loading
{ دروس ولايت فقیہ: قسط۱}

انسان اور آزادی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

سعادت اور آزادی کا حصول سب انسانوں کی آرزو ہے لیکن سعادت اور آزادی کیا ہے؟ اس مفہوم سے اجمالی طور پر سب آگاہ ہیں لیکن اس کی دقیق تفسیر روشن نہیں۔ آزادی کو سب چاہتے ہیں لیکن آزادی کیا ہے؟ اور اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ اس کو معین کرنا اگرچے آسان نہیں لیکن اس کے باوجود اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

آزادی کی اہمیت

انسان متعدد صفات کی حامل ذات ہے  ایک صفت جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے آزادی ہے۔  آزادی کا معنی انسان کی اپنی شناخت اور جہان بینی پر موقوف ہے۔ آپ انسان شناسی کی جو تعریف کریں گے اس کے مطابق آزادی کی تعریف کی جاۓ گی۔ لہذا آزادی کی جو تعریف اسلام نے کی ہے وہ اس سے مختلف ہے جو مغربی مکاتب فکر نے آزادی کی تعریف کی ہے. اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی جہان اور انسان کی سعادت کے بارے میں جو نظر ہے وہ اس سے بالکل متفاوت و مختلف ہے جو مغربی مکاتب نے جہان اور انسان کے بارے میں پیش کی ہے۔

محدود ذات کی محدود آزادی

انسان کو مطلق اور نامحدود آزادی حاصل نہیں۔ حکماء کے عقلی ضابطے کے مطابق ہر موجود کے اوصاف خود اس موصوف کے تابع ہیں۔ اگر موجود محدود ہے تو اس کے اوصاف بھی محدود ہوں گے۔ اگر موجود نامحدود ہے تو اس کے اوصاف بھی نا محدود ہوں گی. صرف اللہ تعالی لا محدود ذات ہے جس کی بناء پر اس کے اوصاف بھی لا محدود ہیں. جبکہ انسان محدود وجود رکھتا ہے، لہذا چار ناچار اس کے اوصاف بھی محدود ہوں گی، مثلا حیات، آزادی، علم، قدرت اور ارادہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کو لامحدود حیات حاصل ہو جاۓ اور وہ کبھی بھی نہ مرے یا اس کو لامتناہی قدرت دے دی جاۓ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ بر فرض مثال اگر ایک موجود محدود ہو اور ہم اس کے لیے نامحدود وصف قرار دے دیں تو اس سے ’’تجاوز وصف از موصوف‘‘ لازم آتا ہے جو محال ہے۔ اگر تجاوز  وصف از موصوف لازم آ جاۓ تو کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں محال ہے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ذات کی کوئی صفت ایک ایسی جگہ پائی جا رہی ہے جہاں خود موصوف نہیں پہنچا، جب کہ ضروری ہے کہ صفت وہاں ہو جہاں موصوف موجود ہو۔ اگر موصوف موجود نہیں تو اس پر صفت کہاں سے عارض ہو گئی؟

انسان کا آزاد خلق ہونا

اللہ تعالی نے انسان کو جب خلق کیا تو اس کو محدود ذات عطا کی. پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک محدود ذات کو نا محدود آزادی میسر آئے۔ انسان کی ذات محدود ہے لہذا اس کی آزادی بھی محدود ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا ارادہ اور اختیار ہر دو محدود ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک فرد جو معاشرے کا حصہ ہے اسے نامحدود آزادی دے دی جاۓ، کیونکہ اگر اس کو مطلق آزادی دے دی جائے تو معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔ نامحدود آزادی کیسے معاشرے میں ہرج و مرج کا باعث بنتی ہے اور انسانی طبع طغیان گری کا باعث کیسے بنتی ہے اس کو اگلی تحریر میں پیش کیا جاۓ گا۔ [1]جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۲۶تا۲۷۔

منابع:

منابع:
1 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۲۶تا۲۷۔
Views: 1778

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: ولایت فقیہ اور انسان کی آزادی
اگلا مقالہ: قرآن اور تفکر کی دعوت