{مقدمة شرح فصوص الحكم للقيصرى}
نبوت، رسالت اور ولایت
استاد: آيت الله شيخ حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوى
الفصل الثاني عشر:
اسماءِ الہٰی کے لیے ظاہر ہے اور باطن بھی۔ پس اسم باطن شامل ہے غیبِ مطلق کے لیے وحدتِ حقیقی کو اور اعیانِ ثابتہ کو۔ اعیانِ ثابتہ مظہر ہیں اسمِ باطن کے۔ اسم ظاہر ہمیشہ کثرت کو شامل ہے۔ جہاں کثرت ہے وہاں نزاع، تخاصم اور ٹکراؤ وجود رکھتا ہے اس لیے کثرت کی بناء پر وجود میں آنے والے نزاع کو دور کرنے کے لیے ایک حَکم عقل کی ضرورت ہے جسے شریعت کی زبان میں نبی و رسول کہتے ہیں اور ہر ایک کو ظاہری و باطنی طور پر کمال تک پہنچاتے ہیں۔ نبی کا وظیفہ رہنمائی و ہدایت ہے۔ حقیقتِ نبوت وہی حقیقتِ محمدیہ ﷺ ہے۔ یہ حقیقت ازلی (قدیم زمانی نہ کہ قدیم ذاتی) ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ اگر بالفرض سورج ازلی ہے تو ضروری ہے کہ شعاع بھی ازلی ہے اگرچے شعاع معلول اور محتاجِ شمس ہے۔ جہان ازلی ہے بمعنی قدیمِ زمانی جوکہ قدیم ذاتی کا محتاج ہے۔ ممکن الوجود کی واجب الوجود کی احتیاج حدوث نہیں امکان ہے کیونکہ شیء پہلے ممکن ہوتی پھر محتاج ہوتی ہے پھر واجب ہوتی ہے ، پھر ایجاد ہوتی ہے اور پھر حادث ہوتی ہے۔ پس حدوث کئی مراحل بعد متحقق ہوتا ہے اس لیے حکماء قائل ہیں کہ ممکن الوجود کی واجب کی طرف احتیاج امکان ہے۔
حقیقتِ محمدیہ ﷺ ازلی ہے ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كُنْتُ نَبِيّاً وَآدَمُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ. [1]ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج ۱، ص ۲۱۳۔ علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں کہ ’’کنت‘‘ میں کان کو ماضی کے معنی میں نہ لیں کیونکہ اس وقت زمان تھا ہی نہیں بلکہ یہ ’’کان وجودی‘‘ ہے جوکہ مبتدأ و خبر میں ربطِ وجودی ہے۔ اس حدیث میں ’’ماء‘‘ سے مراد علم ہے اور ’’طین‘‘ سے مراد وجودِ عینی ہے۔ نبی کا مادہ ’’نبأ‘‘ ہے اور رسول صاحب شریعت ہے۔ اس لیے رسولوں کی تعداد کم ہے اور اکثر نبی ہیں جوکہ صاحب شریعت نہیں ہیں۔ نبی کی رسول سے وہی نسبت ہے جو آئمہؑ کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے ہے۔ یعنی انبیاءؑ اپنے سے پہلے والے رسول کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے اسی طرح آئمہ اطہارؑ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی تبلیغ کرتے ہیں۔
فہرست مقالہ
نبوت بعثتِ الہٰی:
نبوت ایک مقام و منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ مبعوث کرتا ہے۔ یہ وہبی اور اختصاصِ الہٰی ہے نہ کہ کسبی۔ اس مقامِ معنوی پرفائز ہونے کا جھوٹا دعوی کرنے والے دعویدار بھی گزرے ہیں جوکہ متنبی تھے ۔ معجزہ محال عقلی سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ امرِ محال عادی ہے۔ کیونکہ امرِ محال عقلی سے معجزہ کا تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محالِ عقلی کو متحقق کرے؟! اس کے جواب میں بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شیء پر قادر ہے محالِ عقلی میں یہ قوت و قابلیت نہیں ہے کہ وہ متحقق ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ قدرتِ الہٰی کا تعلق محالاتِ عقلی (محال ِ ذاتی) سے نہیں ہوتا ۔ پس معجزہ امرِ محال عقلی نہیں۔ ایک عصا ممکن ہے کہ کئی سالہاسال بعد اژدہا بن جائے۔ ایک کپڑے کو گیلا کر کے آپ کہیں رکھ دیں کچھ دنوں بعد اسی سے کیڑے نکلنے لگ جائیں گے۔ پس ممکن ہے جماد متحرک دوسرے وجود میں تبدیل ہو جائے گا۔ معجزہ اور کرامت میں فرق ہے، البتہ ہر دو محالِ عادی سے دونوں کا تعلق ہوتا ہے نہ کہ محالِ عقلی سے۔ معجزہ تحدی اور چیلنج رکھتا ہے جبکہ کرامت میں چیلنج نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات کرامت کو راز میں رکھنا پڑتا ہے۔ معجزہ میں مدمقابل حریف مطالبہ کرتا ہے دعویِ نبوت و رسالت و امامت پر۔
ولی کی خصوصیات:
نبی ، رسالت اور ولی ان تینوں کی اپنی اپنی خصوصیت ہے۔ رسالت کا باطن نبوت ہے ۔ ہر ظاہر محتاجِ باطن ہے۔ اس لیے یہ ہو سکتا ہے کہ نبی ہو اور رسول بھی ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ رسول ہو لیکن نبی نہ ہو۔ ولایت باطنِ نبوت ہے یعنی نبوت کا باطن ولایت ہے۔ پس ایسا نہیں ہو سکتا ہے نبی ہو لیکن ولی نہ ہو، جبکہ اس کے برعکس ممکن ہے کہ ولی ہو لیکن نبی نہ ہو، جیساکہ آئمہ اطہارؑ ولی ہیں لیکن نبی نہیں۔’’نبی‘‘ اسماء الہٰی میں سے نہیں ہے لیکن ’’ولی‘‘ اسماءِ الہٰی میں سے ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَميد }. [2]شوری: ۲۸۔ عالم امکان ولی سے خالی نہیں ہو سکتا کیونکہ ولی اسم الہٰی ہے۔ نبی اسم ظاہر کا مظہر ہے جبکہ ولی مظہر ہے اسمِ باطن کا ۔ پس نبی کا ہر صورت میں ولی ہونا ضروری ہے لیکن ولی کا ہمیشہ نبی ہونا ضروری نہیں ہے۔ آئمہ اہل بیتؑ ولی تھے لیکن نہ نبی تھے اور نہ رسول۔ ولایت اس لیے نبوت سے بالاتر ہے کیونکہ ولایت کی اساس پر نبوت عنایت ہوتی ہے کہ اگر ولی نہیں ہے تو نبی نہیں ہے۔ اس بناء پر ہم معتقد ہیں کہ آئمہ اہل بیتؑ تمام انبیاءؑ سے افضل ہیں سوائے رسول اللہ ﷺ کے۔ ولایت کے مدارج ہیں اور ولایت کے سب سے بالاترین مرتبہ پر رسول اللہ ﷺ فائز ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے ہم عرض آئمہ اطہارؑ ہیں۔ امام علیؑ اگر جبریلؑ کو دیکھتے سنتے تھے تو یہ مقامِ ولایت کی وجہ سے ہے جیساکہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہےکہ امام علیؑ فرماتے ہیں: إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَتَرَى مَا أَرَى إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَلَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ وَإِنَّكَ لَعَلَى خَيْرٍ . [3] سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۰۱، خطبہ ۱۹۲۔ ’’ولی‘‘ قرب سے ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ کے قریب ترین ہے وہ ولایت کا سب سے افضل مقام رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا نبوت اور رسالت کا منصب دینا قُرب کی بناء ہے ۔ اگر ولایت نہ ہو تو نہ نبوت ہے اور نہ رسالت۔ ولایت قرب تشکیکی ہے۔ ایک ’’وَلایت‘‘ ہے اور ایک ’’وِلایت‘‘ ہے۔ وَلایت کا معنی ’’محبت‘‘ ہے اور وِلایت کا معنی ’’والی و حاکمیت و قرب‘‘ ہے۔ نبوت ایک امرِ ظاہر ہے اور ہر ظاہر کو باطن کی ضرورت ہے نہ کہ ہر باطن کو ایک ظاہر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وِلایت امرِ باطنی ہے۔ہر نبی دوسرے نبی سے مرتبہ میں حیطہِ تامہ کے اعتبار سے ممتاز ہوتا ہے، جیساکہ اولو العزم کہ ان کا احاطہ تام ہے جبکہ غیر تامہ سے مراد اولو العزم کے علاوہ دیگر انبیاءِ بنی اسرائیل ہیں۔
نبوت ایک مقامِ ظاہری ہے اور ولایت ایک مقام باطنی ہے۔ ولایت سرمایہِ نبوت ہے ۔ ہر نبی ولایت کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے لیتا ہے اور مخلوق کو دیتا ہے۔ اگر ہم کسی کو انفاق کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کچھ ہمارے پاس ہو تاکہ کچھ دے سکیں۔ اگر خالی جیب ہو تو کیسے کسی کو کچھ دے سکتے ہیں!! پس عطاء کر نے کے لیے کچھ پاس ہونا چاہیے۔ نبوت اور ولایت میں فرق واضح ہو گیا تو پھر جاننا چاہیے کہ ان میں وحدت بھی قائم ہوتی ہے۔ ولایت وہبی یعنی خدادادی ہے ۔ اللہ تعالیٰ بلا سبب نہیں دیتا بلکہ ضروری ہے کہ ایک قابلیت اور استعداد و زمینہ ہونا چاہیے تاکہ اسے نبوت عطا ہو سکے۔ ہم چونکہ اس کی قابلیت نہیں رکھتے تھے اس لیے ہمیں نہیں ملی۔ نبی اکرمﷺ کے سلسلہ اجداد میں ایک بھی بت پرست نہیں ہے ۔ یہ خود ایک زمینہ فراہم کرنے کا باعث ہے۔ یہ گمان نہ ہو کہ حضرت ابراہیم ؑ کے باپ بت پرست تھے !! نہیں کیونکہ قرآن نے والد کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ ’’اب‘‘ ذکر کیا ہے۔اَب کا اطلاق باپ اور چچا ہر دو پر ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا چچا بت پرست تھا۔
نبوت اور ولایت کا تشکیکی ہونا:
نبوت اور ولایت تشکیکی ہے جوکہ ذو المراتب ہے ، جیسے نورکہ ایک نورِ شمس ہے ، ایک نورِ شمع ہے ۔ نورِ شمس کہاں اور نورِ شمع کہاں !!رسول اللہ ﷺ کا دائرہ بیرونی ہے جو اندرونی دائرے کو گھیرے ہوئے ہے۔ نبوت جناب ابراہیمؑ وسیع تر ہے جناب لوطؑ کی نبوت سے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نبوت سب انبیاءؑ کی نبوت سے وسیع اور جامع تر ہے۔ نبوت کی طرف ولایت بھی شدت اور ضعف رکھتی ہے۔
مقامِ ولایت ولی سے ماخوذ ہے۔ ولی کا لغوی معنی قرب کا ہے۔ اسی طرح ولی بمعنی حبیب بھی آتا ہے۔ نبوت کا باطن ولایت ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ نبی ہو لیکن ولی نہ ہو اگرچے اس کے برعکس ہو سکتا ہے کہ ولی ہے لیکن نبی نہ ہو، جیساکہ آئمہ اطہارؑ ولایت رکھتے ہیں لیکن نبی نہیں ہیں۔ ولایت کے مراتب ہیں ۔ سب سے عظیم ترین مرتبہ پر رسول اللہ ﷺ فائز ہیں۔ جناب فاطمہؑ نبی یا رسول یا امام نہیں تھیں لیکن ولی تھیں اور بلند ترین ولایت کے مرتبہ پر فائز تھیں۔ آئمہ اطہارؑ تمام انبیاء ؑ سوائے رسول اللہ ﷺ سے بلند ولایت کے مرتبہ پر فائز ہیں کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے مرتبہِ ولایت پر فائز تھے۔ نیچے مرتبہِ ولایت والے اپنے سے بالا مرتبہِ ولایت کے ماتحت ہیں۔ امام علیؑ کا مرتبہ صادرِ اول کے مرتبہ پر ہے۔ ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ صادرِ اول تک رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی نہیں پہنچا اور رسول اللہ ﷺ کے سب سے قریب ترین ہستی امام علیؑ ہیں۔ صادرِ اول کا تعارف آگے مزید آئے گا کہ ایک مرتبہ غیر متناہی ہے۔ وجودِ غیر متناہی ہے رسول اللہ ﷺ اور امام علیؑ کا ۔ اللہ تعالیٰ سے فرق اسی مقام پر ہے کہ اللہ تعالیٰ ذو ظل ہے اور صادرِ اول ظل ہے اور وابستہِ شاخص ہے۔
ولایت کی اقسام:
ولایت کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ ولایت عامہ، ۲۔ ولایت خاصہ۔
ولایت عامہ:
جو اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے ہیں وہ ولایت عامہ رکھتے ہیں۔یہ بھی مراتب کے اعتبار سے ہے کہ واجبات کے ساتھ ساتھ مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ یہ ولایت ہر اس شخص کو شامل ہے جو ایمان لایا اور عمل صالح کو انجام دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: { اللَّهُ وَلِيُّ الَّذينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور }.[4]بقرہ: ۲۵۷۔ پس ایمان کے بھی مراتب ہیں اور عمل صالح کے بھی مراتب ہیں ۔ آیت اللہ قمشہ ای کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن گھر گیا تو دیکھا وہ گریہ کر رہے ہیں ، میں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ آج نمازِ شب مجھ سے چھٹ گئی ہے۔ میں نے کہا کہ نماز شب تو مستحب ہے اس میں گریہ کی کیا بات ہے؟ آقای قمشہ ای نے جواب دیا کہ اس پر نہیں رو ررہا ، اس پر رو رہا ہوں کہ آخر مجھ سے کل کیا ایسا عمل انجام پا گیا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ نے آج نماز شب کی توفیق سلب کر لی؟! پس ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کے مراتب ہیں۔
ولایت خاصہ:
ولایت خاصہ سے مراد وہ افراد ہیں جو فانی فی اللہ اور باقی باللہ ہیں۔ ولی ’’اللہ‘‘ میں فناء ہوتا ہے۔ فناء سے ہر گزر مراد یہ نہیں ہے کہ بذات خود عبد منعدم اور معدوم ہو گیا ہے !! عبد موجود ہے اور زندگی کا اہتمام کرتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جہتِ بشریت کو جہتِ ربانیت میں فناء کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ربط تو کسی کا نہیں ٹوٹتا کیونکہ ہر شیء کا اللہ تعالی سے ربط ہے ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک طرف اور اللہ تعالیٰ ایک طرف ہو !! جیساکہ قرآن کریم کی متعدد آیات احاطہ اور معیت اور ربط کو بیان کرتی ہیں۔ ہر موجود کا ذات ربوبیت سے کسی نہ کسی جہت سے ربط اور تعلق ہے۔ یہاں حضرتِ الہٰیہ کی جہت سے ربط مدنظر ہے۔ ہر عبد کا اللہ سبحانہ سے ربط ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيها. [5]بقرہ: ۱۴۸۔ ’’فانی فی اللہ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ افعال اور اوصاف اور ذات کے اعتبار سے مرتبہِ فناء پر فائز ہیں۔ انہیں یقین ہے لا حولا و لا قوت الا باللہ ۔ خود اپنے میں اوصافِ کمال نہیں دیکھتے جو کمال دیکھتے ہیں تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ انہیں یقین ہے کہ کائنات میں ایک ذات سے زیادہ کوئی ذات نہیں۔ بقیہ ذوات آئینہ اور مرآت کی مانند ہیں جو اپنے ظرفیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی خبر دے رہی ہے۔ بقیہ ذوات ظہورات و مظاہر ہیں۔ توحید فعلی ، صفاتی اور ذاتی میں فناء ہیں ۔
فناء اور توجہِ تام
ممکن ہے ہم میں سے کوئی فناء فی اللہ کی منزل پر فائز ہونے کا سوچے لیکن کیا اس کا امکان ہے؟ بلا شک و شبہ امکان ہے لیکن اس کے لیے ایک راہ پر چلنا ہو گا اور وہ راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہِ تام چاہیے جس کی جڑ اور ریشہ محبت اور عشق ہے۔ لفظِ عشق کچھ مذموم سمجھا جاتا ہے لیکن ہماری اس سے مراد شدید محبت ہے جسے عشق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔عشق یعنی محبتِ شدید، اگر ایک چیز سے دوستی اور شدید محبت ہو جائے تو اس کو عشق سے تعبیر کرتے ہیں۔ عشق کا ریشہ عشقہ ہے جوکہ ایک جڑی بوٹی ہے جو پودوں کو لگ جاتی ہے اور اس کی خوراک خود کھا کر پودے کو سوکھا دیتی ہے۔ اصلاح میں عشق کا مطلب شدید محبت ہے۔ پس فناء کے لیے توجہِ تام چاہیے اور یہ توجہِ تام کا ریشہ شدید محبت ہے۔ عاشق کا تمام روگ یہی ہوتا ہے کہ معشوق کی طرف توجہ رکھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے{ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوني يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحيم }[6]آل عمران:۳۱۔ اللہ سے محبت کا معیار رسول اللہ ﷺ کی اتباع ہے۔ اگر تم بندگانِ خدا دعویدار ہو کہ اللہ سے تمہیں محبت ہے تو پھر معیارِ محبت اتباعِ رسول اللہ ﷺ ہے۔ اس کی مثال کوئلے سے دی جاتی ہے کہ کوئلہ کی خاصیت یہ ہے کہ کوئلہ سیاہ اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ خود کوئلہ سیاہی میں ڈوبا ہوا ہے اور سرد پڑا ہے لیکن آپ انگارے کے پاس اس کو لے جائیں اور وہاں رکھیں ۔ وہاں مسلسل رکھی رکھیں نہ کہ کچھ دیر رکھ کر اٹھال لیں بلکہ وہیں رکھی رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ آہستہ آہستہ کوئلہ جلنے لگے گا اور اس کی سیاہی روشنی میں سردی گرمائش میں تبدیل ہو جائے گی۔ ضرورت نگہداری اور انگارے کے پاس مسلسل رکھنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مجاورت انسان پیدا کرے ، مسلسل اس کی بندگی کرے لیکن توجہ کے ساتھ۔ آہستہ آہستہ انسان کا مرتبہ ظلمتوں سے نورانیت میں منتقل ہونا شروع ہو جائے گا۔سورہ ہود کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سورہ ہود نے بوڑھا کر دیا ۔ اس کی وجہ سورہ کی طولانی ہونے کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ سورہ بقرہ اس سے زیادہ طولانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورہ ہود میں ایک آیت ہے : { فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ وَ مَنْ تابَ مَعَكَ وَلا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير }. [7]ہود: ۱۱۲۔ اس آیت میں فاء کے ساتھ آغاز ہے۔ یہی آیت سورہ شوری آیت ۱۵ میں بھی تکرار ہے لیکن وہاں واؤ کے ساتھ ہے۔ دونوں مقام میں فرق ہے اس لیے سورہ ہود کہا کیونکہ سورہ ہود میں آیت مزید آگے بڑھتی ہے کہ ومن تاب معك کو بیان کرتی ہے جبکہ سورہ شوری میں یہ پہلو نہیں ہے۔ پس ہمارے گناہ اور قرب و بُعد کے مختلف اوقات سبب بنتے ہیں کہ فناء حاصل نہ ہو ۔ فناء کے نگہداشت اور تسلسل قرب ضروری ہے۔
ایک مقامِ نبوت ہے اور ایک مقامِ ولایت ہے۔ مقامِ ولایت دو قسم کی ہے: ۱۔ ولایت عامہ جوکہ تمام مومنین جو عمل صالح انجام دیتے ہیں کو شامل ہے۔ ۲۔ ولایت خاصہ جوکہ خاص بندگان کو حاصل ہے جو فناء فی اللہ کی منزل پر فائز ہوں۔ ظاہر ان کا برقرار ہے ۔ فناء سے مراد ہے کہ جہت بشریت کو ربوبیت میں فناء کرے یعنی اللہ سبحانہ کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرے۔ یہ مقامِ فناء توجہِ تام کی برکت سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کے ذکر کو مداوم اور مسلسل انجام دیتا رہنا وہ سرمایہ ہے جوکہ مقام کی طرف لے جاتا ہے۔ علامہ طباطبائی بیان کرتے ہیں کہ تخم و بذرِ سعادت حضور عند اللہ ہے۔ یہ جملہ دقیق معنی رکھتا ہے۔ ایک کسان اگر اچھی فصل چاہتا ہے تو بہت سے کام انجام دے گا، مثلاً زمین کو ہموار کرے گا، جڑی بوٹیاں باہر نکال دے گا، پانی دے گا ، گوڈی کرے گا وغیرہ لیکن ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ کسان بیج بھی زمین میں دبائے ۔ اسی طرح ایک شخص مختلف امور انجام دے لیکن بیج زمین پر نہ ڈالے تو کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا ، مثلاً متعدد ایسے افراد ہوتے ہیں جو فقراء کے لیے ہر مہینے بکرا راہِ الہٰی میں دیتے ہیں یا کسی خاتون کا جہیز دیتے ہیں یا عزاداری کرتے ہیں لیکن واجبات ادا نہیں کرتے، نماز نہیں پڑھتے ۔ ان کی مثال اس کسان کی ہے جو سب کام کریں لیکن زمین میں بیج نہ ڈالیں ۔ اس لیے علامہ طباطبائی نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سعادت حاصل کرنے کے لیے بیج کاشت کرنا ضروری ہے۔ بیج کاشت کرنے میں ولایتِ علیؑ و آل علیؑ پر اعتقاد ضروری ہے ۔ اگر سب اعمال انجام دے لیکن ولایتِ علی ابن ابی طالبؑ کا معتقد نہیں ہے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ سب کام کرے لیکن بیج کاشت نہ کرے ۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن اپنے والدین و اجداد سب کے اثرات کو ایک طرف رکھا اور شیعہ ہونے کے نظریہ کو ایک طرف رکھ کر حقیقی مذہب کی تحقیق کی اورتحقیق و جستجو کی کہ کونسا مذہب برحق ہے ؟ تحقیق کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ تمام مذاہب میں فقط اسلام برحق ہے۔ اس کے بعد دیکھا اس میں کونسا گروہ برحق ہے تو شیعہ اثناعشری کو برحق پایا اور پھر سے شیعہ سے نکل کر شیعہ میں داخل ہو گیا۔
اللہ کی طرف چار سفر:
ولی ’’اللہ تعالی‘‘ کے اسماءِ الہٰی میں سے ہے جبکہ نبی اسماءِ الہٰی نہیں ہے۔ اگر ولی اسماءِ الہٰی میں سے ہے تو ضروری ہے کہ اس کا اسم ہو۔ نبی چونکہ اسماء الہٰی میں سے نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کا خاتمہ ہو لیکن ولی اسماء میں سے ہے اس لیے اس کا استمرار باقی رہے گا۔ چار قسم کے سفر ہے۔ سفر کا مطلب ہے کہ ایک شہر کو پیچھے چھوڑ کر آگے والے شہر کی طرف بڑھا جائے ۔ ایک شہر سے پشت کی اور دوسرے شہر کو پانے کی کوشش کرنا سفر ہے۔ اسفارِ اربعہ میں اسی معنی میں سفر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک مرحلہ سے پشت کر کے دوسرے تک پہنچنے کی تگ و دو کرے۔ یہ چار سفر درج ذیل ہیں:
۱۔ مخلوق سے حق تک کا سفر: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مخلوق کے تمام حقوق ترک کر دے بلکہ ضروری ہے کہ انسان شادی کرے، کھائے پیے ، سوئے جاگے، معاشرے میں زندگی بسر کرے لیکن ان امورِ دنیاوی سے قلبی وابستگی پیدا نہ کرے۔ اسلام گوشہ نشینی اور معاشرے سے دوری اور رہبانیت کا مخالف ہے۔ پس دنیا سے تعلق نہ پیدا کرے ، دنیا کو ہدف نہ بنا لے، مثلاً ایک شخص کے پاس گاڑی ہے ، اس کا گاڑی سے ربط دو طرح کا ہے: ایک ربط گاڑی سے اس طرح سے کہ مالک گاڑی کو اپنے سفر اور ضرورتِ زندگی کے لیے استعمال کرتا ہے ، دوسرا ربط یہ ہے کہ گاڑی کو ہر وقت چمکاتا رہے اور اس کی خدمت کرتا رہے ، اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ لہٰذا اگر گاڑی انسان کی کی خدمت کرے تو یہ بد نہیں خوب ہے لیکن اگر انسان گاڑی کا خادم بن جائے تو یہ مذموم ہے۔ مولوی کہتے ہیں:
آب در کشتی هلاک کشتی است ** آب اندر زير کشتی پشتی است
چون که مال و ملک را از دل براند ** ز آن سليمان خويش جز مسکین نخواند. [8]مولوی، مثنوی، دفتر اول، بخش ۵۰۔
۲۔ حق سے حق تک کا سفرحق کے ساتھ: اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اوصاف کا مطالعہ۔
۳۔ من الحق الی الخلق بالحق: اس کو نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نبوت کسبی نہیں وہبی ہے۔ اسی طرح ولایت بھی کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے۔ بلکہ صرف نبوت و ولایت نہیں بلکہ ہر مقامِ معنوی وہبی ہے۔ چونکہ یہ مقامات زمانے کے گزرنے کے بعد عنایت ہوتے ہیں اس لیے انسان سمجھتا ہے کہ یہ کسبی ہیں۔ ہم مقدمات فراہم کر سکتے ہیں ورنہ یہ مامقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائی ہیں۔ ہر نبی کی نبوت اس کے زمانے کے عین مطابق ہے اور اس کے معجزات بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔
۴۔ من الحق الی الخلق باللہ: اس مرحلہ میں رموز اور اسرار آشکار ہوتے ہیں۔
تنہا علم ہماری مشکل حل نہیں کرتا اگرچے علم یقینی ہو۔ ضروری ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہو۔ ہمارے پاس علم کی تین قسمیں ہیں: ۱) علم الیقین: اس سے مراد برہان و ادلہ سے علم حاصل کرنا ہے ، مثلاً دور سے ہم نے دھواں اٹھتے دیکھا جسے دیکھ کر آگ لگنے کا علم ہو گیا۔ یہ علم حصولی ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ علم حصولی اور دانائی ہے۔ ۲) عین الیقین: خود آگے بڑھے اور دیکھا کہ آگ لگی ہوئی ہے ۔ یہ پہلے کی نسبت قوی علم ہے۔ ۳) حق الیقین: آگ کے پاس جا کر آگ کو چھو کر دیکھا اور جان لیا کہ آگ جلاتی ہے ، اس کو حق الیقین کہتے ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ کے مطابق یہ دارائی ہے۔ بعض نے چوتھے علم کی بھی نشاندہی کرائی ہے جسے بَرد الیقین کہتے ہیں۔ اگر عملی پہلو کو اختیار نہ کریں تو تنہا علم ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کتنے ایسے اہل علم ہیں جن کی علمی قابلیت اور منزلت بلند تھی لیکن خود بھی گمراہ ہوئے اور پھر کثیر لوگوں کو گمراہ کیا۔پس فناء فی اللہ فقط علم کے حصول سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ عملی اقدام ضروری ہے۔ حلوہ حلوہ کہنے سے منہ میٹھا نہیں ہوتا ۔ اس لیے علم حصولی سے انسان کمال تک نہیں پہنچتا بلکہ علم شہودی ضروری ہے۔
ولایت کا دائرہ وسیع تر ہے جو نبی اور غیر نبی ہر دو شامل ہے۔ ولایت کے مقابلے میں نبوت کا دائرہ تنگ ہے۔ ولایت کے مراتب غیر متناہی ہے اس لیے اولیاء کے مراتب بھی غیر متناہی ہیں۔ ولایت کے بعض مراتب زیادہ قریب تر ہیں۔ شیخ اکبر نے کتاب فصوص الحکم کو زمانے کے اعتبار سے نہیں بلکہ ولایت کے مراتب کے اعتبار سے مرتب کیا ہے۔ تمام انبیاءؑ رسول اللہ ﷺ کے مشکاتِ نبوت سے استفادہ کرتے ہیں۔ نبوت کبھی شریعت اور کتاب کے ہمراہ ہے اس صورت میں نبی کو ’’رسول‘‘ کہا جاتا ہے۔ کبھی نبوت بدونِ شریعت ہے اس صورت میں نبی کو ’’نبی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جناب ابراہیمؑ شریعت لائے اور ان کی کتاب مصحف تھی ۔ اسی طرح جناب موسیؑ و عیسیؑ و نوحؑ صاحبانِ شریعت و کتاب تھے۔ رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء و المرسلین تھے اور شریعتِ کامل و اتم لے کر آئے۔ بعض نبی غیر مرسل تھے اور بعض مرسل۔ وہ انبیاءؑ جو مرسل تھے یعنی رسول تھے وہ غیر مرسل سے بالاتر ہیں کیونکہ وہ نبوت و رسالت و شریعت و کتاب سب رکھتے ہیں۔ جب بقیہ انبیاءؑ کے اکثر غیر مرسل تھے وہ ولایت اور نبوت رکھتے تھے۔ پس رسول ’’ولایت، نبوت اور رسالت‘‘ کا حامل ہے۔ جبکہ نبی ’’ولایت اور نبوت‘‘ کا حامل ہے۔ پس رسولوں کی ولایت نبی کی ولایت سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ہم سنتے ہیں کہ ولایت نبوت سے بالاتر ہےبالکل اسی طرح جیسے رسالت بالاتر از نبوت ہے۔ اگر ایسا کہیں پڑھیں تو یہ مطلق طور پر نہیں ۔ مطلق طور پر ولایت نبوت سے بالاتر نہیں ہے۔ اگر ایک ذات متعلق عہدے رکھتی ہو ، مثلاً نبی بھی ہے اور رسول بھی اور ولی بھی تو اس صورت میں ولایت نبوت و رسالت پر بالاتر ہے ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں ولایت بالاتر از نبوت ہے۔ لہٰذا ولایت کو جہاں بالاتر کہا جاتا ہے یہ تب ہے جب ایک جگہ ولایت، نبوت و رسالت جمع ہو یا ولایت و نبوت جمع ہو تو اس صورت میں ہم کہیں گے ولایت بالاتر ہے۔ ایک شخص کے مورد میں ہم جب مقایسہ کریں تو ولایت کو بالاتر کہا جائے گا۔
جہاں تک آئمہ اطہارؑ اور جناب فاطمہؑ کی ولایت کا تعلق ہے تو ان ہستیوں کی ولایت تمام انبیاءؑ کی ولایت سے بالاتر ہے کیونکہ ان ہستیوں کی ولایت رسو ل اللہ ﷺ کی ولایت کے ہم درجہ تھی۔ ولی اسماء الہٰی میں سے ہے جبکہ نبی اسماء ِ الہٰی میں سے نہیں۔ اس لیے نبوت کا خاتمہ ہے لیکن ولایت کا خاتمہ نہیں ہے۔ انبیاءؑ ملکوتی ہوتے ہیں اس لیے ملائکہ سے نبوت کو حاصل کرتے ہیں۔ شیخ اکبر نے اشارہ کیا ہے کہ اگر اوپر سے نیچے جائیں تو کہیں گے ولایت، نبوت پھر رسالت۔ اگر نیچے سے اوپر جائیں تو کہیں گے کہ رسالت، نبوت اور پھر ولایت۔ پس ولایت ہر دو اعتبار سے برزخ اور درمیان میں ہے۔ بالفاظِ دیگر نبوت رسالت سے بالاتر اور ولایت کے بعد ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ مقامِ نبوت دُوَینِ ولی کا برزخ ہے ۔
معجزہ اور کرامت میں فرق:
معجزہ انبیاءؑ دکھاتے ہیں جبکہ اولیاء کرامات دکھاتے ہیں۔ معجزہ و کرامات عقلی طور پر محال نہیں ہے بلکہ خرقِ عادت ہے۔ایک عادت ہے اور ایک خرقِ عادت ہے۔ ہر دو تقدیرِ ازلی الہٰی ہے۔ عادت سنتِ جاریہ ہے اور خرقِ عادت خلاف سنتِ جاریہ ہے۔ سنت جاریہ سے مراد ہے وہ قانون جو کائنات میں جاری ساری نظر آتا ہے ، جیسے پانی رطوبت اور ٹھنڈک ایجاد کرتی ہے اور بھاری چیز کو غرق کرتی ہے ، آگ تپش اورحرارت دیتی ہے اور چیز کو جلا دیتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جناب ابراہیمؑ کے لیے آگ جلاتی نہیں ہے۔ حضرت موسیؑ اور ان کے لشکر کو دریائے نیل نے غرق نہیں کیابلکہ راستہ دے دیا لیکن فرعون کو ڈوبو دیا۔ ہر دو اللہ تعالیٰ کی ازلی قدرت سے انجام پانے والی چیزیں ہیں۔اگر ایک تھیلے میں چاول رکھیں اور اس میں نمی یا پانی پڑ جائے اور گرمی شدید ہو تو کچھ مدت بعد وہاں سے کیڑے نکلنے لگیں گے ۔ یہ سنتِ الہٰی اور عادت ہے۔ اگر یہ خرقِ عادت ہو تو یہ معجزہ اور کرامات سے تعلق رکھتا ہے۔ اس طرف توجہ رہنی چاہیے کہ خرقِ عادت ایک چیز ہے اور محالِ عقلی ایک الگ چیز ہے۔ معجزات و کرامات کا تعلق خرقِ عادت سے ہے نہ کہ محال و ممتنعِ عقلی سے نہیں ہے کیونکہ محالِ عقلی وجود میں آنے والی چیز ہے، مثلاً اجتماعِ نقیضین محال ہے جس سے کرامات و معجزات کا تعلق نہیں ہوتا ہے ۔
تمام معجزہ و کرامات انجام پانے والے ہیں ۔ ہر معجزہ اور ہر کرامت خارقِ عادت ہے نہ کہ محالِ عقلی۔ معجزہ تحدی کے ہمراہ ہے۔ معجزہ میں چیلنج کیا جاتا ہے۔ عادت ایک سنت ہے جسے لوگ اپنی زندگی میں مسلسل مشاہدہ کرتے ہیں۔ معجزہ اور کرامت میں اس سنت کو خرق یعنی چیرا جاتا ہے۔ اگر خرقِ عادت اولیاء سے صادر ہو تو کرامت کہلاتا ہے اور اگر انبیاءؑ سے صادر ہو تحدی اور چیلنج کے ساتھ تو معجزہ کہلاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اگر خرقِ عادت انبیاءؑ سے صادر ہو اور چیلنج و تحدی اس کے ہمرہ ہو تو یہ معجزہ کہلاتا ہے اور اگر اولیاء سے صادر ہو تو کرامت کہلاتا ہے۔ امام علیؑ نے کثیر خارق العادۃ امور انجام دئیے اس کو کرامت کہا جائے گا۔
نظرِ بد اور نظر لگنا :
بعض لوگ نہ نبی ہیں اور نہ ولی لیکن قوی نفس کے مالک ہیں اور مختلف تصرفات انجام دیتے ہیں۔ یہ قوی نفس کا مالک کبھی اہل خیر و نیک سیرت ہے اور کبھی خبیث و اہل شر میں سے ہے۔ بالفاظ دیگر یہ قَوی نفس رکھنے والے افراد یا شریف ہیں یا خبیث ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک خبیث نفس قوت کا مالک ہو جس کی بناء پر وہ دوسرے نفوس پر تاثیر برپا کر رہا ہو، مثلاً قوی نفوس کی دیگر نفوس پر تاثیر ہوتی ہے جسے رقیِ عین یا نظر لگنا کہتے ہیں ۔ فارسی میں اسے چشم زدگی یا اردو میں نظر لگنا کہتے ہیں۔ یہ خبیث قوی نفوس کی دیگر نفوس پر تاثیر کا ظاہر ہونا ہے۔ کوئی اہل شر و خبیث نفس ہو اور قوی نفس کا مالک ہو تو وہ کسی کو اپنی نگاہ سے دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور تاثیر برپا کر سکتا ہے جسے نظرِ بد لگنا کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ مشرکینِ مکہ اپنی نظروں سے آنحضرتﷺ کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: { وَإِنْ يَكادُ الَّذينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ يَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُون }. [9]قلم: ۵۱۔ یہ صاحبانِ ولایت نہیں ہیں اور نہ ولی ہیں۔ لیکن قوی نفس اور تاثیر کو برپا کرنا لگتے ہیں۔ اسی طرح مرتاضِ ہندی ہیں جوکہ قوی نفس کے مالک ہوتے ہیں اور تاثیر برپا کرتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قوی نفس کیسے وجود میں آتا ہے؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ قوی نفس ریاضت سے وجود میں آتا ہے۔ اگر شرعی ریاضت کی ہے تو طیب اور خیر قوی نفوس وجود میں آتے ہیں۔ اگر غیر شرعی ریاضت ہو تو مرتاضِ ہندی کی مانند قوی نفس کا انسان مالک بنتا ہے جوکہ شریر اور خبیث نفس ہوتا ہے۔ پس اگر نفوسِ قویہ مقامِ ولایت تک پہنچ جائے توولی ہو گا اور اگر مقام ولایت تک نہ پہنچے تو ولی نہیں ہو گا بلکہ صلحاء میں سے ہو گاجنہیں فلاح یافتہ مومنین کہا جاتا ہے۔ اگر قوی نفوس شریر ہو تو یہ ساحرِ خبیث کہلاتے ہیں۔ آیت اللہ احمد خوانساری جوکہ علامہ طباطبائی کے ساتھ حرم مقدسہ میں مدفون ہیں مرجع تقلید اور انتہائی صاحب احتیاط صالح مجتہد تھے۔ وہ قوی نفس کے مالک تھے اور ان کی تاثیر کے واقعات معروف ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ سفر کر رہے تھے اور مغرب کا وقت ہو گیا اور گاڑی والا گاڑی نہیں روک رہا تھا ۔ آپ نے ارادہ کیا اور گاڑی بند ہو گی یہاں تک نماز ادا کی اس کے بعد گاڑی آن ہوئی۔
پس نبی سے خرقِ عادت کو معجزہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ولی سے خرق عادت کو کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیز یہی خرق بعض اوقات بعض قوی نفوس کے مالک افراد سے بھی صادر ہوتا ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ ریاضت چاہے شرعی ہو یا غیر شرعی ہر دو صورتوں میں نفس کو قوی کرتی ہے ۔ شرعی ریاضت مثبت اور راہِ مستقیم پر قوت عنایت کرتی ہے اور غیر شرعی ریاضت گمراہی میں رہتے ہوئے قوت دیتی ہے جیسے مرتاضِ ہندی معروف ہیں۔ آیت اللہ لنگرودی جن کا گھر مسجد سلماسی کے بالکل سامنے ہے اور آج کے دور میں مدرسہ بن چکا ہے ان کے ایک بھائی تھے آقای مرتضوی ، جوکہ مرتاضِ ہندی کے بارے میں معروف باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ پاکستان و ہند گئے اور وہاں انہوں نے مرتاضِ ہندی کے محیر العقول امور کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو تب انہوں نے یقین کیا اور اپنے سفرنامہ کو ایک کتاب کی شکل دی جوکہ ’’ارمغانِ ہند و پاک‘‘ کے نام سے چھپی۔ صاف اور زلال پانی کی تاثیر صاف و شفاف ہے جس میں آپ خود کو واضح اور شفاف طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایک حوض ہو جس میں نجس پانی ہو مثلاً پیشاب ہو جس میں اپنی تصویر نظر آ رہی ہو ۔ ہر دو میں تصویر دکھائی دے رہی ہے لیکن ایک شفاف و پاکیزہ و طاہر پانی ہے اور ایک نجس، آلودہ اور زہریلاو و بدبو دار۔ شرعی ریاضت کرنے والا مسلمان شیعہ معتقدِ ولایت قرآن و اہل بیتؑ کے مطابق ریاضت انجام دیتا ہے اس کی مثال صاف و شفاف و زلال پانی سے استفادہ کرنا اور قوت کا حاصل کرنا ہے جبکہ غیر شرعی ریاضات کرنے والا گمراہ اور منحرف انسان کی مثال اس شخص کی ہے جو آلودہ اور نجس پانی سے استفادہ کر کے قوت حاصل کرنے والا ہے۔ پس تعجب آور اور محیر العقول امور کو انجام دینا حقانیت کی علامت نہیں ہوسکتا۔ ہو سکتا ہے کہ مختلف تصرفات اور محیر العقول امور انجام دینے والا اہل حق اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہو اور ہو سکتا ہے کہ گمراہ ، منحرف اور اہل باطل میں سے ہو۔ پس وہ افراد جو نہ نبی ہیں اور نہ ولی ہیں بلکہ قوی نفوس میں مالک ہیں اور مختلف تصرفات انجام دیتے ہیں وہ اہل حق اور اہل خیر میں سے بھی ہو سکتے ہیں اور اہل باطل و گمراہ بھی۔
فصول الحکم کا اجمالی تعارف:
داؤد قیصری کا تحریر کردہ مقدمہ ختم ہوا تو آئیے اب اصل کتاب کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ کتاب ۲۷ فص پر مشتمل ہے۔ فص کا لغوی معنی ایک شیء کا خلاصہ ہے، مثلاً مکھن خلاصہ ہے ملائی کا، یا نگینہ جوکہ انگوٹھی کا خلاصہ ہے۔ شیخ اکبر یہ کتاب ۲۷ فص پر مشتمل ہےجس میں ۲۳ انبیاءؑ یعنی انسان کامل کا تذکرہ ہے اور ۴ غیر نبی ہیں۔ قرآن کریم میں ۲۵ انبیاءؑ کا تذکرہ ہے جن میں سے ۲۳ کا تذکرہ اس کتاب میں آیا ہے۔ جن دو کا تذکرہ اس کتاب میں نہیں ان میں سے ایک ذو الکفل ہے اور دوسرا ’’الیسع‘‘ ہیں۔ ان دو کا تذکرہ ابن عربی نے فصوص میں نہیں کیا۔ مشہور کے مطابق یہ ۲۳ جن کا تذکرہ کتاب میں ہوا ہے سب نبی نہیں ہیں۔ کیونکہ جناب لقمان، شیث ، خالد نبی نہیں تھے لیکن انسان کامل اور صاحبانِ ولایت تھے۔ یہاں تقدیم و تاخیر زمانی کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ مراتب کا خیال رکھاگیا ہے۔ اس لیے مقامِ معنوی اور رتبہ کے مطابق شیخ اکبر نے کتاب کو منظم کیا ہے۔ چنانچہ فصِ عیسیؑ کو فصِ موسیؑ پر مقدم کیا گیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہے کہ اس کے مطابق تو رسول اللہ ﷺ سے متعلق فص کو سب سے پہلے ذکر کرنا چاہیے تھا؟ اس کا جواب شیخ اکبر نے خود دیا ہے کہ یہ سب انبیاءؑ و انسان کامل رسول اللہ ﷺ کی حقیقی نبوت کے شئوونات اور رسول اللہ ﷺ کے شعبہ جات میں سے ایک شعبہ ہیں۔اس لیے یہ ۲۷ فص حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کے شعبہ جات ہیں جن کو ہم فص فص کی صورت میں مطالعہ کریں گے۔
کتابِ فصوص الحکم کا ایک متن ہے اور ایک مقدمہ ہے۔ شارخ داؤد قیصری نے پوری کتاب کے آغاز میں ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جوکہ بارہ فصول پر مشتمل ہے۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ ان بارہ فصول کو اگر کوئی خوب اور اچھے طریقے سے پڑھ سمجھ لے تو وہ عرفانِ نظری کے تمام مبانی سے آشنا ہو جائے گا۔ قیصری کے مقدمہ کے بعد اب ہم کتاب کا آغاز کرتے ہیں جس میں پہلے اصل کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کا مقدمہ ہے اور اس کے بعد متنِ کتاب ہے۔ فصوص الحکم کا مقدمہ شروع کرتے ہیں:
مقدمہِ فصوص الحکم:
شیخ اکبر مقدمہ کا آغاز دعا سے کرتے ہیں کہ بار الہٰا میری مدد فرما اور خیر کے ساتھ اس کو تمام فرما۔شارح قیصری کہتے ہیں کہ اللہ جوکہ رب العالمین ہے کے لیے تمام حمد ہے اور نبی محمد ﷺ اور ان کی تمام آل پر درود و صلاۃ ہے۔ شیخ اکبر نے ذکر کیا ہے کہ تمام حمد اللہ کے لیے ہے جوکہ قلوبِ کلم پر حکمتوں کو نازل کرنے والا ہے۔ شارح نے اس بیان میں پہلے’’ الحمد‘‘ کی تشریح کی ہے۔ شارح کی نگاہ میں شیخ اکبر نے کتاب کا آغاز حمد سے اس لیے کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کریم کا آغاز حمد سے کیا ہے اور اپنے بندوں کو اللہ تعالیٰ نے حمد کی تعلیم دی ہے اور ہدایت کی طرف انسان کی رہنمائی کی ہے ۔ کمالِ ذاتی فقط اللہ تعالی کے پاس ہے۔ غیر اللہ جتنا بھی کمال رکھتا ہے وہ اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے۔ اس لیے حمدِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ بقیہ کے کمالات اور قابلیت ان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ کی جانب سے ہے۔ پس تمام عباد اللہ پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بجائے لائیں۔ ایک حمد قولی ہے ، ایک حمد فعلی اور ایک حمدِ حالی ہے۔
وجودِ تفصیلی کے مرتبہ پر حمد:
۱۔ حمد قولی سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائی جائے۔ خصوصا اس وقت جب کوئی نعمت یا توفیق کو مشاہدہ کرے، مثلاً نماز شب کی توفیق ملی کہے الحمد للہ ، نماز و روزہ کی توفیق ملی ، کہے الحمد للہ، اگر اولاد، صحت، نعمت ، رزق … ملے تو کہے الحمد للہ ۔ یہ حمدِ قولی ہے۔
۲۔ حمدِ فعلی: اللہ تعالیٰ کی خاطر بدن سے عبادات اور نیک اور خیر کے امور کو بجا لانا اور اعمال ِ صالحہ انجام دینا حمدِ فعلی ہے۔ انسان کے بدن کے اعضاء میں زبان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زبان سے بیان کی نعمت ہمیں عنایت فرمائی ہے لہٰذا زبان سے اللہ کا شکر ادا کرنے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لائیں۔پس ہم اپنے اعضاء و جوارح سے وہ کام انجام دیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔ یہ حمدِ فعلی ہے۔اسی طرح زبان سے اگر ہم وہ کلمات ادا کریں جس سے اللہ سبحانہ راضی ہے تو یہ بھی حمد کہلائے گی۔اسی طرح شکر ہے۔ شکرِ حقیقی یہ ہے کہ زبان، آنکھ ، کان وغیرہ سے ایسے اعمال انجام دیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے ، یہ اعضاء کی نعمت پر شکر ہے۔ شارح نے بیان کیا ہے کہ وجہِ الہٰی کی خاطر انسان کے اعمال انجام دینا ہے حمدِ فعلی ہے۔ وجہِ الہٰی اس لیے کہا جاتا ہے جیساکہ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ جب کسی سے راضی ہو جاتا ہے تو پورے چہرے کے ساتھ اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے جوکہ رضایت کو مکمل طور پر بیان کرتا ہے۔ اس لیے وجہِ الہٰی سے مراد ایسا عمل انجام دینا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کامل طور پر راضی ہو، جیسے اہل بیتؑ نے فقیر و مسکین و قیدی کے سوال کرنے پر اپنی روٹیاں دیں تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: { إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا }. [10]انسان: ۹۔ اگر کسی سے ناراض ہو تو انسان اس سے پشت کر لیتا ہے۔ پس وجہ رضایت سے کنایہ ہے۔ پس انسان فقط اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے لیے عمل انجام دے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کیے رکھے۔یہ اوصافِ کمالیہ ہمارے نفس میں رسوخ پیدا کریں یہاں تک کہ ملکہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ.[11]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۱۲۹۔
۳۔ حمدِ حالی: روح و قلب سے حمد بجالائیں۔ حمدِ حالی سے مراد یہ ہے کہ صفتِ کمال سے اپنے آپ کو متصف کریں اور شیطانی اوصاف سے اپنے آپ کو منزّہ کریں۔ انسان کا علمی اور عملی کمالات سے متصف ہونا اور اخلاقِ الہٰی سے متصف ہونا حمدِ حالی ہے۔انسان کا الہٰی کمالات سے اپنی ظرفیت و حدود میں متصف ہونا حمدِ حالی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ ستّار ہے تو ہم بھی دوسروں کے عیوب چھپائیں اور ستّار بننے کی کوشش کریں، اگر حق تعالیٰ غفور ہے تو ہم بھی دوسروں کی زیادتیوں پر معاف کر دیں اور غفاریت میں کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے ہم بھی عطا کرنے والے بنیں، ہم بھی زکات دیں، احسان کریں، عفو و درگزر کریں، حلم و بردباری سے کام لیں وغیرہ ۔ ہر شیء کی زکات اس کے مطابق ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: زَكَاةُ الْعِلْمِ نَشْرُه. [12]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۲۷۵، رقم: ۴۹۹۷ ۔ اسی طرح دیگر اوصاف ہیں کہ انہیں اپنے اندر پیدا کریں اور ان سے اپنے آپ کو متصف کریں۔
وجودِ جمعی کے مرتبہ پر حمد:
اللہ تعالیٰ خود ان تینوں قسم کی حمد رکھتا ہےجوکہ خود حامد بھی ہے اور محمود بھی۔ ہم اللہ تعالیٰ کو دو طرح سے ملاحظہ کر سکتے ہیں : ۱۔ وجودِ جمعی یا احمالی، ۲۔ وجودِ تفصیلی ۔اجمالی وجود کے طور پرملاحظہ میں اجمال سے مراد اصول فقہ و علم فقہ میں مذکور اجمال نہیں ہے کیونکہ علوم میں اجمال سے مراد ابہام ہوتا ہے جبکہ یہاں ابہام مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وجودِ جمعی ہے۔ یہ اجمال تفصیل سے بالاتر ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ قلم دوات لائے تو ابھی آپ نے قلم اٹھایا تو سیاہی کا قطرہ سامنے آیا ۔ پھر آپ نے اس قطرے سے کئی سطریں لکھیں۔ یہ قطرہ اجمال اور وجودِ جمعی ہے جبکہ وہ سطور تفصیلی ہے ۔ اجمال اس لیے بالاتر ہے کیونکہ یہ تفصیلی کا باعث بنا ہے اور اس کی اساس پر تفصیل ظاہر ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور مثال دی جاتی ہے کہ ایک طالب علم آیا اور سالہاسال کی محنت سے اجتہاد کی صلاحیت اور ملکہ حاصل کر لیا۔ اب مرحلہ اجتہاد کے ملکہ کے بعد وہ قلم اٹھاتا ہے اور ۶ ہزار مسائل فقہی استنباط کر کے لکھ دیتا ہے۔ یہ ملکہِ اجتہاد وجودِ جمعی اور وجودِ اجمالی ہے اور یہی چھ ہزار مسائل فقہی وجودِ تفصیلی ہے۔ اسی طرح باری تعالیٰ کا وجودِ جمعی خود اس کی ذات ہے اور اس کا وجودِ تفصیلی وہی وجودِ جمعی کی تفصیل ہے۔ ہم نے حمد کی جو تین اقسام بیان کی ہیں وہ وجودِ تفصیلی کی اساس پر بیان کی ہیں۔ اسی طرح وجودِ جمعی میں بھی اس کی حمد تین اقسام میں ہیں۔ وجودِ جمعی کے طور پر تین حمد کا بیان اس طرح ہے:
۱۔ حمدِ قولی: مظاہر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خود وجودِ جمعی کے مرتبہ پر حمدقولی بھی رکھتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی حمد بیان کی ہے۔ سورہ حشر میں ارشاد ہوتا ہے: { هُوَ اللَّهُ الَّذي لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُون }. [13]حشر: ۲۳۔علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ سورہ حدید ۱ تا ۶ اور سورہ حشر کی آخری سے پہلی والی آیت اس وقت پڑھیں جب کسی مشکل میں گرفتار ہو جائیں اور ان آیت کی تلاوت کے بعد کہیں: يا من هو كذلك. اس صورت میں اللہ تعالیٰ انسان کی مشکل حل فرمائے گا۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ملا صدرا نے سورہ حدید پہلی چھ آیات اور سورہ توحید سے متعلق جب یہ حدیث پڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آخر الزمان میں اس قوم کے لیے نازل کیا جو عمق اور گہرائی میں جائے گی تو ملاصدرا کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلک گئیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے انہیں آخر الزمان میں خلق کیا ہے اور ان آیات کے فہم کے لیے انتخاب کیا ہے۔ سورہ توحید کی معرفت ہر شخص نہیں رکھتا ۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے شہر میں پیدل جا رہا تھا ایک بوڑھا شخص جس نے داڑھی تراشی ہوئی تھی اور شیوہ کی ہوئی تھی غصہ کی حالت میں میرے پاس آیا اور آ کر سختی سے سوال کیا کہ قرآن میں داڑھی کا کہاں تذکرہ ہے۔ اس کے سوال پر کچھ پریشانی ہوئی۔ جیب میں ایک قرآن تھا میں نے قرآن کھولا اور سورہ اعراف کی یہ آیت اس کے سامنے پڑھی:{ يا بَني آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُواري سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا }.[14]اعراف: ۲۶۔ فارسی میں ریش داڑھی کو کہتے ہیں اور عربی میں نرم آرام دہ لباس کو۔ اس کو آیت میں دکھایا کہ یہ دیکھو کہ ریش لکھا ہوا ہے ۔اس نے سر ہلایا اور مطمئن ہو کر چل دیا۔ پس لوگوں کے ذہن کے مطابق بات کرنی چاہیے۔
۲۔حمد فعلی: وجوداتِ عالم اور ہم سب کا وجود اللہ تعالیٰ کی حمدِ فعلی ہے۔ممکنات کو ایجاد کرنا ، موجودات کو وجود دینا حمدِ فعلی ہے۔ بڑی سے بڑی خلقت اور چھوٹی سے چھوٹی خلقت اللہ تعالیٰ کی فعلی حمد ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کتنی مخلوق ہے اس کا اصلا ہمیں علم نہیں ہو سکتا۔ ابھی ایک کہکشاں دریافت ہوئی ہے جس کا زمین سے فاصلہ ایک تخمینے کے مطابق گیارہ میلیون نوری سال ہے۔ اسی دنیا کو دیکھ لیں جس کا ریشہ ’’دنئ‘‘ ہے ۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ ستاروں سے مزین کیا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:{ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزينَةٍ الْكَواكِب }. [15]صافات: ۶۔اللہ تعالیٰ کا اپنی خلقت سے ربط ہے جوکہ مقامِ تفصیل کی صورت میں ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ ہر وجود اللہ کا مظاہر ہے۔ مظاہر وہی جسے آیت کہتے ہیں جوکہ آئینہ کی مانند ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مخلوقات اور وجودات کو مظاہر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے جدا نہیں ہیں بلکہ اس سے مربوط ہیں۔ علامہ حسن زادہ آملیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرا خدا وہ ہے جس سے حسن کا تعلق ہے۔ مظہر یعنی موردِ ظہورِ حق تعالیٰ ۔ اس کو ہم اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ہماری قوتِ باصرہ یا سامعہ ہماری تعریف کرے تو حقیقت میں یہ قوتِ باصرہ نہیں بلکہ ہمارا نفس ہے جو اپنی تعریف کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کمالاتِ جمالی و جلالی کو غیب سے شہادت میں لاتا ہے اور باطن سے ظاہر کرتا ہے اور اپنے علم کے مطابق وجودِ عینی عنایت کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی ذات میں اشیاء کا وجودِ علمی ان کے وجودِ خارجی سے مقدم ہے۔
۳۔ حمدِ حالی: اللہ تعالیٰ کے کمالاتِ جمالیہ یعنی صفات ثبوتی ہیں اور کمالات جلالیہ یعنی صفات سلبیہ ہیں۔ اللہ سبحانہ کی ذات میں فیض اقدس کی صورت میں تجلیات ہیں۔ ایک فیض اقدس ہے اور ایک فیض مقدس ہے۔ فیض اقدس اشیاء کا علمی وجود ذاتِ الہٰی میں۔ فیض مقدس اشیاء کا وجودِ خارجی ہے۔ کلام الہٰی میں وارد ہوا ہے : الحمد للہ رب العالمین۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں الحمد للرحیم یا للرحمن نہیں آیا؟! اسمِ اللہ دو قسم کا ہے: ۱۔ اللہ ذاتی جوکہ ذات کو بیان کرتا ہے، ۲۔ اللہِ صفاتی جوکہ مرتبہِ ذات سے تنزل کر گیا ہے۔ اس صورت میں اسم اللہ تمام صفاتِ کمالات کا جامع ہے۔ علامہ حسن زادہ آملی بیان کرتے ہیں کہ سورہ حمد میں اسم اللہ تکرار نہیں ہوا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اللہ’’ذاتی ‘‘ ہے جبکہ الحمد للہ رب العالمین میں اللہ ’’صفاتی‘‘ ہے جوکہ تمام کمالات کا جامع ہے۔شاعر کا کہنا ہے:
لقد كنتُ دهراً قبل أن يكشف الغطا
أخالك إني ذاكرٌ لك شاكر
فلما أضاء الليل أصبحتُ شاهدا
بأنك مذكورٌ وذكرٌ وذاكر
حجاب برطرف ہونے سے پہلے میں تھا جس میں یہ خیال کرتا تھأ کہ میں تیرا ذاکر ہوں اور شکر کرنے والا ہوں لیکن جب رات ڈھل گئی اور میں آشکار ہوا اور حجاب ہٹا تو دیکھا کہ اے اللہ تیرا ذکر کیا جا رہا ہے اور تو ہی ذکر ہے اور تو ہی ذکرکرنے والا ہے ۔
منزّل الحِکَم:
’’منزل‘‘ کو باب تفعیل کی صورت میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور باب افعال کی صورت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہر دو طرح سے وارد ہوا ہے۔ باب تفعیل تدریحی نزول پر دلالت کرتا ہے اور باب افعال یکبارگی اور دفعۃً نازل ہوا۔ پس قرآن کریم دو صورتوں میں نازل ہوا ہے: ۱۔ ایک مرتبہ دفعی اور یکبارگی نازل ہوا ہے جسے قرآن کریم نے اکثر و بیشتر جگہ انزال کے لفظ کے ساتھ نزولِ قرآن کو ذکر کیا ہے اور بعض جگہوں پر باب تفعیل سے نزول قرآن کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں حکمتوں کے نزول کو باب تفعیل کے ساتھ پڑھنا بہتر ہے کیونکہ یہ نزول قلب پر ہوا ہے اور قلب مقامِ تفصیل ہے جوکہ وجودِ جمعی کے مقابلے میں ہے۔ تفصیل کے ساتھ تدریج سازگار ہے اس لیے منزِّل الحکم پڑھنا بہتر ہے۔ شیخ اکبر کی کتابوں میں ’’اسم اللہ‘‘ نہیں لکھا ہوتا بلکہ ’’الاسم اللہ‘‘ لکھا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کا اسم دوسروں کی مانند نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ’’اللہ‘‘ ذات کے لیے ہے اور ایک مرتبہ ’’اللہ ‘‘ کہہ کر وہ ذات جو تمام اسماء و صفات کا احاطہ کیے ہوئے ہے ہوتا ہے۔ سب سے بہترین حمد وہ ہے جو اللہ نے اپنی حمد کی ہے۔ اس کے بعد وہ حمد ہے جو انسانِ کامل مکمل جوکمہ خلافتِ عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اس سے صادر ہونے والی حمد ہے۔
قلب انسانی حقیقت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے ، اسی طرح روح بھی مراتبِ انسانی میں سے ایک مرتبہ ہے۔ مرتبہِ روح مرتبہِ اجمال اور وجودِ جمعی ہےجبکہ قلب وجودِ تفصیلی ہے۔ روح کا مقام بالا اور بلند تر ہے جبکہ قلب کا مرتبہ اس سے کم تر ہے۔ وجودِ اجمالی وجود تفصیلی سے بالاتر ہے۔ وجودِ اجمالی جیسے ملکہِ اجتہاد اور وجودِ تفصیلی جیسے توضیح المسائل کہ یہ مسائل فقہی وہی ملکہِ اجتہاد ہے لیکن تفصیلی طور پر ۔ روح میں حقائق اجمالی اور وجود جمعی کے مرتبہ میں ہے اور اسی وجودِ اجمالی کی تفصیل قلب کے مرتبہ پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تدریجی نزول کا تعلق قلب سے قائم کیا گیا ہے۔ مرتبہِ روح کا مرتبہِ قلب سے عالی اور بلند ہونا علوِ مکانی نہیں ہے بلکہ علوِ رتبی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بلند اور عالی ہونا بھی علوِ مکانی نہیں بلکہ رتبی ہے۔ علوِ رتبی کے بھی مراتب ہیں بالکل ایسے ہی جیسے سیڑھی کے پلے ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ کی ایک ذات ہے جو سب سے عالی اور بلند تر ہے جس سے بلند کر کوئی شیء نہیں ہے۔ اس کے بعد اسماء و صفات کا مرتبہ ہے۔ اس کے بعد موجودِ اول ہے اور پھر اس کے بعد عقول ہیں اور اس کے ارواح اور اس کے بعد اجسام اور اس میں سب سے آخر میں ہیولی ہے۔ ہر ما فوق حقیقت اور ما دون رقیقت ہے۔ ہر مافوق علم ہے اور اس کے مادون صفر ہے۔ پس علم و صفر نسبی ہے۔ ایک علوِ مطلق ہے جوکہ ذات الہٰی ہے اورصفرِ مطلق ہے جوکہ سب سے کمتر ہے جوکہ ہیولا اولیٰ ہے۔ انزال پڑھیں یا تنزیل پڑھیں ہر دو صورت میں علوّ کا یہ تقاضا کرتا ہے۔ علوّ میں ایک سب سے بالاتر اور بلند تر علوِّ مطلق ہے اور سب سے کمتر صفرِ مطلق ہے۔علامہ حسن زادہ آملی ؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ جہان دارِ تدریج ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم تدریجی طور پر جانیں۔ اسی طرح اس دنیا میں تدریجاً علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’جذبۃ‘‘ ہے جس میں ایک لحظہ میں سفر طے ہوتا ہے جیساکہ جذباتِ رحمن کا تذکرہ کتبِ عرفانی و فلسفی میں رسو ل اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ روحِ دفعی مقام ہے اور قلب تدریجی مقام ہے۔ روح مقامِ دفعی اور اجمالی و جمعی ہے جس کی تفصیل مقامِ قلب پر ہے۔ کلی کا تعلق اجمال سے ہے اس لیے روح سے ہے جبکہ اس کی تفصیل کا تعلق قلب کے ساتھ ہے۔
حکمت و علم و معرفت میں لغوی فرق:
اہل لغت کے مطابق حکمت اور علم کا آپس میں فرق ہے۔ حکمت سے مراد حقائقِ اشیاء کا علم اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حکمت میں فقط علمی پہلو کا حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس کو عملی طور پر اختیار کریں تو حکمت کہلائے گا۔ علم سے مراد اشیاء کے حقائق کا جاننا اور ان کے لوازم کا جاننا ہے۔ معرفت سے مراد ہے کہ ایک شیء کا علم حاصل کیا اور پھر نسیان یا غفلت کا شکار ہو گیا اور اس کے بعد دوبارہ اس نے یاد کیا یا اس کی طرف توجہ گئی، اس کو معرفت کہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ کو عارف نہیں کہہ سکتے جبکہ عالم اور حکیم کہہ سکتے ہیں۔ شیخ اکبر نے منزّل الحکم میں حکمت کا انتخاب کیا ہے جبکہ علم اور معرفت کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ حکمت اور حکیم میں علم کے ساتھ عمل کا تقاضا بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی علم کے مطابق عمل نہ کرے تو وہ عالم ہے لیکن حکیم نہیں ہے۔معرفت علم یا نسیان کے بعد جاننے کو کہتے ہیں۔ اگر انسان کے علم میں تھا پھر بھول گیا اس کے بعد یاد آیا تو یہ معرفت کہلائے گی۔ علم مسبوقیتِ نسیان نہیں رکھتا بلکہ ابتداء سے جاننا علم کہلاتا ہے۔یہ لغت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اصطلاح کے اعتبار سے۔ ہم جب عرفاء کو عرفاء کہتے ہیں تو اس سے مراد اصطلاحی معرفت ہے۔ اگر تینوں کا باہمی مقایسہ کریں تو حکمت ہر دو یعنی علم و معرفت سے بالاتر ہے اس لیے مصنف نے حکمت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ابن عربی نے انبیاءؑ کو اسمِ حکیم کا مظہر قرار دیا ہے۔ پس انبیاءؑ اسم حکیم کے مظاہر ہیں۔
ایک عرشِ معنوی یا روحانی ہے جس سے مراد فلک الافلاک ہے جس میں ستارہ نہیں ہے ۔ اس کو اطلس بھی کہتے ہیں ۔ اسی طرح ایک عرشِ جسمانی ہے ۔ اسی طرح کرسیِ روحانی معنوی ہے جس سے مراد فلکِ ہشتم اور ثوابت میں سے ہے جبکہ ایک کرسیِ جسمانی اہے۔جہات چھ ہیں جن میں اصل دو جہت ہیں ، اوپر اور نیچے جبکہ باقی جہات قیاسی ہے جوکہ مقایسہ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ فلکِ محدد جہات فلکِ نہم ہے ۔ایک ظاہر ہے اور ایک مظہر ، جیسے آئینہ کے سامنے والی ذات ظاہر اور آئینہ میں دکھأئی دی جانے والی شیء مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور ہر موجود غیر اللہ اس کا مظہر ہے۔ کرسی ِ روح ظاہر ہے اور افلاکِ ثوابت کرسیِ روح کا مظہر ہیں۔
اس کتاب میں ۲۷ فصّ بیان کی گئی ہیں۔ہر نبی جامع شخصیت ہے اور متعدد فصوص کا حامل ہے لیکن ہر نبی کے زمان و مکان کے اعتبار سے ایک فص بقیہ کی نسبت زیادہ نمایاں ہے جس کی بناء پر اس فص کو اس نبی سے مختص کیا گیا ہے۔ یہ فصوص اللہ تعالیٰ کی حکمت کا مظہر ہے اس لیے شیخ اکبر نے حکمت اور فص کے کلمات استعمال کیے ہیں۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے ہم نے شارح داؤد قیصری کے ۱۲ مقدمات مطالعہ کیے ۔ کتاب شروع کرنے سے پہلے جن مبادئ کی ضرورت تھی وہ سابقہ سطور میں گزر چکے ہیں۔
کلمہ اور کلِم:
کلِم جمع ہے جس کی مفرد کلمہ ہے۔ شیخ اکبر نے کلِم سے مراد انبیاءؑ کی شخصیات مراد لی ہیں۔ اس لیے قلوب کے لفظ کو کلِم کی طرف مضاف کیا ہے جس کا معنی بنتا ہے کہ اللہ تعالی نے حکمتوں کو کلمِ یعنی انبیاءؑ کے قلوب پر نازل کیا ۔ کلِم سے بعض اوقات مراد مجردات یعنی ملائکہ اور ارواح بھی لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ }. [16]فاطر: ۱۰۔ قرآن کریم نے جناب عیسیٰ ؑ کو کلمہ کہا ہے: { إِنَّمَا الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُه }. [17]نساء: ۱۷۱۔ سورہ کہف میں ہر شیء چاہے انسان ہو یا غیر انسان اس کو کلمہ کہا ہے:{ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِماتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَدا }. [18]کہف: ۱۰۹۔ اگر سب سمندر مل کر سیاہی بن جائیں اور میرے ربّ کے کلمات کو لکھنے لگ جائیں تو سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن کلمات کا بیان ختم نہیں ہو گا۔ اللہ کی نعمات کو شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ سورہ لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَلَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم }. [19]لقمان: ۲۷۔
عوالم میں موجودات کو کلمات کہنے کی تین وجوہات بیان کی گئی ہے :
۱۔ عوالم میں موجودات کلمات کی مانند ہیں ، جیساکہ انسان جب کسی کلمہ کو ادا کرتا ہے تو جب منہ سے ہوا حلق سے نکلے تو کلمہ تشکیل نہیں پاتا، اس کے بعد دانتوں تک پہنچتا ہے تو بھی کلمہ ظاہر نہیں ہوتا لیکن جب ہونٹوں سے مخارج سے ٹکرا کر نکلے تو کلمہ کہلاتا ہے جوکہ معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خلقت کو خلق کیا تو اللہ سے سب سے پہلے جو مخلوق صادر ہوئی جسے صادرِ اول کہتے ہیں وہ غیر متناہی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے وجودات کو خلق کیا۔ یہاں موجودات کو کلمہِ لفظی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس صورت میں کلمہ سے مراد انسان کامل اور حقیقتِ محمدیہ ﷺ ہے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کلمہ معنی پر دلالت کرتا ہے اسی طرح ہر موجود کی دلالت ایک خالق و ربّ پر ہے۔ پس جیسے کلمہ معنی پر دلالت کرتا ہے اسی طرح ہر وجود معنی پر دلالت کرتا ہے جوکہ ربّ اور خالق ہے۔
۳۔ تیسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کن فیکون کا سورہ یس میں ذکر ہوا ہے۔ ان عوالم کے موجودات کلمہِ کن سے وجود میں آئے ہیں اس لیے وجودات کو کلمات کہتے ہیں۔انسان کامل کو بھی کلمہ کہتے ہیں اور ہر موجود کو بھی کلمہ کہتے ہیں جیساکہ سورہ کہف اور سورہ لقمان میں مذکور ہے۔
منابع:
↑1 | ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، ج ۱، ص ۲۱۳۔ |
---|---|
↑2 | شوری: ۲۸۔ |
↑3 | سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۳۰۱، خطبہ ۱۹۲۔ |
↑4 | بقرہ: ۲۵۷۔ |
↑5 | بقرہ: ۱۴۸۔ |
↑6 | آل عمران:۳۱۔ |
↑7 | ہود: ۱۱۲۔ |
↑8 | مولوی، مثنوی، دفتر اول، بخش ۵۰۔ |
↑9 | قلم: ۵۱۔ |
↑10 | انسان: ۹۔ |
↑11 | مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۱۲۹۔ |
↑12 | آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم، ص ۲۷۵، رقم: ۴۹۹۷ ۔ |
↑13 | حشر: ۲۳۔ |
↑14 | اعراف: ۲۶۔ |
↑15 | صافات: ۶۔ |
↑16 | فاطر: ۱۰۔ |
↑17 | نساء: ۱۷۱۔ |
↑18 | کہف: ۱۰۹۔ |
↑19 | لقمان: ۲۷۔ |