loading

{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}

قیامت کبری کے وقت روح اور مظاہر روح  کا طرف اللہ پلٹنا

درس: مقدمة شرح فصوص الحکم (داؤد قيصرى)
استاد: آیت اللہ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

الفصل الحادي عشر:

اس فصل میں معاد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ عودِ روح یعنی روح کا پلٹنا ۔ہم معادِ جسمانی کے قائل ہیں نہ کہ فقط روح کے پلٹنے کے اگرچے جسم کی خصوصیت کے بارے میں بحث ہے جوکہ جدا موضوع ہے۔  اللہ تعالیٰ کی اسماء و صفات کی تجلیات ہیں اسی طرح ذاتِ الہٰی کی تجلیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی دولتیں ہیں، مثلاً ’’اسمِ اول‘‘ کی دولت کا ظہور یہ دنیا ہے اور ’’اسم آخر‘‘ کی دولت کا ظہور عقبی اور آخرت ہے۔ بلا شک و شبہ آخرت ابھی ہمارے لیے حجاب میں ہے جس سے پردے اٹھائے جائیں گےاور حق تعالیٰ وحدتِ حقیقی کے ساتھ ظاہر ہو گا ، جیساکہ ہر شیء روزِ قیامت اپنی حقیقی صورت میں ظاہر ہو گی۔ اس دنیا میں ہم حقیقی صورت میں نہیں ہیں بلکہ تمام انسان یکساں صورت یعنی سر و بدن رکھتے ہیں لیکن روزِ قیامت میں حقیقی صورت آشکار ہو گی اور حق اور باطل میں کامل جدائی ہو جائے گی جس کی وجہ سے روزِ قیامت کو یوم الفصل و قضاء کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس تجلی کا محلّ اور اس تجلی کا مظہر ’’روح‘‘ ہے اور لازم ہے کہ روح تجلی کے واقع ہونے کی صورت میں حق تعالیٰ میں فناء ہو جائے اور اس کے فناء ہونے سے اس کے تمام مظاہر فناء ہو جائیں گے۔

تجلی سے مراد ظہور ہے کہ شیء کا اپنے آپ کو ظاہر کرنا ، جیسے سورج رات کے وقت ہے لیکن ہمارے لیے ظاہر نہیں ہے لیکن صبح و دن میں سورج ہمارے سامنے متجلی ہو گا یعنی تجلی کرے گا اور اس کے آثار ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ابھی ہمارے لیے غائب ہے لیکن روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرے گا جس کا تجلی کرنا کہتے ہیں۔ اگر تجلیِ ذات متحقق ہو تو ہر شیء ہلاک ہو جائے گی سوائے اس کے وجہ کے۔ اگر ذات الہٰی تجلی کرے تو ہر شیء فناء ہو جائے اور وجہِ رب باقی رہے گا اور آسمان و زمین پر ہر موجود صاعق یعنی منہ بل گر پڑے گا۔ فناء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیء معدوم ہو جائے گی کیونکہ جو موجود ہو جائے وہ کبھی معدوم نہیں ہو گی کیونکہ اس صورت میں وجود کا عدم سے ربط کہلائے گاجوکہ اجتماع نقیضین ہے۔ پس فناء بمعنی معدوم نہیں ہے۔ پھر کس معنی میں ہے؟ اس کے جواب میں تین معنی بیان کرتے ہیں:

فناء کے تین معانی:

۱۔ معنی اول: تعیناتِ وجود ختم ہو جائیں گے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّار. [1]غافر: ۱۶۔ سائل بھی اللہ تعالیٰ ہے اور جواب بھی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، مثلاً سورج کی تپش سے پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور بادل بنتا ہے اور پھر بادل سے بارش برستی ہے اور ہر قطرہ خاص خاصیت سے متصف ہے اور پھر انہی قطرات کے جمع ہونے سے پانی بہنے لگتا ہے اور اسی سے دریا و سمندربنتا ہے اور پھر اسی پر سورج چمکتا ہے اور اس کی تپش سے پھر یہ دوبارہ بادل کی صورت میں جمع ہوتا ہے، یہ معنی ہے : إنّا لله وإنّا إليه راجعون ۔ اس آیت کریمہ میں إنا من اللہ نہیں آیا بلکہ ’’للہ‘‘ آیا ہے کیونکہ لام مِن کا معنی بھی دے رہا ہے اور ملکیت کا معنی بھی دے رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوسِ نزول میں خلقت نازل ہوئی اور اسی نے واپس اس کی ذات کی طرف پلٹنا ہے۔ اس کی ایک اور مثال اس طرح سے دی جا سکتی ہے کہ اگر طوفانی ہوائیں ہو اور ساحل سمندر میں ہم ہوں تو دیکھیں کہ طرح طرح کی موجیں سمندر میں اٹھ رہی ہیں ، کوئی بہت طولانی ، کوئی متوسط وغیرہ۔ لیکن جب ہوائیں تھم جائیں تو وہ موجیں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر پُر سکون ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موجیں کہاں گئیں؟ ! موجیں خود سمندر سے اٹھتی ہیں اور سمندر سے جدا نہیں ہیں ۔ یہی موجیں واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں۔ یہی نسبت خلقت کی اللہ تعالیٰ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تمام خلقت ہے اور خلقت اسی نے وجود دی ہے اور پھر اسی خلقت نے اللہ تعالیٰ کی طرف واپس چلا جانا ہے۔  إنّا لله وإنّا إليه راجعون یہی ہے۔  اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ گرمی میں پانی بھاپ بن کر اڑتا ہے اور بادل بن کر دوبارہ برستا ہے۔ انا للہ وإنا الیہ راجعون یہی ہے۔علامہ حسن زادہ آملی نے الہٰی نامہ میں تحریر کیا ہے: الهی،موج از دریا خیزد و با وی آمیزد و در وی گریزد و از وی ناگزیر است؛ إنا لله وإنا الیه راجعون. [2]آملی، حسن زادہ ، الہیٰ نامہ۔

۲۔ معنی دوم: جب وحدتِ حقیقی حق تعالیٰ قیامت میں تجلی پیدا کرے گا تو موجودات اس کے تحت شعاع آ جائیں گےاور ان کے تعینات مخفی ہو جائیں گےاگرچے یہ تعینات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ وجودِ حقیقی قوی اور غالب ہے ، مثلاً آسمان پر کس قدر ستارے اور کواکب ہیں جوکہ رات کے وقت ظاہر ہوتے ہیں لیکن دن کے وقت ہمیں نظر نہیں آتے۔ اس لیے نہیں کیونکہ موجود نہیں ہیں بلکہ یہ سب ستارے و سیارے ہیں لیکن سورج کے روشنی کے تحتِ شعاع آنے کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ہر شیء کے ہلاک و فناء سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ معدوم ہو گے بلکہ موجود ہیں لیکن وجودِ الہٰی کی تجلی کے سامنے تحت شعاع میں چلے گئے ، گویا کہ نہیں ہیں۔وحدت حق تعالیٰ جب طلوع کرے گا تو ہر شیء اس کے تحت الشعاع چلی جائے گی، جیساکہ سورج کی روشنی میں ستارے پنہاں ہو جاتے ہیں۔ ربّ ظاہر اور عبد مخفی ہو جائے گا۔

۳۔ معنی سوم: موجودات اللہ تعالیٰ کے اوصاف سے متصف ہو جائیں گے اور بشر یا مخلوقی اوصاف ختم ہو جائیں گے۔ یہ معنی خاص افراد کے لیے ہیں جبکہ پہلے دو معنی عمومی ہیں اور عامۃ الناس کے لیے قابل فہم ہیں۔موجوداتِ امکانی مثل انسانی اوصاف حق تعالیٰ کو اپنی استعداد کے مطابق اختیار کرتے ہیں اور جتنے اوصافِ بشری ختم ہو جائیں اور اس کی جگﷺ  اوصافِ الہٰی آ جائیں گے۔ اس لیے یہ معنی کمّل کے ساتھ خاص ہے۔ پس ان تین معانی میں سے کفار کے لیے قیامت پہلے دو معانی میں ہو گی اور خواص مومنین کے لیے تیسری معنی میں قیامت ہو گی۔ اوصافِ بشری یعنی نفس امارہ ، جتنے اوصافِ بشری ختم ہو جائیں گے اتنا اوصاف الہٰی اس کی جگہ لیتے جائیں گے۔ یہ تیسرا معنی مختص ہے نہ کہ عمومی ہے۔ اس صورت میں عبد کے سمع و بصر وہ ذات حق تعالیٰ ہو جائیں گے جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ جب آنکھ ہو جائے عین اللہ، ہاتھ ہو جائے ید اللہ ، زبان ہو جائے لسان اللہ …  پھر اس عبد کو اس طبیعت میں تصرف کی ولایت بھی حاصل ہو جائے گی۔خصوصاً انبیاءؑ کے معجزات و کرامات اسی باب سے ہیں کہ طبیعت میں وہ تصرف کرنے کی ولایت و قدرت اللہ تعالیٰ کی جانب سے رکھتے ہیں۔ الکافی میں شیخ محمد بن یعقوب نے باب قائم کیا ہے جس کا عنوان یہ ہے کہ آئمہ اطہارؑ کو اسم اعظم میں سے جو عنایت کیا گیا ہے۔ اس باب میں تین احادیث ہیں جن میں مشترک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کے تہتّر (۷۳) حروف قرار دیئے ہیں جن میں سے آصف برخیا کے پاس ایک حرف تھا ، جناب عیسیؑ کے پاس دو حرف تھے اور ہم اہل بیتؑ کو اللہ تعالیٰ نے ۷۲ حروف عنایت فرمائے ہیں۔ جبکہ ایک حرف اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے۔ ان تین احادیث میں سے ایک روایت پیش خدمت ہے جوکہ جس میں امام صادقؑ فرماتے ہیں:  { أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ: إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ × أُعْطِيَ حَرْفَيْنِ كَانَ يَعْمَلُ بِهِمَا، وَأُعْطِيَ مُوسَى × أَرْبَعَةَ أَحْرُفٍ، وَأُعْطِيَ إِبْرَاهِيمُ × ثَمَانِيَةَ أَحْرُفٍ، وَأُعْطِيَ نُوحٌ × خَمْسَةَ عَشَرَ حَرْفاً، وَأُعْطِيَ آدَمُ × خَمْسَةً وَعِشْرِينَ حَرْفاً، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَمَعَ ذَلِكَ كُلَّهُ لِمُحَمَّدٍ ’، وَإِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ حَرْفاً، أُعْطِيَ مُحَمَّدٌ اثْنَيْنِ وَسَبْعِينَ حَرْفاً، وَحُجِبَ عَنْهُ حَرْفٌ وَاحِدٌ }. [3]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۵۷۲۔

عرفاء کی نظر میں ہر زمانے میں قطب ایک  ہو گا ، اسی طرح اوتاد، فرد وغیرہ کے بارے میں عرفاء نے اپنی نظر پیش کی ہے جس کا  تذکرہ گذشتہ دروس میں گزر چکا ہے۔ ان کی قیامت اسی دنیا میں قائم ہو جاتی ہے اور صورت کے اعتبار سے وہ حیاتِ دنیاوی میں ہوتے ہیں لیکن فناء فی اللہ ہونے کی بناء پر تیسرے معنی میں قیامت کو حاصل کر چکے ہیں۔ فناء فی اللہ کے معنی کو ہم حقیقت میں اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اس مقام پر فائز ہوں کیونکہ فناء فی اللہ الفاظ سے قابل بیان نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مریض کو درد ہو تو اس کی عیادت کو آنے والا انسان مریض کے درد کی شدت و تلخی نہیں جان سکتا ۔ صرف اتنا جانتا ہے کہ درد ہو رہا ہے لیکن جسے درد ہو رہا ہے وہ جانتا ہے کہ درد کیا ہوتا ہے کیونکہ درد اس کے رگ و پے میں پایا جاتا ہے۔ فناء اسی طرح سے ہے کہ علمی صورت اس کا کامل مطلب ادا نہیں کرتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ سب لوگ اللہ سے دوا چاہتے ہیں جبکہ میں حسن ’’درد‘‘ چاہتا ہوں ۔ حقیقت میں ہم سب درد رکھتے ہیں لیکن دنیا اور حب دنیا اس کے احساس میں حائل ہو جاتی ہے اور ہمیں درد کا احساس نہیں ہوتا ہے، جیسے کانوں میں کوئی رکاوٹ ایجاد ہو جائے تو کسی دوسرے کی آواز ہمیں سنائی نہیں دیتی ، یا انسان نیند میں یا بے ہوش ہو تو اس کو خبر نہیں ہو پاتی۔ اب آواز ہے لیکن رکاوٹ کی وجہ سے سنائی نہیں دے رہی۔ اسی طرح درد ہے ہمارے اندر لیکن دنیا، حب الدنیا اور گناہ رکاوٹ بن جاتے ہیں کہ اس درد کا احساس نہیں ہو پاتا ۔اس دنیا میں اگر ہم سوتے رہیں، شہوات کی دنیا میں بے ہوش پڑے رہیں تو درد کا احساس نہیں ہو گا۔

عبودیت اور مقام بعثت و مراج:

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو عبد کے عنوان سے متعارف کروایا اور بعثت کو مقامِ عبودیت کی برکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ اسراء کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا مسجدِ الحرام سے مسجداقصی لے جانے کا تذکرہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی، رسول، نسب یا کسی اور نام سے آنحضرتﷺ کا تعارف نہیں کروایا بلکہ ’’عبد‘‘ کہہ کر تذکرہ کیا۔ عبد کی معبود کے ساتھ یہی نسبت ہے جیسے صفر کا تنہا کوئی مقام و حیثیت نہیں ہے، صفر جتنے زیادہ ہو جائیں کچھ نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ عدد کا اضافہ کریں تو جتنے صفر زیادہ ہو گے اتنا عدد بڑا ہوتا جائے گا۔ ممکن الوجود تنہا بدون حق تعالیٰ کچھ نہیں ہے لیکن حق تعالیٰ سے عبد ہونے کا تعلق قائم کرے تو عبودیت میں عبد جتنا بڑھتا جائے گا اس کا مقام اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا۔

تنبیہ:

فناء کے تین معانی ہیں جوکہ بیان ہو چکے ہیں۔ معنی کا جاننا دانائی ہے نہ کہ دارائی، کیونکہ ہمیں علمی طور پر یہ معنی حاصل ہوا ہے جبکہ یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ مریض اگر شفاء کا تصور کرے تو اس سے مریض شفاء یاب نہیں ہو جائے گا بلکہ وہ شخص جو شفاء حاصل کر چکا ہے وہ سلامتی کی نعمت سے بہرہ مند ہے۔ مریض کے وجود میں جب سلامتی سریان کرتی ہے تو مریض سالم ہوتا ہے۔ پس حقیقت ِ فناء کا علم اسے ہو سکتا ہے جس کے لیے فناء متحقق ہو چکا ہے۔عرفان میں ہماری فناء سے مراد فناءِ علمی نہیں ہے جوکہ ان اہل معرفت کو حاصل ہوتی ہے جو ارباب شہود نہیں۔ محبت اور عشق ایک ہی ہے البتہ عشق کا مطلب شدید محبت ہے۔ حرارتِ اور سوزِ عشق کو ’’صَبَابَۃ‘‘ کہتے ہیں۔

فناء اور حلول میں فرق ہے۔ حلول کا مطلب دو وجود کا تحلیل ہونا ہے۔ حلول میں ایک وجود محل اور دوسرا حال  قرار پاتا ہے ۔جس طرح نفس اور قُوَی کا باہمی ربط ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کا وجود سے ربط ہے۔ قُوَی نفس میں حلول کیے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ نفس کے ساتھ متحد ہیں۔ اتحاد کی مثال اسکنجبین ہےجس میں لیمو اور چینی مل کر ایک تیسری شیء بن جاتی ہے۔ فناء کی ایک مثال اسی طرح دی جاتی ہے کہ بارش کے قطرات جب تک دریا میں نہیں گرے تب تک وہ تعین رکھتے ہیں لیکن جب دریا میں فانی ہو گئے تو تعینات سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح ایک مثال روشنی کی دی جاتی ہے کہ سورج، چراغ، لائٹ وغیرہ کی روشنی جب تک ملی نہیں تعین رکھتی ہے لیکن ایک گھر میں سب مل کر روشنی برپا کر رہی ہے۔ فناء میں فانی کا وجود باقی ہے ۔ پس فناء کا مطلب نہ معدوم ہونا ہے اور نہ ہی ’’اتحاد اور حلول‘‘ ۔ کیونکہ اتحاد اور حلول میں دو وجود ایک دوسرے کے مقابلے میں ہوتے ہیں۔ اہل اللہ کے نزدیک دو اشیاء کے درمیان حلول اور اتحاد شرک ہے۔ ممکن الوجود واجب الوجود کے منحاز نہیں ہے۔ واجب الوجود اور ممکن الوجود کے لیے بہترین مثال نفس اور اس کے قُوَی میں ربط کی سی ہے۔اگر اتحاد ہی مراد لیں تو اتحاد شیء اور فئی (پلٹنا) ہے۔

Views: 34

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مسائل علم عرفان
اگلا مقالہ: نبوت رسالت اور ولایت