loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۷}

قرآن کریم اور تفکر کی دعوت

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

انسان کے لیے بدترین اسارت یہ نہیں کہ اسے زندان میں قید کر دیا جاۓ اور اس کے بدن کو کھلی فضاؤں میں آنے سے روک دیا جاۓ۔ اگرچہ یہ بھی اسیر ہونا ہے لیکن سب سے بڑی قید اور اسارت یہ ہے کہ انسان جہالت اور نادانی کی زنجیروں میں بند ہو۔ انسان کی سوچ اور تفکر غلام بنا دی جاۓ یہ اس قید سے بہت بدتر ہے کہ جس میں انسان کا جسم تو سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے لیکن سوچ آزاد۔ جب انسان کی سوچ غلام ہو جاۓ تو وہ حقائق کو پہچاننے سے قاصر ہو جاتا ہے اور بالفرض اگر کسی حقیقت کو سمجھ بھی لے اس کے مطابق اپنی نظر پیش نہیں کر سکتا کیونکہ بہرحال اس کی سوچ غلام ہے اور عمل اس وقت صادر ہوتا ہے جب کم از کم آپ ارادہ کریں۔ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا سب سے بڑا انعام اور نتیجہ یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے لوگوں کی سوچ اور تفکر کو آزاد کرایا۔ وہ افراد جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم بھی آزادانہ اور منظم زندگی گزار سکیں گے ان کی سوچ اور تفکر کو آزاد کیا۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«وَیَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِی کَانَتْ عَلَیْهِمْ»؛ اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں۔[1] اعراف: ۱۵۷۔ در اصل ہمیں اعراب کی تاریخ کو پڑھنے کی ضرورت ہے کہ يہ لوگ قبل از اسلام کیسے سوچتے، کیسے زندگی گزارتے اور رہن سہن رکھتے تھے۔ قبیلوں کی شکل میں ایک دوسرے سے ہمیشہ لڑنے جھگڑنے والے يہ منتشر لوگ کیسے دنیا کی ترقی یافتہ تہذیبوں کا مرکزی نکتہ بن گئے؟ يہ وہ احسان تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اللہ تعالی نے اس امت پر کیا۔

آزاد تفکر کی دعوت

قرآن کریم نے انسانوں کو تفکر، تعقل، اور تدبر پر ابھارا، تین سو سے زائد آیات میں انسانوں کو تعقل کی دعوت دی۔ یہاں تک کہ انہیں آیات میں سے ایک آیت میں بیان ہوا ہے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے کا ایک ہدف لوگون کو تعقل اور تدبر پر ابھارنا ہے۔«إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ»؛ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا تاکہ شاید تم تعقل کرو۔[2] یوسف: ۲۔ ایک اور آیت میں ذکر ہوا ہے:«کِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِهِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ»؛یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔[3] ص: ۲۹۔ قرآن کریم نے نا صرف تفکر پر ابھارا ہے بلکہ ان افراد کی مذمت کی ہے جو نہیں سوچتے، سورہ محمد میں وارد ہوا ہے:«أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا»؛کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟[4] محمد: ۲۴۔ اس آیت کریمہ میں تدبر اور تعقل نہ کرنے والوں کی مذمت تو وارد ہوئی ہے ساتھ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تدبر نہ کرنے میں مانع کونسی چیز ہے؟ ہم لوگ تفکر اور تدبر کیوں نہیں کر پاتے؟ گناہ، مانع بنتا ہے انسان تدبر نہ کرے۔ دلوں کے اندر سیاہی کیسے پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم آیات پر تدبر نہ کر پائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گناہ باعث بنتے ہیں کہ دلوں پر سیاہی پیدا ہو جاۓ۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ»؛ہرگز نہیں! بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔[5] مطففین:۱۴۔ پہلے انسان کا دل زنگ آلود ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ زنگ پھیل کر پورے دل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے یہاں تک کہ انسان ’’طبع علی قلوبهم‘‘ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور جب دلوں پر مہر لگ جاۓ تو کوئی بات اندر جا کر اثر نہیں کرتی۔ پس اگر کوئی انسان محسوس کرتا ہے کہ اسے معارف الہی سمجھ نہیں آ رہے یا قرآن کے مطالب اس پر اثر نہیں کر رہے تو جان لے کہ اس کی بصارت قلبی جا چکی ہے جو تدبر اور تفکر کے لیے ضروری ہے۔

قرآن کریم کا تفکر پر ابھارنا

اس تفکر اور تدبر کی دعوت کے علاوہ قرآن کریم میں بہت سی آیات اس موضوع پر ہیں کہ ملحدوں اور انبیاء کرامؑ کے مخالفین کے استدلال کیا تھے؟ منکرین کے اعتراضات اور پیغمبروں کا جواب بھی قرآن  نے متعدد جگہ پر نقل کیے ہیں۔ یہ سب ہمیں تفکر اور سوچ کی آزادی پر ابھارتا ہے۔ شیطان کی اللہ تعالی سے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیے جانے کے موضوع پر گفتگو، اس کا استدلال اور اللہ تعالی کا جواب، ہابیل اور قابیل کا مکالمہ، حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کا مناظرہ، حضرت موسیؑ اور فرعون کا مناظرہ اور اس طرح کے فراوان واقعات جو پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ پیش آۓ، یہ سب قرآن کریم کے مخاطب اور تلاوت کرنے والے کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ تفکر اور جہان کی خلقت پر غور کرے اور ان سب کے خالق تک پہنچے۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ملحدین معاد کے بارے میں شبہہ ایجاد کرتے اور ایک دوسرے کو کہتے: کیا تم نے ایک خبر سنی ہے مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور کہتا ہے کہ جب تمہارا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاۓ یا خاک میں خاک ہو جاۓ تب بھی دوبارہ زندہ کیے جاؤگے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان کے قول کو نقل کیا ہے:«وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا هَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَى رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ»اور کفار کہتے ہیں: کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے؟[6] سبأ: ۷۔ یقینا معاد کی خبر بہت بڑی خبر ہے۔ خود قرآن کریم نے بھی اسے ’’نبأ عظیم‘‘ سے یاد کیا ہے۔معاد کی خبر حجاز کی سرزمین پر بہت تیزی سے پھیلی، قرآن کریم  اس اہم مسئلے کو تکرارا ذکر کرتا ہے اور منکرین معاد کے شبہات کو بھی بیان کرتا ہے۔ مخاطب کو ہر دو تفکر بتاتا ہے اور آزادانہ تفکر کی دعوت دیتا ہے۔

یورپ میں تفکر پر پابندی اور اس کے نتائج

قابل ذکر ہے کہ جو کچھ یورپ میں پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہوا اور ارباب کلیسا نے جو تحریک چلائی، انسانی تاریخ کا بہت بڑا حادثہ تھا۔ ارباب کلیسا نے اعلان کیا کہ ہر وہ بات جو انجیل کے ظواہر سے ٹکراتی ہو اس کا بیان جرم ہے۔ نیز کہا کہ انجیل کو صرف ہم ہی سمجھ سکتے ہیں عوام اس کی باتوں میں غور و فکر کرنے کی زحمت نہ کریں جو کچھ ہے ہم خود آپ کو بتائیں گے۔ یہ افراطی سوچ سبب بنی کہ وہاں کی عوام ایسی دین سے متنفر ہوئی کہ بعد میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ اصل میں دین اور تفکر ایک دوسرے کے تضاد میں ہیں۔ یعنی دیندار فرد وہ ہے جو بالکل مت سوچے، اور جو سوال اٹھاۓ اور تفکر کرے وہ غیر دیندار ہے۔ یہ سوچ قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے بالکل بر خلاف ہے۔ قرآن اور اسلام نے انسان کو ہر موقع پر تفکر اور تدبر کی دعوت دی۔ ارباب کلیسا کی طرح یہ نہیں کہا کہ تم لوگ صرف مانو اور ہم تمہیں سوچ کر بتائیں گے۔ نا! بلکہ سب اہل ایمان کو تفکر کی دعوت دی۔

ارتباط برقرار رکھنے کا قرآنی نسخہ

قرآن کریم نے سورہ آل عمران کے اختتام پر باطور خاص مومنین کو صبر و پائیداری اور مرابطے کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:«یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ»؛ اے ایمان والو!صبر سے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط برقرار رکھو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔[7] آل عمران:۲۰۰۔

ظاہر ہے کہ انسان سے ارتباط برقرار رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ تفکر کی آزادی ہے۔ کیونکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جو تفکر کر سکتا ہے اور اگر کوئی ایسا موجود جو تفکر کر سکتا ہے اپنے ہمنوع سے ارتباط برقرار رکھنا چاہتا ہے، رابطہ برقرار رکھنا چاہتا ہے تو سب سے بڑا ذریعہ فکری رابطہ ہے۔ اور لازمی ہے کہ اس کے لیے تفاہم برقرار ہو کیونکہ انسان جب ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے اور درک کریں گے تو ایک دوسرے کے عقائد اور مکاتب کو سمجھ پائیں گے۔ انسان کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے کے لیے فقط زبان سیکھ لینا تو کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ اس کا طرز تفکر، مکتب اور عقیدہ بھی سمجھا جاۓ۔[8] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۷ تا ۳۹۔

منابع:

منابع:
1 اعراف: ۱۵۷۔
2 یوسف: ۲۔
3 ص: ۲۹۔
4 محمد: ۲۴۔
5 مطففین:۱۴۔
6 سبأ: ۷۔
7 آل عمران:۲۰۰۔
8 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۳۷ تا ۳۹۔
Views: 227

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: انسان اور آزادی
اگلا مقالہ: آزادی اور حیات انسانی