loading

 {قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل }

قرآنی لفظ فسق کی صرفی تحلیل

تحریر:حافظ تقی رضا
03/28/2023

فسق قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم کی متعدد آیات میں وارد ہواہے۔راغب اصفہانی اور اہل دیگر لغت نے اس کی تصریح کی ہے اس لفظ کےمادہ ’’ ف-س-ق‘‘ جس کےمعنی ’’ شریعت کے حدود سے باہر نکل جانے کو فسق کہاجاتاہے‘‘ [1]نام کتاب : المفردات في غريب القرآن-دار القلم (الراغب الأصفهاني) ، جلد : 1 ، صفحه : 636بنےگے۔لفظ ’’ فسق‘‘  کےمتعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہواہے۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہیں :

فَسَقَ:

یہ لفظ ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے ’’ فََعَلَ یَفۡعُلُ،فَسَقَ یَفۡسُقُ‘‘کے وزن پے آتاہے۔قرآن کریم میں اس باب سے  اس کا فعل ماضی ایک آیت کریمہ ’’ سورہ کہف ۵۰‘‘میں وارد ہواہے’’ سورہ کہف میں ارشادباری تعالی ہوتاہے: { وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَهُ وَ ذُرِّیَّتَهُ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا؛ اور (یہ بات بھی) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا، پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا، تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے}[2]سورہ کہف ۵۰باب ثلاثی مجرد سے فسق کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے :

فَسَقُوا:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۳ مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’ سورہ یونس ۳۳،سورہ اسراء ۱۶،سورہ سجدہ ۲۰‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ  ’’ فَسَقُوا‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ان سب نے حدود کوپامال کیا‘‘ بنےگأ۔

یَفۡسُقُونَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۵ مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’ سورہ بقرہ ۵۹،سورہ انعام ۴۹،سورہ اعراف ۱۶۳،۱۶۵،سورہ عنکبوت ۳۴‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَفۡسُقُونَ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ وہ  سب حدود کو پامال کرتے ہیں ‘‘ بنےگا۔

تَفۡسُقُونَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱مرتبہ وارد ہواہے ’’ سورہ احقاف ۲۰‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ’’ تَفۡسُقُونَ‘‘ ہے کےمعنی ’’ تم سب حدود کوپامال کرتے ہو‘‘ بنےگا۔

فَاسِقٌ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۲ مرتبہ وارد ہوا ہے’’ سورہ حجرات ۶،سورہ سجدہ ۱۸ ‘‘ میں صرفی اعتبار سےیہ صیغہ اسم فاعل کا صیغہ’’ فَاسِقٌ ‘‘( ایک مورد میں سورہ سجدہ۱۸میں اسم فاعل مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’ فَاسِقًا‘‘  اصل میں ’’ فَاسِقٌ ‘ ہی تھا لیکن عامل کےآنے کی وجہ سے ’’ فَاسِقًا  ‘‘ بن گیا  ہے)جس کےمعنی ’’ حدود کوپامال کرنےوالا ایک شخص ‘‘ بنےگا۔

فَاسِقُونَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱۷مر تبہ وارد ہواہیں’ ’ سورہ بقرہ ۹۹،سورہ آل عمران ۸۲،۱۱۰،سورہ مائدہ ۴۷،۴۹،۵۹،۸۱،سورہ توبہ :۸،۶۷،۸۴،سورہ نور :۴،۵۵،سورہ احقاف۳۵،سورہ حدید:۱۶،۲۶،۲۷،سورہ حشر ۱۹‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ اسم فاعل جمع مفرد غائب کا صیغہ ’’ فَاسِقُونَ ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ وہ سب حدود کوپامال کرنےوالے مرد‘‘ بنےگا۔

فَاسِقِینَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱۸مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’ سورہ  بقرہ ۲۶،سورہ مائدہ :۲۵،۲۶،۱۰۸،سورہ اعراف :۱۰۲،۱۴۵،سورہ توبہ :۲۴،۵۳،۸۰،۹۶،سورہ انبیاء ۷۴،سورہ نمل ۱۲،سورہ قصص ۳۲،سور ہ زخرف ۵۴،سورہ ذاریات ۴۶،سورہ حشر ۵،سورہ  صف۵،سورہ منافقون۶‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ جمع مذکر سالم  کا صیغہ ’’ فَاسِقِینَ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’حدود کوپامال کرنے والے ‘‘ بنےگأ۔

اَلۡفُسُوق:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۴ مرتبہ وارد ہواہیں ’’ سورہ بقرہ :۱۹۷،۲۸۲،سورہ حجرات :۷،۱۱‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ مصدر کا صیغہ ’’ اَلۡفُسُوق‘‘ ہے جس کےمعنی ’’حدود کوپامال کرنا‘‘بنےگا۔

فِسۡقٌ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۳ مرتبہ وارد ہوا ہے’’ سورہ مائدہ ۳،سورہ انعام :۱۲۱،۱۴۵‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ مصدر کا صیغہ ’’ فِسۡقٌ ‘‘(ا مورد سورہ انعام ۱۴۵ میں  اصل میں ’’فِسقٌ ‘‘تھا عامل کے  آنے کی وجہ سے یہ’’ فِسۡقًا‘‘ بن گیا)ہےجس کےمعنی ’’ حدود کوپامال کرنا‘‘بنےگا۔

منابع:

منابع:
1 نام کتاب : المفردات في غريب القرآن-دار القلم (الراغب الأصفهاني) ، جلد : 1 ، صفحه : 636
2 سورہ کہف ۵۰
Views: 16

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ  نکص کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: قرآنی لفظ   فَصَل کی صرفی تحلیل