loading
{تمهيد القواعد في شرح قواعد التوحيد}
مسائل علم عرفان
درس: تمهيد القواعد لابن تركة
استاد: آیت الله سيد يوسف إبراهيميان
تحریر: سید محمد حسن رضوی

مسائل علم سے مراد وہ تصدیقات و قضایا ہیں جو موضوع ومحمول سے مرکب ہوتے ہیں اور موضوع ’’موضوع علم‘‘ میں سے ہوتا ہے اور محمول اسی ’’موضوعِ علم‘‘ کے عوارضِ ذاتی میں سے ہوتا ہے، مثلا مسائل عرفان میں سے ہے : الوجود واحد، اس قضیہ یا مسئلہ کو علم عرفان میں مطرح کیا جاتا ہے اور ثابت کیا جاتا ہے اس لیے اس کو علم عرفان کا قضیہ کہا جائے گا، یا الوجود واجب ، اس کو علم عرفان میں ثابت کیا جاتا ہے ، اس لیے یہ علم عرفان کا موضوع کہلائے گا۔ اسماءِ الہٰی ایک اہم موضوع ہے علم عرفان کا ۔ ہر اسم ایک خاص مقام اور مرتبہ رکھتا ہے، بعض اسماء دیگر بعض سے بالاتر ہیں اور بعض اسماء دیگر بعض سے نیچلے مرتبہ کے ہیں۔ اسماء الہٰی تکوینی ، عینی اور صفاتی اعتبار سے توفیقی ہیں جیساکہ رائج یہی بات ہے اور صحیح بھی یہی بات ہے۔ اسماء عینی توقیفی ہیں۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ ایسا کیوں ہے ؟ ! اور وہ ویسا کیوں ہے؟! حقیقت یہ ہے کہ اسماءِ الہٰی توقیفی ہیں جن کی یقیناً علت ہے۔ اسماءِ الہٰی  وصفی بھی توقیفی ہیں۔ اسماء اللہ عینی موجوداتِ خارج سے بحث کرتے ہیں اور اسماء اللہ وصفی حق تعالیٰ سے متعلق ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيي‏ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلاً ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها . [1]بقرۃ: ۲۶۔یہاں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ حیا نہیں کرتا !! یقیناً نہیں کہہ سکتے کیونکہ اسماء الہٰی توقیفی ہیں نہ کہ اس طرح کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے ہم خود سے اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء قرار دینا شروع کر دیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف بے حیائی کی نسبت نہیں دے سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اس اسم کا استعمال نہیں کیا۔اسی طرح قرآن کریم سورہ واقعہ آیت ۶۴ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ’’زارع‘‘ کہا ہے تو ہم اس کو بطور اسم الہٰی نہیں لے سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بطور اسم اختیار نہیں کیا۔ علامہ طباطبائی نے المیزان میں اس موضوع سے بحث کی ہے اور بیان کیا ہے کہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے وہی اسماء قرار دیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بعنوان اسم ہمیں متعارف کروایا ہے۔ علامہ طباطبائی عقلی جہت سے نہیں بلکہ ادب کے تقاضا کے تحت اسماء کو انہی کلمات میں منحصر قرار دیتے ہیں جن کا تذکرہ آیات و روایات میں آیا ہے۔ اگرچے اگر کوئی عاقل دقت نظر کے ساتھ ادب کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سازگار کسی اسم کو منسوب کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک لفظ ہے ، ایک وجود عینی ہے اور ایک عینِ ثابت ہے ۔ اسم لفظ کا اسم اسم الاسم ۔

اشکال:مسائل کا اثبات برہان سے

مسائل علم سے مراد وہ قضایا ہیں جو اس علم میں ثابت کیے جائیں اور اان قضایا پر برہان قائم کیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عرفان میں تو برہان قائم نہیں کیا جاتا بلکہ عرفان میں تو کشف و شہود سے اثبات کیا جاتا ہے۔ پس علم عرفان فاقدِ برہان ہےاور جس علم کے قضایا و مسائل برہان سے ثابت نہ ہوں ان علم کے اصلاً مسائل و قضایا نہیں ہوتے!! بالفاظِ دیگر عرفان میں برہان موجود نہیں جس کا مطلب ہے کہ عرفان کے مسائل اور قضایا نہیں ہیں؟!

جواب: اس کے جواب میں بیان کرتے ہیں کہ عرفان عملی میں بلا شک و شبہ برہان نہیں ہے لیکن عرفانِ نظری میں کشفِ اعلیٰ کے ذریعے مسائل و قضایا ثابت کیے جاتے ہیں۔ پس چونکہ عرفان کے قضایا کشف و شہود سے ثابت کیے جاتے ہیں اس لیے عرفان مسائل و قضایا کا حامل ہے۔ برہان سے ہماری مراد وہ استدلال ہے جس کے مقدمات ’’مبادئ یقینیہ ‘‘ سے تشکیل پائیں اور یہ مبادئ یقینی یا تو بینہ و بدیہی ہیں یا مسلمات میں سے ہیں۔ ان مبادیِ یقینی سے جو ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ اس علم کا مسئلہ یا قضیہ کہلائے گا۔

اس بناء پر ہمارے پاس ایک علوم مطلق ہیں اور علومِ جزئی ہیں۔ علوم مطلق پر جو احکام جاری ہوتے ہیں وہ یقینا علوم جزئی پر بھی جاری ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ احکام جو علوم جزئی پر جاری ہوتے ہیں وہ علوم مطلق پر جاری نہیں ہوں گے۔ جب یہ کہا کہ مسائل سے مراد وہ قضایا ہے جو اس علم میں ثابت کیے جاتے ہیں تو یہ علومِ جزئی میں ہے کہ علوم جزئی میں برہان کے ذریعے سے مسائل و قضایا کو ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ بات مطلق نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے بعض علوم کے مسائل ایسے ہوں جو برہان سے ثابت نہ کیے جاتے ہوں۔ لہٰذا علومِ جزئی میں مسائل اور قضایا کو برہان کے ذریعے سے ثابت کیا جاتا ہے اس لیے اس حکم کو ہم علوم مطلق کے لیے قرار نہیں دے سکتے۔ ہاں اگر کوئی حکم علوم مطلق پر جاری ہوتا ہے تو وہ علوم جزئی پر بھی جاری ہو گا۔ اس لیے یہ ضابطہ جو اشکال کرنے والے نے بیان کیا ہے وہ علوم مطلق پر جاری نہیں ہوتا۔یہ بات ٹھیک ہے کہ عرفانی مسائل برہان سے ثابت نہیں کیے جاتے بلکہ کشف ِ اعلیٰ سے ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن عرفان قضایا کو حکماء نے استدلالِ عقلی کے ساتھ ثابت کیا ہے اور اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ نیز بعض اوقات کاشف معصوم ہیں جیسے رسول اللہ ﷺ ، امام علیؑ اور آئمہ اطہار ؑکے شہودات ہمارے پاس وارد ہوئے ہیں اور معصوم ذات خود حجت ہیں اس لیے وہ قضیہ ہمارے لیے ثابت ہو جائیں گے۔ پس عرفانی قضایا عقل اور نقل ہر دو طریقے سے بھی ثابت ہوتے ہیں۔آج کے دور میں عرفان کے نام پر کثیر پیمانے پر دھوکہ و فریب اور فاسد گروہ بنے ہوئے ہیں جو اپنی وضع قطع اور چرب زبان سے سادہ لوح لوگوں کو گھیر لیتے ہیں اور انہیں شیطان کی ولایت میں لے جاتے ہیں۔ یہاں ضروری ہے کہ انسان عقل و نقل بالخصوص قرآن و اہل بیتؑ سے متمسک رہے کیونکہ عرفان ان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جھوٹے دعویدار اور گمراہ کن جماعتیں عرفان کے نام سے ہر جگہ موجودہیں جن سے بچنا ضروری ہے اور زیرک انسان جو قرآن کریم و اہل بیتؑ سے متمسک ہوتا ہےاور عقلی تفکر رکھتا ہے بچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء نے عرفانی مشاہدات اور مکاشفات کو برہانی و استدلالی پیکر میں ڈھالا ہے اور قرآن و احادیث سے استدلال قائم کیا ہے۔ البتہ عرفانی قضایا کا اثبات اہل مناظرہ و اہل استدلال و توجیہ سے خارج ہے ۔

وجودکا معنی:

بعض کلمات کو بیان کیا جاتا ہے جن کے اصطلاحی معنی میں اہل علم نے اشتباہ کیا ہے۔ ان میں سے پہلا ’’لفظِ وجود ‘‘ ہے۔ اہل نظر وجود کا اطلاق مطلق طور پر کَون پر کرتے ہیں یا اعیان میں سے کَون پر وجود کا اطلاق کرتے ہیں۔ مطلق کَون سے مراد خارج اور ذہن ہے۔ اہل نظر کی نگاہ میں کَون ’’وجود‘‘ کے مترادف ہے۔ وجود کی حقیقی تعریف نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ بدیہی ہے۔ البتہ اہل نظر نے وجود کی لفظی تعریفیں کی ہیں اور وجود کی تعریف ایسے الفاظ سے کی ہے جو وجود سے زیادہ اَجلی ہے۔ چنانچہ اہل نظر کی نگاہ میں وجود کی حقیقی تعریف نہیں اور لفظی تعریفیں بعض نے ذکر کی ہیں جسے وجود یعنی کَون۔

حکماء کی نظر میں ماہیت کا وجود سے تعلق :

حکماء نے وجود اور ماہیت کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہوئے وجود کا ماہیت پر زائد قرار دیا ہے۔ ماہیت بدونِ وجود متحقق نہیں ہو سکتیں۔ بعض ماہیت تو کاملاً فرضی ہیں جو اصلًا خارج میں تحقق اور واقعیت نہیں رکھ سکتیں، مثلاً متعدد سروں کا والا انسان، یا جیسے اضافاتِ اعتباری اور نِسَب۔ ان کا وجودِ فرضی کہلائے گا۔ انہی ماہیت میں سے ہیں جو فرض و اعتبار سے خارج ہیں اور خارج میں متحقق ہیں ، چاہے عقل نے ان کو فرض کیا ہو یا نہیں، اس کو حکماء کے نزدیک وجودِ حقیقی اور نفس الامر میں وجود کہا جائے گا۔ان میں سے بعض ایسے جو خارج سے مقایسہ کریں تو وہ خارج میں موجود ہیں ، انہیں وجودِ خارجی کہا جاتا ہے، ان میں سے بعض ہیں یعنی جو مشاعرو ذہن سے خارج ہیں۔ ان میں سے بعض ہیں جومشاعر یعنی ذہن میں متحقق ہوتے ہیں ، جیسے نِسَب ، حقیقی اضافات اور وہ تمام جو دوسرے مرحلہ میں تعقل ہوتے ہیں۔

عقل جس ماہیت کا تعقل کرتی ہے یا تو وہ فی نفسہ یعنی فرض کرنے والے کے فرض سے قطع نظر وجود سے ملحق ہونے کی قابلیت رکھتی ہے یا ماہیت فی نفسہ قابلیت نہیں رکھتی وجود بلکہ فرض کرنے والے نے اس کا وجود فرض کیا ہے۔ پہلی صورت کو لے لیں کہ اگر ماہیت فی نفسہ قابلیت رکھتی کہ وجود سے ملحق ہو تو اس وجود کو وجودِ حقیقی کہیں گے۔ کیونکہ وجود یا تو مشاعر و ذہن سے خارج وجودرکھتا ہے تو یہ وجود حقیقی ہے یا ذہن میں وجود رکھتا ہے خارج میں نہیں تو اس کو وجودِ ذہنی کہا جائے گا۔

نفس الامر خارج سے اعم ہے، مثلاً پانی پیاس بجھاتا ہے تو یہ پانی نفس الامر خارجی ہے جو خارج میں ہے۔ اسی طرح نفس الامر  خارج کے علاوہ موارد کو بھی شامل ہے۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں جو کچھ خارج میں ہے وہ نفس الامر میں ہے لیکن برعکس نہیں ہے۔ یعنی ضروری نہیں ہے کہ اگر ایک شیء نفس الامر میں ہے لیکن خارج میں ہونا اس کا ضروری نہیں ہے، جیسے ممکن ہے ذہن میں ایک تصور ہو لیکن خارج میں وہ تحقق نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس الامر میں یہ شیء تھی لیکن خارج میں نہیں، جیسےوہ زید جو ابھی خارج میں پیدا نہیں ہوا بلک معدوم ہے پر انسان ہونے کا حکم لگانا، اس کو ہم کہیں گے کہ زید کی انسانیت نفس الامر میں ہے لیکن خارج میں متحقق نہیں ہے۔

اشکال: زید ِ معدوم پر انسانیت کا اطلاق

پس اگر اشکال کیا جائے کہ زید ِ معدوم پر کیسے انسانیت کا اطلاق صدق اور حماریت کا اطلاق کذب کہلائے گا جبکہ زید اصلاً خارج میں موجود نہیں ہے؟ صادق تو وہ ہوتا ہے جو خارج کے مطابق ہو جبکہ کاذب وہ ہوتا ہے جو خارج میں موجود نہ ہو۔

جواب: خارج کے دو معنی

خارج مشترک لفظی ہے جس کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے:

۱۔ خارج بمعنی اعم: خارج کا اعم معنی ذہن اور خارج ہر دو کو شامل ہے۔ بلا تقابل ذہن خود ایک واقعیت و خارجیت رکھتا ہے۔ خارج بمعنی عام ذہن و خارج ہر کو شامل ہے۔اعتبارِ عقلی کی صورت میں خارج کا یہ معنی ہمارے سامنے آتا ہے اور اس معنی کے اعتبار سے خارج اور نفس الامر آپس میں مترادف ہیں۔

۲۔ خارج بمعنی الاخص: خارج در مقابلِ ذہن،  یہاں خارج سے مراد وجودِ ذہنی کے مقابلے میں ہے۔ اس بحث میں ہماری یہی معنی مراد ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ خارج میں متحقق نہیں ہے تو اس سے مراد ہے کہ خارج بمعنی اخص نہیں ہے نہ کہ خارج بمعنی اعم۔اگر مراتبِ ذہن کو ہم مدنظر نہ رکھیں تو اس صورت میں تمام ذہنی قضایا صادق کہلائےگے۔ لیکن اگر ذہن کے مقابلے میں خارج کو ملحوظ رکھیں تو پھر صدق و کذب کا معیار مطابقت سے پہچانا جائے گا۔یہاں مطابقت سے مراد یہ ہے کہ خارج بمعنی اخص کے اعتبار سے مطابقت نہیں تو کذب اور اگر مطابقت ہو تو صدق کہلائے گا۔

اشکال: نفس الامرکا ثبوت

وجود یا تو وجودِ ذہنی ہے یا وجود خارجی ۔ ہر وجود یا تو ذہن میں ہے یا خارج میں، اگر کوئی وجود نہ ذہن میں ہے اور نہ خارج میں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شیء وجود نہیں رکھتی۔ اگر ان دو کے علاوہ کوئی شیء بنام نفس الامر ہے تو اس کو ثابت کرنے کی ضرورت ہےاور پہلے ھلِ بسیطہ کا مرحلہ طے ہو اس کے بعد ھل مرکبہ سے بحث کی جا سکتی ہے! ! کیونکہ ہمارے پاس وجود کی ان دو اقسام کے علاوہ کوئی قسم نہیں ہے ۔ اب اگر ان دو وجود کے علاوہ کوئی اور قسم ہے جس کا عنوان نفس الامر ہے تو اس کو دلیل سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے اس دلیل پیش کی جائے؟

جواب:

 بعض حکماء جیسے مشاء نے عقل فعّال جوکہ عقل عاشر ہے کو نفس الامر کہا ہے۔ نفس الامر کو ثابت کرتے ہوئے محقق طوسی کہتے ہیں کہ عقلی قواعد سے ثابت ہوتا ہے کہ خارج میں موجود ’’وجود‘‘ثابت ہے جوکہ  بنفسہ قائم ہے ۔’’قائم بنفسہ‘‘ سےمراد یہ ہے کہ یہ وجود تعلقِ استکمالی نہیں رکھتا ورنہ نفس کہلائے گا جوکہ تعلقِ استکمالی رکھتا ہے۔ پس یہ وجود جو خارج میں موجود ہے قائم بنفسہ ہے یعنی تعلقِ استکمالی نہیں رکھتا اور مادی نہیں ہے۔ ’’غیر ذی وضع ‘‘ سے مراد ہے کہ مادی نہیں ہے۔ عقل مجرد ہوتا ہے اس لیے حالتِ انتظار نہیں رکھتا ہے۔ عقل نہ مادہ رکھتا ہے اور نہ مادہ سے تعلق رکھتا ہے جیساکہ نفس اگرچے مادی نہیں ہے لیکن مادہ سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا عقل مادہ اور تعلقِ مادہ سے مجرد ہونے کی بناء پر جو کمال رکھتا ہے اس کو بالفعل رکھتا ہے۔ بعض محققین نے ذکر کیا ہے کہ قرآن کریم میں ممکن ہے جنّ کی تعبیر ملک یعنی فرشتہ کے معنی آئی ہو۔ بالفاظ دیگر لفظِ جن کے لغوی معنی یعنی مستور کی رعایت کرتے ہوئے فرشتوں کو ہی جن کہا گیا ہو اور یہ احتمال بعید نہیں ہے۔ پس عقل بالفعل کمال کا حامل ہوتا ہے اور قوت سے فعل میں آنے کا منتظر نہیں ہوتا ۔ عقل اور معقولات میں تغیر و تبدل، زوال و تجدید وغیرہ محال ہے۔ جو وجود ازلی و ابدی طور پر ان صفات سے متصف ہو اس کو عقل کل اور لوحِ محفوظ کہا جاتا ہے۔

محقق طوسی پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر ہم محقق طوسی کی بات قبول کریں اور عقل فعال کو نفس الامر قرار دیں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حق باری تعالیٰ اور دیگر عقول نفس الامر نہیں رکھتےاور حق تعالیٰ اور دیگر عقول کا وجود نفس الامر میں ثابت نہ ہو!!

 

منابع:

منابع:
1 بقرۃ: ۲۶۔
Views: 247

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: روح اعظم اور عالم انسانی میں اس کے نام ومراتب
اگلا مقالہ: قیامت کبری کے وقت روح اور مظاہر روح  کا طرف اللہ پلٹنا