loading
{شرح تفسير الميزان}
روایات جری میں تاویل و تنزیل میں فرق
درس: شرح تفسير الميزان
استاد: سيد يزدان پناه
تحریر: سید محمد حسن رضوی
2021-11-23
علامہ طباطبائی کی نظر میں ’’روایات جری‘‘  کو بیان کرنے کے بعد قول مختار پر ہم منتقل ہوتے ہیں۔ آغاز میں فضیل بن یسار کی روایت بیان کی جاتی ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ يُونُسَ عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ × عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَةِ مَا مِنَ الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلَّا وَلَهَا ظَهْرٌ وَ بَطْنٌ؟ فَقَالَ: ظَهْرُهُ تَنْزِيلُهُ وَبَطْنُهُ تَأْوِيلُهُ، مِنْهُ مَا قَدْ مَضَى وَمِنْهُ مَا لَمْ يَكُنْ، يَجْرِي كَمَا يَجْرِي الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ كَمَا جَاءَ تَأْوِيلُ شَيْ‏ءٍ مِنْهُ يَكُونُ عَلَى الْأَمْوَاتِ كَمَا يَكُونُ عَلَى الْأَحْيَاءِ قَالَ اللَّهُ:{ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ}‏،[1]آل عمران: ۷۔ نَحْنُ نَعْلَمُهُ.  [2]صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، ج ۱، ص۱۹۶۔ 
ترجمہ: فضیل بن یسار کہتے ہیں میں نے امام باقرؑ سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا: قرآن کی کوئی آیت نہیں ہے مگر اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن؟ امامؑ نے فرمایا: قرآن کا ظاہر اس کی ’’تنزیل‘‘ ہے اور اس کا باطن اس کی ’’تأویل‘‘ ہے ، قرآن میں سے بعض ہے جو گزر چکا ہے اور اس میں سے بعض ہے جو ابھی نہیں گزرا، وہ اسی طرح جاری ہوتا ہے جیسے سورج و چاند جاری ساری ہوتے ہیں ، جیساکہ قرآن میں سے ایک شیء کی تأویل جاری ہوتی ہے ،  وہ جس طرح اموات(مردوں) پر جاری ہوتی ہے اسی طرح زندوں پر جاری ہوتی ہے، فرمانِ الہٰی ہے: { اور اس کی تأویل نہیں جانتا سوائے اللہ اور راسخون فی العلم کے}، وہ ہم ہیں جو اس تأویل کو جانتے ہیں۔

تنزیل اور تأویل میں فرق

مندرجہ بالا حدیث صحیح السند ہے جس میں قرآن کریم کے ظاہر اور باطن کا واضح تذکرہ موجود ہے۔ اس حدیث میں فضیل بن یسار امام باقرؑ سے ایک روایت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ ظاہراً یہ روایت رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے جسے فضیل نے سنا تھا اور وہ اس کی تصدیق اور تشریح جاننا چاہتے تھے۔ امامؑ نے قرآن کے ظاہر اور باطن کی تصریح کی ۔ یہ حدیث بصائر الدرجات میں ہے جوکہ فضائل اہل بیتؑ پر بہترین کتاب ہے۔
بعض لوگ قرآن کریم کے ظاہر و باطن کی تقسیم کو قبول نہیں کرتے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس معنی پر ہمارے پاس کوئی صحیح السند دلیل نہیں ہے!! جبکہ اس موضوع پر یہ حدیث صحیح السند ہے۔قرآن کا ظاہر اس کی تنزیل اور اس کا بطن ’’تأویل‘‘ ہے۔ایک سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کے ظاہر و باطن ہونے کو بیان کر رہی ہے یا ہم خود ایک آیت سے ظاہر اور باطن سمجھتے ہیں؟ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث صراحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت ظاہراور باطن میں تقسیم ہوتی ہے اور ہر دو اللہ تعالیٰ کی مراد ہیں۔قرآن کا ظاہر ’’تنزیل‘‘ ہے اور اس کا باطن’’تأویل ‘‘ ہے۔  یہاں باطن سے مراد کیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ باطن سے مراد روایاتِ جری ہیں اور اس کے علاوہ کوئی باطن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بطن فقط ’’جریِ روایات‘‘ میں منحصر نہیں ہے بلکہ ’’جری‘‘ ایک نوعِ باطن ہے، جیساکہ دیگر احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ بطنِ قرآن ’’جری‘‘ میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے عام تر ہے۔ علامہ طباطبائی نے تأویل کو حقیقت قرار دیا ہے اور تنزیل کو ظاہر اور بطن کو بطنِ تنزیل اور تکوین سے تعبیر کیا ہے۔ 
سورہ آل عمران آیت ۷ میں قرآن کو محکم اور متشابہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور جن کے دل ٹیڑھے ہیں وہ متشابہ آیات سے فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں اور اس کی تاویل چاہتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کے دل ٹیڑھے ہیں وہ تاویل کی تلاش میں ہیں تو یہاں تأویل سے مراد معنی ہے یا مراد حقیقت ہے؟ بلا شک و شبہ وہ اس لیے تأویل چاہتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں، مثلاً ایک معنی کو جان کر کہیں اس سے مراد تو جراثیم یا ایٹم ہے یا ایسی معنی بیان کریں جس سے قرآن کریم کے مسلمات کا انکار لازم آتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ وہ ایسے معنی کی تلاش میں ہیں جس سے فتنہ پیدا کریں۔ یہاں ابتغاء تأویلہ سے مراد حقیقت کی تلاش نہیں ہے۔
تأویل کا مطلب مطلق طور پر بازگشت کرنا ہے۔ تأویل مفادِ مراد اور حقیقتِ مراد ہر دو کو شامل ہے۔ علامہ طباطبائی نے تأویل سے مراد حقائقِ ام الکتاب اور خزائنِ قرآن لیا ہے۔ تأویل سے مرادمعنی مراد بھی ہے، جیساکہ روایاتِ اہل بیتؑ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے۔  ایک تنزیل ہے اور ایک تأویل ۔ تنزیل یعنی وہ معنی جو قرآن کریم میں نازل ہوا ہے، جیسے قرآنی معنی رسول اللہ ﷺ سے متعلق ہے، اہل ایمان کے متعلق ہے، کفار و مشرکین ، فرعون وغیرہ کے متعلق ہے۔ جونازل شدہ قرآن ہے تنزیل کہلاتا ہے۔تنزیل پہلا معنی ہے جو قرآن کریم کی آیات سے ظاہر ہے اس لیے آئمہ اہل بیتؑ نے تنزیل کو ظاہرِ قرآن قرار دیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں باطنِ قرآن ہے جس کو تأویل کہا ہے۔ تأویل بھی معنیِ مراد اور مقصودِ خدا ہے لیکن ظاہر کے مرحلے کے بعد ہے۔ تنزیل سطحِ اول کا معنی ہے اور تأویل اس کے بعد کا معنی ہے۔ 
بعض محققین نے ’’جری روایات‘‘ کو باطنِ قرآن قرار دیا ہے۔  ’’جری‘‘ کلِ بطن نہیں ہے بلکہ ایک نوعِ بطن ہے۔ اہل بیتؑ کی روایات میں تمام بطنِ قرآن کو بیان نہیں کیا گیا بلکہ اہل بیتؑ نے بطن کا ایک پہلو ذکر کیا ہے اور بقیہ انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پر راوی کے سامنے ذکر نہیں کیا۔ علامہ طباطبائی نے اس حدیث مبارک کے اس حصہ ’’مِنْهُ مَا قَدْ مَضَى وَمِنْهُ مَا لَمْ يَكُنْ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر سے مراد قرآن لیا ہے۔ البتہ اس ضمیر کو قرآن کی طرف بھی پلٹا سکتے ہیں اور تأویل کی مراد بھی پلٹا سکتے ہین۔ بعض قرآن واقع ہو چکا ہے  اور بعضِ قرآن ابھی واقع نہیں ہوا، بالکل اسی طرح جیسے سورج اور چاند گزرتے ہیں، جیساکہ اس کی تأویل مردوں پر جاری ہوئی ہے اور زندوں پر، جیساکہ جو فرعون کے لیے ضابطے جاری ہوئے وہ آج بھی زندوں کے لیے جاری ہیں، مثلاً صحیح ہے کہ یہ فرعون کے بارے میں آیت ہے لیکن ہم آج کے دور میں زندوں پر بھی اس کو جاری کریں ۔ اختتام حدیث میں فرمانِ الہٰی سے استدلال قائم کرتے ہوئے امامؑ نے فرمایا کہ قرآن کی تأویل اللہ اور راسخون فی العلم کہ وہ ہم ہیں جانتے ہیں۔ پس جریِ روایات کا تعلق باطنِ قرآن سے ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہے۔ معنیِ مراد ہونے کے اعتبار سے تأویل کو بھی معنیِ مراد شامل ہے ۔ لہٰذا تأویل اور جری روایات اللہ تعالیٰ کی مراد ہے ۔
Views: 22

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: روایات اہل بیت ع کا جریان
اگلا مقالہ: لفظ اللہ کا معنی