور اس کے بعد اس مضمون پر مشتمل دیگر احادیث کو بغیر سندی تحقیق نقل کریں گے:
پہلی حدیث
مرحوم شیخ صدوق نے اپنی سند سے صحیح حدیث نقل کرتے ہیں:{ وَبِهَذَا الْاِسْنَادِ (حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَان) عَنْ اَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ قَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیهالسّلام) سَیاْتِی فِی مَسْجِدِکُمْ ثَلَاثُمِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا یعْنِی مَسْجِدَ مَکَّةَ یعْلَمُ اَهْلُ مَکَّةَ اَنَّهُ لَمْ یلِدْهُمْ آبَاؤُهُمْ وَلَا اَجْدَادُهُمْ، عَلَیهِمُ السُّیوفُ مَکْتُوبٌ عَلَی کُلِّ سَیفٍ کَلِمَةٌ تَفْتَحُ اَلْفَ کَلِمَةٍ فَیبْعَثُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَ تَعَالَی رِیحاً فَتُنَادِی بِکُلِّ وَادٍ هَذَا الْمَهْدِی یقْضِی بِقَضَاءِ دَاوُدَ وَسُلَیمَانَ (علیهماالسّلام) وَلَا یرِیدُ عَلَیهِ بَینَةً؛ ابان بن تغلب کہتے ہیں ، امام صادقؑ فرماتے ہیں: عنقریب تمہاری مسجد میں تین سو تیرہ مرد آئیں گے، یعنی مسجدِ مکہ ، اہل مکہ جانتے ہیں کہ نہ ان کے آپاء نےأ نہیں جنا ہے اور ان کے اجداد نے، ان کے کندھوں پر تلواریں ہوں گی، ہر تلوار پر ایک ایسا کلمہ لکھا ہو گا جو ایک ہزار کلمات کو کھولتا ہو گا، بھر اللہ تبارک و تعالی ایک ہوا بھیجے گا جو ہر وادی میں جا کر پکارے گی: یہ مہدیؑ ہیں جو داؤدؑ اور سلیمانؑ کی طرح قضاوت کریں گے اور اس فیصلے پر گواہ کا مطالبہ نہیں کریں گے۔}[27] صدوق، محمد بن علی بن حسین، کمال الدین و تمام النعمہ، ص۶۷۱۔ [28] محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرہ، ج۲، ص۳۴۴۔
حدیث کی سندی تحقیق
شیخ صدوق کی بیان کردہ حدیث کی سند میں درج ذیل راوی وارد ہوئے ہیں جن کی وثاقت و عدم وثاقت کو علماء جرح و تعدیل کے بیانات کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ محمد بن الحسن بن ولید : نجاشی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: شيخ القميين وفقيههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عين… ؛ محمد بن حسن بن ولید قمیون کے شیخ ، ان کے فقیہ بزرگوار اور ان میں سب سے بڑھ کر اور ان کی بڑی شخصیت ہیں، ثقہ ثقہ ہیں۔[29] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۸۳۔ شیخ طوسی آپ کی توثیق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جليل القدر، عارف بالرجال، موثوق به… جليل القدر، بصير بالفقه، ثقة ؛ محمد بن حسن بن ولید انتہائی جلیل القدر، راویوں کو جاننے والے، قابل اعتماد ، جلیل القدر ، فقہ میں مہارت کی حامل ثقہ شخصیت ہیں۔[30] طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۳۷۔
2۔ محمد بن الحسن بن فروخ الصفار : آپ نے بارے میں نجاشی نے تحریر کیا ہے: کان وجها فی أصحابنا القميين، ثقة، عظيم القدر، راجحا، قليل السقط فی الرواية ؛ محمد بن حسن بن فروخ صفار ہمارے قمی اصحاب و فقہاء میں بڑی شخصیت تھیں، ثقہ و قابل اعتماد ہیں، عظیم قدر و منزلت کے مالک ہیں اور دوسروں کے مقابلے میں برتر شخصیت ہیں، روایت میں بہت کم آپ سے ساقط ہوا ہے۔[31] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۵۳۔
3۔ یعقوب بن یزید : آپ کے بارے میں نجاشی لکھتے ہیں: وکان ثقة صدوقا… ؛ یعقوب بن یزید ثقہ اور سچے ہیں۔[32] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۴۵۰۔ شیخ طوسی آپ کی توثیق ان الفاظ میں کرتے ہیں: كثير الرواية، ثقة؛ یعقوب بن یزید کثیر احادیث نقل کرنے والے قابل اعتماد و ثقہ ہیں۔[33] طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۶۴۔
4۔ محمد بن ابی عمیر : آپ کا شمار عظیم ترین شیعہ راویوں میں ہوتا ہے اور کشی نے آپ کو اصحاب اجماع میں شمار کیا ہے۔ علماء جرح و تعدیل کا آپ عدالت و وثاقت پر اتفاق ہے۔ نجاشی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: جليل القدر، عظيم المنزلة فينا وعند المخالفين… ؛ محمد بن ابی عمیر ہماری نظر میں اور مخالفین کی نگاہ میں جلیل القدر اور عظیم منزلت کے حامل ہیں۔[34] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۳۲۶۔ شیخ طوسی اپنی کتاب الفہرست میں لکھتے ہیں: وکان من أوثق الناس عند الخاصة والعامة، وأنسکهم نسکا، وأورعهم وأعبدهم ؛ محمد بن ابی عمیر خاصہ اور عامہ کے درمیان قابل اعتماد ترین افراد میں سے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ زاہد و پارسا ، سب سے زیادہ گناہوں اور محرمات سے اجتناب کرنے والے اور سب سے زیادہ عبادت گزار ہیں۔[35] طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۲۱۸۔
5۔ ابان بن عثمان الاحمر : آپ کو مرحوم کشی نے اصحاب اجماع میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ کشی لکھتے ہیں: أجمعت العصابة علی تصحيح ما يصح من هؤلاء وتصديقهم لما يقولون وأقرّوا لهم بالفقه، من دون اولئک الستة الذین عددناهم وسميناهم، ستة نفر: جميل بن دراج. وعبد الله بن مسکان، وعبد الله بن بکير، وحماد بن عيسی، وحماد ابن عثمان، وأبان بن عثمان ؛ ہمارے اصحاب کی جماعت نے ان بزرگان کی بیان کردہ صحیح احادیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کی باتوں کی تصدیق کی ہے اور ان کے فقیہ ہونے کا اقرار کیا ہے، وہ چھ راوی جن کو ہم پہلے شمار کر چکے ہیں اور ان کے نام ہم نے ذکر کیے ہیں ان کے علاوہ مزید چھ افراد ہیں : جمیل بن درّاج ، عبد اللہ بن مسکان ، عبد اللہ بن بکیر ، حماد بن عیسی ، حماد بن عثمان اور ابان بن عثمان۔ [36] طوسی، محمد بن حسن، رجال الکشی، ص۳۷۵۔
6۔ ابان بن تغلب : نجاشی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: عظيم المنزلة فی أصحابنا، لقی علی بن الحسين، وأبا جعفر، وأبا عبدالله (عليهالسلام) وروی عنهم، وکانت له عندهم منزلة وقدم ؛ ابان بن تغلب ہمارے اصحاب میں عظیم منزلت کے مالک تھے، انہوں نے امام سجادؑ اور امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے ملاقات کی اور ان سے احادیث نقل کی ہیں، آئمہؑ کی نظر میں وہ بہت بلند منزلت و رتبہ کے حامل تھے۔[37] نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص۱۰۔ شیخ طوسی نے تحریر کیا ہے: ثقة، جليل القدر، عظيم المنزلة فی أصحابنا ؛ ابان بن تغلب ثقہ ، جلیل القدر اور ہمارے اصحاب میں عظیم منزلت و رتبہ پر فائز تھے۔[38] طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص۵۷۔ اس روایت کی سند کے تمام راوی ثقہ اور بلند قدر و منزلت کے حامل ہیں اور ان کا سلسلہ سند متصل اور مرفوع ہے جس کی بناء پر یہ حدیث معتبر اور صحیح السند شمار ہو گی۔
دوسری حدیث
اس روایت کو محمد بن ابراہیم نعمانی اپنی سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:{ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ هَؤُلَاءِ الرِّجَالِ الْأَرْبَعَةِ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ وَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُلَيْنِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ وَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى قَالَ وَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَ غَيْرُهُ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ قَالَ وَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَوْصِلِيُّ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَاشِرٍ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلَالٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ ع يَا جَابِرُ الْزَمِ الْأَرْضَ وَ لَا تُحَرِّكْ يَداً وَ لَا رِجْلًا حَتَّى تَرَى عَلَامَاتٍ أَذْكُرُهَا لَكَ إِنْ أَدْرَكْتَهَا … قَالَ فَيَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْهِ أَصْحَابَهُ ثَلَاثَمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا وَ يَجْمَعُهُمُ اللَّهُ لَهُ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ قَزَعاً كَقَزَعِ الْخَرِيف ؛ امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: اے جابر زمین کے ساتھ چمٹے رہو اور نہ اپنے ہاتھ کو حرکت دو اور نہ پاؤں کو، یہاں تک کہ تم ان علامات کو دیکھ لو جن کا میں تمہارے سامنے ذکر کرتا ہوں ، اگر تم نے ان کو پا لیا … امامؑ فرماتے ہیں: پس اللہ ان کے لیے ان کے تین سو تیر مرد اصحاب جمع کرے گا اور اللہ ان کو امامؑ کے لیے بغیر کسی وقت کے جمع فرمائے گا جیسے خزاں کے موسم میں بکھرے ہوئے بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔}[39] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ص۲۷۹۔ یہ روایت بہت سی شیعہ کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور اس کا شمار ان احادیث میں ہوتا ہے جو کاملا معتبر اور صحیح السند ہیں۔
تیسری حدیث
یہ روایت محمد بن ابراہیم نعمانی نے اپنی کتاب غیبت نعمانی میں نقل کی ہے: اَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ الرَّازِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ الْکُوفِیِّ عَنْ اِسْمَاعِیلَ بْنِ مِهْرَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی حَمْزَةَ عَنْ اَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع اَنَّهُ قَالَ: سَیَبْعَثُ اللَّه ثَلَاثَمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا اِلَی مَسْجِدٍ بِمَکَّةَ یَعْلَمُ اَهْلُ مَکَّةَ اَنَّهُمْ لَمْ یُولَدُوا مِنْ آبَائِهِمْ وَ لَا اَجْدَادِهِمْ عَلَیْهِمْ سُیُوفٌ مَکْتُوبٌ عَلَیْهَا اَلْفُ کَلِمَةٍ کُلُّ کَلِمَةٍ مِفْتَاحُ اَلْفِ کَلِمَةٍ وَ یَبْعَثُ اللَّهُ الرِّیحَ مِنْ کُلِّ وَادٍ تَقُولُ هَذَا الْمَهْدِیُّ یَحْکُمُ بِحُکْمِ دَاوُدَ وَ لَا یُرِیدُ بَیِّنَةً ؛ ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ امام صادقؑ نے فرمایا: عنقریب اللہ مکہ میں مسجد کی تین سو تیرہ مردوں کو مبعوث کرے گا ، اہل مکہ جانتے ہیں کہ وہ نہ ان کے آباء سے متولد ہوئے ہیں اور نہ ان کے اجداد سے، ان کے کندھوں پر تلواریں ہوں گے جس پر ایک ہزار کلمات لکھے ہوں گے ، ہر کلمہ سے ایک ہزار کلمہ کھلیں گے ، ہر وادی کی طرف اللہ ہوا کو بھیجے گا جو کہے گی: یہ مہدیؑ ہیں جو داودؑ کے فیصلوں کی طرح فیصلے کریں گے اور گواہی و بیّنہ طلب نہیں کریں گے۔[40] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ص۳۱۴۔
چوتھی حدیث
شیخ محمد بن ابراہیم نعمانی نے غیبتِ نعمانی میں حدیث نقل کی ہے جو معنی کے اعتبار سے شیخ صدوق نے کمال الدین میں معتبر طریق سے روایت کی ہے۔ غیبت نعمانی میں نعمانی اپنی سند ذکر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں: حَدَّثَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ أَحْمَدُ بْنُ هَوْذَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ بِنَهَاوَنْدَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ وَ مِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَمَّادٍ الْأَنْصَارِيُّ سَنَةَ تِسْعٍ وَ عِشْرِينَ وَ مِائَتَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فِي مَسْجِدٍ بِمَكَّةَ وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِي فَقَالَ يَا أَبَانُ سَيَأْتِي اللَّهُ بِثَلَاثِمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فِي مَسْجِدِكُمْ هَذَا يَعْلَمُ أَهْلُ مَكَّةَ أَنَّهُ لَمْ يُخْلَقْ آبَاؤُهُمْ وَ لَا أَجْدَادُهُمْ بَعْدُ عَلَيْهِمُ السُّيُوفُ مَكْتُوبٌ عَلَى كُلِّ سَيْفٍ اسْمُ الرَّجُلِ وَ اسْمُ أَبِيهِ وَ حِلْيَتُهُ وَ نَسَبُهُ ثُمَّ يَأْمُرُ مُنَادِياً فَيُنَادِي هَذَا الْمَهْدِيُّ يَقْضِي بِقَضَاءِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ لَا يَسْأَلُ عَلَى ذَلِكَ بَيِّنَةً ؛ ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں امام جعفر بن محمد صادقؑ کے مکہ میں مسجد ( الحرام) میں تھا جبکہ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، امامؑ نے فرمایا: اے ابان ! عنقریب اللہ تمہاری مسجد میں تین سو تیرہ مرد جمع فرمائے گا، اہل مکہ جانتے ہیں کہ انہیں نہ ان کے آباء نے جنا ہے اور نہ ان کے اجداد نے،ان پر تلواریں لٹکی ہوں گی، ہر تلوار پر اس شخص کا نام ، اس کے والد کا نام، اس کا حلیہ اور اس کا نسب تحریر ہو گا، پھر وہ یہ امر جاری کرتے ہوئے نداء دے گا، یہ مہدی ہیں جو داؤدؑ اور سلیمانؑ کی قضاوت کی طرح قضاوت کریں گے اور اس فیصلے پر کسی گواہ کو طلب نہیں کریں گے۔[41] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ص۳۱۳۔ [42] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۵۲، ص۳۶۹۔
پانچویں حدیث
شیخ صدوق نے رسول اللہ ﷺ سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے جس میں امام مہدیؑ کے اصحاب کی تعداد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں: حدثنا ابو الحسن احمد بن ثابت الدوالیبی بمدینة السلام قال: حدثنا محمد بن الفضل النحوی قال: حدثنا محمد بن علی بن عبد الصمد الکوفی قال: حدثنا علی بن عاصم، عن محمد بن علی بن موسی، عن ابیه علی بن موسی بن جعفر، عن ابیه جعفر بن محمد، عن ابیه محمد بن علی، عن ابیه علی بن الحسین، عن ابیه الحسین بن علی (علیهماالسّلام) قال: دخلت علی رسول الله (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) وعنده ابی بن کعب فقال رسول الله (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): مرحبا بک یا ابا عبدالله یا زین السماوات والارض …. یجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ مِنْ اَقَاصِی الْبِلَادِ عَلَی عَدَدِ اَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثَمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَعَهُ صَحِیفَةٌ مَخْتُومَةٌ فِیهَا عَدَدُ اَصْحَابِهِ بِاَسْمَائِهِمْ وَ اَنْسَابِهِمْ وَ بُلْدَانِهِمْ وَ صَنَائِعِهِمْ وَ کَلَامِهِمْ وَ کُنَاهُمْ کَرَّارُونَ مُجِدُّونَ فِی طَاعَتِهِ ؛ امام حسینؑ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ان کے پاس ابی بن کعب موجود تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابو عبد اللہؑ خوش آمدید، اے آسمانوں اور زمین کی زینت … اللہ عز و جل دور درازوں علاقوں سے اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ مرد جمع کرے گا ، ان کے ساتھ صحیفہ ہو گا جس پر مہر لگی ہو گی ، اس میں ان کے اصحاب کی تعداد ان کے ناموں ، ان کے انساب ، ان کے علاقوں کا بیان، ان کا وضع قطع و ظاہری خد و خال ، ان کی گفتگو اور ان کی کنیتیں لکھی ہوئی ہوں گی، وہ کرار ہوں گے اور امامؑ کی اطاعت میں انتہائی سنجیدہ اور کوشش کرنے والے ہوں گے۔[43] صدوق، محمد بن علی بن حسین، کمال الدین و تمام النعمہ، ص۲۶۴۔
چھٹی حدیث
کمال الدین میں امام سجادؑ سے روایت منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْقَمَّاطِ عَنْ ضُرَيْسٍ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ عَنْ سَيِّدِ الْعَابِدِينَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَ: الْمَفْقُودُونَ عَنْ فُرُشِهِمْ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا عِدَّةُ أَهْلِ بَدْرٍ فَيُصْبِحُونَ بِمَكَّةَ وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعاً وَ هُمْ أَصْحَابُ الْقَائِمِ ع ؛ امام سجادؑ فرماتے ہیں: اپنے بستروں سے وہ غائب ہو جائیں گے ، اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ مرد ہیں، اللہ عز و جل کا فرمان ہے: تم جہاں کہیں ہو گے اللہ تم سب کو جمع فرمائے۔[44] بقرہ: ۱۴۸۔ اور وہ اصحابِ قائمؑ ہیں۔[45] صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ص۶۵۴۔
ساتویں حدیث
محدث محمد بن ابراہیم نعمانی اپنی کتاب غیبت نعمانی میں امام باقرؑ کی روایت نقل کرتے ہیں: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ هَوْذَةَ أَبُو سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمَّادٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي الْجَارُودِ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع قَالَ: أَصْحَابُ الْقَائِمِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا أَوْلَادُ الْعَجَمِ بَعْضُهُمْ يُحْمَلُ فِي السَّحَابِ نَهَاراً يُعْرَفُ بِاسْمِهِ وَ اسْمِ أَبِيهِ وَ نَسَبِهِ وَ حِلْيَتِهِ وَ بَعْضُهُمْ نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِهِ فَيُوَافِيهِ فِي مَكَّةَ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں: قائمؑ کے اصحاب تین سو تیرہ مرد ہیں، ان میں سے بعض عجم کی اولاد ہیں جنہیں دن کے وقت بادلوں پر اٹھا کر لایا جائے گا ، وہ اپنے نام، اپنے باپ کے نام، اپنے نسب، اپنے حلیہ سے پہچانے جائیں گے، ان میں سے بعض اپنے بستر پر سو رہے ہوں گے، پھر وہ امامؑ کے ساتھ مکہ میں بغیر کسی مدت کے وعدے کے مل جائیں گے۔ [46] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ص۳۱۵۔
آٹھویں حدیث
غیبت نعمانی میں امام باقرؑ سے روایت منقول ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَّانَ الرَّازِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع أَنَّ الْقَائِمَ يَهْبِطُ مِنْ ثَنِيَّةِ ذِي طُوًى فِي عِدَّةِ أَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثِمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا حَتَّى يُسْنِدَ ظَهْرَهُ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ وَ يَهُزُّ الرَّايَةَ الْغَالِبَةَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي الْحَسَنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع فَقَالَ كِتَابٌ مَنْشُور ؛ قائمؑ ذو طوی کی پہاڑی ٹیلے سے اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ اصحاب میں تشریف لائیں گے یہاں تک کہ وہ حجر اسود سے کمر کے بل ٹیک لگائے ہوئے ہوں گے اور غلبہ پانے والے پرچم کو لہلہائیں گے۔ علی بن ابی حمزہ کہتا ہے کہ میں نے اس کا تذکرہ ابو الحسن موسی بن جعفر علیہما السلام کے سامنے کیا تو امامؑ نے فرمایا: یہ کتاب منشور یعنی نشر کی گئی کتاب ہے۔[47] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبۃ، ص۳۱۵۔
نویں حدیث
علامہ مجلسی بحار الانوار میں تفسیر عیاشی سے امام باقرؑ سے منقول حدیث کو نقل کرتے ہیں: قَالَ اَبُو جَعْفَرٍ (علیهالسّلام) لَکَاَنِّی اَنْظُرُ اِلَیهِمْ مُصْعِدِینَ مِنْ نَجَفِ الْکُوفَةِ ثَلَاثَمِائَةٍ وَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا کَاَنَّ قُلُوبَهُمْ زُبَرُ الْحَدِید ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں: گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کوفہ کے نجف سے تین سو کچھ تعداد میں آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے دل لوہے کے ٹکڑوں کی مانند ہیں۔[48] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۵۲، ص۳۴۳۔
دسویں حدیث
علامہ مجلسی بحار الانوار میں ایک اور روایت نقل کرتے ہیں: قال رَسُولُ اللَّهِ ص : یا عَلِی اِنَّ قَائِمَنَا اِذَا خَرَجَ یجْتَمِعُ اِلَیهِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا عَدَدَ رِجَالِ بَدْرٍ فَاِذَا کَانَ وَقْتُ خُرُوجِهِ یکُونُ لَهُ سَیفٌ مَغْمُودٌ نَادَاهُ السَّیفُ قُمْ یا وَلِی اللَّهِ فَاقْتُلْ اَعْدَاءَ اللَّه ؛ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے علیؑ ! ہمارے قائمؑ جب خروج کریں گے تو ان کے اردگرد اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ افراد جمع ہو جائیں گے ، جب ان کے خروج کا وقت ہو گا تو ان کی غلاف میں لپٹی تلوار ہو گی جو انہیں پکار کر کہے گی: اے ولیِ خدا قیام کیجیے اور دشمنانِ الہٰی کو قتل کریں۔[49] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۵۲، ص۳۰۴۔
گیارہویں حدیث
کتاب کفایۃ الاثر میں علی بن محمد خزاز روایت نقل کرتے ہیں: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْكُوفِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ الْآدَمِيِّ عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى إِنِّي لَأَرْجُوكَ أَنْ تَكُونَ الْقَائِمَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً فَقَالَ ع يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا مِنَّا إِلَّا قَائِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ وَ هادي [هَادٍ] إِلَى دِينِ اللَّهِ وَ لَكِنَّ الْقَائِمَ الَّذِي يُطَهِّرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِ الْأَرْضَ مِنْ أَهْلِ الْكُفْرِ وَ الْجُحُودِ وَ يَمْلَأُهَا عَدْلًا وَ قِسْطاً هُوَ الَّذِي يَخْفَى عَلَى النَّاسِ وِلَادَتُهُ وَ يَغِيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ وَ يَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ وَ هُوَ سَمِيُّ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ كَنِيُّهُ وَ هُوَ الَّذِي تُطْوَى لَهُ الْأَرْضُ وَ يَذِلُّ لَهُ كُلُّ صَعْبٍ يَجْتَمِعُ إِلَيْهِ مِنْ أَصْحَابِهِ عَدَدُ أَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ أَقَاصِي الْأَرْضِ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعاً إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فَإِذَا اجْتَمَعَتْ لَهُ هَذِهِ الْعِدَّةُ مِنْ أَهْلِ الْإِخْلَاصِ أَظْهَرَ أَمْرَهُ فَإِذَا أُكْمِلَ لَهُ الْعَقْدُ وَ هِيَ عَشَرَةُ ألف [آلَافِ] رَجُلٍ خَرَجَ بِإِذْنِ اللَّهِ فَلَا يَزَالُ يَقْتُلُ أَعْدَاءَ اللَّهِ حَتَّى يَرْضَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى ؛ عبد العظیم بن عبد اللہ حسنی کہتے ہیں میں نے امام تقیؑ سے کہا: مجھے آپؑ سے امید ہے کہ آپ اہل بیتِ محمدﷺ میں سے وہ قائم ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیساکہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی، امامؑ نے فرمایا: اے ابو القاسم! ہم میں سے کوئی نہیں ہے مگر امرِ الہٰی کو قائم کرنے والا اور دینِ الہٰی کی طرف ہدایت کرنے والا ہے، لیکن وہ قائم جس کے ذریعے اللہ عز و جل زمین کو اہل کفر و جحود سے پاک کرے گا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے پُر کر دیں گے، یہی قائمؑ وہ ہیں جن کی ولادت لوگوں سے مخفی ہو گی اور اس کی شخصیت لوگوں سے غائب ہو جائے گی اور ان کا نام ان کے لیے لینا حرام ہو گا، رسول اللہ ﷺ کے نام اور کنیت پر ان کا نام و کنیت ہو گی، یہی قائمؑ وہ ہیں زمین جن کے لیے سمٹ جائے گی اور ہر سختی ان کے سامنے جھک جائے گی، ان کے اصحاب میں سے اہل بدر کی تعداد کے برابر تین تیرہ افراد زمین کے دور دراز علاقوں سے ان کے اردگرد جمع ہو جائیں گے، یہ اللہ عز و جل کا فرمان ہے: أَيْنَ ما تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعاً إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ؛ تم جہاں کہیں ہوئے اللہ تم سب کو لے آئے گا بے شک اللہ ہر شیء پر قادر ہے۔[50] بقرہ:۱۴۸۔ جب اہل اخلاص (و وفا) میں سے اس تعداد کے برابر اصحاب ان کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے تو وہ اپنے امر (امامت) کو ظاہر کریں گے ، پھر جب ان کے لیے انصار کا حلقہ مکمل ہو جائے گا جوکہ دس ہزار افراد ہیں تو وہ اللہ کے اذن سے خروج کریں گے اور اللہ کے دشمنوں سے تب تک لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالی راضی ہو جائے گا۔[51] قمی رازی، علی بن محمد بن علی، کفایۃ الاثر فی النص علی الآئمۃ الاثنی عشر، ص۲۸۲۔ [52] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۵۱، ص۱۵۷۔
بارہویں حدیث
کمال الدین میں مفضل بن عمر امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں: عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیهالسّلام) کَاَنِّی اَنْظُرُ اِلَی الْقَائِمِ (علیهالسّلام) عَلَی مِنْبَرِ الْکُوفَةِ وَ حَوْلَهُ اَصْحَابُهُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا عِدَّةُاَهْلِ بَدْرٍ وَ هُمْ اَصْحَابُ الْاَلْوِیةِ وَ هُمْ حُکَّامُ اللَّهِ فِی اَرْضِهِ عَلَی خَلْقِهِ حَتَّی یسْتَخْرِجَ مِنْ قَبَائِهِ کِتَاباً مَخْتُوماً بِخَاتَمٍ مِنْ ذَهَبٍ عَهْدٌ مَعْهُودٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص فَیجْفِلُونَ عَنْهُ اِجْفَالَ الْغَنَمِ الْبُکْمِ فَلَا یبْقَی مِنْهُمْ اِلَّا الْوَزِیرُ وَ اَحَدَ عَشَرَ نَقِیباً کَمَا بَقَوْا مَعَ مُوسَی بْنِ عِمْرَانَ (علیهالسّلام) فَیجُولُونَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یجِدُونَ عَنْهُ مَذْهَباً فَیرْجِعُونَ اِلَیهِ وَ اللَّهِ اِنِّی لَاَعْرِفُ الْکَلَامَ الَّذِی یقُولُهُ لَهُمْ فَیکْفُرُونَ بِهِ ؛ امام صادقؑ فرماتے ہیں: گویا کہ میں قائمؑ کو منبرِ کوفہ پر دیکھ رہا ہوں، ان کے اصحاب میں سے ان کے اردگرد اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ افراد جمع ہوں گے جوکہ پرچم اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے حاکم ہوں گے ، یہاں تک کہ قائمؑ اپنے قباء میں سے مکتوب نکالیں گے جس پر سونے کی مہر سے مہر لگائی گئی ہو گی، جوکہ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے لیا گیا عہد و پیمان ہو گا، جس کی وجہ سے یہ اصحاب حضرت قائمؑ سے اس طرح تیزی سے منتشر ہو کر فرار کریں گے جیسے گونگی بھیڑیں فرار کرتی ہیں ، قائمؑ کے پاس ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا سوائے ایک وزیر اور گیارہ نقیبوں کے جیساکہ موسی بن عمرانؑ کے ساتھ اتنے سے ساتھی باقی رہ گئے تھے، وہ زمین پر گھومتے رہیں گے، لیکن وہ دیکھیں گے کہ قائمؑ کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور صورت ان کے پاس نہیں تو وہ قائمؑ کے پاس واپس چلے آئیں گے، قسم بخدا ! میں قائمؑ کی اس گفتگو کو جانتا ہوں جو وہ ان اصحاب سے فرمائیں گے اور وہ اس کا انکار کریں گے۔[53] صدوق، محمد بن علی بن حسین، کمال الدین و تمام النعمہ، ص۶۷۲۔
تیرہویں حدیث
علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں محمد بن مسلم سے روایت نقل کی ہے جس میں امام باقرؑ امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ اصحاب کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: محمد بن مسلم قال: سمعت ابا جعفر (علیهالسّلام) یقول… اِذَا خَرَجَ اَسْنَدَ ظَهْرَهُ اِلَی الْکَعْبَةِ وَ اجْتَمَعَ اِلَیهِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا وَ اَوَّلُ مَا ینْطِقُ بِهِ هَذِهِ الْآیةُ بَقِیتُ اللَّهِ خَیرٌ لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ثُمَّ یقُولُ اَنَا بَقِیةُ اللَّهِ فِی اَرْضِهِ وَ خَلِیفَتُهُ وَ حُجَّتُهُ عَلَیکُمْ فَلَا یسَلِّمُ عَلَیهِ مُسَلِّمٌ اِلَّا قَالَ السَّلَامُ عَلَیکَ یا بَقِیةَ اللَّهِ فِی اَرْضِهِ فَاِذَا اجْتَمَعَ اِلَیهِ الْعِقْدُ وَ هُوَ عَشَرَةُ آلَافِ رَجُلٍ خَرَجَ فَلَا یبْقَی فِی الْاَرْضِ مَعْبُودٌ دُونَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ صَنَمٍ وَ وَثَنٍ وَ غَیرِهِ اِلَّا وَقَعَتْ فِیهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَ وَ ذَلِکَ بَعْدَ غَیبَةٍ طَوِیلَةٍ لِیعْلَمَ اللَّهُ مَنْ یطِیعُهُ بِالْغَیبِ وَ یؤْمِنُ بِهِ ؛ جب قائمؑ خروج کریں گے: بَقِیتُ اللَّهِ خَیرٌ لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ، اللہ کا بقیہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم مؤمنین میں سے ہو، پھر وہ کہیں گے: میں اللہ کی زمین پر بقیۃ اللہ اور اس کا خلیفہ اور تمہارے اوپر اس کی حجت ہوں، ہر مسلمان انہیں یہ کہہ کر سلام کرے گا: السَّلَامُ عَلَیکَ یا بَقِیةَ اللَّهِ فِی اَرْضِهِ ،جب ان کے اردگرد حلقہ پورا ہو جائے جوکہ دس ہزار انصار ہیں تو وہ خروج فرمائیں گے، پھر زمین پر اللہ عز و جل کے علاوہ اصنام و بت وغیرہ میں سے کوئی معبود نہیں رہے گا مگر اس پر آگ برسے گی جوکہ اسے جلا دے گی ، یہ سب ایک طویل غیبت کے بعد ہو گا تاکہ اللہ جان لے کہ کون غیب کے ساتھ اس کی اطاعت کرنے والا ہے اور اس پر ایمان لانے والا ہے۔ [54] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۵۲، ص۱۹۲۔
چودہویں حدیث
کمال الدین میں ابو بصیر امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں: وبهذا الاسناد، عن الحسین بن سعید، عن ابن ابی عمیر، عن ابی ایوب، عَنِ ابْنِ اَبِی عُمَیرٍ عَنْ اَبِی اَیوبَ عَنْ اَبِی بَصِیرٍ قَالَ: سَاَلَ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ الْکُوفَةِ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع کَمْ یخْرُجُ مَعَ الْقَائِمِ ع فَاِنَّهُمْ یقُولُونَ اِنَّهُ یخْرُجُ مَعَهُ مِثْلُ عِدَّةِ اَهْلِ بَدْرٍ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا قَالَ وَ مَا یخْرُجُ اِلَّا فِی اُولِی قُوَّةٍ وَ مَا تَکُونُ اُولُو الْقُوَّةِ اَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ آلَافٍ ؛ اہل کوفہ میں سے ایک شخص نے امام صادقؑ سوال کیا : قائمؑ کے ساتھ کتنے افراد خروج کریں گے، کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ہمراہ اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ افراد نکلیں گے، امامؑ نے فرمایا: ان کے ساتھ نہیں کوئی نکلے گا سوائے قوت و طاقت والے کے، قوت و طاقت رکھںے والے یہ دس ہزار سے کم افراد ہوں گے۔[55] صدوق، محمد بن علی بن حسین، کمال الدین و تمام النعمہ، ص۶۵۴۔
پندرہویں حدیث
دلائل الامامۃ میں محمد بن جریر طبری اپنی سند سے امام باقرؑ سے روایت نقل کرتے ہیں: عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ (عَلَیهِ السَّلَامُ)، قَالَ: سَاَلْتُهُ، مَتَی یقُومُ قَائِمُکُمْ؟ وبهذا الاسناد عن ابی عبدالله جعفر بن محمد، قال: حدثنا محمد ابن حمران المدائنی عن علی بن اسباط، عن الحسن بن بشیر، عن ابی الجارود، عن ابی جعفر (علیهالسّلام)، قال: سالته، متی یقوم قائمکم؟ قَالَ: یا اَبَا الْجَارُودِ، لَا تُدْرِکُونَ. فَقُلْتُ: اَهْلَ زَمَانِهِ. فَقَالَ: وَ لَنْ تُدْرِکَ اَهْلَ زَمَانِهِ، یقُومُ قَائِمُنَا بِالْحَقِّ بَعْدَ اِیاسٍ مِنَ الشِّیعَةِ، یدْعُو النَّاسَ ثَلَاثاً فَلَا یجِیبُهُ اَحَدٌ، فَاِذَا کَانَ الْیوْمُ الرَّابِعُ تَعَلَّقَ بِاَسْتَارِ الْکَعْبَةِ، فَقَالَ: یا رَبِّ، انْصُرْنِی، وَ دَعْوَتُهُ لَا تَسْقُطُ، فَیقُولُ (تَبَارَکَ وَ تَعَالَی) لِلْمَلَائِکَةِ الَّذِینَ نَصَرُوا رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلَهُ) یوْمَ بَدْرٍ، وَ لَمْ یحُطُّوا سُرُوجَهُمْ، وَ لَمْ یضَعُوا اَسْلِحَتَهُمْ فَیبَایعُونَهُ، ثُمَّ یبَایعُهُ مِنَ النَّاسِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، یسِیرُ اِلَی الْمَدِینَةِ ؛ ابو الجارود کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے سوال کیا: آپؑ کے قائمؑ کب قیام کریں گے؟ امامؑ نے فرمایا: اے ابو الجارود! تم انہیں نہیں پا سکو گے، میں نے پوچھا: ان کے زمانے والوں کو ؟ امامؑ نے جواب دیا: ان کے زمانے کے لوگوں کو تم ہر گز نہیں پا سکو گے، ہمارے قائمؑ حق کے ساتھ اس وقت قیام فرمائیں گے جب شیعہ مایوس ہو چکے ہوں گے ، وہ تین دن لوگوں کو بلاتے رہیں گے لیکن کوئی ایک بھی ان کو جواب نہیں دے گا، لیکن جب چوتھا دن آئے گا تو وہ کعبہ کے پردے کے ساتھ لپٹے ہوں گے اور کہیں گے: اے میرے ربّ! میری مدد فرما، میں نے انہیں دعوت دی پس تو اس کو رائیگاں نہ جانے دے، پھر اللہ تبارک و تعالی ان فرشتوں سے کہے گا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بدر کے دن مدد کی تھی ، ان فرشتوں نے ابھی تک نہ اپنے گھوڑوں کی لگامیں چھوڑی ہیں اور نہ اپنے اسلحہ کو نیچے رکھا ہے اور وہ فرشتے قائمؑ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ، پھر لوگوں میں سے تین تیرہ افراد قائمؑ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ، اس کے بعد قائمؑ مدینہ کی طرف چل پڑیں گے۔[56] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۴۵۵۔
سولہویں حدیث
دلائل الامامۃ میں ابن جریر طبری امام صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں: وَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْمُفَضَّلِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ الْخَزَّازُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) قَالَ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ قِيَامَ الْقَائِمِ بَعَثَ جَبْرَئِيلَ فِي صُورَةِ طَائِرٍ أَبْيَضَ، فَيَضَعُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْكَعْبَةِ، وَ الْأُخْرَى عَلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ يُنَادِي بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَتى أَمْرُ اللَّهِ فَلا تَسْتَعْجِلُوهُ ؛ امام صادقؑ فرماتے ہیں: جب اللہ قائمؑ کے قیام کا ارادہ کرے گا تو وہ جبریلؑ کو سفید پرندے کی صورت میں بھیجے گا، اس وقت جناب جبریلؑ اپنے ایک پاؤں کعبہ پر رکھیں گے اور دوسرا پاؤں بیت المقدس پر رکھیں گے پھر اپنی اونچی آواز میں پکار کر کہیں گے: اللہ کا امر آن پہنچا ہے اس لیے اس کی طرف جلدی کرو۔ [57] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۴۷۲۔
سترہویں حدیث
دلائل الامامۃ میں طبری نے علی بن ابراہیم بن مہزیار کی روایت نقل کی ہے: وَ رَوَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ الْجَلُودِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْخَيْرِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ الطَّائِيُّ الْكُوفِيُّ فِي مَسْجِدِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ يَحْيَى الْحَارِثِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَهْزِيَارَ الْأَهْوَازِيُّ، قَالَ: خَرَجْتُ فِي بَعْضِ السِّنِينَ حَاجّاً إِذْ دَخَلْتُ الْمَدِينَةَ وَ أَقَمْتُ بِهَا أَيَّاماً، أَسْأَلُ وَ أَسْتَبْحِثُ عَنْ صَاحِبِ الزَّمَانِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، فَمَا عَرَفْتُ لَهُ خَبَراً، وَ لَا وَقَعَتْ لِي عَلَيْهِ عَيْنٌ، فَاغْتَمَمْتُ غَمّاً شَدِيداً وَ خَشِيتُ أَنْ يَفُوتَنِي مَا أَمَّلْتُهُ مِنْ طَلَب صَاحِبِ الزَّمَانِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، فَخَرَجْتُ حَتَّى أَتَيْتَ مَكَّةَ، فَقَضَيْتُ حِجَّتِي وَ اعْتَمَرْتُ بِهَا أُسْبُوعاً، كُلَّ ذَلِكَ أَطْلُبُ، فَبَيْنَا أَنَا أُفَكِّرُ إِذْ انْكَشَفَ لِي بَابُ الْكَعْبَةِ، … ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ الْمَهْزِيَارِ- وَ مَدَّ يَدَهُ- أَ لَا أُنَبِّئُكَ الْخَبَرَ أَنَّهُ إِذَا قَعَدَ الصَّبِيُّ، وَ تَحَرَّكَ الْمَغْرِبِيُّ، وَ سَارَ الْعُمَّانِيُّ، وَ بُويِعَ السُّفْيَانِي یاْذَنُ لِوَلِی اللَّهِ، فَاَخْرُجُ بَینَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ فِی ثَلَاثِمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا سَوَاءً، فَاَجِی ءُ اِلَی الْکُوفَةِ وَ اَهْدِمُ مَسْجِدَهَا وَ اَبْنِیهِ عَلَی بِنَائِهِ الْاَوَّلِ، وَ اَهْدِمُ مَا حَوْلَهُ مِنْ بِنَاءِ الْجَبَابِرَة ؛ علی بن ابراہیم بن مہزیار کہتے ہیں کہ میں بعض سالوں میں حج کے لیے نکلا ، جب مدینہ پہنچا اور وہاں چند دن قیام کیا تو صاحب الزمانؑ کے بارے میں تلاش و جستجو کرنے لگا ، ان کا کوئی سراغ مل نہیں مل سکا اور نہ ہی کوئی ایسا بندہ ملا جس نے انہیں دیکھا ہو، اس سے مجھے شدید صدمہ پہنچا اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں صاحب الزمانؑ کی ڈھونڈنے سے پہنچنے والا رنج و ملال مجھے مار نہ ڈالے، بھر میں مکہ آ گیا اور اپنے حج کو انجام دیا اور ایک ہفتہ عمرہ کو انجام دیا، اس عرصہ میں میں امامؑ کو تلاش کرتا رہا، ایک دن میں غور و فکر میں مشغول تھا کہ اچانک بابِ کعبہ میرے لیے ظاہر ہوا اور میں نے اپنے آپ کو ایک شخص کے ہمراہ پایا … صاحب الزمانؑ نے فرمایا: اے ابن مہزیار جبکہ وہ اپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے تھے! کیا میں تمہیں ایک خبر نہ سناؤ کہ جب بچہ بیٹھ جائے گا اور مغربی حرکت میں آ جائے گا اور سفیانی کی بیعت کر لی جائے گی تو اللہ کے ولی کو وہ اذن دے دے گا، تب میں صفا و مروہ کے درمیان تین سو تیرہ اصحاب کے ساتھ خروج کروں گا، پھر میں انہیں کوفہ لے جاؤں گا اور اس کی مسجد کو گرا دوں گا اور پہلے تعیمرات کے مطابق اس کو تعمیر کروں گا، مسجد کوفہ کے اردگرد ظالم جابر حکمرانوں نے جو بنایا ہو گا وہ سب گرا دوں گا۔ [58] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۵۳۹۔
آٹھارویں حدیث
دلائل الامامۃ میں ابو بصیر امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے ہیں: حَدَّثَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي هَارُونُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَحْمَدَ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّهَاوَنْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُبَيْدِ[1] اللَّهِ الْقُمِّيُّ الْقَطَّانُ، الْمَعْرُوفُ بِابْنِ الْخَزَّازِ، قَالَ:حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَسَّانَ سَعِيدُ بْنُ جَنَاحٍ، عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ، عَنْ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، قَالَ: … الْمُحْتَجُّ بِالْکِتَابِ عَلَی النَّاصِبِ مِنْ سَرَخْسَ رَجُلٌ. فَذَلِکَ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَرَجُلًا بِعَدَدِ اَهْلِ بَدْرٍ، یجْمَعُهُمُ اللَّهُ اِلَی مَکَّةَ فِی لَیلَةٍ وَاحِدَةٍ، وَ هِی لَیلَةُ الْجُمُعَةِ، فَیتَوَافَوْنَ فِی صَبِیحَتِهَا اِلَی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، لَا یتَخَلَّفُ مِنْهُمْ رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَ ینْتَشِرُونَ بِمَکَّةَ فِی اَزِقَّتِهَا یلْتَمِسُونَ مَنَازِلَ یسْکُنُونَهَا ؛ امام صادقؑ فرماتے ہیں: … سرخس سے تعلق رکھنے والے ایک ناصبی پر کتابِ الہٰی سے دلیل پیش کرنے والا شخص ، یہ اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ نفر ہیں، اللہ ایک رات میں انہیں مکہ میں جمع فرما دے گا اور وہ جمعہ کی رات (شب جمعہ) ہو گی، وہ اس رات کی صبح میں مسجدِ حرام میں ملیں گے، ان میں سے ایک بھی فرد پیچھے نہیں رہے گا، وہ مکہ کی گلیوں میں پھیل جائیں گے اور ان گھروں کو ڈھونڈیں گے جن میں انہوں نے رہنا ہے۔[59] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۴۶۰۔
انیسویں حدیث
مختصر بصائرالدرجات میں حسن بن سلمیان حلی مفضل بن عمر کے طریق سے امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: الْحُسَيْنُ بْنُ حَمْدَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ وَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيَّيْنِ، عَنْ أَبِي شُعَيْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْفُرَاتِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَيِّدِيَ الصَّادِقَ ع … فَتَفْرَحُ نُفُوسُ الْمُؤْمِنِینَ بِذَلِکَ النُّورِ، وَ هُمْ لَا یعْلَمُونَ بِظُهُورِ قَائِمِنَا اَهْلَ الْبَیتِ عَلَیهِ وَ عَلَیهِمُ السَّلَامُ، ثُمَّ یصْبِحُونَ وُقُوفاً بَینَ یدَیهِ علیه السلام، وَ هُمْ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، بِعِدَّةِ اَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) یوْمَ بَدْرٍ ؛ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادقؑ سے دریافت کیا: میرے سید و سردار صادقؑ ۔۔۔ پھر اس نور کے ذریعے مؤمنین کے نفوس خوش ہو جائیں گے، وہ ہم اہل بیت علیہ و علیہم السلام کے قائمؑ کے ظہور کے بارے میں نہیں جانتے ، پھر وہ صبح اپنے آپ کو قائمؑ کے سامنے پائیں گے جبکہ ان کی تعداد تین سو تیرہ ہو گی ، روزِ بدر رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی تعداد کے برابر۔[60] حلی، حسن بن سلیمان، مختصر بصائر الدرجات، ص۱۸۳۔
بیسویں حدیث
مختصر بصائر الدرجات میں حسن بن سلیمان حلی امام صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں: الْحُسَيْنُ بْنُ حَمْدَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ وَ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيَّيْنِ، عَنْ أَبِي شُعَيْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ نَصْرٍ[1]، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْفُرَاتِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلْتُ سَيِّدِيَ الصَّادِقَ ع … یسِیرُ الْمَهْدِی اِلَی الْکُوفَةِ وَ ینْزِلُ مَا بَینَهَا وَ بَینَ النَّجَفِ وَ عَدَدُ اَصْحَابِهِ فِی ذَلِکَ الْیوْمِ سِتَّةٌ وَ اَرْبَعُونَ اَلْفاً مِنَ الْمَلَائِکَةِ وَ سِتَّةُ آلَافٍ مِنَ الْجِنِّ وَ النُّقَبَاءُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلا ؛ مہدیؑ کوفہ کی طرف جائیں گے اور نجف و کوفہ کے درمیان اتریں گے اور اس دن ان کے اصحاب کی تعداد چھالیس ( ۴۶) ہزار فرشتے، چھ ہزار جنّ ، تین سو تیرہ نقباء ہو گی۔[61] حلی، حسن بن سلیمان، مختصر بصائر الدرجات، ص۱۸۸۔
خواتین کے مدد گار ہونے پر حدیث
اہل سنت منابع میں ایک ضعیف السند روایت وارد ہوئی ہے جس میں امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ اصحاب میں ۵۰ خواتین کی شمولیت کا بیان ہے۔ اسی طرح شیعہ منابعِ حدیث میں فقط ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس میں پچاس خواتین کا تین سو تیرہ میں سے ہونے کا بیان وارد ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان احادیث کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ تین سو تیرہ افراد میں پچاس خواتین بھی شامل ہیں یا نہیں؟ تفسیر عیاشی میں امام باقرؑ سے روایت نقل ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع يَقُولُ: الْزَمِ الْأَرْضَ لَا تُحَرِّكَنَّ يَدَكَ وَ لَا رِجْلَكَ أَبَداً حَتَّى تَرَى عَلَامَاتٍ أَذْكُرُهَا لَكَ فِي سَنَةٍ … وَ يَجِيءُ وَ اللَّهِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا فِيهِمْ خَمْسُونَ امْرَأَةً يَجْتَمِعُونَ بِمَكَّةَ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ قَزَعاً كَقَزَعِ الْخَرِيفِ يَتْبَعُ بَعْضُهُمْ بَعْضا ؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں: زمین سے چپکے رہو، نہ اپنے ہاتھ کو حرکت دو اور نہ کبھی اپنے پاؤں کو حرکت دینا یہاں تک کہ تم وہ علامات دیکھ لو جنہیں میں اس سال تمہارے لیے ذکر کر رہا ہوں … اللہ کی قسم ! وہ تین سو کچھ افراد کو لے کر آئے گا جن میں پچاس خواتین ہوں گی ، وہ بغیر کسی مدتِ وقت کے مکہ میں جمع ہو گے بالکل اسی طرح جیسے خزاں میں بکھرے ہوئے بادل ، ان میں سے دیگر بعض کی پیروی کر رہے ہوں گے۔[62] عیاشی سلمی سمرقندی، محمد بن مسعود بن عیاش، تفسیر عیاشی، ج۱، ص۶۴تا۶۶۔ شیعہ منابعِ حدیث میں یہ تنہا حدیث ہے جس میں پچاس خواتین کا تین سو تیرہ میں ہونے کا بیان وارد ہوا ہے۔ اس روایت پر متعدد اعتراضات و اشکالات موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث قابل قبول نہیں ہے:
تفسیر عیاشی کی حدیث پر اعتراضات
عیاشی نے اپنی تفسیر میں جس حدیث کو نقل کیا ہے اور بحار الانوار میں علامہ مجلسی نے اس کو تحریر کیا ہے اور اس میں پچاس خواتین کا تین سو تیرہ میں سے ہونے کا بیان ہے اس پر کچھ اعتراضات وارد ہوتے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
پہلا اعتراض: روایت کا مرسل ہونا
یہ روایت جابر بن عبد اللہ جعفی سے منقول ہے ۔ عیاشی نے براہ راست جابر جعفی سے حدیث کو نقل کیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ عیاشی براہ راست جابر جعفی سے روایت نقل نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ روایت مرسل کہلائے گی اور ارسال کی وجہ سے سندی طور پر یہ روایت قابل قبول قرار نہیں پائے گی۔
دوسرا اعتراض: پچاس خواتین کا ذکر نہ ہونا
یہی حدیث کتاب غیبت نعمانی میں اور کلینی کی الکافی میں موجود ہے لیکن اس میں یہ الفاظ فیهم خمسون إمرأة موجود نہیں۔ پس دیگر منابع میں یہی روایت وارد ہوئی ہے لیکن اس میں پچاس خواتین کے ہونے کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
تیسرا اعتراض: لفظ رجل کا ہونا
آئمہ اطہارؑ سے منقول احادیث پر اگر دقت کی جائے تو معلوم ہو گا کہ روایات میں لفظِ رجل سے مراد مرد حضرات ہیں ، مثلا حدیث میں وارد ہوا ہے: عَنْ عَبْدِ الْعَظِیمِ الْحَسَنِی قَالَ: کَتَبْتُ اِلَی اَبِی جَعْفَرٍ الثَّانِی عَلَیهِ السَّلَامُ اَسْاَلُهُ عَنْ ذِی الْکِفْلِ مَا اسْمُهُ وَ هَلْ کَانَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ فَکَتَبَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَ سَلَامُهُ عَلَیهِ بَعَثَ اللَّهُ تَعَالَی جَلَّ ذِکْرُهُ مِائَةَ اَلْفِ نَبِی وَ اَرْبَعَةً وَ عِشْرِینَ اَلْفَ نَبِی الْمُرْسَلُونَ مِنْهُمْ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا وَ اِنَّ ذَا الْکِفْلِ مِنْهُمْ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهِم ؛ عبد العظیم حسنی کہتے ہیں کہ میں نے امام تقیؑ کو سوال لکھ کر بھیجا جس میں ذو الکفلؑ کے بارے میں سوال کیا کہ ان کا نام کیا ہے اور کیا وہ رسولوں میں سے تھے؟ امام تقی صلوات اللہ و سلامہ علیہ نے جواب تحریر فرمایا: اللہ جلّ ذکرہ نے ایک لاکھ چوپیس ہزار بھیجے جن میں سے تین سو تیرہ مرد رسول تھے، ذو الکفل انہی انبیاء صلوات اللہ علیہم میں سے تھے۔ [63] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۱۳، ص۴۰۵۔ اسی طرح امام حسن عسکریؑ سے تین سو تیرہ انبیاءؑ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس میں بھی لفظ رَجل استعمال ہوا ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ سب انبیاءؑ مرد تھے اور کوئی خاتون نبی نہیں گزری۔ اسی طرح روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ جنگ بدر کے لیے نکلے تو ان کے اصحاب تین سو تیرہ تھے۔ اس میں بھی لفظِ رَجل استعمال کیا گیا ہت جیساکہ وارد ہوا ہے: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فِی ثَلَاثِمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلا؛ رسول اللہ ﷺ تین سو تیرہ مردوں کے ساتھ نکلے۔[64] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، ج۱۹، ص۲۴۶۔
احادیث مبارکہ میں جہاں جالوت و طالوت جگ کا تذکرہ وارد ہوا ہے وہاں بھی تین سو تیرہ مردوں کے امتحان کا ذکر ہے۔ کلینی نے الکافی میں امام باقرؑ سے روایت نقل کی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى الْحَلَبِيِّ عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طالُوتَ مَلِكاً قالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنا وَ نَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ مِنْ سِبْطِ النُّبُوَّةِ وَ لَا مِنْ سِبْطِ الْمَمْلَكَةِ، قالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاهُ عَلَيْكُمْ، وَ قَالَ: إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسى وَ آلُ هارُونَ فَجَاءَتْ بِهِ الْمَلَائِكَةُ تَحْمِلُهُ وَ قَالَ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَ مَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا ثَلَاثَمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مِنْهُمْ مَنِ اغْتَرَفَ وَ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يَشْرَبْ فَلَمَّا بَرَزُوا قَالَ الَّذِينَ اغْتَرَفُوا- لا طاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجالُوتَ وَ جُنُودِهِ وَ قَالَ الَّذِينَ لَمْ يَغْتَرِفُوا- كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ؛ امام باقرؑ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں: اللہ عز و جل کا فرمان ہے:بے شک اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے، انہوں نے کہا: ہمارے اوپر وہ کیسے بادشاہ ہو سکتا جبکہ ہم اس کی نسبت حکومت کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، امام باقرؑ نے فرمایا: طالوت نہ سبطِ نبوت میں سے تھا اور نہ ہی بادشاہوں کی نسل سے تھا، بھر اللہ تعالی فرمایا: بے شک اللہ نے اس کو تمہارے اوپر انتخاب کیا ہے، اور مزید فرمایا: اس کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ ایک تابوت تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی جانب سے سکون ہے اور آل موسیؑ و آل ہارونؑ کی چھوڑی ہوئی باقیات ہیں، اسے فرشتے اٹھا کر لے کر آئیں گے، اور اللہ جل ذکرہ فرماتا ہے: بے شک اللہ نے تمہیں نہر سے آزمایا ، پس جس نے اس نہر سے پیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کی طمع نہیں کی وہ مجھ سے ہے، امامؑ فرماتے ہیں کہ اس نہر سے سب نے پانی پی لیا سوائے تین سو تیرہ مردوں کے، ان میں سے بعض نے ایک چلو پانی پیا تھا اور بعض نے اصلاً ہی نہیں پیا تھا ، لہذا جب دشمن مبارزہ کے لیے سامنے آیا تو جنہوں نے چلو بھر پانی پیا تھا وہ کہنے لگے: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے، اور جنہوں نے پانی نہیں پیا تھا انہوں نے کہا: کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے اذن سے قلیل گروہ کثیر گروہ پر غالت آ گیا اور اللہ صابرین کے ساتھ ہے۔ [65] کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الاصول من الکافی، ج۸، ص۳۱۶۔ اس روایت کے مطابق جناب طالوت کے ۳۱۳ ساتھیوں میں کوئی خاتون موجود نہیں تھے۔ یہاں سے ہم اس تنیجہ تک پہنچتے ہیں ۳۱۳ کے بارے میں روایات ان کے مرد ہونے کو بیان کرتی ہیں اور ان خاص اصحاب میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے۔ نیز سابقہ ادوار میں بھی اگر خواتین نے جنگ میں حصہ لیا تو وہ میدانِ جنگ سے باہر زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتیں اور تیماداری کے وظائف انجام دیا کرتی تھیں۔
چوتھا اعتراض: ۳۱۳ افراد کا معین ہونا
مندرجہ بالا احادیث میں سے چوتھی حدیث میں وارد ہوا ہے کہ تین سو تیرہ اصحاب میں ہر ایک کا نام مشخص ہے۔ شیخ نعمانی اس روایت کو اس طرح نقل کرتے ہیں: حَدَّثَنَا أَبُو سُلَيْمَانَ أَحْمَدُ بْنُ هَوْذَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ النَّهَاوَنْدِيُّ بِنَهَاوَنْدَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ وَ مِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَمَّادٍ الْأَنْصَارِيُّ سَنَةَ تِسْعٍ وَ عِشْرِينَ وَ مِائَتَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فِي مَسْجِدٍ بِمَكَّةَ وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِي فَقَالَ يَا أَبَان سَيَأْتِي اللَّهُ بِثَلَاثِمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فِي مَسْجِدِكُمْ هَذَا يَعْلَمُ أَهْلُ مَكَّةَ أَنَّهُ لَمْ يُخْلَقْ آبَاؤُهُمْ وَ لَا أَجْدَادُهُمْ بَعْدُ عَلَيْهِمُ السُّيُوفُ مَكْتُوبٌ عَلَى كُلِّ سَيْفٍ اسْمُ الرَّجُلِ وَ اسْمُ أَبِيهِ وَ حِلْيَتُهُ وَ نَسَبُه… ؛ ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں جعفر بن محمد صادقؑ کے ساتھ مکہ کی مسجد میں تھا جبکہ وہ میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھے، امام صادقؑ نے فرمایا: اے ابان! عنقریب اللہ تمہاری اس مسجد میں تین سو تیرہ مردوں کو جمع کرے گا ، اہل مکہ جانتے ہیں کہ انہیں نہ ان کے آباء نے پیدا کیا ہے اور نہ ان کے اجداد نے، ان کے کندھوں پر تلواریں ہوں گی، ہر تلوار پر اس شخص کا نام ، اس کے باپ کا نام ، اس کا حلیہ اور اس کا نسب لکھا ہوا ہے۔ [66] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، ص۳۱۳۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو تیرہ میں کوئی خاتون نہیں ہے کیونکہ اگر خاتون ہوتی تو پھر فقط کیوں مردوں کی بات کی جاتی ؟!
پانچواں اعتراض: چنگجو کی صفات
قدیم زمانے سے اب تک دوران جنگ اسلحہ اور تلوار مردوں کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے۔ خواتین نظامی اور فوجی انداز میں جنگ لڑنے سے قاصر ہیں۔ اس وجہ سے جنگوں میں خواتین مختلف امور میں جنگجو اور فوجی لشکروں کی مدد کیا کرتی تھیں، جیسے ضرورت کی چیزیں پہنچانا، تیماداری کرنا، پانی پلانا وغیرہ جیسے اہم انجام دینا۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی اسی طرح خواتین اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ شیخ کلینی نے اس حوالے سے ایک موثق روایت نقل کی ہے: عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ جَمِيعاً عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص خَرَجَ بِالنِّسَاءِ فِي الْحَرْبِ حَتَّى يُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَ لَمْ يَقْسِمْ لَهُنَّ مِنَ الْفَيْءِ شَيْئاً وَ لَكِنَّهُ نَفَّلَهُنَّ ؛ امام باقرؑ یا صادقؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کو لے کر جنگ کے لیے نکلتے تھے، یہاں تک کہ وہ خواتین زخمیوں مرہم پٹی کرتیں، لیکن مال فیء میں سے انہیں کچھ نہیں دیتے تھے، لیکن انہیں جنگی سہم کی بجائے الگ سے اموال عنایت فرماتے۔ [67] کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الاصول من الکافی، ج۵، ص۴۵۔ اسی طرح ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام مہدیؑ کے زمانے میں خواتین وہی کردار ادا کریں گی جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں ادا کرتی تھیں یعنی مرہم پٹی، تیماداری اور اس طرح کے دیگر اہم امور انجام دیں گی۔ دلائل الامامۃ میں روایت وارد ہوئی ہے: واخبرنی ابو عبدالله، قال: حدثنا ابو محمدهارون بن موسی، قال: حدثنا ابو علی محمد بن همام، قال: حدثنا ابراهیم بن صالح النخعی، عن محمد ابن عمران، عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَلَیهِ السَّلَامُ یقُولُ: یکَن مَعَ الْقَائِمِ عَلَیهِ السَّلَامُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ امْرَاَةً قُلْتُ: وَ مَا یصْنَعُ بِهِنَّ؟ قَالَ: یدَاوِینَ الْجَرْحَی، وَ یقُمْنَ عَلَی الْمَرْضَی، کَمَا کَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ. قُلْتُ: فَسَمِّهِنَّ لِی. فَقَالَ: الْقِنْوَاءُ بِنْتُ رُشَیدٍ، وَ اُمُّ اَیمَنَ، وَ حَبَابَةُ الْوَالِبِیةُ، وَ سُمَیةُ اُمُّ عَمَّارِ بْنِ یاسِرٍ، وَ زُبَیدَةُ، وَ اُمُّ خَالِدٍ الْاَحْمَسِیةُ، وَ اُمُّ سَعِیدٍ الْحَنَفِیةُ، وَ صُبَانَةُ الْمَاشِطَةُ، وَ اُمُّ خَالِدٍ الْجُهَنِیة ؛ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادقؑ سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں: قائم علیہ السلام کے ساتھ تیرہ خواتین ہوں گی، میں نے کہا: وہ ان خواتین کا کیا کریں گے؟ فرمایا: وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں گے اور مریضوں کی تیماداری کریں گی جیساکہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کیا کرتی تھیں، میں نے کہا: کیا مجھے ان کے نام بتائیں گے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مدد کی؟ امامؑ نے فرمایا: قنواء بنت رشید ، ام ایمن ، حبابہ والبیہ، سمیہ جناب عمار بن یاسر کی والد ماجدہ ، زبیدہ ، ام خالد احمسیہ ، ام سیعد حنفیہ ، صبانہ ماشطہ اور ام خالد جہنیہ ۔ [68] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامۃ، ص۴۸۴۔
چھٹا اعتراض: اہل بدر سے تشبیہ
کثیر احادیث میں امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ اصحاب کا مقایسہ تکرار کے ساتھ جنگ بدر میں تین سو تیرہ اصحاب کے ساتھ کیا گیا ہے اور یہ الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں: ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا عِدَّةُ اَهْلِ بَدْرٍ ؛ اہل بدر کی تعداد کے برابر تین سو تیرہ مرد۔ آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تین سو تیرہ اصحاب میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔ اسی طرح امام مہدیؑ کے تین سو تیرہ میں خاتون شامل نہیں ہو گی۔ کیونکہ خاتون نظامی اور فوجی انداز میں جنگ نہیں لڑ سکتی بلکہ میدان کے پیچھے مدد کر سکتی ہے۔
نتیجہ
- صحیح السن د احادیث اور دیگر کثیر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام زمانہؑ کے تین سو تیرہ اصحاب تمام کے تمام مرد ہوں گے اور ان میں کوئی خاتون نہیں ہو گی۔ نیز ان احادیث میں کسی ایک خاتون کے نام کا تذکرہ وارد نہیں ہوا۔
- ہمارے شیعہ منابعِ حدیث میں فقط ایک حدیث اور اسی طرح اہل سنت منابعِ روائی میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس میں تین سو تیرہ میں پچاس خواتین کی شمولیت کا تذکرہ ہے لیکن ہر دو منابع میں مذکور حدیث سندی طور پر ضعیف بھی ہے اور ان کثیر احادیث سے ٹکراتی ہے جن سے تین سو تیرہ کا مرد ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس بناء پر یہ تنہا روایت قبول نہیں ہے۔
3- تین سو تیرہ کی صف میں کسی خاتون کے نہ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ خواتین کا مقام مردوں سے کم ہے یا خواتین مردوں کی نسبت کم ایمان کی مالک ہیں !! بلکہ یہاں تین سو تیرہ میں خواتین کی شمولیت کے انکار سے مقصود یہ باور کرانا ہے کہ خوایتن میدانِ جنگ میں نظامی اور فوجی انداز میں جنگ نہیں لڑ سکتیں اور اسلحہ و شمشیر چلانا مردانہ ہاتھوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی بجائے خواتین دیگر اہم کام انجام دے سکتیں جوکہ خود جنگ میں حصہ لینے کے مترادف ہے اور جنگ لڑنے سے کمتر نہیں جیساکہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا، مریضوں کو پانی پلانا، حق بات کو بلند کرنا اور حوصلے بلند کرنا وغیرہ۔ امام حسینؑ کی نہضت میں اگرچے خواتین نے شمشیر نہیں چلائی لیکن اگر جناب زینب بنت علیؑ کربلا میں شجاعانہ اور جرأتمندانہ کردار ادا نہ کرتیں تو یہ قیامِ امام حسینؑ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا ۔ جناب زینب بنت علیؑ کی عظیم شجاعت اور کردار کی وجہ سے نہضت امام حسینؑ آج تک باقی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ امام مہدیؑ کی مدد و نصرت اور اسی طرح عالمی حکومت کے قیام میں خواتین اساسی کردار ادا کریں گی لیکن وہ تین سو تیرہ اصحاب جو جنگ لڑیں گے ان میں خواتین شامل نہیں ہیں۔
منابع: