loading

{قرآنی کلمات کی صرفی تحلیل }

قرآنی لفظ  بقی کی صرفی تحلیل

تحرير حافظ تقی رضا
03/10/2023

بقی قرآنی لفظ ہےجو قرآن کریم میں کی آیت میں وارد ہواہے۔راغب اصفہانی اور دیگر اہل  لغت نےاس کی تصریح کی ہے  اس لفظ کےمادہ ’’ ب-ق-ی‘‘ ہے جس کےمعنی ’’  کسی شی کا اپنی سابقہ حالت میں باقی رہنا ‘‘۔لفظِ ’’ بَقِیَ ‘‘ کےمتعدد مشتقات قرآن کریم میں وارد ہوئےہیں۔جن کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے :

بَقِیَ:

یہ لفظ ثلاثی مجرد کے ابواب میں سے فَعِلَ یَفۡعَلُ ،عَلِمَ یَعۡلَمُ ‘‘ کے وزن پے آتاہے ۔قرآن کریم میں اس باب سے اس کا فعل ماضی ایک آیت کریمہ ’’ سورہ بقرہ ۲۷۸ ‘‘ میں وارد ہوا ہے ۔سورہ بقرہ ۲۷۸ میں ارشاد باری تعالی ہوتاہے:{ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ;اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو} اس باب سے فعل ماضی کے علاوہ فعل مضارع کے بھی مشتقات وارد ہوئے ہے ۔

یَبۡقَیٰ:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ وارد ہوا ہے’’سورہ رحمن ۲۷ ‘‘میں یہ صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  فعل مضارع مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’ یَبۡقَیٰ ‘‘ [1]سورہ رحمن میں جو لفظ استعمال ہواہے وہ ’’ یَبۡقَیٰ‘‘ ہے جبکہ پہلا صیغہ فعل مضارع کا ’’ یَبۡقَیُ‘‘ آتا ہے … Continue reading ہے جس کے معنی ’’ وہ باقی رہنا والا ہے ‘‘ بنے گأ ۔

 بَاقٍ:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ وارد ہواہے ’’سورہ نحل ۹۶ ‘‘میں یہ صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  اسم فاعل کا صیغہ ’’ بَاقٍ ‘‘ [2][1] سورہ نحل ۹۶ میں جو صیغہ ’’ بَاقٍ ‘‘ وراد ہوا ہے اصل میں ’’بَاقِیٌ ‘‘تھا یہاں پے ایک اعلال کا قائدہ جاری … Continue reading ہےجس کےمعنی ’’باقی رکھنے والا ‘‘ بنے گا ۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے قرآن کریم میں لفظ ’’ بَقِیَ ‘‘ کے متعدد مشتقات وارد  ہوئے ہیں ۔

باب ثلاثی مزید فیہ سے باب افعال وارد ہوا ہے:

اَبۡقَی :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۸مرتبہ وارد ہوا ہے ’’سورہ نجم۵۱‘‘ میں یہ صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  ماضی معلوم مفرد مذکر غائب کا صیغہ ’’ اَبقَی‘‘[3] اس میں بھی یہی قائدہ جاری ہورہا ہے جوہم پہلےذکر کرچکے ہے   ہےجس کے معنی ’’اس نے باقی رکھا ‘‘ بنے گا اس کےعلاوہ یہ مشتق قرآن کریم میں  جگہ وارد ہوا ہیں۔

تُبۡقِی :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۱ مرتبہ وار د ہوا ’’سورہ مدثر ۲۸ ‘‘میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ فعل مضارع مفرد مذکر مخاطب کا صیغہ ’’ تُبۡقِی‘‘[4]سوره مدثر ۲۸ میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ’’  تُبۡبَقِیُ‘‘اصل میں تھا بعد میں اس پے حروف جازمہ (لام )داخل ہوا جس … Continue reading ہے جس کےمعنی ’’ تم نے باقی رکھا‘‘بنے گا۔

بَاقِینَ :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وارد ہوااہے’’سورہ شعراء ۱۲۰،سورہ صافات ۷۷ ‘‘میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  جمع مذکر سالم کا صیغہ ’’ بَاقِینَ‘‘ہے جس کےمعنی ’’ باقی رہنا‘‘ بنےگا۔

 بَاقِیَة :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲ مرتبہ وار د ہوا ہے’’سورہ زخرف ۲۸،سورہ حاقہ ۸‘‘ میں یہ صرفی اعتبار سے یہ صیغہ اسم فاعل مفرد مؤنث غائب کا صیغہ ’’ بَاقِیَۃ‘‘ہے جس کے معنی ’’ باقی رہنے والی‘‘ بنےگا۔

بَاقِیَات :

یہ مشتق قرآن مجید میں ۳ مرتبہ وارد ہوا ہیں ’’سورہ  کہف ۴۶،سورہ مریم ۷۶‘‘میں یہ صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  اسم فاعل  جمع مؤنث غائب کا صیغہ ’’ بَاقِیَات‘‘ہے   جس کےمعنی ’’ باقی رہنے والی بنےگا۔

بَقِیّة:

یہ مشتق قرآن مجید میں ۲مر تبہ وارد ہوا ہے’’سورہ بقرہ ۲۴۸،سورہ ھود ۸۶ ‘‘میں صرفی اعتبار سے یہ صیغہ  مصدر کا صیغہ ’’ بَقِیّىة‘‘ہے جس کےمعنی ’’باقی رہنا ‘‘ بنےگا۔

منابع:

منابع:
1 سورہ رحمن میں جو لفظ استعمال ہواہے وہ ’’ یَبۡقَیٰ‘‘ ہے جبکہ پہلا صیغہ فعل مضارع کا ’’ یَبۡقَیُ‘‘ آتا ہے یہاں پے ایک اعلالی قائدہ  جاری ہوا ہے وہ یہ ہے ’’ ی حرف علت ہو (علت: یعنی جس میں ’’ ا،و،ی ‘‘ ان میں کوئی بھی حرف آجائے تو اس کو حرف علت کہتے ہے) ما قبل فتحہ ہو تو اس فتحہ کو الف میں تبدیل کردیا جاتا ہے تو بن گیا ’’ یَبۡقَیٰ‘‘
2 [1] سورہ نحل ۹۶ میں جو صیغہ ’’ بَاقٍ ‘‘ وراد ہوا ہے اصل میں ’’بَاقِیٌ ‘‘تھا یہاں پے ایک اعلال کا قائدہ جاری ہوا ہے
3 اس میں بھی یہی قائدہ جاری ہورہا ہے جوہم پہلےذکر کرچکے ہے  
4 سوره مدثر ۲۸ میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ’’  تُبۡبَقِیُ‘‘اصل میں تھا بعد میں اس پے حروف جازمہ (لام )داخل ہوا جس کی وجہ سے آخر کو ساکن کردیا اس وجہ سے رفع گرگئی بن گیا ’’ لَا تُبۡقِیۡ‘‘
Views: 10

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: قرآنی لفظ نکث کی صرفی تحلیل
اگلا مقالہ: قرآنی لفظ فَرِحَ کی صرفی تحلیل