loading

سعادت نفس عرفان کی نگاہ میں

کتاب : سرح العیون فی شرح العیون
مؤلف : آیت اللہ علامہ حسن زادہ آملی
تدوین: سید محمد حسن رضو ی

        فارابی سعادت کی تعریف کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں : سعادت سے مراد انسان کے نفس کا وجود میں کمال سے اس مقام پر منتقل ہونا ہے جہاں نفس اپنے قوام میں مادہ کا محتاج نہ ہو ۔ یہ اس وقت مقام حاصل ہوتا ہے جب اجسام سے خالی اشیاء کے میں اور ان جواہر میں منتقل ہو جو مادہ و مواد سے خالی ہیں اور نفس اس حالت مین دائمی طور پر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔           علامہ حسن زادہ آملی فرماتے ہیں مادہ سے مراد مادہِ طبیعہ ہےکیونکہ انسان طولی طور پر ابدان کا مالک قرار پاتا ہے۔ ان ابدان میں کمال اور نفص کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے ۔ جب نفس کو کچھ مفارقات حاصل ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے افعال میں مادہ کا محتاج نہیں رہتا جیساکہ وہ اپنے قوام میں مادہ کا محتاج باقی نہیں رہا۔ اس مقام پر نفس سے اس کے اعضاء میں سے کسی عضو سے کسی شیء کو حس کیے بغیر عجیب و غریب آثار صادر ہوتے ہیں جیساکہ ملکوتیین کو اس کی قدرت حاصل ہوتی ہے۔ کلامِ الہٰی پر تدبر کیجیے جس میں ملکہِ بلقیس کے عرش کو جناب سلیمانؑ کے سامنے لانے کا تذکرہ وارد ہوا ہے:  قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قالَ هذا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَني‏ أَ أَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَ مَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَريم‏. [1]نمل: ۴۰۔          امام علیؑ نے جناب سہل بن حنیف کو مکتوب لکھا جس میں بیان فرمایا: ِ ٍ وَاللَّهِ مَا قَلَعْتُ بَابَ خَيْبَرَ وَقَذَفْتُ بِهَا أَرْبَعِينَ ذِرَاعًا لَمْ يُحَسَّ بِهِ أَعْضَائِي بِقُوَّةٍ جَسَدِيَّةٍ وَ لَا حَرَكَةٍ غَذَائِيَّةٍ وَ لَكِنِّي أُيِّدْتُ بِقُوَّةٍ مَلَكُوتِيَّةٍ وَ نَفْسٍ بِنُورِ رَبِّهَا مُضِيئَة. [2]طبری، محمد بن ابی القاسم، بشاۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ج ۲، ص ۱۹۱۔

          اہل علم نے بیان کیا ہے کہ نفسِ قوی بہت سے موارد میں بڑے سخت اور مشکل ترین افعال انجام دے دیتا ہے ، مثلاً ہم ضعیف نفوس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ فعل کی وجہ سے دوسرے فعل کو انجام نہیں دے پاتا ۔ جب ضعیف نفس فکر کرنے لگتا ہے تو اس کے حواس مختلّ ہو کر رہ جاتے ہیں یا اس کے برعکس جب وہ حواس کا استعمال شروع کرتا ہے تو فکر کرنے سے عاجز آ جاتا ہے۔ اس کی بجائے قوی نفس فکر و حس کو جمع کرنے کی قوت رکھتا ہے اور ادراکات اور حرکات ہر دو کو انجام دے سکتا ہے ، خصوصاً جو قوت کی بجائے فضائل و شرف و بزرگی سے تعلق رکھتا ہے وہ اس کو بیک وقت اختیار کر لیتا ہے۔

          اہل معرفت نے ذکر کیا ہے کہ شرف و بزرگی کا حامل نفس غریزہ کے اعتبار سے حکمت اور حریت میں مفارقت سے مشابہ ہے۔ فیض کاشانی عین الیقین میں تحریر کرتے ہیں : انسانی نفس کے غرائب میں سے ہے کہ وہ اپنی قوت سے فعل کو انجام دینے یا حرکت دینے کی طاقت رکھتا ہے یا ایسی حرکت کو انجام دے سکتا ہے جو اسی جیسے شخص کی توان و قدرت سے باہر ہے۔          تمام معجزات کا صادر ہونا اور انسان سے خارق العادۃ امور کا جاری ہونا اسی قبیل سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اذت سے معجزات اور خارق العادۃ افعال نفسِ انسانی سے صادر ہوتے ہیں۔ اس مقام پر اذنِ الہٰی سے مراد اس وہ مشیّت ہے جو نافذ ہے اور اس کو ولی کامل کو عنایت ہے جسے مادہِ کائنات میں تصرف کا اختیار اللہ تعالی نے دیا ہوا ہے ۔ قرآن کریم جناب عیسی ؑ کے متعلق فرماتا ہے:وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْني‏ فَتَنْفُخُ فيها فَتَكُونُ طَيْراً بِإِذْني‏ وَ تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ بِإِذْني‏ وَ إِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتى‏ بِإِذْني‏. [3]مائدہ : ۱۱۰۔

          عارف نفسِ انسانی کے اس مقام کو ’’مقامِ کن‘‘ سے تعبیر کرتا ہے ۔ جو شخص صاحبِ مقام کن بن جاتا ہے وہ باذن اللہ اپنے امر سے جو چاہتا ہے فعل انجام دے سکتا ہے اور تم لوگ نہیں چاہتے مگر جو اللہ کی کی مشیت میں ہو وہ انجام پاتا ہے۔ اللہ سبحانہ کے اس فرمان پر دقت کیجیے: قُلْنا يا نارُ كُوني‏ بَرْداً وَ سَلاماً عَلى‏ إِبْراهيم‏. [4]انبیاء: ۶۹۔ اس آیت کریمہ میں ’’قلنا‘‘ متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے ۔ پس مشیتِ الہٰی کے تابع ابراہیمؑ کی مشیت اور چاہت تھی۔ اسی طرح اللہ سبحانہ کا فرمانا ہے: إِنَّما قَوْلُنا لِشَيْ‏ءٍ إِذا أَرَدْناهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون‏. [5]نحل: ۴۰۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:سُبْحانَهُ إِذا قَضى‏ أَمْراً فَإِنَّما يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُون‏. [6]مریم: ۳۵۔علامہ حسن زادہ آملی نے مقامِ کن کی وضاحت اپنے رسالہ وحدت از دیدگاہ عارف و حکیم میں تفصیل کے ساتھ کی ہے۔

صاحب مقامِ کن:

          صاحبِ مقام کن کو صاحبِ ہمت بلکہ صاحبِ الامر کہا جاتا ہے۔ صاحب الامر کا مقام صاحبِ ہمت سے بلند تر ہے کیونکہ جیساکہ عرفاء بیان کرتے ہیں کہ عارف وہ ہوتا ہے جو اپنی ہمت سے اس چیز کو خلق کرسکتا ہے جس کا محلِ ہمت سے باہر کوئی وجود نہیں ہے اور ہمت مسلسل اس کی حفاظت کر رہی ہے جیساکہ شیخ اکبر نے فصوص الحکم فص اسحاقی میں تحریر کیا ہے کہ مجاہدت کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اربابِ الھمم کے اعتبار سے معارف تک پہنچ جاتا ہے جبکہ دیگر مجاہدت کے نتیجے میں صفاءِ وقت اور رقتِ حال تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔

          ہمت سے مراد نفسِ انسانی کا حقیقت میں تفرّق و تشویش سے نکل کر تجمعِ نفس اور توحُّدِ نفس میں آنا ہے۔ تفرق ضعف و کمزوری کا باعث ہے اور تجمع قوت کا باعث ہے ۔ جب بھی عارفِ سالک یہ ریاضت کرتا ہے کہ وہ اپنی نفس کو اسبابِ کمزوری سے نکال باہر کرے تو وہ صاحبِ عزم و ہمت بن جاتا ہے اور اپنی روحانی قوت سے خیال سے باہر ایسی صورتوں کو خلق کر سکتا ہے جو عالم شہادت میں اعیانِ جارجیہ میں موجود ہے اور بذاتِ خود قائم ہیں جیساکہ باقی عینی موجودات ہیں ، جیساکہ اس قوت سے وہ غیبی صورتیں بھی خلق کر سکتا ہے جیساکہ صورِ روحانی جن کے ذریعے وہ عالمِ اراواح اور عالم عقول میں داخل ہو سکتا ہے ، یعنی عقل بالفعل بن جاتا ہے۔ صاحب ہمت وہ ہوتا ہے جس کا نفس ’’نفس مکتفی ‘‘ نہیں ۔ نفس مکتفی صاحب الامر کو حاصل ہوتا ہے کیونکہ نفس مکتفی مشیّت الہٰی کا محل ہوتا ہے اور نفسِ مکتفی کا امر اللہ تعالیٰ کے امر کے قائم مقام ہوتا ہے۔ یہاں سے ہمیں یہ راز معلوم ہو جاتا ہے کہ امام صاحب العصر و الزمانؑ کو کیوں صاحب الامر کہا جاتا ہے۔

          معلوم ہونا چاہیے کہ ہمت کی نسبت ایک امر کی طرف وہی ہے جو فکر کی نسبت نظری امور میں حدس کی ہے اور عرفانِ عملی میں سلوک کی نسبت جذبہ کی طرف ہے۔ فکر میں نفس کی حرکت ہوتی ہے اس کی طرف جو معلومات اسے حاصل نہیں ہیں ، یہ دلالت کرتا ہے کہ نفس فکر کرنے والا ہے اور فقیر و ناقص ہے ۔ ہمت میں قوتوں کو جمع کیا جاتا ہے اور اس کو متحد کر دیا جاتا ہے تاکہ نفس یہ قدرت پیدا کر لے کہ وہ جو چاہتا ہے اس کو ایجاد و انشاء کرے۔ ہمت میں حرکت کا شائبہ ہوتا ہے جونفس کے نقص پر فکر کی مانند دلالت کرتا ہے ۔ سلوک بھی فکر کر طرح حرکت کا نام ہے جس میں وہ مطلوب جو حاصل نہیں ہے اس کی طرف حرکت ہوتی ہے۔ حدس حرکت سے عاری ہے کیونکہ اس میں انتقالِ دفعی پایا جاتا ہے اور اسی طرح عرفانِ عملی میں حذبہ ہے ۔ پس ہمت فکر اور سلوک سے مشابہ ہے جبکہ صاحب الامر میں امر حدس اور جذبہ سے مشابہ ہے جس میں انتظار کی حالت نہیں پائی جاتی بلکہ دفعی اور فوری ہے۔ صاحب الامر اپنے اس کلام میں برحق ہے:إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون‏.[7]یس: ۸۲۔

          وہ انسان جو صاحب ہمت و ارادہ اور مقامِ کن تک پہنچا ہوا ہے اس کو ولایت تکوینی حاصل ہے اور وہ بلندی کی طرف جاتا ہے اس طرح سے کہ نفسِ انسانی نَفَس رحمانی سے اتحاد پیدا کرتا ہے اور پھر اپنی ہمت اور ارادہ سے جسے ایجاد کرنا چاہے ایجاد کر سکتا ہے۔ عرفاء کی نظر میں تمام عوالم بدن کی مانند ہیں جن کی روح انسانِ کامل اور اس روح کی قوتیں فرشتے ہیں۔ لہٰذا انسان کے لیے ما سوی اللہ اپنے بدن اور اعضاء کے مانند ہو جاتے ہیں جن کی روح یہی انسان ہے۔ کتاب الشفاء میں ابن سینا بیان کرتے ہیں کہ نفس جب قوی اور بلند مرتبہ کا حامل ہو جاتا ہے تو وہ مبادئ کی شبیہ ہو جاتا ہے جس کی اطاعت وہ عنصر کرتا ہے جو اس جہان میں ہے اور عنصر پر اس قوت کی تاثیر نمایاں ہوتی ہے اور وہ جو تصور کرتا ہے اس کو عنصر میں وجود دے سکتا ہے۔ [8]ابن سینا،حسین بن عبد اللہ،  الشفاء، ص ۳۴۵۔

نبوت تشریعی اور نبوت انبائی میں فرق:

          مقام کن کے بلند اور عالی رتبہ تک پہنچے ہوئے انسان کے لیے نبوتِ انبائی ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ ہم نبوت تشریعی اور نبوت انبائی میں فرق کریں۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کے ذریعے جس نبوت کا خاتمہ ہوا وہ نبوت تشریعی ہے جوکہ اب منقطع ہو چکی ہے اور آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت نہیں ہے۔ لیکن نبوتِ انبائی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور ہر انسان اس کی طرف مدعو ہے۔          عقلی اعتبار سے نبوت کی ضرورت تین وجوہات کی بناء پر پر ہے:
۱۔ بشر کو قانون کی ضرورت جو اس کی مصالح اور مفاسد کے اعتبار سے تمام امورِ زندگانی کو شامل ہو اور انسان کو نفع پہنچائے اور ضرر سے محفوظ رکھے۔
۲۔ انسانی روح کے تکامل کے لیے نبی کی ضرورت ہے۔
۳۔ انسانی زندگی چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی ہر لمحہ اسے ہادی اور نذیر کی ضرورت ہے۔

          اس لیے ایسا بشر جو اس بلند مرتبہ اور قوتِ نفس کا مالک ہے جو اللہ تعالیٰ سے وحی کو لے سکے تو اسے نبوت کے عہدہ پر اللہ سبحانہ نے فائز کیا ہے اور بشر کی ضرورت پوری کی ہے۔ قرآن کریم نے نبوتِ تشریعی کو ابھارا ہے اور اس کی ذمہ دار مردوں میں قرار دی ہے جبکہ خاتون اس عہدہ اور منصب پر فائز نہیں ہو سکتی۔ پس نبوتِ تشریعی کے مرد کا ہونا ضروری ہے۔

          اس کے مقابلے میں نبوتِ انبائی ہے جس کا دروازہ مرد و زن ہر دو کے لیے کھلا ہے۔ نبوتِ انبائی سے مراد کسی کا وحی کے ذریعے سے کائنات میں جاری ہونے والے امور سے باخبر ہونا اور جو کچھ عنقریب برپا ہو گا اس سے مطلع ہونا ہے۔ نبوتِ انبائی کا حامل انسان مستقبل کو دیکھ سکتا ہے اور دوسروں کو مستقبل کی خبر دے سکتا ہے۔ چنانچہ یہ نوعِ نبوت کی بازگشت مقامِ ولایت کی طرف ہے نہ کہ نبوتِ تشریعی اور رسالتِ الہٰٖی کے اجراء کی طرف۔ نبوتِ انبائی مردوں کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ خواتین بھی اس مرتبہ پر فائز ہو سکتی ہیں جیساکہ جناب فاطمہ زہراءؑ اس مقام ولایت و عظمت پر فائز تھیں۔ لہٰذا اگر نبوت تشریعی کے عہدہ پر خاتون فائز نہیں ہو سکتی تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ خاتون مرد سے کمتر ہے !! بلکہ خاتون بھی مقامِ ولایت پر فائز ہو سکتی ہے جوکہ سندِ نبوت ہے بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کوئی خاتون بہت سے انبیاءؑ سے افضل ہو جیساکہ جناب فاطمہ صدیقہ طاہرہؑ ہیں جوکہ مقام ولایت پر فائز ہونے کی بناء پر رسول اللہ ﷺ کے علاوہ تمام انبیاءؑ سے افضل ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ولایت وہ ملکوتی معنوی رتبہ ہے جو نبوت و رسالت کا باطن کہلاتا ہے۔ جو مقام ولایت تک نہیں پہنچا ہو اس کو نہ بنوت تشریعی ملتی ہے اور نہ نبوت انبائی۔ نیز نبوتِ انبائی تک رسائی خواتین کی بھی ہے۔ نبوتِ انبائی کو نبوتِ عامہ، نبوت مقامیہ اور نبوت تعریفیہ بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ رئیس نے اسی نبوت انبائی کو نبوتِ خاصہ بالقوۃ المتخلیۃ کہا ہے۔

          اس سعادت کا راز یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا حصہِ وجودی ایک جدول و کنال کے ذریعے بحرِ وجود صمدی سے متصل ہے بلکہ اسی وجودِ صمدی سے منفظر اور پھوٹنے والا ہے جیساکہ امام صادق ؑ فرماتے ہیں:يَفْصِلُ‏ نُورُنَا مِنْ نُورِ رَبِّنَا كَشُعَاعِ الشَّمْسِ مِنَ الشَّمْس‏؛ ہمارا نور ہمارے ربّ کے نور سے جدا ہوا ہے جیساکہ سورج کی شعاع سورج سے۔ [9]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۵۷، ص۱۶۹۔اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے : وَإِنَّ رُوحَ‏ الْمُؤْمِنِ‏ لَأَشَدُّ اتِّصَالًا بِرُوحِ اللَّهِ مِنِ اتِّصَالِ شُعَاعِ الشَّمْسِ بِهَا، بے شک مؤمن کی روح روحِ الہٰی کے ساتھ اس سے زیادہ شدید طور پر متصل ہے جتنی سورج کی شعاع سورج سے متصل ہے۔ [10] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۳، ص ۴۲۵۔ ان روایات میں شعاع کی تعبیر صریح نص ہے کہ عین سے علم کی طرف نازل ہونے والی اشیاء اپنے تمام وجود کے ساتھ نازل نہیں ہوئیں بلکہ وہ اپنی اصل سے متصل رہتے ہوئے نازل ہوئی ہیں اور ان کی اصل ان کی ملکوت ہیں جیسے قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے: فَسُبْحانَ الَّذي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون‏‏؛ پاک و منزہ ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر شیء کے ملکوت ہیں اور اس کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔[11]یس: ۸۳۔

Views: 31

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: کلمہ رمضان کے قرآنی معنی