loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۱۰}

روح انسانی کی غلامی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

انسان کو اللہ تعالی نے دو بہت اہم قوتیں عطا کی ہیں۔
۱۔ شہوت کی قوت
۲۔ غضب کی قوت

اگر یہ دو قوتیں انسان کے قبضے میں ہوں تو انسان اپنے روح کی بہترین تربیت کر سکتا ہے۔ ان دونوں کا عقل کے تحت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر انسان سے یہ دو قوتیں کنٹرول نہ ہو پائیں تو سب سے پہلا کام جو یہ کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ روح کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ نتیجتاََ ہواۓ نفس انسان پر حاکم ہو جاتی ہے اور عقلِ انسانی اس بے لگام حاکم کی اسیر۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:

«کَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِیرٍ تَحْتَ هَوَی أَمِیرٍ»؛بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہواؤ ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔[1] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۱۱۔ ایک اور حکمت میں ارشاد فرماتے ہیں:«الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لاَ دَارُ مَقَرٍّ وَ النَّاسُ فِیهَا رَجُلاَنِ رَجُلٌ بَاعَ فِیهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَ رَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا»؛ دنیا اصل منزلِ قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے۔ اس میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خرید کر آزاد کر دیا۔[2] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۳۳۔

وہ انسان جس نے خود پر رحم نہیں کیا اور جہاد اکبر کے میدان میں نفسانی خواہشات نے اس کو چِت کر دیا در حقیقت اس نے خود کو شہوت اور غضب کا اسیر بنوا لیا۔ جب ایک انسان شہوت اور غضب کا اسیر ہو جاۓ تو پھر اس کے پاس جتنا بھی علم ہے وہ اس کی شہوت اور غضب کی خدمت کرے گا۔ اس کے پاس جتنا عقل ہوگا اس کا صرف غلط استعمال کرے گا۔ ظاہر میں صاحبِ علم ہے لیکن علم سے صرف شہوت اور غضب کی ضروریات کو پورا کررہا ہے۔ عقل کا استعمال کرتا ہے لیکن صرف اپنی شہوتوں کو پورا کرنے کے لیے عقل سے استفادہ کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسانی معاشرے کو تباہ کرنا چاہے گا تو اپنے علم کی خدمات لے گا، ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا، عقلانیت اس کی صرف اس بات پر خرچ ہوگی کہ کیسے ایک انسانی معاشرے کو بمب سے اڑایا جاۓ؟ اس شخص پر غضب حاکم ہو چکا ہے۔ یہ حاکم جو کہتا جاۓ گا یہ اپنے علم اور عقل سے استفادہ کرتے ہوۓ مطیع غلاموں کی طرح اس پر عمل کرتا جاۓ گا۔ شہوت اور غضب کی قوت اس کو غلام سے غلام تر بناتی جاۓ گی ایک موقع پر یہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاۓ گا کہ اس کے راستے میں جو کوئی بھی آۓ گا اس کو ہٹا دے گا۔ حتی اللہ تعالی، اس کا نبی یا اس کا وصی۔ اپنی ہوا و ہوس کے آگے اگر خدا کی نہی آ جاۓ اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ کتنے ہی ایسے افراد تاریخ میں گزرے ہیں کہ انہوں نے صرف نبیؑ یا نبی کے وصی سے مقابلہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کو قتل کیا اور یہاں تک اکتفاء نہیں کیا بلکہ انبیاء کرامؑ کے حقیقی دین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ہزاروں انسانوں کی گمراہی کا باعث بنے۔ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے خود کو شہوت اور غضب کا غلام بنا لیا۔
خود ابلیس کو دیکھ لیجیے، ابلیس کوئی معمولی شخصیت کا مالک نہیں تھا بلکہ یہ وہ تھا کہ جس نے چھ ہزار سال اللہ تعالی کی عبادت کی۔ امیرالمومنینؑ کی فرمائش کے مطابق معلوم نہیں یہ چھ ہزار سال دنیوی تھے یا اخروی؟ کیونکہ اگر قائل ہو جائیں کہ اخروی سال تھے تو معلوم ہونا چاہیے کہ اخروی ایک دن، دنیوی پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ البتہ خود امیرالمومنینؑ کے لیے تو یہ مسئلہ روشن تھا کہ یہ سال اخروی تھے یا دنیوی، لوگوں کے لیے یہ مسئلہ روشن نہیں۔ یہ عابد ترین شخصیت کا مالک موجود کیسے ایک منفور ترین شخص ہو گیا؟ جواب یہ ہے کہ جب اپنی شہوت کا غلام ہوا۔ جب تکبر اور لجاجت کی۔ اس نے کہا کہ میں بڑا ہوں، میرا نفس اور میرا وجود حضرت آدمؑ سے وسیع تر ہے۔ یہ میں اور نفس کی آواز اسے لے ڈوبی اور اس کی ہزار سالوں کی عبادت بھی ضائع ہو گئی۔ اس نے پہلے خود کو نفس کا اسیر بنایا اور پھر سب انسانوں کا ’’عدو مبین‘‘ بن کر سب انسانوں کو نفس کا اسیر بنانے میں لگ گیا۔[3] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۵،۴۶۔

منابع:

منابع:
1 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۲۱۱۔
2 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، حکمت۱۳۳۔
3 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۵،۴۶۔
Views: 174

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: آزادی اور حیات انسانی
اگلا مقالہ: قوموں کو غلام بنانے کے ماڈرن طریقے