loading

{ قرآنی الفاظ معانی }

کلمہ برکت کا قرآنی معنی

تحریر: منیر حسین
01/13/2023

برک عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مشتقات کےساتھ تقریبا ً ۳۲ مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔ لفظ برک مفر د ہے لیکن قرآن مجید میں اس کی جمع برکات کئی آیات میں وارد ہوئی ہے۔ برک کا معنی نشوء ونما اورخیر کے  اضافہ کے ہیں۔ برکت مادی بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔  قرآن کریم میں آسمانی اور زمینی ہر دو برکات کا تذکرہ ہوا ہے۔ قرآنی استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس لفظ کے لغوی معنی کو اہل لغت کے بیانات کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:

اہل لغت کی نظر میں :

۱۔ کتاب العین : فراہیدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:والبركة: الزيادة والنماء؛  بركت: اضافہ اور پھلناپھولنا (نشوونما پانا)۔اس سے تبریک کہا جاتا ہے جس کا مطلب برکت کی دعا دینا ہے۔ پانی کے جوہڑ کو عربی زبان میں ’’بِرک‘‘ کہاجاتا ہے۔ [1]فراہیدی،خلیل بن احمد،کتاب العین،ج۵،ص۳۶۸۔
۲۔ معجم مقاییس اللغۃ: ابن فارس ذکر کرتے ہیں:الْبَاءُ وَالرَّاءُ وَالْكَافُ أَصْلٌ وَاحِدٌ، وَهُوَ ثَبَاتُ الشَّيْءِ، ثُمَّ يَتَفَرَّعُ فُرُوعًا يُقَارِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا؛یہ لفظ ’’ب-ر-ک‘‘سے مل کر بنا ہے جس کا اصلی معنی شیء کا ثابت اور مستحکم ہونا ہے ، پھر اس سے فروعات نکلتے ہیں جن میں سے بعض دیگر بعض کے قریب ہیں ۔[2]ابن فارس، احمد ، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۱، ص ۲۲۷۔
۳۔ مصباح المنیر:  فیومی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:البَرَكَةُ الزِّيَادَةُ والنَّمَاءُ ؛ برکت: زیادتی و اضافہ اور نشو ونما پانا۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے: بارك الله تعالي فيه فهو مبارك ؛ اللہ تعالیٰ اس میں برکت عنایت فرمائے پس وہ چیز مبارک ہو جائے گی۔ اصل یہ ہےکہ اس کےاندربرکت عنایت کی گئی ہے۔[3]فیومی ،احمدبن محمد، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر ،ج۱،ص۲۹۔

قرآنی لغات کی روشنی میں :

۱۔ المفردات فی غریب القرآن :راغب اصفہانی نے لفظ برک کےمعانی کو آیات قرآنی کےاستعمال کومد نظر رکھتے ہوئےاس طرح ذکر کرتےہیں : البرکۃ: ثبوت الخير الالهي في الشئ؛ بر ک سے مراد کسی چیز میں اللہ تعالی کی طرف خیر کاثابت ہوناہے۔[4]راغب اصفہانی،ابوالقاسم حسین بن محمد ،المفردات فی غریب القرآن ،ج1،ص۲۶۵۔
۲۔ التحقیق فی کلمات القرآنالکریم : علامہ مصطفوی اپنا تحقیقی معنی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  أنّ الأصل الواحد في هذه المادّة: هو الفضل و الفيض و الخير و الزيادة مادّيّا كان أو معنويّا، فالمبارك ما فيه الخير و يكون متعلّقا للفيض و الفضل. و البركة: الخير و الفضل و الزيادة. و البركة: زيادة و خير مخصوص، و اختصّ بنوع معيّن من مجمع الماء؛ اس مادہ (برک) سے جو ایک اصلی معنی آتا ہے وہ فضل ، فیض کا جاری ہونا ، خیر اور زیادہ پن کا حصول ہے جوکہ یا مادی ہو گا یا معنی۔ مبارَک وہ شیء ہوتی ہے جس میں خیر عنایت کیا گیا ہے اور اس کا تعلق فیض و فضل سے قائم ہوا ہے۔ برکت : خیر ، فضل اور زیادہ پن کو کہتے ہیں۔ برکت کا معنی زیادہ پن اور خاص نوع کا خیر بھی ہے۔ یہ کلمہ خاص نوعیت کے پانی کے ذخیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے  (جسے اردو میں جوہڑ کہا جاتا ہے)۔ [5]مصطفوی ، حسن،  الحقیق فی کلما ت القرآن الکریم، ج ۱، ص ۲۵۹۔

تحقیقی نظر:

لغوی اور قرآنی لغات پر دقت کرنے سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں :
۱۔لفظ برک یعنی زیادی اوراضافہ کاہوناہے ۔برک کی یہ خصوصیت ہوتی ہےکہ اصل چیزکےعلاوہ اس کےاندر مزیداضافہ ہوتاہے جوانسان کےلیےباعث خوشی اورسکون کا باعث ہوتی ہے۔ برکت کابہترین مصداق اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل وکرم کااپنے بندوں پر ہونا اور فیضِ الہٰی سے بہرہ مند ہونا ہے۔ جب بھی اصل شیء میں نشوونما اور اضافہ ہو گا تو وہ اضافہ برکت کہلائے گا ، مثلاً اگر پانچ بندوں کے لیے ایک کھانا تیار ہوتا ہے جو دس بندے شکم بھر کر تناول کرتے ہیں تو افراد کے بڑھنے سے کھانے کی مقدار کا پورا ہونا اور کمی کا احساس نہ ہونا اللہ سبحانہ کی جانب سے برکت کا میسر آنا ہے۔ اسی طرح اگر ایک انسان ایک نیک کام کرتا ہے جس کی بدولت وہ بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے اور مزید نیک کاموں کی توفیق حاصل کر لیتا ہے تو اس کا وہ نیک کام بابرکت شمار ہو گا۔
۲۔لفظ برک کےدیگر کچھ اورمعانی بھی اہل لغت نےذکرکیےہیں۔ مثلا اونٹ کےاپنےسینے کےبَل اس طرح بیٹھناکہ اس کا سینہ زمین سےلگ جائے ’’بَرک‘‘ کہلاتا ہے جبکہ ’’بِرک‘‘ زمین کھودکر پانی کے جمع کیے گئے ذخیرہ یعنی جوہڑ کو کہتے ہیں۔
۳۔کلمہِ برک سے مشتق ہونے والے متعدد کلمات کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے۔ قرآن کریم میں لفظِ برکت تو وارد نہیں ہوا لیکن اس کی جمع برکات تین مقامات ’’سورہ اعراف آیت ۹۶، سورہ ہود آیت ۴۸ اور سورہ ہود آیت ۷۳ ‘‘ میں آئی ہے۔ باب تفاعل سے تبارک تقریباً ۹ آیات ’’سورہ اعراف آیت ۵۴، سورہ مؤمنون آیت ۱۴، فرقان آیت ۱، سورہ فرقان آیت ۱۰، سورہ فرقان آیت ۶۱، سورہ غافر (مومن) آیت ۶۴، سورہ زخرف آیت ۸۵، سورہ رحمن آیت ۷۸، سورہ ملک آیت ۱‘‘ میں وارد ہوا ہے۔ کلمہ مبارک ۱۲ آیات ’’ سورہ آل عمران آیت ۹۶،سورہ انعام آیت ۹۲، سورہ انعام آیت ۱۵۵، سورہ مریم آیت ۳۱، سورہ انبیاء آیت ۵۰، سورہ نور آیت ۳۵، سورہ نور آیت ۶۱، سورہ قصص آیت ۳۰ ، سورہ ص آیت ۲۹، سورہ مؤمنون آیت ۲۹، سورہ دخان آیت ۳، سورہ ق آیت ۹‘‘ میں وارد ہوا ہے۔قرآن کریم میں بارک سے فعل مجہول بُورِکَ  ’’سورہ نمل آیت ۸‘‘ میں استعمال ہوا ہے۔ تقریباً لفظِ باركنَا  تقریباً چھ آیات ’’سورہ اعراف آیت ۱۳۷، سورہ اسراء آیت ۱، سورہ انبیاء آیت ۷۱، سورہ انبیاء آیت ۸۱، سورہ سبأ آیت ۱۸، سورہ صافات آیت ۱۱۳‘‘ میں وارد ہوا ہے۔
۴۔ قرآن کریم نے برکت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دی ہے اور بعض آیات میں مبارک موصوف اور بعض آیات میں بطور صفت استعمال ہوا ہے۔ سورہ نور آیت ۳۸ میں درخت کی صفت مبارک آئی ہے جبکہ سورہ نور آیت ۶۱ میں مبارک موصوف اور اس کی صفت ’’طیبہ‘‘ وارد ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ قصص آیت ۳۰ میں بقعۃ کی صفت مبارک آئی ہے جس کا مطلب بنتا ہے: وہ ٹکڑا یا جگہ جس کو برکت سے آراستہ کیا گیا ہے۔ سورہ دخان آیت ۳ میں رات کی صفت مبارک آئی ہے جس کا ترجمہ بنے گا : وہ رات جس کو خیر و برکت عنایت کی گئی ہے۔ سورہ ق آیت ۹ میں پانی کی صفت مبارک آئی ہے جس کا مطلب بنے گا: خیر و برکت والا پانی
۔

منابع:

منابع:
1 فراہیدی،خلیل بن احمد،کتاب العین،ج۵،ص۳۶۸۔
2 ابن فارس، احمد ، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۱، ص ۲۲۷۔
3 فیومی ،احمدبن محمد، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر ،ج۱،ص۲۹۔
4 راغب اصفہانی،ابوالقاسم حسین بن محمد ،المفردات فی غریب القرآن ،ج1،ص۲۶۵۔
5 مصطفوی ، حسن،  الحقیق فی کلما ت القرآن الکریم، ج ۱، ص ۲۵۹۔
Views: 23

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حضرت ہودؑ کے بارے میں قرآنی آیات
اگلا مقالہ: لفظ نور کا قرآنی معنی