loading

{ قرآنی الفاظ معانی }

کلمہ حمد کا قرآنی معنی

تحریر: سید محمد حسن رضوی
01/13/2023

کلمہِ حمدعربی زبان کا لفظ ہے جو  قرآن کریم میں کثرت سے وارد ہوا ہے۔ قرآن کریم کا آغاز جس سے سورہ سے ہوتا ہے اس کا نام بھی اسی مناسبت سے حمد رکھا گیا ہے۔ حمد اللہ تعالیٰ کی صفات کمالیہ و جمالیہ کو بیان کرتی ہے ۔اہل لغت نے حمد کے مختلف معانی ذکر کیے ہیں جنہیں درج ذیل سطور میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

اہل لغت کی نظر میں:

۱۔ كتاب العين : فراہیدی حمد کے معنی کو اس کا مقابل ذکر کر کے بیان کیے ہیں۔ فراہیدی لکھتے ہیں کہ ذمّ كى نقيض ’’حَمد‘‘ ہے ۔[1]فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳ ، ص ۱۸۸ ، مادة : حمد ۔

۲۔ معجم مقاييس اللغة : احمد ابن فارس كے نزديك لفظِ ’’ حمد ‘‘ كا ايك اصلى معنى ’’ مذمت كا برعكس ‘‘ ہونا ہے ۔ [2]ابن فارس، احمد، معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۲ ، ۱۰۰ ، مادة : حمد۔

قرآنی لغات کی روشنی میں:

۱۔ المفردات فی غریب القرآن: راغب اصفہانى بيان كرتے ہيں : حمد اللہ كے ليے ہے : فضيلت كے ساتھ اس كى ثناء بجالانا ، ’’ حمد ‘‘ مدح سے كم تر اور شكر سے جامع تر معنى ركھتا ہے ۔ شكر صرف نعمت كے مقابلے ميں ثناء بجالانا كو كہتے ہيں۔ [3]راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی القرآن، ص ۲۵۶، مادة : حمد ۔

۲۔ التحقيق فى كلماتِ القرآن الكريم: علامہ مصطفوی اپنی تحقیقی نگاہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ذمّ كے مقابلے ميں ’’ حمد ‘‘ ہوتا ہے جسے فارسى زبان ميں ’’ ستائش ‘‘ سے تعبير كيا جاتا ہے ۔  ’’ شكر ‘‘ كو سپاس كہتے ہيں ۔ حمد ہميشہ تسبيح كے ساتھ ہوتى ہے ۔[4]مصطفوی، حسن، التحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۲ ، ص ۲۸۱ ، مادة : حمد۔

تحقیقی نظر:

 ۱۔ خلیل بن احمد فراہیدی اور اس کی اتباع میں کثیر لغویوں نے حمد کا معنی ذم کی نقیض ذکر کیا ہے۔ لغت میں تقیض اور تضاد ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں اور اسے منطقی اصطلاح کے تناظر میں جداگانہ طور پر بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اہل منطق نے تقابل کی اقسام میں نقیض اور تضاد کو بیان کیا ہے۔ تقابل ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان مقایسہ کرتے ہوئے بعض خصوصیات کو ہم حاصل کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے نقيض تقابل کی وہ قسم ہے جس میں ایک شىء كا وجود اور اسى كے عدم  کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ نقيض ميں ايك شىء موجودہو  تو دوسرى معدوم ہو گى اور دونوں ميں سے ايك كا پايا جانا ضرورى ہے ۔ اہل منطق نے نقیض کو تضاد سے جدا ذکر کیا ہے جبکہ اہل لغت تقابل، نقیض اور تضاد کو ایک ہی جہت سے دیکھتے ہیں۔ منطقیوں کی نظر میں  جن دو چیزوں کے درمیان تضاد کو ملاحظہ کیا جاتا ہے وہ دونوں چیزیں وجود رکھتی ہوں گی۔ نقیض میں ایک شیء وجودی اور ایک عدمی ہوتی ہے جبکہ تضاد میں ہر دو چیزیں وجودی ہوتی ہیں، مثلاًنقيض جيسے انسان = لا انسان ، كتاب = لا كتاب ، اگر كتاب نہيں ہے تو حتماً لا كتاب ہو گا ۔ اس ليے كہا جاتا ہے كہ نقيض ميں دونوں ميں سے ايك موجود تو دوسری اسی جہت سے معدوم ہے ، لہٰذا ان دونوںكا ايك وقت ميں جمع ہونا ممكن نہيں ہے ۔جہاں تک  تضاد کا تعلق ہے تو تضاد میں ہر دو چیزیں وجودی ہیں ، جيسے سياہ = سفيد ، آسمان = زمين ۔ ان ميں سياہ اور سفيد دونوں موجود ہيں  ليكن اس کے باوجود قابل جمع نہيں ہيں۔پس تضاد میں ہر دو میں سے ایک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہر دو امر نہ ہوں ، مثلاً ایک رنگ  نہ سياہ ہو اور نہ سفيد بلكہ لال ہو ۔
۲۔ اس تشریح کے نتیجہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خليل بن احمد فراہيدى كے نزديك ’’ حمد ‘‘ ايك وجودى چيز ہے جس كى نقيض مذّمت ہے ۔اگر نقیض اور تضاد میں فرق کے قائل نہ ہوں تو معلوم ہو گا کہ فراہیدی کی نگاہ میں حمد کے مقابلے میں مذمت یا قباحت آتی ہے ۔ لیکن اگر ہم نقیض اور تضاد میں فرق کے قائل ہو جائیں تو معلوم ہو گا کہ جس کمال و جمال کی بناء پر حمد ہو رہی ہے اس جہت سے اس ذات کی مذمت نہیں ہو سکتی۔ یعنی کمال اس درجہ پر پہنچا ہوا ہے کہ اس کے کمال میں کوئی مذمت کا پہلو یا گنجائش موجود نہیں ہے۔
۳۔ لغويوں كے اقوال سے معلوم ہوتا ہے كہ حمد كا تعلق تعريف و مدح و ستائش سے ہے جو مذمّت كے مقابلے ميں ہے ۔ جب مذمت نہ ہو تو حمد ہو گى اور جب حمد ہو تو مذمت نہيں ہو گى ۔ حقيقت ميں حمد كى وجہ اعلى كمالات اور اوصاف كا ہونا ہے اور جب يہ اوصاف و كمالات ہوں تو ذات قابل ستائش و حمد قرار پاتى ہے ۔ نيز كمالات كا ہونا اور بہتر اوصاف كا مالك ہونا اس بات پر دلالت كر رہا ہے كہ اس ذات ميں نقائص نہيں ہيں ۔ مثلا اگر ايك شخص عالم ہے اور اس كے علم كى تعريف كى جاتى ہے تو اس كا يہ مطلب ہے كہ وہ جاہل نہيں ہے ، اسى طرح ايك شخص سخى ہے تو اس كا يہ مطلب ہے كہ وہ بخيل نہيں ہے ۔ پس ہر كمال كى صفت يہ بيان كرتى ہے كہ اس كمال كے مقابلے ميں جو نقص قابل تصور ہے وہ موجود نہيں ہے ۔ يہى وجہ ہے كہ كہا جاتا ہے كہ حمد ہميشہ تسبيح و تنزيہ كے ہمراہ ہے ۔
۴۔
مذمت اس وقت ہوتى ہے جب ذات كمالات و اوصافِ حسنہ سے عارى ہو ۔ جب بھى ايك ذات ميں نقص ہو گا يا شرّ ہو گا تو وہ نقص يا شرّ كى بناء پر مذمت كے قابل قرار پائے گى اور اس كى حمد نہيں كى جا سكتى ۔اللہ سبحانہ كے ليے ہر كمال كو ثابت كرنا ضرورى ہے جس كا نتيجہ نكلتا ہے كہ وہ ہر نقص و عيب سے پاك و منزہ ہے ۔ چونكہ اللہ تعالى ميں تمام كے تمام كمالات پائے جاتے ہيں اس ليے قرآن كريم نے كہا كہ صرف اللہ جو عالمين كا ربّ ہے اس كے ليے حمد ثابت ہے ۔حمد اور سبحان دو كلمات ہيں جو قرآن اور عبادات ميں كثرت سے استعمال ہوتے ہيں ۔ ضرورى ہے كہ ہم ان كے مطالب سے آشنا ہوں ۔
۵۔کلمہِ حمد عموما ثلاثی مجرد کے باب سے استعمال ہوتا ہے۔ حمد کرنے والے کو حامد اور جس کی حمد کی جائے اسے محمود کہتے ہیں۔ البتہ یہ کلمہ ثلاثی مزید فیہ کے ابواب میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کے مشتقات میں سے ایک باب تفعیل سے محمّد لفظ کا آنا ہے۔ حمد سے اسم تفضیل احمد آتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اسماء گرامی میں محمد اور احمد معروف نام ہیں۔
۶۔مفسرین و علماء کے مطابق اللہ سبحانہ کی حمد ایک مرتبہ لسانی ہوتی ہے جسے حمدِ قولی کہا جاتا ہے اور ایک مرتبہ حمدعملی اور فعلی ہوتی ہے جسے حمدِ فعلی کہا جاتا ہے اور ایک مرتبہ ہر دو لحاظ سے ہوتی ہے یعنی قولی بھی اور عملی و فعلی بھی۔

 

منابع:

منابع:
1 فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج ۳ ، ص ۱۸۸ ، مادة : حمد ۔
2 ابن فارس، احمد، معجم مقاييس اللغۃ ، ج ۲ ، ۱۰۰ ، مادة : حمد۔
3 راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی القرآن، ص ۲۵۶، مادة : حمد ۔
4 مصطفوی، حسن، التحقيق فى كلمات القرآن الكريم ، ج ۲ ، ص ۲۸۱ ، مادة : حمد۔
Views: 13

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: لفظ نور کا قرآنی معنی
اگلا مقالہ: قرآنی لفظ نکث کی صرفی تحلیل