loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۹}

نظام ِولایت فقیہ اور اسلامی جمہوری 

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

بعض نادان افراد کی جانب سے اسلامی نظام ِحکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت وہی جمہوری نظامِ حکومت ہے جو مغربی ممالک میں موجود ہےاور پاکستان میں بھی یہی اسلامی نظام موجود ہے۔  ان کی نظر میں ۷۳ کا آئین عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس کے اوپر دو لائنوں میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کی ہوگی اور ملک کا صدر مسلمان ہوگا، اور یہی سب بس ان کے نزدیک اسلامی ہونے کے لیے کافی ہے۔ جبکہ اس جملے کی تشریح کیا ہے کسی کو بھی معلوم نہیں؟ جبکہ اسلام نے حکومتی نظام مکمل طور پر وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ان جزئیات کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں۔حتی بعض شیعہ علماء اس شبہہ کا شکار نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران میں جو نظام موجود ہے پاکستان میں بھی وہی نظام ہے اور دونوں ملکوں کا حکومتی سسٹم اور نام بھی ایک جیسا ہے۔ پاکستان بھی جمہوری اسلامی ہے اور ایران بھی جمہوری اسلامی ہے۔ جبکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ  ہمارے اسلامی مفکرین بالخصوص امام خمینیؒ، شہید مطہری، مصباح یزدیؒ اور رہبر معظم لفظ جمہوری کا معنی کچھ اور کرتے ہیں۔ جبکہ مغربی جمہوری نظام کا جو معنی مغربی مفکرین کرتے ہیں وہ بالکل الگ ہے۔ انتہائی افسوس ہوتا ہے جب افراد رہبر معظم کے افکار کو مسخ کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رہبر معظم بھی جمہوری نظام کے خواہاں ہیں اور ہم بھی پاکستان میں جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تہمت اور بہتان ہے کہ رہبر معظم بھی جمہوری نظام چاہتے ہیں۔ دونوں میں فرق ہے اور فرق بھی زمین آسمان کا ہے۔ ایک فرق تو خود تفسیر کا ہے کہ  لفظ ایک ہی ہے لیکن دونوں کی تفسیر جدا ہے۔ اور دوسرا فرق اہداف کا ہے۔ جس معنی میں مفکرین اسلام جمہوری لفظ استعمال کرتے ہیں اس حکومت کے اہداف جدا ہیں، اس کے برعکس جو مغربی جمہوری نظام ہے اس کے اہداف جدا ہیں۔

اسلامی جمہوری ایران میں لفظ جمہوری 

سب سے پہلے اس امر کو واضح کرنا ضروری ہے کہ جب آپ نہضت شروع کرتے ہیں اور معاشروں کی اصلاح شروع کرتے ہیں عملی طور پر آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کو دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ درست ہے کہ ایران میں انقلاب آیا اور انقلاب کے ذریعے اسلامی حکومت بھی قائم ہو گئی لیکن اس سب کے بعد ایرانی معاشرہ کتنا اسلامی بنا اس کو عملی طور پر تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ خود رہبر معظم نے تمدن نوین انقلاب اسلامی اور انقلاب کے دوسرے گام پر گفتگو کے دوران فرمایا کہ اس اسلامی تمدن کے حصول کے پانچ مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ انقلاب اسلامی ہے، دوسرا حکومت اسلامی، تیسرا دولت اسلامی، چوتھا معاشرہ اسلامی اور پانچواں تمدن اسلامی ہے۔[1] سائٹ البر۔ ایران میں پہلا اور دوسرا مرحلہ طے ہوا ابھی ایران تیسرے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اس کے بعد چوتھا اور پانچواں مرحلہ ہے۔ گزشتہ اقساط میں یہ امر بیان ہوا کہ دین اسلام جبری حکومت کا قائل نہیں ہے۔[2] سائٹ البر۔ اس لیے امام خمینیؒ کی نہضت جب انقلاب میں تبدیل ہو گئی اور فتح نصیب ہوئی تو فورا امام نے اپنی مرضی کی کابینہ ایرانی عوام پر مسلط نہیں فرمائی۔ بلکہ ایران کے آئین یعنی ولایت فقیہ کے نظام کا رفرانڈوم کروایا جس میں ۹۰ فیصد سے زائد ایرانی عوام نے اس نظام پر اعتماد کا اظہار کیا۔ نظام ولایت فقیہ کی آئینی حیثیت کو قبول کروانے کے بعد آزاد انتخابات کا اعلان کروایا جس میں عوام کو اس بات کا مکمل حق دیا گیا کہ وہ اپنے منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے اس نظام کا حصہ بنیں۔ ولایت فقیہ دیگر آمرانہ نظاموں اور بادشاہی نظام کی طرح نہیں ہے کہ قانون بھی بادشاہ کا چلے گا اور صدر وزیر بھی اسی کے بٹھاۓ ہوۓ ہوں۔ بلکہ امام نے فرمایا کہ عوام بھی اس نظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام کو ایک طرف سے دینی طور پر مشروعیت بھی حاصل ہے اور پھر رفرونڈم و انتخابات کے بعد عوام کی مقبولیت بھی حاصل ہو گئی۔ اسلامی حکومت کی تشکیل میں یہ دو رکن اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دین کی نظر میں اگر کسی حکومت کو دینی طور پر مشروعیت حاصل ہو اور عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو وہ حکومت دینی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اگر کوئی حکومت عوامی مقبولیت تو رکھتی ہو لیکن دینی مشروعیت نہ رکھتی ہو وہ بھی دینی نہیں ہو سکتی۔ امام خمینیؒ جمہوری اسلامی کی تفسیر اس طرح سے کرتے ہیں:
ہمارى حکومتى نظام کا ڈھانچہ جمہورى اسلامى ہے، جمہورى اس معنى میں کہ لوگوں کى اکثریت اس کو قبول کرے اور ’’اسلامى‘‘ اس معنى میں کہ اس کو قوانین اسلام کے مطابق چلایا جاۓ۔[3] خمینی، سید روح اللہ، حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص۵۷۔

بنی صدر اور امام خمینیؒ کا اختلاف

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد پہلے آزاد انتخابات کا اعلان ہوا، ابو الحسن بنی صدر پہلے صدر منتخب ہوۓ لیکن ان کا اسلام اور انقلاب سے کوئی گہرا تعلق نہ تھا لیکن چونکہ ایک کثیر تعداد نے اس کو ووٹ دیا امام خمینیؒ نے بھی عوام کی اکثریت کو پس پشت نہ ڈالا اور اس کی اصلیت سب کے سامنے لانے تک خاموش رہے۔ یہاں تک کہ انتخابات کے بعد ملک کے نام رکھے جانے کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ ملک کے منتخب شدہ پہلے صدر کا اصرار تھا کہ نام جمہوری ایران رکھا جاۓ گا۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا تھا کہ اسلامی ایران رکھا جاۓاور جمہوری کسی بھی صورت میں نام میں شامل نہ ہو۔ ایک گروہ اس بات کا قائل تھا کہ ملک کا نام اسلامی جمہوری ایران ہو۔ لیکن بنی صدر اس کے بھی مخالف تھا اور اس کا کہنا تھا کہ نام صرف جمہوری ایران ہوگا۔ یہ تنازعہ اتنا بڑھ گیا کہ بنی صدر نے کہا کہ اگر ملک کا نام جمہوری ایران نہیں رکھا جاتا تو میں مستعفی ہو جاؤنگا۔ ایران میں خانہ جنگی اور انتشار کا خوف بڑھ گیا، اندر سے یہ حالات، باہر سے دشمنوں کی سازشیں جو انقلاب کو ابتدا میں ہی سرکوب کرنا چاہتے تھے، علماء کا ایک گروہ امام خمینیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو تمام مصلحتوں سے آگاہ کیا گیا مجبوری کی حالت میں ملک کا نام جمہوری اسلامی رکھ دیا گیا۔ یہ نام مجبوری کے تحت پڑا بعد میں خود امام خمینی اور دیگر مفکرین نے لفظ جمہوری کی اپنی تفسیر کی جو مغربی جمہوری سے مختلف ہے۔ اسلامی جمہوری ایران میں اسلام  ،جمہور پر مقدم ہے۔ یہاں پر امام خمینیؒ نے بنی صدر کو ہٹا دیا حالانکہ بنی صدر ایک جمہوری صدر تھا۔ مغربی جمہوری نظام میں ایک منتخب صدر کو نہیں ہٹایا جا سکتا لیکن امام کا اس کو ہٹا دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جمہوری اسلامی میں اسلامی ہونا مقدم ہےجمہوری ہونے پر، اگر کوئی شخصیت یا قانون اسلام سے ہی ٹکرا جاۓ وہاں جمہور کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اسلام کو اصلیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس جمہوری نظاموں میں جو فیصلہ جمہور کر دے اس کو مقدم کیا جاتا ہے اب چاہے دین اس کو حرام بھی قرار کیوں نہ دے رہا ہو۔ اسی طرح سے ایران میں تشخیص مصلحت نظام کا ادارہ ہے یا خبرگان کی نظارتی ٹیم ہے۔ یہ وہ فرق ہیں جو دیگر جمہوری حکومتوں میں نہیں ہیں۔ آج تک امریکہ نے صرف اسی وجہ سے ایران پر دباؤ ڈالا ہوا ہے اور شدید پابندیاں لگائی ہوئی ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایران میں جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نادان افراد کہتے ہیں کہ نا جی! ایران میں جمہوریت ہے۔  

پہلا فرق۔ اہداف کا مختلف ہونا

مغربی جمہوری نظاموں کا پہلا ہدف جمہور کی رضا حاصل کرنا اور ان کو رفاہ دینا ہے۔ لیکن حکومت اسلامی کا پہلا ہدف جمہور کی رضا اور اس کی مادی ضروریات کو پورا کرنا نہیں بلکہ اس کا ہدف انسان کو خلیفہ الہی بنانا ہے۔ انسان کو حق کے معیارات پر چلانا ہے۔ اس طرح سے نہیں کہ نعرہ صرف اسلامی ہو لیکن اس سے اہداف آپ غیر اسلامی پورے کر رہے ہوں۔ مثلا ہمارے ملک عزیز میں سب سیاستدانوں نے یہی کام کیا، ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اسلام کا استعمال کیا۔ اگر آپ واقعی حقیقی دیندار اور اسلام چاہتے ہیں تو اسلام تو چاہتا ہے کہ حق اور عدل قائم ہو، یہ حکمران پہلے اپنے جسم پر تو عدالت قائم کریں۔ اگر حاکم عادل نہیں ہے تو کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ بے شک آپ سینکڑوں بہانے لے آئیں اور کہیں کہ وہ عمرے پر جاتا ہے، تسبیح ہاتھ میں رکھتا ہے، اس نے مشہد میں امام رضاؑ کی زیارت کی یا رہبر سے ملاقات کی۔ یہ سب اس وقت دیکھا جاۓ گا جب خود عادل ہو اگر عادل نہیں ہے اور عدل کا قیام نہیں چاہتا بلکہ اس کے اہداف غیر دینی ہیں تو اس کی مخالفت ضروری ہے۔

دوسرا فرق۔ دین کی حکمرانی

اسلامی نظام حکومت کا دوسرے نظاموں سے ایک فرق یہ ہے کہ اس نظام میں دین کو اختیار کر کے تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر دین کو اختیار کر کے تبدیلی واقع نہیں ہو رہی اور مادی طور پر نقصان بھی ہو رہا ہے وہاں پر دین کو ترک نہیں کیا جاۓ گا بلکہ مادی نقصان کو قبول کر کے دینی نقصان سے بچا جاۓ گا۔ لیکن دوسرے نظام مخصوصا جمہوری حکومتیں مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی غیر دینی طریقہ کار اور روش کو اختیار کر نے میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مثلا ہم مانتے ہیں کہ آل سعود آج کی یزیدی حکومت ہے اس نے اہل بیتؑ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیا پوری دنیا میں شیعہ سنی قتل عام میں یہ خاندان ملوث ہے لیکن اس سے ہم تعلقات اور روابط بڑھاتے ہیں تاکہ ہمیں کچھ ڈالر عطا کرے۔ کیا یہ روابط بڑھانا درست ہے؟ ہم جس نظام کو اسلامی جمہوری کہتے ہیں اور اس کو عین دینی نظام کہتے ہیں کیا اس کے حکمران اس تعلق کے لیے مرے نہیں جاتے؟ کیا انہوں نے اسلامی ریاست کا نعرہ لگا کر آل سعود کی غلامی نہیں کی؟ ایران میں بھی تو یہی حالات تھے اور ابھی بھی ہیں۔ ایران کو بھی ہزاروں بار پیشکش ہوئی اور کہا گیا کہ تمام پابندیاں ہٹا دیں گے فقط اپنی مقاومت سے ہٹ جاؤ، لیکن انہوں نے جنگ قبول کر لی، پابندیاں مول لیں اور امریکہ شیطان بزرگ کے آگے کھڑا ہو گئے اور اسلامی نظام کو آنچ نہ آنے دی۔ جب ایران نے دیکھا کہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کریں یا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا کر پابندیاں ہٹوائیں انہوں نے مظلوم فلسطین کا ساتھ دینا ضروی قرار دیا، لیکن ہم نے آل سعود کی یمن پر ظالمانہ بمبارمنٹ کی حمایت کی اور یمنی مجاہدین کو باغی کہا۔ ایران میں بعض قوم پرست افراد نے حتی علماء نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہ جوڑے تو ملک ٹوٹ جاۓ گا تب بھی اس نظام نے شکست قبول نہیں کی۔ ایرانی مفادات پر اسلام کے اصول و ضوابط کو مقدم رکھا۔ شام کی جنگ میں مقدسات کے دفاع کو اپنا فریضہ قرار دیا حالانکہ اس جنگ میں پوری دنیا مغرب، مشرق، عربی اور عبری اسلحہ اور پیسہ مقاومت کے خلاف جمع ہوا اور انہوں نے سب کی مخالفت مول لی۔ اگر یہ داعش اس خطے پر حاکم ہو جاتی تو نا کوئی مزار باقی رہتا اور نا عام شیعہ و سنی مسلمان۔ مسلمانوں کی سرزمینوں کو وحشی داعش سے انہوں نے نجات دی۔ ابھی جو ہمارے ملک میں خان صاحب نے امریکہ مخالفت کا نعرہ لگایا ہے یہ کیسی مخالفت اور دشمنی ہے؟ آپ اپنی حکومت میں تو ان کے صدر سے بڑی جھپیاں ڈال کر ملے اور بائڈن کی کال کا انتظار کرتے رہے جب آپ کے پاس موقع میسر تھا امریکہ کے ساتھ دشمنی کرنے کا آپ نے نام تک نہ لیا۔ جب اقتدار چلا گیا تو عوام کی نفسیات سے کھیلنے لگے؟یہ وہ فرق ہیں جن کی طرف توجہ نہیں کی جاتی کہ ایک نظام آپ کو عزت کا راستہ دکھاتا ہے اور آپ کے آگے اعلی اہداف رکھتا ہے لیکن دوسرا نظام آپ کو حقارت اور ذلت کے لیے تیار کرتا ہے اور ڈالروں کے لیے پوری قوم کو بیچ دینے پر بھی آپ کو آمادہ کر دیتا ہے۔[4] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ،ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۱۔

منابع:

منابع:
1 سائٹ البر۔
2 سائٹ البر۔
3 خمینی، سید روح اللہ، حکومت اسلامى و ولایت فقیہ در اندیشہ امام خمینىؒ، ص۵۷۔
4 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ،ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۱۔
Views: 60

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: رسول اللہ کا امام علی کو جنگوں کی خبر دینا
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ کی ضرورت