loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۹}

آزادی اور حیات انسانی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

دینِ اسلام انسان کے حقِ حیات اور حقِ آزادی ہر دو کا قائل ہے۔ لیکن حقِ آزادی کو اخروی زندگی کے لیے مقدمہ سمجھتا ہے۔ انسان کے لیے آزادی ضروری ہے چاہے وہ مادیات کے حصول کے لیے ہو یا معنویات کے لیے بہر حال ہر دو کے حصول کے لیے آزادی درکار ہے۔ لیکن وہ آزادی کہ جو اسے مادی اور معنوی شائستہ حیات کے لیے ضروری ہے، اس آزادی کو کیسے حاصل کرے؟ کیا اس مخصوص آزادی کو حاصل کیے بغیر یہ شائستہ حیات اسے میسر ہو سکتی ہے؟ جی نہیں! اس شائستہ حیات کے حصول کے لیے اس مخصوص آزادی کو حاصل کرنے کے لیے اس پر ضروری ہے کہ خود کو ہوا و ہوس اور شہوات کی قید سے آزاد کراۓ۔ سب انسان اپنی شہوات کی قید میں بند ہیں ان کو شائستہ زندگی کے حصول کے لیے ان شہوات سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان نے خود کو ان شہوات سے آزاد نہ کروایا تو وہ شائستہ و مطلوب حیات حاصل نہ کر سکے گا۔ انسانوں میں فقط ’’اصحاب یمین‘‘ ہیں جو پاک کردار ہیں اور خود کو شہوانیت سے آزاد کروا چکے ہیں اور حقیقی آزاد ہیں۔

اصحاب یمین بننے کا طریقہ

اصحاب یمین جنہوں نے اپنے نفوس کو شہوات و ہوا ہوس سے آزاد کروا لیا، کیسے یہ لوگ یہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ؟ اس سوال کا جواب رسول اللہ ﷺ کے ایک فرمان میں دیا گیا ہے۔ ایک دن رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان کے آخری جمعہ لوگوں سے مخاطب ہوۓ اور فرمایا:

«ان أنفسکم مرهونة بأعمالکم ففکوها باستغفارکم»؛(اے لوگو!) تمہاری جانیں تمہارے اعمال کے مرہون منت ہیں، پس اپنی جانوں کو استغفار سے آزاد کرواؤ۔[1] مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۳، ص۲۸۱۔ انسان کی حقیقی آزادی اس میں ہے کہ خود کو استغفار، ایمان، اور عمل صالح کے ذریعے بار گناہ سے آزاد کرواۓ۔ اگر انسان خود کو حقیقی آزادی دلوانے میں کامیاب ہو گیا تو ’’اصحاب یمین‘‘ میں شامل ہو جاۓ گا۔ یہ ہے در اصل حقیقی یا معنوی آزادی کہ جو حقیقی انسانی حیات کا مقدمہ ہے۔

روحانی حیات کی اہمیت

انسان کے لیے ایک جسم کی حیات ہے اور جسم کی آزادی۔ اور دوسرا روح کی حیات ہے اور روح کی آزادی۔ لیکن واضح رہے کہ دین کی نظر میں روح کی حیات اور روح کی آزادی زیادہ اہم ہے، انسان کا معنوی، درونی اور روحی طور پر آزاد ہونا جسم کے آزاد ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ روح کی حیات کیسے حاصل ہوتی ہے؟ روح کو کیسے مردہ ہونے سے بچائیں؟ روح کو کیسے آزاد کروائیں؟ اس کے جواب میں آیا ہے کہ روحِ انسان تب زندہ ہوتی ہے جب اسے شہوت، غضب، اور نفس کا غلام نہ بننے دیا جاۓ۔ اگر ایک انسان اپنے نفس کا غلام ہے، یا شہوات اس پر ہمیشہ غالب آ جاتی ہیں، جب غضبناک ہوتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور جو کرنا چاہے کر گزرتا ہے یہ شخص غلام ہے۔ حقیقی غلام یہی شخص ہے۔ اس کی روح غلام ہے۔ وہ شخص جو کہتا ہے ’’جو میرا دل کہے گا کرونگا‘‘ یا جو کہے ’’جہاں دل کرے گا جاوں گا‘‘ اس شخص نے اپنی روح اور جان کو غلام بنا رکھا ہے۔

امیرِ شہوت یا اسیرِ شہوت

وہ شخص جس نے شہوت کو اپنا آقا بنایا ہوا ہے اور خود اس کا غلام بنا ہوا ہے، یہ شخص اسیرِ شہوت ہے۔ یعنی شہوت کا اسیر، جس طرح سے شہوت اس کو حکم دیتی ہے انجام دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شہوت سے مراد فقط جنسی شہوت نہیں بلکہ ہر وہ جسم کی ضرورت جو حد سے تجاوز کر جاۓ اسے شہوت کہتے ہیں۔ مثلا زیادہ کھانا، زیادہ سونا وغیرہ۔ نفسانی میل اگر حد سے تجاوز کر جاۓ اسے شہوت کہتے ہیں۔ ایک شخص ہے اس کے لیے مثال کے طور پر ایک گھنٹہ موبائل استعمال کرنا ضرورت ہو۔ اگر وہ بغیر ضرورت کے گھنٹوں موبائل استعمال کرتا ہے اور ہر آنے والی ویڈیو یا تصویر کو بنا شرعی لحاظ کیے دیکھے جا رہا ہے، اس پر شہوت کا غلبہ ہے۔ یہ شخص اسیر شہوت ہے۔ شہوت کا اسیر نہیں بننا بلکہ شہوت کا امیر بننا ہے۔ امیرِ شہوت کامیاب ہے اور حقیقی آزاد ہے۔ جس شخص کے نفس کے تقاضے اس پر غالب نہیں ہوتے اور اپنی شہوت کو کنٹرول کیے ہوۓ ہے یہ شخص امیرِ شہوت ہے۔ دین کی زبان میں امیر شہوت انسان زندہ ہے۔ اسیر شہوت انسان جس کی فطرت دب چکی ہے اور طبیعت اس پر غالب ہے وہ شخص مردہ ہے۔

کفار کا حقیقی طور پر مردہ ہونا

قرآن کریم نے کفار کو اسی جہت سے مردہ قرار دیا ہے۔ سورہ مبارکہ یس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

«اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ وَّ قُرۡاٰنٌ مُّبِیۡنٌ. لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ»؛یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے، تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔[2] یس: ۷۰،۶۹۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے کافر شخص کو زندہ انسان کے مقابلے میں لایا ہے۔ یعنی واضح کرنا چاہتا ہے کہ قرآن کریم فقط زندہ لوگوں کے لیے نازل ہوا ہے اور ان کو انذار کرنے کے لیے آیا ہے۔ جبکہ کافروں کے لیے یہ فقط اتمام حجت کا سبب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو زندہ ہیں اور ان پر انذار کا اثر ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ افراد ہیں جن کو قرآن کریم جو کچھ بھی کہتا ہے، انذار کرتا ہے یا ابشار، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یہ لوگ مردہ ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق حیات، انسان کی توحیدی فطرت سے ہے۔ اگر کسی کی توحیدی فطرت، طبیعت اور شہوت کے ملبے تلے دب گئی ہے وہ اگرچہ ظاہری طور پر زندہ ہے اس کی حیوانی حیات موجود ہے لیکن انسانی حیات سے بے بہرہ ہے۔ ایک جگہ پر اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:«وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ»؛اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔[3] فاطر: ۲۲۔ ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا:«اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ. وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ؕ اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ»؛ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر جا رہے ہوں۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جاتے ہیں۔[4] نمل: ۸۱،۸۰۔ یہاں پر وہابی حضرات استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے مردہ کی قبر پر دعا کرنے، یا زیارات و توسل کرنے سے منع کیا ہے۔ حالانکہ یہاں پر ایسا کوئی ذکر وارد نہیں ہوا؟ بھلا کب رسول اللہﷺ کسی قبر پر جا کر کسی کو باتیں سناتے تھے؟ یہاں پر مردہ یا قبر میں مدفون فرد سے مراد وہ شخص نہیں جس کی جسمانی حیات تمام ہو گئی اور اب وہ نہیں سن سکتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جو شخص ظاہری طور پر زندہ ہیں جسم ان کا حیات ہے، کھاتے پیتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں، با الفاظ دیگر یعنی حیوانی حیات رکھتے ہیں، لیکن حق بات نہیں سنتے، حق دیکھتے ہیں لیکن نہیں مانتے۔ یہ افراد حقیقت میں مردہ ہیں اور ان کو چاہے خود اللہ کے رسولؐ بھی ہدایت کی طرف لانا چاہیں نہیں لا سکتے۔ اس میں خود رسولؐ کی کوتاہی نہیں بلکہ خود انہوں نے اپنے آپ کو باطل کا راہی کیا ہوا ہے۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۳تا۴۴۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۷۳، ص۲۸۱۔
2 یس: ۷۰،۶۹۔
3 فاطر: ۲۲۔
4 نمل: ۸۱،۸۰۔
5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۳تا۴۴۔
Views: 107

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآن اور تفکر کی دعوت
اگلا مقالہ: فرعون زمان بن سلمان اور شہداء حجاز