loading

{قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل }

قرآنی لفظ فَرِحَ کی صرفی تحلیل

تحرير حافظ تقی رضا
03/17/2023

فَرِحَ  قرآنی لفظ ہے جو قرآن کریم کی متعدد آیات میں وارد ہوا ہے۔راغب اصفہانی اور دیگر اہل لغت نے اس کی تصریح کی ہے اس لفظ کے مادہ ’’ ف-ر-ح‘‘ ہے جس کےمعنی ’’  جلدی سے ملنے والی لذت کے ذریعے سینے کا کشادہ ہوجانا‘‘ ۔ لفظ ِ ’’ فَرِحَ ‘‘ کے متعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئے ہیں ۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہیں :

فَرِحَ:

یہ لفظ ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے ’’فَعِلَ یَفۡعَلُ،عَلِمَ یَعۡلَمُ ‘‘کے وزن پے آتا ہے۔ قرآن کریم میں اس باب سے اس کا فعل ماضی دوآیت کریمہ ’’ سورہ توبہ  ۸۱،سورہ شوری ۴۸ میں وارد ہوا ہیں ۔سورہ توبہ  میں ارشاد باری تعالی ہوتاہے: {فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَ کَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ(غزوۂ تبوک میں) پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ کا ساتھ دیے بغیر بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور کہنے لگے: اس گرمی میں مت نکلو،کہدیجئے: جہنم کی آتش کہیں زیادہ گرم ہے، کاش وہ سمجھ پاتے}سورہ شوری میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : فاِنۡ  اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ  اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ  اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً  فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ  بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ  فَاِنَّ  الۡاِنۡسَانَ  کَفُوۡرٌ (پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا، آپ کے ذمے تو صرف پہنچا دینا ہے اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر ان کے اپنے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس وقت یہ انسان یقینا ناشکرا ہو جاتا ہے)}

فَرِحُوا :
یہ مشتق قرآن مجید میں ۵ مرتبہ وارد ہواہے’’سورہ انعام ۴۴ سورہ یونس ۲۲،سورہ رعد ۲۶،سورہ روم ۳۰،سورہ غافر ۸۳‘‘میں صر فی اعتباریہ صیغہ فعل ماضی جمع مذکر غائب کا صیغہ ’’ فَرِحُوا‘‘  ہے جس کےمعنی ’’ وہ خوش ہوئے ‘‘ بنےگا۔

اس باب فعل ماضی کے علاوہ فعل مضارع  بھی وارد ہوا ہے قرآن کریم میں:

یَفرَحُ :
یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے’’سورہ روم ۴ ‘‘میں صرفی اعتبار یے یہ صیغہ فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا  صیغہ ’’ یَفرَحُ‘‘ہے جس کےمعنی ’’ وہ خوش ہوگا‘‘ بنےگا۔

یَفرحُونَ :


یہ مشتق قرآن مجید میں ۴مرتبہ وارد ہوا ہے’’سورہ آل عمران ۱۸۸،سورہ رعد ۳۶‘‘میں صرفی اعتبار سےیہ صیغہ فعل مضارع کا صیغہ ’’ یَفرحُونَ‘‘ہے جس کےمعنی ’’وہ سب خوش ہوگے‘‘ بنےگأ(  اس کےعلاوہ دو موارد میں سورہ آل عمران ۱۳۰ ،سورہ یونس ۵۸میں ’’یَفرحُوا‘‘وارد ہوا ہےاصل میں یہ ’’ یَفۡرَحوُنَ ‘‘تھا لیکن شروع  میں جازمہ آنے کی وجہ سے نون گرگئی بن گیا ’’ یَفۡرَحُوا‘‘  )

تَفۡرَحۡ:

یہ مشتق قرآن مجیدمیں ۱مرتبہ وارد ہواہے ’’سورہ قصص ۷۶ ‘‘میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ فعل مضارع مفرد مذکر مخاطب کا صیغہ ’’ تَفۡرَحۡ‘‘(  تَفۡرَحۡ بھی اصل میں ’’تَفۡرَحُ‘‘ تھا لیکن شروع  میں حروف جازمہ (ان کا مطلب یہی ہوتا ہےآخر حرف کی حرکت کو ساکن کر دینا)آنے کی وجہ سے آخر حرف کی حرکت ساکن میں تبدیل ہوگئ بن گیا ’’ تَفۡرَحۡ ‘‘)ہےجس کےمعنی ’’ تم خوش ہوئے‘‘ بنےگا۔

تَفۡرَحُونَ :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۳  مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’سورہ نمل ۳۶،سورہ غافر ۷۵‘‘ میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ’’ تَفۡرَحُونَ‘‘ہےجس کےمعنی ’’ تم سب خوش ہوگے‘‘ بنےگأ۔(ایک مورد سورحدید۲۳ میں ’’تَفۡرَحُوا‘‘وارد ہوا ہےاصل میں یہ ’’ تَفۡرَحوُنَ ‘‘تھا لیکن شروع  میں جازمہ آنے کی وجہ سے نون گرگئی بن گیا ’’ تَفۡرَحُوا‘‘)

فَرِحُونَ :

یہ مشتق قرآن مجیدمیں ۳ مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’سورہ توبہ ۵۰،سورہ المؤمنون ۵۳،سورہ روم ۳۲ ‘‘میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ جمع مذکر سالم کا صیغہ ’’ فَرِحُونَ‘‘ (یہ رفعی حالت میں ہے اس میں و،ن جمع کی علامت ہے ) ہےجس کےمعنی ’’ وہ خوش ہوئے ‘‘ بنےگے۔

فَرِحِینَ :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وارد ہواہیں ’’سورہ آل عمران ۱۷۰،سورہ قصص ۷۶‘‘میں صرفی اعتبارسے یہ صیغہ جمع مذکر سالم کا صیغہ ’’ فَرِحِینَ‘‘(یہ نصبی حالت میں ہے )ہے جس کےمعنی ’’ وہ خوش ہوتے ہیں ‘‘بنے گا۔

فَرِحٌ :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے ’’سورہ ھود ۱۰ ‘‘میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  مصدر کا صیغہ ’’ فَرِحٌ‘‘ہےجس کےمعنی ’’ خوش ہونا ‘‘بنےگا۔

Views: 127

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ  بقی کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: قرآنی کلمات وَلِیجَة کی صرفی تحلیل