loading

قناعت اخلاق و عرفان کی روشنی میں

تحریر: سید محمد حسن رضوی
08/20/2023

انسانی فضائل اور اوصافِ کمالیہ میں اہمیت کا حامل وصف قناعت ہے۔ انسان کے غنی و مستغنی ہونے کا راز قناعت میں پنہاں ہے۔ قانع انسان عزت و شرف کے مرتبہ کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ علم اخلاق اور علم عرفان میں اس وصف سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم اس وصف سے متعلق لغوی تحقیق اور اخلاق و عرفان کے آئینےمیں ملاحظہ کرتے ہیں: 

قناعت کے لغوی معنی:

قناعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے حروفِ اصلی ’’ق-ن-ع‘‘ ہیں۔ ابن فارس متوفی ۳۹۵ ھ نے اس مادہ کے دو اصلی معنی ذکر کیے ہیں: ۱۔  کسی شیء کی طرف بڑھنا، ۲۔ کسی شیء میں چکر لگاتے رہنا…اسی سے کلمہ اِقناع آتا ہے جس کا مطلب دعا کے وقت ہاتھوں کو پھیلانا ہے ، اسی باب سے بولا جاتا ہے:جب ایک شخص مانگے تو کہا جاتا ہے:قَنَعَ الرَّجُلُ يَقْنَعُ قُنُوعًا،اللہ سبحانہ فرماتا ہے: { وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ؛ اور سائل کوبھی کھانا کھلاؤ اور راہ چلتے مانگنے والے کو بھی} ،[1]حج:۳۶۔   قانع یعنی مانگنے والا ، اس کو اس لیے قانع کہا گیا ہے کیونکہ یہ اس کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے اس نے سوال (مانگا) کیا ہے۔[2]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۳۲۔اس تفصیل کو ذکر کرنے کے بعد ابن فارس قناعت کا معنی اس طرح بیان کرتے ہیں: قَنِعَ قَنَاعَةً، إِذَا رَضِيَ. وَسُمِّيَتْ قَنَاعَةً لِأَنَّهُ يُقْبِلُ عَلَى الشَّيْءِ الَّذِي لَهُ رَاضِيًا؛قناعت جب ایک شخص راضی ہو جائے ، اس کو اس لیے قناعت کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس شیء کی طرف بڑھتا ہے جس کو لینے پر وہ راضی ہے۔[3]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۳۳۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ قَنَعَ کا مطلب مانگنا اور قَنِعَ کا مطلب راضی ہونے کے ہیں اور لفظِ  قناعت کے لغوی معنی شیء کے مل جانے پررضامندی کا اظہار ہے۔

راغب اصفہانی متوفی ۵۰۱ ھ نے کتاب المفردات میں قناعت کے معنی اس طرح سے ذکر کیے ہیں:القناعة الاجتزاء باليسير من الإعراض المحتاج إليها ؛ قناعت : جن چیزوں کی احتیاج ہے ان سے رخ موڑتے ہوئے کم پر اکتفا کرنا قناعت کہلاتا ہے۔[4]راغب اصفہانی، حسین بن احمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۴۱۳۔ اس کے بعد راغب اصفہانی’’ق-ن-ع‘‘ کو دو ابواب کے تحت زیر بحث لاتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ۱۔ اگر فَعَلَ يَفْعَلُ کے وزن قَنَعَ يَقْنَعُ ہو تو اس کا مصدر قُنُوعاً آتا ہے اور اس کا معنی مانگنے اور سوال کرنے کے ہوں گے، ۲۔ اگر یہ فَعِلَ يَفْعَلُ کے وزن پر قَنِعَ يَقْنَعُ ہو تو اس کا مصدر قَناعت اور قُنْعَانا  آتا ہے اور اس کا معنی راضی ہونے کے ہیں۔[5]راغب اصفہانی، حسین بن احمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۴۱۳۔ یہاں سے واضح ہوا کہ لغوی طور پر قناعت مصدر ہے جس کا معنی راضی ہونا ہے اور یہیں سے یہ لفظ اپنی ضروریات میں کم پر اکتفا کرنے اور کم پر راضی ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ پس لغوی طور پر ہمارے پاس قناعت کے دو معنی کا احتمال پایا جاتا ہے:
۱۔ قناعت بمعنی سائل یعنی مانگنے والا۔
۲۔ قناعت بمعنی راضی ہو جانے والا۔

قناعت علم اخلاق میں:

علماء اخلاق نے قناعت کو رضایت کے معنی سے ملحوظ رکھا ہے اور کم کے اوپر راضی ہو جانے کا قناعت سے تعبیر کیا ہے۔ ملا مہدی نراقی ؒ قناعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ضد الحرص (القناعة). و هي ملكة للنفس: توجب الاكتفاء بقدر الحاجة و الضرورة من المال، من دون سعي و تعب في طلب الزائد عنه، و هي صفة فاضلة يتوقف عليها كسب سائر الفضائل، و عدمها يؤدي بالعبد إلى مساوئ الأخلاق و الرذائل‏؛حرص کی ضد قناعت ہے جوکہ نفسِ انسانی میں مَلکہ(کسب شدہ صلاحیت ) ہے جو باعث بنتی ہے کہ مال میں سے حاجت اور ضرورت کی مقدار پر اکتفا کیا جائے اور اس مقدار سے زائد کو طلب کرنے کی سعی و تگ و دو ترک کی جائے۔ قناعت فضیلت کی حامل صفت ہے جس پر تمام کے انسانی تمام فضائل کا حصول متوقف ہے۔ قناعت کا فقدان بندے کو بُرے اور پست اخلاق تک پہنچا دیتاہے۔ [6]نراقی، مہدی، جامع السعادات، ج ۲، ص ۱۰۴۔راغب اصفہانی نے رضایت کے باب سے قناعت کی لغوی تشریح کی ہے اور کم پر اکتفا کرنے کو قناعت قرار دیا ہے جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں بیان ہو چکا ہے۔

ملا محسن فیض کاشانیؒ اپنی کتاب المحجۃ البیضاء میں تحریر کرتے ہیں کہ حرص اور طمع کے علاج کے جو دوا ہے اس دوا سے قناعت کی صفت کسب ہوتی ہے۔ حرص و لالچ کے مرض کا علاج کی دوا تین اجزاء سے تشکیل پاتی ہے: ۱۔ صبر، ۲۔ علم، ۳۔ عمل۔ اگر اس دوا کو استعمال کیا جائے تو قناعت حاصل ہو گی اور حرص و لالچ ختم ہو جائے گی۔[7]فیض کاشانی، محمد بن شاہ، المحجۃالبیضاء فی تہذیب الاحیاء، ج ۶، ص ۵۸۔

Views: 99

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عشق عرفان کی نگاہ میں
اگلا مقالہ: سعادت نفس عرفان کی نگاہ میں