loading

  {قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل}

قرآنی لفظ   فَصَل کی صرفی تحلیل

تحریر :حافظ تقی رضا
04/20/2023

فصل قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم  کی متعدد آیات میں وارد ہواہے۔راغب اصفہانی اور اہل دیگر لغت نے اس کی تصریح کی ہے اس لفظ کےمادہ ’’ف-ص-ل‘‘ جس کےمعنی ’’دو چیزوں کےدرمیان جدائی کاپیدا ہونا‘‘[1] نام کتاب : المفردات في غريب القرآن-دار القلم (الراغب الأصفهاني) ، جلد : 1 ، صفحه : 639  ۔لفظ ’’فصل ‘‘ کےمتعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہیں:

فَصَلَ:

یہ لفظ ثلاثی مجرد کےابواب میں سے ’’ فَعَلَ یْفعِلُ،وَعَدَ یَوۡعِدُ‘‘کےوزن پے آتاہے۔قرآن کریم میں اس کافعل ماضی ایک آیت کریمہ ’’ سورہ بقرہ ۲۴۹‘‘ میں وارد ہواہے’’ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالی ہوتاہے: فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبۡتَلِیۡکُمۡ بِنَہَرٍ ۚ فَمَنۡ شَرِبَ مِنۡهُ فَلَیۡسَ مِنِّیۡ ۚ؛جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں۔((سورہ بقرہ ۲۴۹)باب ثلاثی مجرد سے فَصَلَ کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے :

فَصَلَتِ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے’’ سورہ یوسف ۹۴‘‘ میں صرفی اعتبارسےیہ صیغہ فعل ماضی مفرد مؤنث مخاطب کا صیغہ ’’ فَصَلَتِ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’تم ایک عورت جدا ہوئی‘‘ بنےگا۔

یَفصِلُ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۳ مرتبہ وارد ہواہیں’’ سورہ حج۱۷،سورہ سجدہ۲۵،سورہ ممتحنۃ ۳‘‘ میں صرفی اعتبارسےیہ صیغہ فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَفصِلُ‘‘ہے جس کےمعنی ’’وہ ایک جدا ہوتاہےیاہوگا‘‘ بنےگا۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے فصل متعدد مشتقات  قرآن کریم میں وارد ہوئےہیں:

باب تفعیل :

فَصَّلَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں امرتبہ وارد ہواہے’’ سورہ انعام ۱۱۹‘‘ میں صرفی اعتبارسےیہ صیغہ باب تفعیل ماضی مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’ فَصَّلَ ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’اس ایک نے جدائی ڈالی‘‘ بنےگا۔

فَصَّلۡنَا:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۵ مرتبہ واردوارد ہواہے’’ سورہ انعام :۹۷،۹۸،۱۲۶،سورہ اعراف ۵۲،سورہ اسراء۱۲‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ جمع متکلم کا صیغہ ’’ فَصَّلۡنَا (دو موردسورہ اعراف ۵۲،سورہ اسراء۱۲ میں ضمیر کےساتھ آیا یہ مشتق  ’’فَصَّلۡنَاہُ )‘‘ ہےجس کےمعنی ’’ ان سب نے جدائی ڈالی‘‘بنےگا۔

یُفَصِّلُ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۲مرتبہ وارد ہواہیں ’’ سورہ یونس ۵،سورہ رعد ۲‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ فعل مضارع مفردمذکرغائب کا صیغہ ’’ یُفَصِّلُ ‘‘ ہےجس کےمعنی ’’ وہ جدائی ڈالےگا‘‘ بنےگا۔

نُفَصِّلُ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۶ مرتبہ وارد ہواہیں ’’ سورہ انعام ۵۵،سورہ اعراف ۳۲،سورہ ۱۷۴،سورہ توبہ ۱۱،سورہ یونس ۲۴،سورہ روم۲۸‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ فعل مضارع جمع متکلم کا صیغہ ’’ نُفَصِّلُ ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ ہم  سب  جدائی ڈالے گے ‘‘بنےگا۔

فُصِّلَتۡ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۳ مرتبہ وارد ہواہیں ’’ سورہ ھود ۱،سورہ فصلت ۳،۴۴‘‘  میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ فعل ماضی مجھول مفرد مؤنث غائب کا صیغہ ’’ فُصِّلَتۡ ‘‘ ہےجس کےمعنی ’’ جدائی ڈالی گئی‘‘ بنےگا۔

فَاصِلِینَ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱مرتبہ وارد ہوا ہے’’ سورہ انعام ۵۷‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ جمع مذکر سالم کا (حالت نصب و جر)صیغہ  ’’ فَاصِلِینَ ‘‘ہے جس کےمعنی ’’ جدائی ڈالنے والے ‘‘ بنےگا۔

اَلۡفَصۡل:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۸ مرتبہ وارد ہوا ہیں’’سورہ صافات ۲۱،سورہ ص۲۰،سورہ شوری ۲۱،سورہ داخان ۴۰،سورہ مرسلات:۱۳،۱۴،۳۸،سورہ نبا۱۷،سورہ طارق ۱۳‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ مصدر کا صیغہ ’’ اَلۡفَصۡل(ایک مورد سورہ طارق ۱۳ میں ’’فَصۡلٌ‘‘ آیا ہے اس کا معنی بھی یہ بنے گا۔) ‘‘ہے جس کےمعنی جدائی ڈالنا ‘‘ بنےگے۔

فِصَالاً:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے’’ سورہ بقرہ ۲۳۳‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ باب مفاعلةسے مصدر کا صیغہ ’’ فِصَالاً(دو مورد میں سورہ لقمان ۱۴،سورہ احقاف ۱۵  لفظ ’’ فِصَالُهُ‘‘ آیا ہے یہی بھی مصدر با ب مفاعلہ سے ہے بس اس کےساتھ ضمیر مل گئی ہے اور معنی بھی یہی ہوگا)‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ جدائی ڈالنا‘‘ بنے گے۔

فَصِیلَتِهِ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۲ مرتبہ وارد ہوا ہیں’’سورہ معارج ۱۳ ‘ ‘میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ صفت مشبہ کا صیغہ ہے ’ فَصِیلَتِهِ ‘‘ حس کےمعنی ’’ جدائی ‘‘ بنےگا۔

تَفۡصَیلاً:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۵ مرتبہ وارد ہوا ہیں’’ سورہ انعام ۱۵۴،سورہ اعراف۱۴۵،سورہ اسراء۱۲،سورہ یونس ۳۷،سورہ یوسف۱۱۱‘‘میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ  باب تفعیل سے مصدر کا صیغہ ’’ تَفۡصَیلاً ‘‘(دو مورد سورہ یونس ۳۷،سورہ یوسف۱۱۱ میں لفظ ’’ تَفۡصِیلَ ‘‘ آیا ہے جس کے معنی یہی بنےگے )ہے جس کےمعنی ’’ تفصیل سے بیان کرنا‘‘ بنےگے۔

مُفَصَّلاً:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے’’ سورہ انعام ۱۱۴‘‘ میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ با ب تفعیل سے  اسم فاعل کا صیغہ ’’ مُفَصَّلاً ‘‘ہے جس کےمعنی’’ جدائی ڈالنے والا‘‘ بنے گا۔

مُفَصَّلَاتٍ:

یہ مشتق قرآن کریم میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے ’’ سورہ اعراف ۱۳۳‘‘میں صرفی اعتبارسےیہ صیغہ با ب تفعیل سے اسم فاعل کا صیغہ ’’ مُفَصَّلَاتٍ ‘‘ ہے جس کےمعنی ’’ جدائی ڈالنےوالے ‘‘ بنےگے۔

Views: 11

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ فسق کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: قرآنی لفظ رفع کی صرفی تحلیل