loading

عشق عرفان کی نگاہ میں

کتاب: أشعۃ اللمعات جامی
آیت اللہ حسن رمضانی
تدوین: حسن رضوی

لمعہ ۱۳:

فخر الدین عراقی متوفی ۶۸۸ ھ معروف عارف و صوفی بزرگ گزرے ہیں جن کی معروف کتاب ’’ کلیاتِ عراقی‘‘ ہے جس میں ایک کتاب ’’لمعات ‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں عراقی نے ۲۸  لمعات ذکر کیے ہیں۔ ان لمعات کی شرح عبد الرحمن جامی متوفی ۸۹۸ ھ نے کی اور اس شرح کا نام ’’ أَشعۃ اللمعات‘‘ رکھا ۔

اشعۃ اللمعات کی تیرہ نمبر لمعہ کا آغاز ایک روایت سے ہے۔ اس روایت میں وارد ہوا ہے:أن لله سبعين‏ ألف‏ حجاب‏؛ اللہ کے لیے( نور اور ظلمت کے )  ستّر ہزار حجاب ہیں۔[1]مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین ، ج ۲، ص ۶۔   عشق و معشوق ایک دوسرے سے مربوط ہوں۔ عاشق کے لیے ضروری ہے کہ وہ معشوق میں فانی ہو جائے۔ سب عاشق ہو جائیں تو اس سے مراد قربِ فرائض و واجبات ہیں اور عاشق و معشوق ایک ہو جائیں تو اس سے مراد قربِ نوافل ہیں۔عاشق جو لیتا ہے وہ معشوق سے لیتا ہے نہ کہ غیر معشوق سے۔ یہ قربِ نوافل کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے روایت منقول ہے :قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ مَا زَالَ الْعَبْدُ يَتَقَرَّبُ‏ إِلَيَ‏ بِالنَّوَافِلِ‏ حَتَّى أُحِبَّهُ فَكُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَلَئِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَإِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّه‏. [2]شعیری، محمد، جامع الاخبار، ص ۸۱۔ رسول اللہ ﷺ سے روایت منقول ہے: صَلَاةٌ بِسِوَاكٍ خَيْرٌ مِنْ‏ سَبْعِينَ‏ صَلَاةً بِغَيْرِ سِوَاك‏. [3]ابن ابی جمہور، محمد ، عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۱۰۹۔ رسول اللہ ﷺ کا اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک نماز جو تم اپنے بغیر پڑھتے ہوئے ان ستّر نمازوں سے بہتر ہے جو تم اپنے ہمراہ پڑھتے ہو۔ کیونکہ حجاب کے اٹھ جانے کے بعد جو نماز ہے وہ افضل ترین نماز ہے۔ اگرتم نہ ہو تو اس کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ حجاب انسان کی صفات ہیں ، چاہے نورانی ہو یا ظلمانی ۔ انسان کا علم، اخلاق حسنہ وغیرہ حجاب نورانی ہے اور گناہ، جاہل ، اخلاق رذیلہ وغیرہ حجابِ ظلمانی ہیں۔ حجاب نورانی سے مراد علم ، یقین ، احوال، مقامات اور اخلاق حمیدہ ہیں ۔ یہ سب حجابِ نورانی ہیں۔ جبکہ جہل ، گمان، رسوم ، عادات  اور اخلاقِ رذیلہ حجابِ ظلمانی ہے اور مقامِ شیطانی ہے۔

اقسام تجلیات:

نبی اکرم ﷺ سے روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں : أَنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى سَبْعِينَ أَلْفَ حِجَابٍ مِنْ نُورٍ وَظُلْمَةٍ ، لَوْ كُشِفَتْ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا دُونَهُ.[4]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۴۵۔یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی وارد ہوئی ہے: َ حِجَابُهُ النُّورُ أَوِ النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ.[5]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۴۵۔اس حدیث میں ’’بصرہ‘‘ کی ’’ضمیر ہُ‘‘ مخلوق کی طرف لوٹ رہی ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کے اسماء جمالی مثلاً علیم و بصیر و رحیم وغیرہ اور اسماء جلالی مثلاً ممیت و غیرہ  ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ جمالی بھی ہیں اور تجلیاتِ جلالی ہیں۔ تجلیات دو طرح کی ہیں: تجلیاتِ شہودی اور تجلیات شہادی : ۱۔ تجلیاتِ شہودی اثباتی ہیں جوکہ انسان کے قلب و دل میں جلوہ افروز ہوتی ہیں ہے جبکہ تجلیاتِ شہادی تجلیاتِ ثبوتی ہے جوکہ عوالم میں آشکار ہوتی ہیں چاہے ہم ہوں یا نہ ہوں ۔ پس تجلیاتِ اثباتی خود شخص کے اندرون میں ہے جبکہ تجلیاتِ ثبوتی انسان کے نفس سے باہر وجود میں آشکار اور ثابت ہیں۔ حدیث مبارک میں ستّر ہزار حجابوں کا ذکر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ حجاب میں ہے اور ہم حجاب میں نہیں ہیں یا نہیں بلکہ ہم حجاب میں ہیں؟روایت میں وارد ہوا ہے کہ اگر یہ حجاب مخلوق سے ہٹا دیئے جائیں تو اس کے وجہ کے سُبحات سے اس کے علاوہ ہر شیء کو جل کر رہ جائے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حجاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ستّر ہزار حجاب سالک کی صفات ہیں اوریہ صفات حجاب ہیں۔ صفاتِ ظلمانی حجاب ہیں۔ پس یہاں چار وجوہات یہاں ممکن ہیں:

۱۔ حجاب سے مراد خود سالک کی صفات ہیں اور یہ سبحات ’’تجلیات‘‘ ہیں اور تجلیات سے مراد تجلیاتِ شہودی ہیں۔

۲۔ حجاب سے مراد اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات  جمال و جلال ہے نہ کہ خلق کے اوصاف۔ ۔

۳۔حجاب سے مراد وجودات و مخلوقات ہیں، حجابِ نورانی سے مراد مجردات ہیں اور حجابِ ظلمانی سے مراد مادیات و جسمانیات ہیں۔

تیسرے احتمال کی اگر بات کی جائے تو یہاں حجاب کا ہٹنا اور سبحات کا احراق اور جلا دینا ہے تو یہ عینِ کشف ہے  کیونکہ وجودات کا ہٹنا عینِ کشف حق تعالیٰ ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ حجابوں ، کشف اور احراق کو تجلیاتِ وجودی یعنی تجلیاتِ ثبوتی سے عبارت ہے۔ پس اس حدیث کے درج ذیل معنی ہو سکتے ہیں:

۱۔  اللہ تعالیٰ کے ستّر حجابِ نورانی و ظلمانی ہیں کہ اگر اللہ ان حجابوں کو بعض بندوں اور عباد کے نظرِ شہود سے ہٹا دے تو ذاتِ الہٰی کی نورانیت کی اشراقات انہیں فانی کر دیں ۔ تجلیات سے مراد تجلیاتِ شہودی و اثباتی اور حجاب سے مراد اسماء و صفاتِ الہٰی ہیں۔

۲۔ دوسرا معنی یہ بنتا ہے کہ حجاب نورانی و ظلمانی سے مراد تجلیاتِ ثبوتی و شہادی ہے  اور مراد تمام موجوداتِ عینی یا بعض موجوداتِ عینی ہیں۔بعض موجوداتِ عینی سے مراد وہ مخلصین ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے استثناء کیا ہے۔ اگر وہ اپنی وحدتِ صرف کے ساتھ تجلی فرمائے تو اس کے سوائے ہر وجودِ عینی جل کر راکھ ہو جائے اور پردہِ عدم میں چلی جائے گی ۔

احدیت کے بعد واحدیت اور واحدیت کے مرحلہ سے سات قسم کے اسماء ہیں۔ ہر چیز اللہ کے لیے معرِّف ہے حتی انبیاء و آئمہ علیہم السلام معرِّف ہیں۔اسی وقت یہ ہستیاں حجاب ہے۔ بعض جگہوں میں وارد ہوا ہے : نحن الحُجُب۔ اسی وقت یہ ہستیاں مرآۃ اور آئینہ ہیں ۔ یہاں معنی مرآتیت ہے نہ کہ حجابیت ۔ بلکہ اہل بیتؑ حجابِ حجاب ہیں کیونکہ یہ حجاب کو برطرف کرنے کا سبب ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ سورج اپنی پوری توانائی کے ساتھ چمک رہا ہو تو شدتِ نور کی وجہ سے آپ اسے نہیں دیکھ سکتے لیکن عینک کے ذریعے سے آپ سورج کو دیکھ سکتے ہیں۔ پس یہ عینک شدتِ نور کے حجاب کو برطرف کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اسی طرح آئمہ اہل بیتؑ شدتِ نور الہٰی کے برطرف ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرتبہ اطلاق سے مرحلہِ مقید میں تنزل فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شدتِ نور کی وجہ سے پوشیدہ ہے اور سطوتِ نور کی بناء پر مخفی ہے ۔

جبرِ کلامی اور جبرِ عرفانی میں فرق:

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور قدرت سے میں قیام کرتا ہوں اور بیٹھتا ہوں ، یہ جبرِ عرفانی ہے۔ جبرکلامی وہی جبری نظریہ ہے جو اشاعرہ نے پیش کیا ہے۔ جبرِ کلامی پست ترین نظریہ ہے اور جبرِ عرفانی اشرف ترین نظریہ ہے۔ ہر فعل و ترک اللہ تعالیٰ کے حول و قدرت سے انجام پاتا ہے۔ اطاعت بھی قدرتِ الہٰی سے انجام پاتی ہے اور معصیت بھی حولِ الہٰی سے انجام پاتی ہے۔ جبر عرفانی ارادہ ، اختیار و علم و قدرت سے سازگار ہے جبکہ جبرکلامی ارادہ و اختیار کے برخلاف ہے۔ حسنات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف دینا زیادہ مناسب ہے جبکہ سیئات کی نسبت انسان کی طرف دینا اولیٰ ہے، جیساکہ الکافی میں امام رضاؑ سے حدیث قدسی وارد ہوئی ہے:{ قَالَ اللَّهُ: يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَوْلَى بِحَسَنَاتِكَ مِنْكَ وَأَنْتَ أَوْلَى بِسَيِّئَاتِكَ مِنِّي، عَمِلْتَ الْمَعَاصِيَ بِقُوَّتِيَ الَّتِي جَعَلْتُهَا فِيكَ }.[6]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۸۲۔ ہماری نسبت اللہ تعالیٰ سے ہوئی نسبت ہے جو سایہ کی نسبت نور یا شاخص سے ہے۔ نور سے مراد ذات ربوبی ہے جبکہ سایہ ہم ہیں۔ کیونکہ سایہ خود وجود نہیں رکھتا ہے اور اس کا وجود و بقاء سب نور پر موقوف ہے۔ ہماری ذات و صفات و اعمال ہر چیز اللہ تعالیٰ پر موقوف ہے۔ یہ جبر کلامی نہیں ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ حی ہے اس لیے ہم حی ہیں، وہ مرید ہے اس لیے ہم ارادہ کر سکتے ہیں۔ ہم مستقل حیات، علم ، قدرت و ارادہ وغیرہ نہیں رکھتے ۔ بلا شک و شبہ مستقل طور پر ہم کچھ نہیں رکھتے لیکن ہم سایہ کی مانند سب کچھ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں۔پس ہمارا وجود ’’وجودِ ظلی‘‘ ہے تبعی ہے۔ ہر شیء کو قابلیت کے مطابق عطا ہے۔ قابلیت کو اللہ تعالیٰ مجعول نہیں فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیب کو ایجاد کرتا ہے اور ان ذوات کا موجِد ہے۔ جعل و ایجاد میں فرق ہے۔ جعل سے مراد ہے کہ سیب کو سیب بنایا ہے جبکہ ایجاد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی الف بنایا ہے اور نفس الامر کے مطابق ہر ذات کو وجود دیا ہے۔ جو شیء جیسے وجود میں آئی ہے وہ شیء اسی طرح سے وجود میں آ سکتی تھی۔ اشیاء امکانِ ذاتی رکھتی ہیں اور مجعول نہیں ہےہیں۔ جعل کو اگر اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک عمل کو خوب و عدل کہا ہے اس لیے وہ عدل ہے اور اگر ایک کو ظلم کہا ہے تو اس کو ظلم کہا جائے گا۔ عدل چونکہ عدل ہے اس لیے زیبا و حسن ہے یا نہیں بلکہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے عدل کوخوب کہا ہے اس لیے عدل خوب ہے؟! یقیناً عدل کو ذاتاً خوب اور زیبا کہا جائے تو یہ عینِ عقل کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس لیے زیبا و حسن قرار دیا ہے چونکہ وہ ذاتاً زیبا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے کوئی شیء کچھ نہیں ہے ۔ اسی لیے امام صادقؑ کے سامنے اللہ اکبر کہا گیا تو امام ؑ نے فرمایا کہ اللہ اکبر کا کیا معنی ہے؟ اس نے کہا : وہ ہر شیء سے بزرگ اور بڑا ہے، امامؑ نے فرمایا: تم نے اس کی حد بندی کر دی ۔ توحید شیخ صدوق میں یہ روایت اس طرح آئی ہے:{ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ رَجُلٌ عِنْدَهُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ فَقَالَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ × حَدَدْتَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: كَيْفَ أَقُولُ؟ فَقَالَ: قُلْ اللَّهُ أَكْبَرُ مِنْ أَنْ يُوصَفُ }.[7]صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص ۳۱۳۔اس شخص نے امام صادقؑ سے دریافت کیا کہ پھر اللہ اکبر کیا معنی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اللہ بزرگ تر ہے کہ اس کا وصف بیان کیا جا سکے۔

منابع:

منابع:
1 مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین ، ج ۲، ص ۶۔
2 شعیری، محمد، جامع الاخبار، ص ۸۱۔
3 ابن ابی جمہور، محمد ، عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۱۰۹۔
4, 5 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۵، ص ۴۵۔
6 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۸۲۔
7 صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص ۳۱۳۔
Views: 66

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: جنگ جمل کے متعلق کچھ معلومات
اگلا مقالہ: جنگ صفین میں شہید ہونے والے صحابہ کرام