loading
{شرح تفسير الميزان}
قرن کریم کی روایات کا جاری ہونا
درس: شرح تفسير الميزان
استاد: سيد يزدان پناه
تحریر: سید محمد حسن رضوی

انطباق جریِ طولی اور جریِ عرضی:

علامہ طباطبائی نے ’’جری‘‘ کی بحث کو مطرح کیا اور اس کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے۔ ہم نے پہلے ’’جری‘‘ کو جریِ طولی اور جری عرضی میں تقسیم کیا ۔ اسی طرح جریِ تنزیلی اور جری تأویلی ہے۔ اس کےبعد ظہر اور بطن کو ذکر کیا ۔ پس جریِ طولی بھی بطن ہے اور جری عرضی بھی۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کی آیات کا مختلف موارد میں جاری ہونے میں فرق ہے۔ آیات کریمہ کے جاری ہونے کو جریِ قرآن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جریِ طولی کے بطن ہونے پر دلالت احادیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے: 
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْكَرْخِيِّ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ إِلَى خَيْثَمَةَ قَالَ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ×‏: يَا خَيْثَمَةُ الْقُرْآنُ نَزَلَ أَثْلَاثاً ثُلُثٌ فِينَا وَفِي أَحِبَّائِنَا، وَثُلُثٌ فِي أَعْدَائِنَا وَعَدُوِّ مَنْ كَانَ قِبَلَنَا، وَثُلُثٌ سُنَّةٌ، وَمَثَلٌ، وَلَوْ أَنَّ الْآيَةَ إِذَا نَزَلَتْ فِي قَوْمٍ ثُمَ‏ مَاتَ‏ أُولَئِكَ‏ الْقَوْمُ‏ مَاتَتِ الْآيَةُ لَمَا بَقِيَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْ‏ءٌ وَلَكِنَّ الْقُرْآنَ يَجْرِي أَوَّلُهُ عَلَى آخِرِهِ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْضُ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ آيَةٌ يَتْلُونَهَا هُمْ مِنْهَا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ.  [1]عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص۱۰۔
ترجمہ: امام باقرؑ فرماتے ہیں : اے خثیمہ ! قرآن تین سوم حصوں میں نازل ہوا ہے: ایک سوم ہمارے اور  ہمارے چاہنے اور محبت کرنے والوں کے بارے میں ہے، ایک سوم ہمارے دشمنوں اور جو ہم سے پہلے جو تھے ان کے دشمن کے بارے میں نازل ہوا ہے اور ایک سوم سنت و مَثَل ہے۔ جب  ایک آیت ایک قوم کے بارےمیں  نازل ہو (اورو ہ آیت اسی قوم کے ساتھ مختص ہوتی ) پھر وہ قوم مر جاتی تو اس صورت میں آیت بھی مر جاتی اور اس طرح سے قرآن میں سے کچھ باقی نہ رہتا۔ لیکن قرآن کا اول اس کے آخر پر اس وقت تک جاری ہوتا رہے گا جب تک (سات) آسمان اور زمین موجود ہیں، ہر قوم کے لیے ایک آیت ہے جس کی وہ تلاوت کرتے ہیں ، وہ اس آیت کی بناء پر خیر میں سے ہیں یا شر میں سے۔
اس روایت میں امامؑ واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ اگر ایک آیت ایک قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور اس قوم کے مر جانے کی صورت میں آیت بھی مر جائے تو ایسی صورت میں اصلا قرآ ن باقی نہ رہتا ، مثلا قرآن کریم نے فرعون کی ہلاکت کا سببب اس کا علو، استکبار ، طغیانیت ذکر کیا ہے، اگر یہ آیات فقط فرعون کے ساتھ مختص ہوتیں تو اس کے جانے سے آیت بھی مر جاتی لیکن جو فرعون کے لیے جاری ہوا وہ آج بھی جاری ہے اور اسی بناء پر آیت زندہ ہے۔ اسی طرح شیخ صدوق نے معانی الاخبار میں روایت نقل کی ہے: 
حَدَّثَنَا أَبِي (محمد بن علي) رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْقَمَّاطِ ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَعْيَنَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ × عَنْ ظَهْرِ الْقُرْآنِ وَبَطْنِهِ، فَقَالَ: ظَهْرُهُ الَّذِينَ نَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ وَبَطْنُهُ الَّذِينَ عَمِلُوا بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ يَجْرِي فِيهِمْ مَا نَزَلَ فِي أُولَئِكَ.  [2]صدوق، محمدعلی، معانی الاخبار، ص۲۵۹۔ 
ترجمہ: حُمران بن اعین کہتے ہیں کہ میں امام باقرؑ سے قرآن کریم کے ظاہر اور اس کے باطن کے بارے میں دریافت کیا؟ امامؑ نے فرمایا: اس کا ظاہر وہ لوگ ہیں جس کے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے اور اس کا باطن وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان لوگوں جیسے اعمال انجام دئیے جس کی بناء پر ان کے بارے میں بھی وہی جاری ہو گا جو اس زمانے کے لوگوں کے بارے میں( قرآن )میں نازل ہوا۔
عیاشی نے اپنی تفسیر میں امام باقرؑ سے روایت منقول ہے:
عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ × عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَةِ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلَّا وَ لَهَا ظَهْرٌ وَ بَطْنٌ وَ مَا فِيهِ حَرْفٌ إِلَّا وَلَهُ حَدٌّ وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ مَا يَعْنِي بِقَوْلِهِ لَهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، قَالَ: ظَهْرُهُ وَبَطْنُهُ تَأْوِيلُهُ، مِنْهُ مَا مَضَى وَمِنْهُ مَا لَمْ يَكُنْ بَعْدُ يَجْرِي كَمَا تَجْرِي الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ كُلَّمَا جَاءَ مِنْهُ شَيْ‏ءٌ وَقَعَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ نَحْنُ نَعْلَمُه‏ُ.  [3]عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص۱۱۔
ترجمہ: فضیل بن یسار کہتے ہیں کہ میں امام باقرؑ سے اس روایت کے بارے میں سوال کیا کہ ’’قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے مگر اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ، اس میں کوئی حرف نہیں ہے مگر اس حرف کی ایک حدّ ہے اور ہر حدّ کا ایک مطلع ہے ، یعنی امامؑ کا فرمان ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن؟ امام باقرؑ نے فرمایا: اس کا ظاہر اور اس کا باطن اس کی تأویل ہے، اس (تأویل) میں سے کچھ  جو گزر گیا اور اس میں سے اس کے بعد نہیں ہوا، لیکن جب بھی اس میں سے کوئی شیء واقع ہوتی ہے تو وہ اسی طرح جاری ہوتا ہے جیسے سورج اور چاند جاری ہوتے ہیں ، اللہ تعالی فرماتا ہے:{اور اس کی تأویل نہیں جانتے سوائے اللہ اور راسخون فی العلم کے}، ہم ہی ہیں جو اس کا علم رکھتے ہیں۔  
الميزان فی تفسير القرآن میں علامہ طباطبائی عیاشی کی نقل کردہ اس روایت کو تحریر کرنے کے بعد ان الفاظ میں تبصرہ رقم کرتے ہیں:
ظاهره رجوع الضمير إلى القرآن باعتبار اشتماله على التنزيل والتأويل فقوله: يجري كما يجري الشمس والقمر يجري فيهما معا، فينطبق في التنزيل على الجري الذي اصطلح عليه الأخبار، في انطباق الكلام بمعناه على المصداق كانطباق قوله: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ }: التوبة- 120، على كل طائفة من المؤمنين الموجودين في الأعصار المتأخرة عن زمان نزول الآية، و هذا نوع من الانطباق، و كانطباق آيات الجهاد على جهاد النفس، وانطباق آيات المنافقين على الفاسقين من المؤمنين، وهذا نوع آخر من الانطباق أدق من الأول، وكانطباقها وانطباق آيات المذنبين على أهل المراقبة والذكر والحضور في تقصيرهم ومساهلتهم في ذكر الله تعالى، وهذا نوع آخر أدقّ من ما تقدمه، وكانطباقها عليهم‏ في قصورهم الذاتي عن أداء حق الربوبية، وهذا نوع آخر أدق من الجميع. ومن هنا يظهر:
أولا: أن للقرآن مراتب من المعاني المرادة بحسب مراتب أهله ومقاماتهم، وقد صور الباحثون عن مقامات الإيمان والولاية من معانيه ما هو أدق مما ذكرناه.
وثانيا: أن الظهر والبطن أمران نسبيان، فكل ظهر بطن بالنسبة إلى ظهره وبالعكس كما يظهر من الرواية التالية.  [4]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۳، ص ۷۳۔
ترجمہ:   ظاہراً یہ ضمیر اس اعتبار سے قرآن کی طرف پلٹ رہی ہے کہ قرآن تنزیل اور تأویل ہر دو کو شامل ہے، امامؑ کا یہ فرمانا  کہ ’’ وہ اسی طرح جاری ہوتا ہے جیسے سورج اور چاند جاری ہوتے ہیں، ایک ساتھ دونوں میں جاری ہوتے ہیں، پس یہ تنزیل پر اسی ’’جَری‘‘ کے مطابق منطبق ہوتا ہے جس کو بطور اصطلاح احادیث نے ذکر کیا ہے،  کلام پر اس کا منطبق ہونا مصداق کے معنی میں ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان منطبق ہوتا ہے: {اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو (تقوی اختیار کرو) اور صادقین کے ساتھ ہو جاؤ}،
پس دو قسم کے بطن ہیں: بطن تأویلی ، بطن تنزیلی۔ ظہرِ قرآن فقط تنزیلی ہے جس کو تفسیر بیان کرتی ہے۔ حتی جری عرضی بھی بطن قرآن ہے۔ تفسیر معنی ِ مطابقی کی صورت میں طولی پر ہے جبکہ باطنی تطبیق کے طور پر ہے نہ کہ مطابقی طور پر ۔ جری تفسیر نہیں ہے لیکن ایک نوعِ تفسیر ِ بطنی ہے۔ بطن القرآن غیر از تفسیر ہے۔  
العاشر: أن للقرآن اتساعا من حيث انطباقه على المصاديق و بيان حالها، فالآية منه لا يختص بمورد نزولها بل يجري في كل مورد يتّحد مع مورد النزول ملاكا كالأمثال التي لا تختص بمواردها الأول، بل تتعدّاها إلى ما يناسبها، وهذا المعنى هو المسمى بجري القرآن، وقد مرّ بعض الكلام فيه في أوائل الكتاب.  [5]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۳، ص ۶۷۔
ذات مثل ابتدائی موارد کے ساتھ مختص نہیں ہیں بلکہ جو ان سے مناسبت رکھتے ہیں ان میں بھی جاری ہوتے ہیں۔ اس معنی کو جریِ قرآن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جری میں اگرچے مدلولِ لفظی نہیں لیکن مقصودِ قرآن ہے، مثلا فرعون کے بارے میں آیات میں مدلول لفظی صدام نہیں لیکن مقصودِ قرآن ہے۔

تفسیر اور جری میں فرق

علامہ طباطبائی نے ’’جریِ عرضی ‘‘ کو بطنِ قرآن میں سے قرار دیا ہےاور اسی کے ذیل میں تفسیر اور جری میں فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ذیل میں تفسیر میزان سے بعض شواہد پیش خدمت ہیں: 
أقول: و قد ورد في غير واحد من الروايات في قوله تعالى: {يَقُولُ يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا }، أن السبيل هو علي (ع) وهو من بطن القرآن أو من قبيل الجري وليس من التفسير في شي‏ءٍ.  [6]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۵، ص ۲۰۸۔ 
علی بن ابراہیم قمی قرآن کریم کی اس آیت کے ذیل میں بیان کرتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: { إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّماءِ آيَةً- فَظَلَّتْ أَعْناقُهُمْ لَها خاضِعِينَ‏ }، فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبِي عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ × قَالَ: تَخْضَعُ رِقَابُهُمْ يَعْنِي بَنِي أُمَيَّةَ، وَهِيَ الصَّيْحَةُ مِنَ السَّمَاءِ بِاسْمِ صَاحِبِ الْأَمْرِ. [7]قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۱۱۸، سورۃ الشعراء۔ 
اس کے ذیل میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
حدثني أبي عن ابن أبي عمير عن أبي عبد الله (ع) قال: تخضع رقابهم يعني بني أمية- وهي الصيحة من السماء باسم صاحب الأمر. أقول: وهذا المعنى رواه الكليني في روضة الكافي، و الصدوق في كمال الدين، و المفيد في الإرشاد، و الشيخ في الغيبة، والظاهر أنه من قبيل الجري دون التفسير لعدم مساعدة سياق الآية عليه..  [8]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۵، ص ۲۵۴۔
موردِ تفسیر وہاں ہے جہاں ہم مدلولِ قرآن کی جستجو میں ہیں اور وہاں مدلول تک پہنچنے کی کوشش کی، مثلا رسول اللہ ﷺ کی ایک جنگ کے بارے میں آیت نازل ہوئی اور ہم نے مدلولِ آیت اسی جنگ کے بارے میں قرآن کریم کے موقف کو جانا۔ لیکن یہی آیت جو اس وقت کے ایک واقع کے بارے میں نازل ہوئی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ آج کے دور کے بارے میں جاری ہو۔ اسی طرح ایک اور مثال لے لیں کہ قرآن کریم میں قیامت کے بارے میں آیت نازل ہوئی لیکن اس سے مراد امام زمانؑ بیان کیا گیا تو یہ آیت کی تفسیر نہیں ہے بلکہ ’’جری‘‘ کے باب سے ہے۔بالفاظِ دیگر جب بھی انطباق اور تعیین مصداق کریں تو یہ ’’جری‘‘ ہے۔ جب بھی انطباق اور مصداق کا تعین کریں گے تو یہ ہم ’’جَری‘‘ کے باب میں داخل ہو جائیں گے۔
پس ایک مرتبہ ہم سیاقِ آیت، لغتِ قرآن اور دیگر آیات کی مدد سے معنیِ آیت سمجھتے ہیں اور مدلولِ کلام کو حاصل کرتے ہیں، یہ تفسیر ہے۔ تفسیر کے اعتبار سے وہ معنی ممکن ہے ایک قوم اور ایک شخص کے بارے میں ہے لیکن مصداق اور انطباق کے اعتبار سے یہ معنی اس زمانے کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ لہٰذا مدلولِ آیت کا تعلق تفسیر سے ہے جبکہ مصداق و انطباقِ آیت کا تعلق ’’بابِ جَری‘‘ سے ہے۔آیت کریمہ کا مدلولِ مطابقی یا مدلولِ التزامی کا تعلق تفسیر سے ہے ، اسی طرح مدلولِ لفظی قرائن و سیاق کے ہمراہ بھی تفسیر ہے ۔ بالفاظِ دیگر تفسیر سے مراد آیت کریمہ کا مدلولِ لفظی، مدلولِ مطابقی اور سیاق و قرائن کی مدد سے مدلولِ واضح یعنی مدلول التزامی جس کے لوازم واضح اور بیّن ہوں سے عبارت ہے۔ لوازمِ بعید یہاں تفسیر نہیں کہلائیں گے بلکہ لوازمِ بین و واضح تفسیر سے ملحق ہیں۔ علامہ طباطبائی اپنی کتاب ’’قرآن در اسلام‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ آیت قرآنی اپنے مدلول پر دلالت کرے اور محصّلِ معنی تحصیل معنی پر تاثیر رکھتا ہو، مثلا جب قواعد کے اعتبار سے آپ استدلال کرتے ہیں اگر اس کی تاثیر معنی کے حصول پر ہو تو وہ تفسیر سے تعلق رکھے گی لیکن بعض اوقات آپ بعض محاسنِ بدیع ذکر کرتے ہیں مثلا، لیکن ان کی حصولِ معنی میں کوئی تأثیر نہیں ہے تو یہ تفسیر نہیں کہلائیں گے۔ تفسیر براہِ راست مرادِ الہٰی کو کہتے ہیں۔تأویل ظاہری اور تأویل باطنی کی ایک تقسیم ہمارے سامنے آتی ہے۔

تنزیل ظاہری اور تنزیل باطنی
اس کے ذیل میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
وكذا الأخبار التي تتضمن تمسك أئمة أهل البيت ^ بمختلف الآيات القرآنية في كل باب على ما يوافق القرآن الموجود عندنا حتى في الموارد التي فيها آحاد من الروايات بالتحريف، وهذا أحسن شاهد على أن المراد في كثير من روايات التحريف من قولهم ^ كذا نزل هو التفسير بحسب التنزيل في مقابل البطن و التأويل.
وكذا الروايات الواردة عن أمير المؤمنين وسائر الأئمة من ذريته ^ في أن ما بأيدي الناس قرآن نازل من عند الله سبحانه و إن كان غير ما ألفه علي × من المصحف و لم يشركوه × في التأليف في زمن أبي بكر و لا في زمن عثمان و من هذا الباب‏ قولهم ^ لشيعتهم: > اقرءوا كما قرأ الناس <. ومقتضى هذه الروايات أن لو كان القرآن الدائر بين الناس مخالفا لما ألفه علي × في شي‏ء فإنما يخالفه في ترتيب السور أو في ترتيب بعض الآيات التي لا يؤثر اختلال ترتيبها في مدلولها شيئا ولا في الأوصاف التي وصف الله سبحانه بها القرآن النازل من عنده ما يختل به آثارها. فمجموع هذه الروايات على اختلاف أصنافها يدل دلالة قاطعة على أن الذي بأيدينا من القرآن هو القرآن النازل على النبي من غير أن يفقد شيئا من أوصافه الكريمة و آثارها و بركاتها.  [9]طباطبائی،  محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۲، ص ۱۰۸۔
ایک اور جگہ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
وفي الكافي، عن الصادق ×: قال: النور آل محمد والظلمات أعداؤهم. أقول: و هو من قبيل الجري أو من باب الباطن أو التأويل‏.  [10]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۲، ص ۳۴۷۔
یا بطنِ تکوینی ہے، یا تنزیل ہے جوکہ یا تفسیر ہے یا جری ہےیا تأویل، جیساکہ ایک جگہ علامہ کہتے ہیں: 
أقول: وفي بعض الروايات من طرق أهل البيت (^) تطبيق الحكم في قوله: { فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ ‏ } ، والرحمة في قوله: {يُدْخِلُ مَنْ يَشاءُ فِي رَحْمَتِهِ} على الولاية وهو من الجري أو البطن وليس من التفسير في شي‏ء. [11]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص ۱۴۴۔
علامہ طباطبائی اس آیت کریمہ : { وَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ في‏ إِمامٍ مُبين‏ }میں امام مبین سے مراد کتابِ وجودیِ عالم ہے۔ وہ کتاب ہے جو پیشوا ہے۔  المیزان میں علامہ بیان کرتے ہیں:
وفي تفسير القمي: في قوله تعالى:{ وَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ في‏ إِمامٍ مُبين‏ } أي في كتاب مبين وهو محكم، وذكر ابن عباس عن أمير المؤمنين (×): أنا والله الإمام المبين أبين الحق من الباطل ورثته من رسول الله .
وفي معاني الأخبار: بإسناده إلى أبي الجارود عن أبي جعفر عن أبيه عن جده × عن النبي في حديث: أنه قال في علي (×) إنه الإمام الذي أحصى الله تبارك وتعالى فيه علم كل شي‏ء. أقول: الحديثان لو صحا لم يكونا من التفسير في شي‏ء بل مضمونهما من بطن القرآن وإشاراته، ولا مانع من أن يرزق الله عبدا وحده وأخلص العبودية له العلم بما في الكتاب المبين وهو (×) سيد الموحدين بعد النبي . [12]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۷، ص ۷۰۔
تأویل مقابلہ تفسیر ہے۔ :
وفي بعض الروايات عن الرضا (×) قال: ليس في القرآن {يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا} إلا في حقّنا، وهو من الجري أو من باطن التنزيل. [13]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۵، ص ۱۸۸۔
ایک جگہ علامہ طباطبائی بیان کرتے ہیں:
والرحمة في قوله: {يُدْخِلُ مَنْ يَشاءُ فِي رَحْمَتِهِ‏ } على الولاية وهو من الجري أو البطن وليس من التفسير في شي‏ء. [14]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص ۱۴۴۔
بطن تکوینی  ایک ہے اور ایک بطن تنزیلی ہے۔ المیزان میں علامہ بیان کرتے ہیں:
وفي تفسير العياشي، عن عبد الله بن المغيرة عن جعفر بن محمد (ع) في قول الله: {فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ‏ }، قال: فقال: إذا رأيتموهم يحبون آل محمد فارفعوهم درجة. أقول: وهو من الجري من باطن التنزيل، فإن أئمة الدين آباء المؤمنين، والمؤمنون أيتام المعارف عند انقطاعهم عنهم، فإذا صح انتسابهم إليهم بالحبّ فليرفعوا درجة بتعليم المعارف الحقة التي هي ميراث آبائهم. [15]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص ۱۷۹۔
ہر مصداق ’’جری‘‘ نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جری مرحلہ دوم میں ہو۔
وفي المجمع، في قوله تعالى: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ} الآيات، عن الباقر (×): نزلت في شهداء بدر وأُحُد مَعًا.
أقول: وعلى ذلك روايات كثيرة رواها في الدر المنثور و غيره وقد عرفت أن معنى الآيات عام شامل لكل من قتل في سبيل الله حقيقة أو حكما، وربما قيل: إن الآيات نازلة في شهداء بئر معونة، وهم سبعون رجلا أو أربعون من أصحاب النبي أرسلهم لدعوة عامر بن الطفيل و قومه و كانوا على ذلك الماء فقدموا أبا ملحان الأنصاري إليهم بالرسالة فقتلوه أولا ثم تتابعوا على أصحاب النبي ص فقاتلوهم فقتلوهم جميعا رضي الله عنهم.
وفي تفسير العياشي، عن الصادق × قال: هم والله شيعتنا حين صارت أرواحهم في الجنة، و استقبلوا الكرامة من الله عز و جل: علموا واستيقنوا أنهم كانوا على الحق وعلى دين الله عز و جل- فاستبشروا بمن لم يلحقوا بهم– من إخوانهم من خلفهم من المؤمنين.
أقول: وهو من الجري، ومعنى علمهم و استيقانهم بأنهم كانوا على الحق أنهم ينالون ذلك بعين اليقين بعد ما نالوه في الدنيا بعلم اليقين لا أنهم كانوا في الدنيا شاكين مرتابين. [16]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص ۷۲۔
تفسیر کے باب میں بعض مثالیں المیزان سے پیش خدمت ہے: 
وفي البصائر، عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن محمد بن منصور قال: سألته عن قول الله تبارك وتعالى: {وَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً قالُوا وَجَدْنا عَلَيْها آباءَنا- وَ اللَّهُ أَمَرَنا بِها} إلى آخر الآية- فقال: أ رأيت أحدا يزعم أن الله أمرنا بالزنا- وشرب الخمور وشي‏ء من المحارم؟ فقلت: لا، فقال: فما هذه الفاحشة التي يدعون أن الله أمرنا بها؟ فقلت: الله أعلم ورسوله، فقال: فإن هذه في أئمة الجور، ادعوا أن الله أمر بالائتمام بقوم لم يأمر الله بهم، فردّ الله عليهم وأخبرنا أنهم قالوا عليه الكذب، فسمى الله ذلك منهم فاحشة.
أقول: و رواه في الكافي، عن عدة من أصحابنا عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن أبي وهب عن محمد بن منصور قال*: سألته و ساق الحديث، و روي ما في معناه في تفسير العياشي، عن محمد بن منصور عن عبد صالح فعلم أن في السند أبا وهب و عنه يروي الحسين بن سعيد و أن الحديث مروي عن موسى بن جعفر (ع).
و كيف كان فالرواية لا تنطبق بحسب مضمونها على حين نزول الآية ولا ما ذكر فيه من الحجة ينطبق على موردها فإن أهل الجاهلية كانت عندهم أحكام كثيرة متعلقة بأمور من قبيل الفحشاء ينسبونه إلى الله سبحانه كالطواف بالبيت عاريا.
لكن الحجة المذكورة فيه من حيث انطباق الآية على مصاديق بعد زمن النزول أقرب انطباقا على أئمة الجور و الحكام الظلمة فإن المسلمين مرت بهم أعصار يتولى فيها أمورهم أمثال الدعي زياد بن أبيه و ابنه عبيد الله و الحجاج بن يوسف وعتاة آخرون، و حول عروشهم و كراسيهم عدة من العلماء يفتون بنفوذ أحكامهم و وجوب طاعتهم بأمثال قوله تعالى: {أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ}. فالرواية ناظرة إلى انطباق الآية على مصاديقها بعد عصر النزول. [17]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص ۸۹۔
بعض روایات میں آئمہؑ نے واضح الفاظ میں جری کی تصریح کی ہے جیساکہ المیزان میں علامہ نے ذکر کیا ہے:
وفي معاني الأخبار، بإسناده عن محمد بن سنان عن المفضل بن عمر قال: سمعت أبا عبد الله (×) يقول: إن رسول الله ص- نظر إلى علي والحسن والحسين (^) فبكى- وقال: أنتم المستضعفون بعدي. قال المفضل: فقلت له: ما معنى ذلك؟ قال:
معناه أنكم الأئمة بعدي- إن الله عز و جل يقول: {وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ- وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ}، فهذه الآية جارية فينا إلى يوم القيامة. أقول: والروايات من طرق الشيعة في كون الآية في أئمة أهل البيت (ع) كثيرة وبهذه الرواية يظهر أنها جميعا من قبيل الجري والانطباق. [18]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۶، ص ۱۵۔
ایک اور جگہ پر علامہ بیان کرتے ہیں:
وفي الكافي، بإسناده عن عمرو بن حريث قال: سألت أبا عبد الله (ع) عن قول الله: { كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِي السَّماءِ}، قال: فقال: رسول الله أصلها وأمير المؤمنين × فرعها- والأئمة ^من ذريتهما أغصانها- وعلم الأئمة ثمرتها وشيعتهم المؤمنون ورقها- هل في هذا فضل؟ قال: قلت: لا والله. قال: والله إن المؤمن ليولد فتورق ورقة فيها، وإن المؤمن ليموت فتسقط ورقة منها.
أقول: والرواية مبنية على كون المراد بالكلمة الطيبة هو النبي ، وقد أطلقت الكلمة في كلامه على الإنسان كقوله: { بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ} آل عمران- 45، ومع ذلك فالرواية من باب التطبيق ومن الدليل عليه اختلاف الروايات في كيفية التطبيق ففي بعضها أن الأصل رسول الله ص والفرع علي (×) والأغصان الأئمة (×) والثمرة علمهم والورق الشيعة كما في هذه الرواية، وفي بعضها أن الشجرة رسول الله وفرعها علي والغصن فاطمة و ثمرها أولادها وورقها شيعتنا كما فيما رواه الصدوق عن جابر عن أبي جعفر (ع)، وفي بعضها أن النبي والأئمة هم الأصل الثابت والفرع الولاية لمن دخل فيها كما في الكافي، بإسناده عن محمد الحلبي عن أبي عبد الله (×). [19]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۲، ص ۶۳۔
ایک اور موردِ تطبیق ہے: 
نعم ليست الآية بعامة لجميع المؤمنين لأخذها في وصفهم صفات لا تعم الجميع كقوله. وقد وردت عدة من الأخبار من طرق الشيعة في تطبيق مفردات الآية على النبي وأهل بيته (^) وهي من التطبيق دون التفسير، ومن الدليل على ذلك اختلافها في نحو التطبيق‏. [20]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۵، ص ۱۴۱۔
المیزان میں بعض موارد ہیں جہاں بحثِ جری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سلطانِ بحث جری ہے۔ علامہ طباطبائی بحث روائی کے ذیل میں مختلف موارد میں کہا ہے کہ یہ بحثِ جری یا بابِ جری میں سے ہے لیکن بعض جگہوں میں عمومی طور پر جری کا بیان کیا لیکن بیان کیا کہ یہ افضل ترین مصداق ہے۔ پس علامہ طباطبائی نے بعض جگہوں میں قاعدہِ کلی کے طور پر جری کو ذکر کیا ہے  ۔
وقوله: {  وَالْباقِياتُ الصَّالِحاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَواباً وَ خَيْرٌ أَمَلًاإلخ المراد بالباقيات الصالحات الأعمال الصالحة فإن أعمال الإنسان محفوظة له عند الله بنص القرآن فهي باقية و إذا كانت صالحة فهي باقيات صالحات، وهي عند الله خير ثوابا لأن الله يجازي الإنسان الجائي بها خير الجزاء، وخير أملا لأن ما يؤمل بها من رحمة الله وكرامته ميسور للإنسان فهي أصدق أملا من زينات الدنيا وزخارفها التي لا تفي للإنسان في أكثر ما تعد، والآمال المتعلقة بها كاذبة على الأغلب وما صدق منها غار خدوع.
وقد ورد من طرق الشيعة وأهل السنة عن النبي ومن طرق الشيعة عن أئمة أهل البيت (^) عدة من الروايات: أن الباقيات الصالحات التسبيحات الأربع: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر، وفي أخرى أنّها الصلاة، وفي أخرى مودة أهل البيت ^، وهي جميعا من قبيل الجري والانطباق على المصداق. [21]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۳، ص ۳۱۹۔
روایات میں جہاں شانِ نزول ہے وہ جزءِ تفسیر ہے اور یہ شانِ نزول واقع ہوا ہے اس لیے اس کو ہم جری نہیں کہہ سکتے، مثلاً الیوم اکملت کا شانِ نزول اعلانِ ولایت ہے جوکہ حقیقت میں واقع ہوا ۔ اس کو روایت میں جب ذکر کیا گیا تو یہ تفسیر کہلائے گا نہ کہ جری۔ اس لیے روایات میں ہر واقعہ یا ہر مورد کو ہم جری قرار نہیں دے سکتے۔ بعض جگہوں میں علامہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ افضل ترین مصادیق میں سے ہے جیساکہ المیزان میں وارد ہوا ہے:
{  اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ- مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ}، فقال: هو مثل ضربه الله لنا- فالنبي و الأئمة (ص) من دلالات الله- وآياته التي يهتدى بها إلى التوحيد و مصالح الدين- وشرائع الإسلام و السنن و الفرائض، ولا قوة إلا بالله العلي العظيم.
أقول: الرواية من قبيل الإشارة إلى بعض المصاديق وهو من أفضل المصاديق وهو النبي والطاهرون من أهل بيته (^) وإلا فالآية تعم بظاهرها غيرهم من الأنبياء (^) والأوصياء والأولياء. [22]طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۵، ص ۱۴۱۔

منابع:

منابع:
1 عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص۱۰۔
2 صدوق، محمدعلی، معانی الاخبار، ص۲۵۹۔
3 عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، ج ۱، ص۱۱۔
4 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۳، ص ۷۳۔
5 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۳، ص ۶۷۔
6 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۵، ص ۲۰۸۔
7 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۱۱۸، سورۃ الشعراء۔
8 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۵، ص ۲۵۴۔
9 طباطبائی،  محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۱۲، ص ۱۰۸۔
10 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ۲، ص ۳۴۷۔
11, 14 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص ۱۴۴۔
12 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۷، ص ۷۰۔
13 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۵، ص ۱۸۸۔
15 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص ۱۷۹۔
16 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۴، ص ۷۲۔
17 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص ۸۹۔
18 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۶، ص ۱۵۔
19 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۲، ص ۶۳۔
20, 22 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۵، ص ۱۴۱۔
21 طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۳، ص ۳۱۹۔
Views: 59

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت صالح ؑ اور ان کی قوم
اگلا مقالہ: آیت مباہلہ