loading

{ قرآنی الفاظ معانیِ}

کلمہ  ضرر کا قرآنی تعارف

تحریر: منیرحسین
2023/3/3

ضرر عربی زبان کا لفظ ہے ۔کلمہ ضرر مفرد ہے  اور اس کی جمع “أضرار “آتی  ہے ۔لیکن قرآن کریم میں اس کی جمع وا رد نہیں  ہوئی ہے ۔ضرر یعنی سختی ،فائدہ و منفعت کانہ ہونا۔ تنگدستی وفقرکاسامنا کرنا، مشکلات و سختیوں کےپیش آنا ۔مشکلات  کی دو قسمیں بیان  کی گئی   ہیں ۔ایک    حصول علم کی راہ میں  مشکلات اور دوسرا حصول مال کی راہ میں    مشکلات کا سامنا کرنا ۔کلمہ ضرر قرآن مجید  میں  اپنے تمام مشتقات کے ساتھ تقریباً۸۲ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ کبھی قوت اور   اشیاءکے آپس میں جوڑ جانے کو بھی ضرر سے تعبیر کیاجاتاہے۔

اہل لغت کی روشنی میں:

قدیمی  لغت کےماہر ین نے لفظ   ضرر کےمعانی  اپنی کتب لغت میں درج کیے ہیں جن میں سے کچھ اہم  درجہ ذیل ہیں۔

۱۔ مصباح المنیر :    فیومی اپنی کتا ب  مصباح المنیر میں  کلمہ  ضرر کےمعانی بیان کرتےہوئےلکھتے  ہیں: الضرر: الفاقة الفقربضم الضاد اسم و بفتحها مصدر”ضره”يضره”من باب  قتل: قال الازهري : كل ما كان سوء حال وفقروشدة في بدن فهوضرر بالضم وما كان ضد النفع فهو بفتحها؛ ضرر یعنی فقر ، تنگی دستی ،اگر ضررکوضمہ کےساتھ پڑھیں تو اسم ہوگا،او ر اگر فتحہ کےساتھ پڑھیں تو مصدر ہوگا ۔ ضر،یضر باب قتل سے ہے ۔زہری کہتا ہے۔ ہر وہ  خراب حالت جو فقر وشدت کی صورت میں بدن میں موجود ہو ضرر کہلاتاہے ضمہ کے ساتھ  ۔اور جو ضرر  نفع کی  ضد میں آتاہے وہ فتحہ کےساتھ آتا ہے۔[1]فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۱۸۶۔

۲۔معجم المقاییس اللغۃ: احمد بن فارس اپنی  کتاب معجم المقاییس اللغۃ    میں کلمہ ضرر کےمعانی  بیان کرتےہوئے  لکھتےہیں: الضاد والراءثلاثة أصول : الأول خلاف النفع”والثاني : اجتماع الشيء”والثالث القوة : فالاول الضرر:ضدالنفع . وأما الثاني فضرة الضرع : لحمته. وأما الثالث فالضرير:قوة النفس؛کلمہ “ض۔ر”کے  تین اصلی اصول  ہیں ۔ پہلا معنی  نفع کے برخلاف    ہونا ۔دوسرا    چیزوں کاآپس میں جمع ہونا۔تیسرا قوت کاہونا۔برخلاف نفع یعنی منفعت کی ضد  ہونا ۔اجتماع شیء یعنی ،ایسا گوشت جس میں دودھ بھی موجود ہو،جیسے  پستان وغیرہ۔معنی سو م میں قوت سے مراد ،نفس انسانی کا قوی ہوناہے۔[2]ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس اللغۃ ،ج۳،ص۳۶۰۔

۳۔لسان العرب  :  ابن منظور   اپنی کتاب  لسان العرب میں   کلمہ ضررکے معنی بیان کرتےہوئے  ذکرکرتے ہیں: ضرر: في اسماء الله تعالي :النافع الضار”وهوالذي ينفع من يشاء من خلقه ويضره حيث هوخالق الاشياء كلها :خيرها وشرها ونفعها وضرها .الضر(فتحہ  کےساتھ) والضر(ضمہ کےساتھ )لغتان : ضد النفع .والضر(فتحہ کےساتھ )المصدر “والضر(ضمہ کے ساتھ )الاسم؛  اللہ تعالی کے اسماء  میں  ایک اسم ، النافع الضار ہے ۔یعنی  ایسی ذات  جو مخلوقات میں سے جس چاہیے نفع  پہنچاتی ہے او ر جس چاہیے   ضرر پہنچاتی ہے ، اس حیثیت سے کہ وہ  تمام اشیاء کا خالق ہے خیر  وشر ،نفع ونقصان  سب کا مالک ہے ۔کلمہ ضررکےدولغات وارد ہوئے ہیں ،ایک فتحہ کےساتھ ا س صورت میں یہ اسم کہلائیگا ،اور دوسرا ضمہ کےساتھ   تواس صورت میں یہ مصدر  ہوگا ۔[3]ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب،ج ۱،ص۲۴۴۔

قرآنی لغات کی روشنی میں:

۴۔ التحقیق فی کلمات القرآن الکریم :  علامہ حسن مصطفوی  اپنی کتاب التحقیق فی کلمات القرآن الکریم میں کلمہ   ضرر کےمعانی کو لغات قدیمی اورقرآن  کریم کی روشنی میں  بیان کرتےہوئےذکرکرتےہیں: ان الاصل الواحد في المادة : هوما يقابل النفع “فالنفع هوالخير العارض يتحصل للأنسان. هوالشر المتوجه للشيء يوجب نقصانا فيه أو في متعلقاته وقد ذكر الضر في قبال مادة النفع؛کلمہ ضرر کا ایک ہی اصلی معنی ہے۔ ضرریعنی جو نفع  کےمقابلے میں ہو،نفع یعنی وہ خیر جوانسان  کےلیے حاصل ہوتاہے۔ ضرریعنی ایسا شر جوجس شیء کی طرف متوجہ ہوں  یا خود  اس  شیء میں نقصان   کاموجب بنتا ہے یا اس شیء کا  متعلقات میں  نقصان پیدا کرتاہے۔ اور بتحقیق ضرر کو مادہ نفع  کے مقابلے میں استعمال  کیا جاتاہے ۔[4] صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن  الکریم ، ج ۷، ص۲۴۔

۵۔ المفردات فی غریب القرآن : راغب اصفہانی   کلمہ  ضرر کو قرآن کریم   کی روشنی میں بیان کرتےہوئےذکر کرتےہیں: الضر(ضمہ کے ساتھ) سوءالحال”اما في نفسه لقلة العلم والفضل والعفة” واما في البدن لعدم جارحة ونقص” واما في حالة الظاهرة من قلة مال وجاه؛ ضرر یعنی ،   حالات کا برا ہونا۔ حالت کا برا  ہونا کبھی ،بذات خود نفس انسانی میں  علم،فضل و عفت کی کمی کی وجہ سے ہے ۔اور کبھی بدن میں کسی  عضو کے نہ ہونے اور نقص کی وجہ سے  حالات برے ہوتے ہیں ۔اور کبھی ظاہر ی طور پر مال و مقام کی قلت کی وجہ سے  حالات   بد ہوتے ہیں۔

[5]راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن ،ج۱،ص۵۰۳۔

تحقیقی نظر :

لغوی  اور قرآنی  لغات  پر دقت کرنے سے    درج ذیل نکات  ہمارے سامنے آتے ہیں :

۱۔ ضرریعنی    ایسا شر  جو جس  شیء    کی طرف  متوجہ ہوں اس میں  نقصان اور نقص پیدا کرتا ہےیااس شیء کےمتعلقات میں نقص ایجادکرتاہے۔ ضرر نفع کے بر خلاف ہوتا ہے،چیزوں کا آپس  میں جوڑ جانا۔ نفس انسانی  کا قوی ہونا۔  انسان کا بدنی وروحی اعتبار سے   ضعیف ہوجانا ۔ بدن  سے کسی عضو کا کٹ جانا۔

۲۔کلمہ ضرر کےدیگر معانی جو اہل لغت نے ذکر کیےہیں ۔ضرر یعنی سختی کا ہونا، بدحالی و تنگدستی ۔   مطلق طور پر ہر شیء میں میں کمی کا پایاجانا۔  بہت زیادہ نقصان پہنچانا۔ خسارت ، غبن ، گمراہی ، ضلالت و فقدان پایاجانا۔ تیزی دیکھانا، کسی کو نقصان پہنچا نا۔

۳۔قرآن کریم  میں کلمہ ضرر کے بہت سارے مشتقات وارد ہوئے  ہیں ۔   کلمہ ضرر سے  “الضر “مصدر قرآن کریم میں  تقربيا   ۳۱ ،مرتبہ  وارد ہواہے۔ اسی طرح   کلمہ ضرر سے”     الضراء”  قرآن كريم تقريبا ۹،مرتبہ ” سورۃ بقرۃ آیت  ۱۷۷۔۲۱۴،سورۃ آل عمران آیت ۱۳۴،سورۃ  انعام آیت ۲۴،سورۃ اعراف آیت ۹۴۔۹۵،سورۃ یونس ؑ آیت ۲۱،سورۃ  ہودؑآیت ۱۰،سورۃ فصلت آیت ۵۰”وارد ہوا ہے ۔ باب ثلاثی  سے    مصدر “اضرارا “قرآن كريم صرف ايك  مرتبہ وارد ہوا ہے۔ کلمہ ضرر سے فعل  مضارع  ، باب ثلاثی مجرد سے  قرآن کریم میں تقریبا ۱۹مرتبہ “سورۃ ہودؑ آیت ۵۷،سور ۃ توبہ آیت ۳۹،سورۃ آل عمران آیت ۱۴۴،سورۃ یونس ؑآیت ۱۰۶،سورۃ  آل عمران آیت ۱۲۰،سورۃ مائدآیت ۱۰۵،سورۃ انبیاء آیت ۶۶،سورۃ انعام آیت ۷۱، سورۃ حج آیت ۱۲،سورۃ بقرۃ آیت ۱۰۲،سورۃ یونس ؑ آیت ۱۸،سورۃ فرقان آیت ۵۵،سورۃ آل عمران آیت ۱۷۶۔۱۷۷،سورۃ محمدﷺآیت ۳۲،سورۃ مائدآیت ۴۲،سورۃ آل عمران آیت ۱۱۱،سورۃ شعراء آیت ۷۳،سورۃ نساء آیت ۱۱۳”واردہواہے۔ اسی طرح ضرر سے باب ثلاثی مزید فیہ سے   فعل مضارع قرآن کریم   میں  ۱۰مرتبہ “سورۃ بقرۃ آیت۲۳۳۔۲۸۲۔۱۲۶۔۱۷۳۔،سور ۃ طلاق آیت ۶،سورۃ  لقمان آیت ۲۴،سورۃ مائد  آیت  انعام ۱۱۹۔۱۴۵،سورۃ نحل ۱۱۵” وارد ہواہے  ۔ اور ضرر سے اسم فاعل باب ثلاثی مجرد سے قرآن کریم میں دو مرتبہ “سورۃ آیت ۱۰۔سورۃ بقرۃ ٍ آیت  ۱۰۲”   اور ثلاثی   مزید  فیہ سے بھی دو مرتبہ ” مضار ،سورۃ نساء آیت ۱۲،مضطر ،سورۃ نمل آیت ۶۲”میں وارد ہوا ہے۔

  

منابع:

منابع:
1 فیومی ،احمدبن محمد بن علی ،مصباح المنیر،ج۱،ص۱۸۶۔
2 ابن فارس ، احمد، معجم المقاییس اللغۃ ،ج۳،ص۳۶۰۔
3 ابن منظور ،محمدبن مکرم بن علی  ابوالفضل ، لسان العرب،ج ۱،ص۲۴۴۔
4 صاحب تحقیق ، علامہ حسن مصطفوی ، التحقیق فی کلمات القرآن  الکریم ، ج ۷، ص۲۴۔
5 راغب اصفہانی ،ابوالقاسم حسین بن محمد،المفردات فی غریب القرآن ،ج۱،ص۵۰۳۔
Views: 2

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کلمہ حمد کا قرآنی معنی
اگلا مقالہ: کلمہ کظم کاقرآنی تعارف