loading

(سیاست امام علیؑ از نہج البلاغہ)

رسول اللہ ﷺ کا امام علیؑ کو جنگوں کی خبر دینا

تحریر: سید محمد حسن رضوی
06/17/2022
ناكثین کا معروف معنی بیعت اور عہد و پیمان کا توڑنا ہے۔ یہ کلمہ اسی معنی میں قرآن کریم سورہ توبہ آیت ۱۲ میں استعمال ہوا ہے۔ شیعہ و سنی کتب میں رسول اللہ ﷺ کی معتبر احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے امام علیؑ کو ناکثین  ، قاسطین اور مارقین سے جنگ لڑنے کی خبر دی تھی۔ جب  امام علیؑ کو ۳۵ ھ میں خلافت ملی تو اس کے اگلے سال ہی ایک بڑی جنگ امام علیؑ پر مسلط کر دی گئی جس کی سربراہی ام المؤمنین حضرت عائشہ اور اکابر صحابہ کر رہے تھے۔ ان اکابر صحابہ میں پیش پیش حضرت طلحہ و زبیر تھے جو ناموسِ رسالت حضرت عائشہ کو بصرہ کے میدان میں جنگ کی نیت سے لے آئے طلحہ و زبیر نے چونکہ امام علیؑ کے ہاتھوں میں رضا مندی اور اپنے ارادہ و اختیار سے بیعت کی تھی اور بعد میں توڑ دی اس لیے طلحہ و زبیر کے گروہ کو ’’ناکثین‘‘ یعنی بیعت توڑنے والے سے تعبیر کیا گیا۔ قرآن کریم کے مطابق بیعت شکن کی سزا قتل ہے۔

نکث کے لغوی و اصطلاحی معنی:

لفظِ نکث عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی عہد و پیمان ، قسم اور بیعت توڑنے اور رسی کی گرہیں کھولنے کے ہیں۔ [1]مجموعۃ من المؤلفين، المعجم‌ الوسيط، ج2، ص951۔ابن فارس نے نقل کیا ہے کہ اس کلمہ کے اصلی معنی کسی شیء کو توڑنے اور نقض کرنے کے کے ہیں۔ [2]ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۴۷۵۔ نکث کے اصطلاحی معنی جنگ جمل میں امام علیؑ کے ہاتھوں پر رضامندی اور اپنے ارادے سے بیعت کرنے والوں کا بیعت توڑنا ہے۔ یہ بزرگان طلحہ اور زبیر تھے جنہوں نے امام علیؑ کی بیعت کی اور اس کے بعد اپنے اس عہدو پیمان کو توڑ دیا۔[3]مروارید، علی‌ اصغر، ينابيع الفقہیۃ ، ج9، ص53۔

لفظِ ناکثین آیات و روایات کی روشنی میں:

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
وَإنْ نَكَثُوا ايْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوا فی‌ دينِكُمْ فَقاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ…۔
ترجمہ: اور اگر انہوں نے عہدو پیمان باندھ لینے کے بعد اپنے عہدو قسم و توڑا اور تمہارے دین میں تمہیں طعن تشنیع کیا تو آئمہِ کفر سے قتال و جنگ کرو۔ [4]توبہ:۱۲۔
امام علیؑ اہل بصرہ سے خطاب کرتے ہوئے مندرجہ بالا آیت کریمہ کے ذیل میں ارشاد فرمایا:
… وَالَّذی‌ فَلَقَ‌الْحَبَّةَ وَ بَرِی‌ءُ النَّسْمَةَ وَاصْطَفی‌ مُحَمَّداً (ص) بِالنُّبُوَّةِ انْتُمْ لِاصْحابِ هذِهِ الْايَةَ وَ ما قُوتِلُوا مُنْذُ نَزَلَتْ.
قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو چیرا اور خلقت کو پیدا کیا اور محمد ﷺ کو نبوت کے لیے چُنا ، (اے اہل بصرہ) تم اس آیت کے اصحاب ہو اور جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے کسی سے جنگ نہیں لڑی گئی تھی۔ [5]محمدی ری شہری، محمد، ميزان الحكمۃ، ج1، ص355۔

رسول اللہ ﷺ کو اللہ سبحانہ کی طرف سے جو غیبی خبریں عنایت کی گئیں ان میں سے ایک جنگ جمل، جنگ صفّین اور جنگ نہروان کا واقع ہونا تھا۔ کتب احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف مواقع پر امام علیؑ کو خبر دی کہ ان کی جنگ حضرت عائشہ، طلحہ، زبیر، معاویہ اور خوارج سے ہو گی۔  اسی طرح رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کو دستور دیا  کہ تمہارا وظیفہ ہے کہ تم لوگ ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ لڑو۔ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ اس وقت ناکثین ، قاسطین و مارقین کی جنگ کی طرف اشارہ کیا جب آپ ﷺ اپنی ازواج کے ساتھ تشریف فرما تھے تو اس وقت ان ازواج کو اس فتنہ سے آگاہ کیا ۔ یہ روایات واضح اورروشن دلیل ہیں کہ امام علیؑ حق پر تھے اور دیگر دعویدار کا دعوی باطل تھا۔  اس تحریر میں امام علیؑ کو رسول اللہ ﷺ کی جانب سے ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کرنے کے حکم سے متعلق احادیث و شواہد کا جائز ہ لیا گیا ہے۔

ناکثین ، قاسطین اور مارقین اہل سنت کتبِ احادیث میں

اہل سنت ذخیرہِ حدیث میں معتبر احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیؑ نے حضرت عائشہ، طلحہ، زبیر اور معاویہ سے جنگ و قتال کو بطورِ ذمہ داری اور عہد و پیمان انجام دیا کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے آپؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ لڑیں۔ امام علیؑ کی پہلی کوشش تو یہی تھی کہ یہ فتنے برپا نہ ہوں اور جنگ کی نوبت نہ آئے لیکن جب جنگ کی نوبت آ پہنچی تو امام علیؑ نے حکمِ رسول ﷺ کے مطابق عمل کیا اور جنگ نہ لڑنے کو عدم اطاعت اور کفر قرار دیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے سرپیچی کسی صورت جائز نہیں ہے۔اس حقیقت کو اہل سنت کی صحیح السند احادیث نے متعدد صحابہ کرام کے توسط سے بیان کیا ہے ۔ صحابہ کرام کے عدد کو ملحوظ رکھیں تو یہ تواتر کی حد تک یا حد اقل مشہور اور مستفیض حدیث بنتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ لڑنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔ وہ صحابہ کرام جن سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے ان میں سرفہرست حضرت عمار بن یاسر، ابو ایوب انصاری، عبد اللہ بن مسعود، خزیمہ بن ثابت انصاری اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر احادیث کی سند محکم اور مضبوط ہے اور اگر تمام شواہد ملائیں جائیں تو اس حدیث کا رسول اللہ ﷺ سے صادر ہونے کا یقین حاصل ہو جاتا ہے۔  ابن عبد البر قرطبی متوفی ۴۶۳ ھ اس بارے میں تحریر کرتے ہیں:

وَلِهَذِهِ الأخبارِ طرقٌ صحاحٌ قد ذکرناها فِی موضعها ، وروی من حدیث علی، ومن حدیث ابْن مَسْعُود ، ومن حدیث أبی‌أیُّوب الأَنْصَارِیّ : أنَّهُ أُمِرَ بقتال الناکثین، والقاسطین، والمارقین ، وروي عَنْهُ، اَنَّهُ قَالَ: مَا وجدتُ إلا القتال أو الکفر بما أنزل الله، یَعْنِي – والله أعلم – قوله تعالی: وَجَاهِدُوا فِی اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ.
ترجمہ: ان احادیث کے صحیح طریق کو ہم نے ان کے مقام پر ذکر کیا ہے۔ امام علیؑ سے حدیث میں، ابن مسعود سے حدیث میں اور ابو ایوب انصاری سے حدیث میں نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح ان سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میرے پاس دو ہی صورتیں تھیں: یا تو میں ان سے جنگ کروں یا جو اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کا کفر کروں، یعنی – اللہ زیادہ جانتا ہے – فرمانِ باری تعالی: وَجَاهِدُوا فِی اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ؛  اور اللہ میں جہاد کرو جیساکہ جہاد کرنے کا حق ہے۔[6]ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب، ج ۳، ص ۱۱۱۷۔

ذیل میں ہم ناکثین، قاسطین اور مارقین کے معنی پر مشتمل احادیث کو تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اور ان احادیث کو صحابہ کرام کے عدد کو مدنظر رکھتے ہوئے مجموعے میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر صحابی سے منقول حدیث کو ایک مجموعہ شمار کیا ہے۔ ان مجموعہ میں ایک صحابی سے ایک ہی روایت مختلف اسانید اور معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ ان سب کا تذکرہ اس مختصر تحریر میں کرنا ممکن نہیں لیکن بطور شاہد ہر صحابی کی حدیث کو پیش کیا جائے گا اور تائید کے طور پر محدثین و علماءِ جرح و تعدیل کے بیانات سے استفادہ کیا جائے گا۔

امام علیؑ سے منقول حدیث:

اہل سنت مصادرِ حدیث میں متعدد محدثین نے امام علیؑ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔  مذکورہ حدیث اہل سنت کی کئی احادیث کی کتب میں مختلف اسانید کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کو یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔

ابو بکر بزّار کی نقل کردہ حدیث:

تیسری صدی ہجری سے تعلق رکھنے والے معروف اہل سنت محدیث ’’ابو بکر بزار‘‘ متوفی ۲۹۲ ھ   اپنی سند سے اس طرح روایت نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ یَعْقُوبَ، قَالَ: ثنا الرَّبِیعُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: ثنا سَعِیدُ بْنُ عُبَیْدٍ، عَنْ عَلِی بْنِ رَبِیعَةَ، عَنْ عَلِی، قَالَ: عَهِدَ اِلَی رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فِی قِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.
ترجمہ : امام علیؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد و پیمان لیا تھا کہ میں ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کروں۔[7]بزار، احمد بن عمر، البحر الزخار ، مسند البزّار، ج ۳، ص ۲۶ – ۲۷، حدیث: ۷۷۴۔

طبرانی کی  نقل کردہ حدیث:

ابو القاسم طبرانی متوفی ۳۶۰ ھ نے کتب احادیث کے مختلف مجموعوں میں معجم کے عنوان سے کتبِ احادیث لکھی ہیں۔ آپ اپنی کتاب ’’معجم الاوسط‘‘ میں امام علیؑ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ ابی‌حُصَیْنٍ، قَالَ: نا جَعْفَرُ بْنُ مَرْوَانَ السَّمُرِی، قَالَ: نا حَفْصُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَلَمَةَ بْنِ کُهَیْلٍ، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ ابی‌صَادِقٍ، عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُولُ: اُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.
 ترجمہ: امام علیؑ فرماتے ہیں: مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا گیا ہے۔[8]طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، ج ۸، ص ۲۱۳۔

حدیث کی صحت کا حکم:

مذکورہ بالا اس حدیث کو دیگر محدثین طبرانی سے نقل کرتے ہوئے اپنے ذخیرہ حدیث کی زینت بنایا ہے۔ ان میں سے ایک نامور شخصیت نویں صدی ہجری کے معروف اہل سنت محدث ابو الحسن  ہیثمی متوفی ۸۰۷ ھ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد ‘‘ میں اس کو درج کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد اس طرح سے تبصرہ فرمایا ہے:

رواه البزار والطبرانی فی الاوسط واحد اسنادی البزار رجاله رجال الصحیح غیر الربیع بن سعید ووثقه ابن حبان.

ترجمہ: اس حدیث کو بزّار  اور طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے اور بزّار کی اسانید میں سے ایک سند کے تمام راوی صحیح ہیں  سوائے ربیع بن سعید کے لیکن ابن حبّان نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ [9]ہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج ۷ ، ص ۲۳۸۔

ابن المقری کی روایت:

چوتھی صدی ہجری کے محدث ابو بکر المقرئ متوفی ۳۸۱ ھ اپنی کتاب معجم میں ایک دوسری سند سے اس حدیث کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا هُذَیْلٌ، ثنا اَحْمَدُ، حَدَّثَنَا اَحْوَصُ، حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَلَمَةَ بْنِ کُهَیْلٍ، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ ابی‌صَادِقٍ، عَنْ رَبِیعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عَلِی قَالَ: اُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.
 ترجمہ: امام علیؑ فرماتے ہیں: مجھے ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ [10]مقرئ، ابو بکر، معجم ابن المقرئ، ج ۱، ص ۴۰۴۔

خطیب بغدادی کی نقل کردہ حدیث:

خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ ھ پانچویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو اپنی معروف کتاب ’’تاریخ بغداد‘‘ میں ان کلمات کے ساتھ درج کیا ہے:

اَخْبَرَنِی الاَزْهَرِی، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: وَجَدْتُ فِی کِتَابِ جَدِّی مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ: حَدَّثَنَا اَشْعَثُ بْنُ الْحَسَنِ السُّلَمِی، عَنْ جَعْفَرٍ الاَحْمَرِ، عَنْ یُونُسَ بْنِ اَرْقَمَ، عَنْ اَبَانَ، عَنْ خُلَیْدٍ الْعَصْرِی، قَالَ: سَمِعْتُ اَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیًّا یَقُولُ یَوْمَ النَّهْرَوَانِ: اَمَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْمَارِقِینَ، وَالْقَاسِطِینَ.
ترجمہ: نہروان کے دن امام علیؑ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے ناکثین، مارقین اور قاسطین سے جنگ و قتال کا حکم دیا تھا۔ [11]خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج ۸، ص ۳۳۶۔

مقدسی کی نقل کردہ حدیث:

چھٹی صدی ہجری کے معروف اہل سنت محدیث مطہر مقدسی متوفی ۵۰۷ ھ اپنی کتاب البدأ و التأریخ میں لکھتے ہیں:

فقال علی (علیه‌السّلام) دعوهم حتی یاخذوا مالا ویسفکوا دما وکان یقول امرنی رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بقتال الناکثین والقاسطین والمارقین فالناکثون اصحاب الجمل والقاسطون اصحاب صفین والمارقون الخوارج.
ترجمہ: امام علیؑ نے فرمایا: تم لوگ انہیں اس وقت تک کچھ نہ کہو جب تک یہ لوگ  مال نہ لوٹنے لگ جائیں اور خون نہ بہانے لگ جائیں،  امام علیؑ فرمایا کرتے تھے : رسول اللہ ﷺ نے مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتل کا حکم دیا تھا، پس ناکثین اصحاب جمل ہیں ، قاسطین اصحاب صفین اور مارقین خوارج ہیں ۔ [12]مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج ۵، ص ۲۲۴۔

ابن عقدہ کی روایت:

مندرجہ بالا حدیث کو ابن عقدہ نے علقمہ بن قیس سے اور انہوں نے امیر المؤمنینؑ سے نقل کیا ہے:

حَدَّثَنَا اَحْمَدُ، ثنا اِبْرَاهِیمُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ حَمَّادٍ، اَخْبَرَنَا اَبِی، اَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ حُزَابَةَ ابوزِیَادٍ الْفُقَیْمِی، وَحَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَافِعُ بْنُ عَمْرٍو الْفُقَیْمِی بن عبدالله، قثنا فُضَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی اِبْرَاهِیمَ فِی مَرَضِهِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ، فَقَالَ: اِنِّی مُحَدِّثُکُمْ حَدِیثًا، فَاِنْ عِشْتُ فَاکْتُمُوهُ عَلَی، وَاِنْ مِتُّ فَحَدِّثُونَهُ، سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ قَیْسٍ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُولُ: اَمَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ.»

فضیل بن عمرو کہتے ہیں کہ میں ابراہیم کے پاس اس کی بیماری کی وجہ سے گیا جس کے باعث اس کی وفات ہوئی ، اس نے کہا : میں تم لوگوں کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہا تو تم اسے پوشیدہ رکھنا اور اگر میں مر جاؤں تو تم اسے بیان کر دینا ، میں علقمہ بن قیس کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس نے علیؑ سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ نے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا  ہے۔[13] کوفی، ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ، جزء من حدیث ابی العباس بن عقدہ، ص۲۰۔

دیگر احادیث:

خطیب بغدادی نے موضع الاوہام ، ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں اور ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ میں لکھا ہے :

اَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ ابی‌بَکْرٍ، اَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ اِسْحَاقَ الْبَغَوِی، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ بْنِ ابی‌هَارُونَ، حَدَّثَنَا اِبْرَاهِیمُ بْنُ هَرَاسَةَ، عَنْ شَرِیکٍ، عَنِ الاَعْمَشِ، عَنْ ابی‌سَعِیدٍ عُقَیْصَا، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُولُ: ” اُمِرْتُ بِقِتَالِ ثَلاثَةٍ: النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ، قَالَ: فَالنَّاکِثِینَ الَّذِینَ فَرَغْنَا مِنْهُمْ، وَالْقَاسِطِینَ الَّذِینَ نَسِیرُ اِلَیْهِمْ، وَالْمَارِقِینَ لَمْ نَرَهُمْ بَعْدُ “، قَالَ: وَکَانُوا اَهْلَ النَّهْرِ.»[14] بغدادی، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب، موضح اوهام الجمع والتفریق، ج۱، ص۳۹۳۔ [15]ابن عساکر، ابی‌القاسم علی بن الحسن ابن هبة الله بن عبدالله، تاریخ مدینة دمشق وذکر فضلها وتسمیة من حلها من … Continue reading[16] ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر القرشی، البدایة والنهایة، ج۷، ص۳۳۸.

ابو سعید عقیص کہتے ہیں کہ میں نے علیؑ سے سنا وہ فرماتے ہیں: مجھے تین گروہوں سے جنگ و قتال کا حکم دیا گیا ہے: ناکثین، قاسطین اور مارقین، امامؑ نے فرمایا: جہاں تک ناکثین کا تعلق تعلق ہے تو ہم ان سے فارغ ہو چکے ہیں ، اور قاسطین وہ لوگ ہیں جس کی طرف ہم جا رہے ہیں اور مارقین سے ابھی تک ہمارا ٹکراؤ نہیں ہوا بعد میں ہو گا۔

انساب الاشرف میں بلاذُری رقمطراز ہیں:

حَدَّثَنِی ابوبَکْرٍ الاَعْیَنُ، وَغَیْرُهُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابونُعَیْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ، حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِیفَةَ، عَنْ حَکَمِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ اِبْرَاهِیمَ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیًّا، یَقُولُ: ” اُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ “، وَحُدِّثْتُ اَنَّ اَبَا نُعَیْمٍ، قَالَ لَنَا: النَّاکِثُونَ اَهْلُ الْجَمَلِ، وَالْقَاسِطُونَ اَصْحَابُ صِفِّینَ، وَالْمَارِقُونَ اَصْحَابُ النَّهْر.»[17] بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۳۸۔

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے علیؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے قتال کا حکم دیا گیا ہے، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ابو نعیم نے ہم سے کہا ہے: ناکثین اہل جمل ہیں، قاسطین اصحابِ صفّین ہیں اور مارقین اصحابِ نہر ہیں۔

احادیث کا دوسرا مجموعہ:

اہل سنت کتبِ احادیث و تواریخ میں اس موضوع کا دوسرا مجموعہِ احادیث حضرت عمار بن یاسر ؓ سے نقل ہوا ہے۔ ابو یعلی موصلی نے اپنی کتاب ’’مسند ابی یعلی‘‘ میں اس روایت کو اس طرح سے نقل کیا ہے:

«حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مَسْعُودٍ الْجَحْدَرِی، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ، حَدَّثَنَا الْخَلِیلُ بْنُ مُرَّةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَیْمَانَ، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ، یَقُولُ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.[18] ابو یعلی تمیمی، احمد بن علی بن المثنی، مسند ابی یعلی، ج۳، ص۱۹۴۔  عمار یاسر گفته است: به من دستور داده شد تا با ناکثین، قاسطین و مارقین بجنگم.»

عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ و قتل کروں۔

کتاب الکنی و الاسماء میں دولابی اس حدیث کو جناب عمار بن یاسرؓ کے طریق سے درج ذیل سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

«حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِی بْنِ عَفَّانَ قَالَ: ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِیَّةَ قَالَ: ثَنَا ابوالاَرْقَمِ، عَنْ ابی‌الْجَارُودِ، عَنْ ابی‌الرَّبِیعِ الْکِنْدِی، عَنْ هِنْدَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارًا، یَقُولُ: اَمَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اَنْ اُقَاتِلَ مَعَ عَلِی النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ.[19] دولابی، امام حافظ ابو بشر محمد بن احمد بن حماد، الکنی والاسماء، ج۱، ص۳۶۰۔ ہند بن عمرو کہتا ہے کہ میں عمارؓ سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں علیؑ کے ہمراہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ و قتال کروں۔

احادیث کا تیسرا مجموعہ:

اہل سنت کتبِ احادیث میں اس موضوع کی احادیث کا تیسرا مجموعہ جناب عبد اللہ بن مسعود سے نقل ہوا ہے۔ شاشی اپنی کتاب ’’مسند شاشی‘‘ میں بیان کرتے ہیں :

«حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ زُهَیْرِ بْنِ حَرْبٍ، نا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ صَالِحٍ ابوالصَّلْتِ، نا عَائِذُ بْنُ حَبِیبٍ، نا بَکْرُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَکَانَ ثِقَةً، نا یَزِیدُ بْنُ قَیْسٍ، عَنْ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: اَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَعَلَی آلِهِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا اَنْ یُقَاتِلَ النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ.[20] شاشی، ابو سعید ہیثم بن کلیب، مسند الشاشی، ج۱، ص۳۴۲۔

عبد اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے علیؑ کو حکم دیا تھا کہ وہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ و قتال کریں۔

اسی مطلب کو طبرانی نے معجم کبیر میں اپنی سند سے عبد اللہ بن مسعود سے اس طرح سے نقل کیا ہے:

«حدثنا محمد بن هِشَامٍ الْمُسْتَمْلِی ثنا عبد الرحمن بن صَالِحٍ ثنا عَائِذُ بن حَبِیبٍ ثنا بُکَیْرُ بن رَبِیعَةَ ثنا یَزِیدُ بن قَیْسٍ عن ابراهیم عن عَلْقَمَةَ عن عبداللَّهِ قال اَمَرَ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ.[21] طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۹۱۔

عبد اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ و قتال کا حکم دیا تھا۔

طبرانی نے معجم الاوسط میں ایک دوسری سند سے عبد اللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے:

«حَدَّثَنَا هَیْثَمُ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدٍ الْمُحَارِبِی، ثَنَا الْوَلِیدُ، عَنْ ابی‌عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَارِثِی، عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلائِی، عَنْ اِبْرَاهِیمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: اُمِرَ عَلَی بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.»[22] طبرانی، ابوالقاسم، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الاوسط، ج۹، ص۱۶۵۔ [23] طبرانی، ابوالقاسم، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۹۱۔

عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں: علیؑ کو ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا گیا تھا۔

احادیث کا چوتھا مجموعہ:

اہل سنت کتبِ احادیث میں اس موضوع کی احادیث کا چوتھا مجموعہ جناب ابو ایوب انصاریؓ سے منقول ہے۔ حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں حضرت ابو ایوب انصاری سے اس حدیث کواس طرح نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا ابوسَعِیدٍ اَحْمَدُ بْنُ یَعْقُوبَ الثَّقَفِی، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِی بْنِ شَبِیبٍ الْمَعْمَرِی، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ، ثنا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنِی ابوزَیْدٍ الاَحْوَلُ، عَنْ عِقَابِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، حَدَّثَنِی ابواَیُّوبَ الاَنْصَارِی فِی خِلافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” اَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) عَلِی بْنَ ابی‌طَالِبٍ بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ.[24] نیشاپوری، محمد بن عبداللہ ابوعبداللہ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۵۰۔

عقاب بن ثعلبہ کہتے ہیں کہ ابو ایوب انصاری نے عمر بن خطاب کی خلافت میں یہ حدیث مجھے بیان کی تھا ، انہوں نے کہا تھا: رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالبؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا ہے۔

معجم الکبیر کی روایت

طبرانی نے اپنی کتاب معجمِ کبیر میں ابو ایوب انصاری سے روایت کو اس سند کے ساتھ بیان کیا ہے:

حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ اِسْحَاقَ التُّسْتَرِی، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْجَرْجَرَائِی، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیرَةَ، عَنْ ابی‌صَادِقٍ، عَنْ مِحْنَفِ بْنِ سُلَیْمٍ، قَالَ: اَتَیْنَا اَبَا اَیُّوبَ الاَنْصَارِی وَهُوَ یَعْلِفُ خَیْلا لَهُ بِصَنْعَاءَ، فَقُلْنَا عِنْدَهُ، فَقُلْتُ لَهُ: اَبَا اَیُّوبَ قَاتَلْتُ الْمُشْرِکِینَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ثُمَّ جِئْتَ تُقَاتِلُ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ” اَمَرَنِی بِقِتَالِ ثَلاثَةٍ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ “، فَقَدْ قَاتَلْتُ النَّاکِثِینَ، وَقَاتَلْتُ الْقَاسِطِینَ، وَاَنَا مُقَاتِلٌ اِنْ شَاءَ اللَّهُ الْمَارِقِینَ بِالشُّعُفَاتِ بِالطُّرُقَاتِ بِالنَّهْرَاواتِ، وَمَا اَدْرِی مَا هُمْ.[25] طبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۴، ص۱۷۲۔

مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ ہم ابو ایوب انصاری کے پاس آئے جبکہ وہ صنعاء میں اپنے گھوڑوں کو چارہ ڈال رہے تھے ، ہم نے ان کے پاس حاضر ہو کر گفتگو کی ، پس میں نے ان سے کہا: اے ابو ایوب آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مشرکین کے ساتھ جنگ و قتال کیا ، اب آپ مسلمانوں سے جنگ لڑنے کے لیے آ گئے ہیں؟! ابو ایوب انصاری نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین گروہوں سے جنگ و قتال کا حکم دیا تھا: ناکثین، قاسطین اور مارقین۔ میں نے ناکثین سے قتال کر لیا ہے  اور میں نے قاسطین سے بھی جنگ لڑ لی ہے ، ان شاء اللہ میں مارقین سے کھلیانوں ، نخلستانوں اور دریا و نہرکے کناروں پرجنگ کروں گا اور میں نہیں جانتا وہ کون ہیں (اور کہاں ہیں)۔

حدیث کے دیگر طریق:

خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ، ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں ، کمال الدین ابی جرادہ نے بغیۃ الطالب میں اور ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ میں تفصیل کے ساتھ تمام جزئیات کے ہمراہ اس روایت کو نقل کیا ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:

اَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ عَلِی بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ یُوسُفَ، قَالَ: اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِیرِی، قَالَ: حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُؤَدِّبُ، بِسُرَّ مَنْ رَاَی، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، بِبَغْدَادَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِیکٌ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ الاَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اِبْرَاهِیمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالاَسْوَدِ، قَالا: اَتَیْنَا اَبَا اَیُّوبَ الاَنْصَارِی عِنْدَ مُنْصَرَفِهِ مِنْ صِفِّینَ، فَقُلْنَا لَهُ: یَا اَبَا اَیُّوبَ، اِنَّ اللَّهَ اَکْرَمَکَ بِنُزُولِ مُحَمَّدٍ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَبِمَجِیءِ نَاقَتِهِ تَفَضُّلا مِنَ اللَّهِ وَاِکْرَامًا لَکَ، حَتَّی اَنَاخَتْ بِبَابِکَ دُونَ النَّاسِ، ثُمَّ جِئْتَ بِسَیْفِکَ عَلَی عَاتِقِکَ تَضْرِبُ بِهِ اَهْلَ لا اِلَهَ اِلا اللَّهُ؟ فَقَالَ: یَا هَذَا، اِنَّ الرَّائِدَ لا یَکْذِبُ اَهْلَهُ، وَاِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اَمَرَنَا بِقِتَالِ ثَلاثَةٍ مَعَ عَلِیٍّ: بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ، وَالْقَاسِطِینَ، وَالْمَارِقِینَ، فَاَمَّا النَّاکِثُونَ: فَقَدْ قَاتَلْنَاهُمْ اَهْلَ الْجَمَلِ طَلْحَةَ وَالزُّبَیْرَ، وَاَمَّا الْقَاسِطُونَ: فَهَذَا مُنْصَرَفُنَا مِنْ عِنْدِهِمْ، یَعْنِی: مُعَاوِیَةَ وَعَمْرًا، وَاَمَّا الْمَارِقُونَ: فَهُمْ اَهْلُ الطَّرْفَاوَاتِ، وَاَهْلُ السُّعَیْفَاتِ، وَاَهْلُ النُّخَیْلاتِ، وَاَهْلُ النَّهْرَوَانَاتِ، وَاللَّهُ مَا اَدْرِی اَیْنَ هُمْ، وَلَکِنْ لا بُدَّ مِنْ قِتَالِهِمْ اِنْ شَاءَ اللَّهُ.[26] بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب، تاریخ بغداد، ج۱۳، ص۱۸۶۔ [27]ابن عساکر دمشقی، ابو القاسم علی بن حسین بن ہبۃ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الاماثل، … Continue reading[28] کمال الدین، عمر بن احمد بن ابی حرادہ، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، ج۱، ص۲۹۲۔ [29] ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر قرشی، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۰۶۔

علقمہ کہتے ہیں کہ ہم ابو ایوب انصاری کے پاس اس وقت آئے جب وہ صفّین سے لوٹے تھے، ہم نے انہیں کہا: اے ابو ایوب ! بے شک اللہ نے آپ کو یہ شرف بخشا ہے کہ محمدﷺ آپ کے پاس اترے اور ان کی اونٹی آپ کے درّ پر آئی جوکہ اللہ کی طرف سے خصوصی فضل اور اس کا آپ پر خاص کرم ہے، یہاں تک وہ اونٹنی دیگر لوگوں کی بجائے آپ کے دروازے پر بیٹھ گئی، اب کیا ہوا کہ آپ نے اپنے کندھوں پر اپنی تلوار اٹھا لی ہے اور آپ اہل ِ لا الہ الا اللہ کو مارنے کے لیے آ گئے ہیں؟! حضرت ابو ایوب نے کہا: اے شخص ! (اس ضرب المثل پر غور کرو) کارواں کا رہنما اپنے اہل کاروان سے جھوٹ نہیں بولتا، بے شک ہمیں رسول اللہ ﷺ نے علیؑ کے ہمراہ تین گروہوں سے لڑنے کا حکم دیا تھا : ناکثین، قاسطین اور مارقین۔ جہاں تک ناکثین کا تعلق ہے تو ہم نے  اہل جمل طلحہ و زبیر سے جنگ و قتال کیا، جہاں تک قاسطین کی بات ہے تو وہ ہم ابھی ان سے لڑ کر پلٹے ہیں ، یعنی معاویہ و عمرو بن عاص ،  اور جہاں تک مارقین کا تعلق ہے تو وہ راہوں میں، نخلستانوں میں اور دریا و نہر کے کناروں پر ہوں گے ، قسم بخدا مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں؟ لیکن ان شاء اللہ ان سے ہر صورت میں جنگ ہو گی۔

احادیث کا پانچواں مجموعہ:

اہل سنت کتبِ احادیث میں اس موضوع کا پانچواں مجموعہ جناب خزیمہ ذو الشہادتینؓ سے منقول ہے ۔  حضرت خزیمہ ذو الشہادتینؓ وہ ہستی ہیں جنہوں نے جنگ صفّین میں شرکت کی اور اس جنگ میں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔  خطیب بغدادی نے اپنی سند سے اس حدیث کو خزیمہؓ کے توسط سے یوں نقل کیا ہے:

اَخْبَرَنِی الْحَسَنُ بْنُ عَلِی الْجَوْهَرِی، اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَیْمَانَ الْوَاسِطِی، حَدَّثَنَا ابوسَعِیدٍ عَبْدُ الرَّحَمْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْحَارِثِی، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ الْقَنَّادُ، حَدَّثَنَا اَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، عَنِ السُّدِّی، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ابی‌لَیْلَی، قَالَ: کُنْتُ بِصِفِّینَ، فَرَاَیْتُ رَجُلا رَاکِبًا مُلْتَثِمًا، قَدْ اَخْرَجَ لِحْیَتَهُ مِنْ تَحْتِ عِمَامَتِهِ، فَرَاَیْتُهُ یُقَاتِلُ النَّاسَ قِتَالا شَدِیدًا یَمِینًا، وَشِمَالا، فَقُلْتُ: یَا شَیْخُ، تُقَاتِلُ النَّاسَ یَمِینًا، وَشِمَالا؟ فَحَسَرَ عَنْ عِمَامَتِهِ، ثُمّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) یَقُولُ: ” قَاتِلْ مَعَ عَلِی، وَقَاتِلْ “. وَاَنَا خُزَیْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ الاَنْصَارِی.

قَالَ الْخَطِیبُ: وَلَیْسَ فِی الصَّحَابَةِ مَنِ اسْمُهُ خُزَیْمَةُ وَاسْمُ اَبِیهِ ثَابِتٌ سِوَی ذِی الشَّهَادَتَیْنِ، وَاللَّهُ اَعْلَمُ.[30] بغدادی، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب، موضح اوہام الجمع والتفریق، ج۱، ص۲۶۵۔

عبد الرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میں صفین میں تھا ،وہاں  میں نے ایک سواری پر سوار شخص کو دیکھا جس نے اپنا چہرہ عمامہ سے ڈھانپا ہوا ہے لیکن اپنی داڑھی عمامہ کے نیچے سے نکالی ہوئی ہے، اسے میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں پر  دائیں بائیں دونوں طرف سے شدید حملے کر رہا ہے، میں نے کہا: اے شیخ! تم ان لوگوں سے دائیں بائیں دونوں طرف سے کیوں حملے کر رہے ہو؟ اس نے اپنےعمامہ کو ایک طرف کیا اور کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا: تم علیؑ کے ہمراہ جنگ و قتال کرنا اور سخت جنگ کرنا، میں خزیمہ بن ثابت انصاری ہوں۔

اس کے بعد خطیب بغدادی لکھتے ہیں: صحابہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کا نام خزیمہ اور اس کے باپ کا نام ثابت ہو سوائے ذو الشہادتین کے۔ اللہ زیادہ علم رکھنے والا ہے۔

احادیث کا چھٹا مجموعہ:

اہل سنت کتب احادیث میں اس موضوع پر چھٹا مجموعہِ حدیث جناب ابو سعید خدریؓ سے نقل کیا گیا ہے۔تاریخ مدینہ دمشق میں ابن عساکر، اُسُد الغابۃ میں ابن اثیر  اور البدایۃ و النہایۃ میں ابن کثیر نے ابو سعید خدریؓ سے نقل کیا ہے:

اَنْبَاَنَا اَرْسلانُ بْنُ بعانَ الصُّوفِی، حَدَّثَنَا ابوالْفَضْلِ اَحْمَدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ سَعِیدِ بْنِ ابی‌سَعِیدٍ الْمِیهَنِی، اَنْبَاَنَا ابوبَکْرٍ اَحْمَدُ بْنُ خَلَفٍ الشِّیرَازِی، اَنْبَاَنَا الْحَاکِمُ ابوعَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، اَنْبَاَنَا ابوجَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِی بْنِ دُحَیْمٍ الشَّیْبَانِی، حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الْحَکَمِ الْحِیرِی، حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیلُ بْنُ اَبَانٍ، حَدَّثَنَا اِسْحَاقُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ الاَزْدِی، عَنْ ابی‌هَارُونَ الْعَبْدِی، عَنْ ابی‌سَعِیدٍ الْخُدْرِی، قَالَ: اَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بِقِتَالِ النَّاکِثِینَ وَالْقَاسِطِینَ وَالْمَارِقِینَ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اَمَرْتَنَا بِقِتَالِ هَؤُلاءِ فَمَعْ مَنْ؟ فَقَالَ: مَعَ عَلِی بْنِ ابی‌طَالِبٍ، مَعَهُ یُقْتَلُ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ.[31]ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الاماثل، ج۴۲، … Continue reading[32] ابن اثیر، عزالدین بن اثیر ابو الحسن علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۴، ص۱۰۲۔ [33] ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر قرشی، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۰۵۔

ابو سعید خدری کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ و قتال کا حکم دیا تھا، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ ﷺ نے ہمیں ان سے جنگ کا تو حکم دیا ہے لیکن ہم کس کے ہمراہ لڑیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: علی ابن ابی طالبؑ کے ہمراہ ، ان کے ہمراہ عمار بن یاسرؓ بھی قتال کریں گے۔

اس حدیث کے متعدد مجموعوں اور مختلف معتبر اسانید اور دیگر طرق سے اس حدیث کا صحیح اور معتبر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ ان کثیر اسانید اور مختلف طرق سے ممکن ہے یہ دعوی کیا جا سکے کہ یہ حدیث ’’متواتر‘‘ ہے۔ یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ امام علیؑ نے ناکثین یعنی اہل جمل، قاسطین یعنی اصحابِ صفّین اور مارقین یعنی اہل نہروان سے جنگ رسول اللہ ﷺ کے فرمان اور ان کے حکم سے کی ۔ وہ افراد جن سے جنگ کا حکم خود رسول اللہ ﷺ دیں ان کا مقام اور حیثیت رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان سے روشن ہو جاتی ہے۔

جنگ جمل کی احادیث:

اہل سنت منابع میں صحیح السند احادیث وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اپنی زوجات کے درمیان جنگ جمل کی پیش بینی کر دی تھی اور انہیں جنگ جمل میں شرکت کرنے سے خبردار کیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے خصوصی طور پر حضرت عائشہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے حمیراء ! ممکن ہے تم ہی وہ شخص ہو۔اس کے باوجود حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان اورا ن کی تنبیہ کو پس پشت ڈال دیا اور قرآن و سنت کے دستورات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خلیفہ راشد ، رسول اللہ ﷺ کے قانونی و شرعی خلیفہ اور حجت الہٰی کے خلاف جنگ کی۔

احمد بن حنبل کی حدیث:

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں حوأب کے کتّوں کے بھونکنے کے واقعہ کو ان الفاظ میں درج کیا ہے:

ثنا یحیی عن اِسْمَاعِیلَ ثنا قَیْسٌ قال لَمَّا اَقْبَلَتْ عَائِشَةُ بَلَغَتْ مِیَاهَ بنی عَامِرٍ لَیْلاً نَبَحَتِ الْکِلاَبُ قالت‌ای مَاءٍ هذا قالوا مَاءُ الْحَوْاَبِ قالت ما اظننی الا انی رَاجِعَةٌ فقال بَعْضُ من کان مَعَهَا بَلْ تَقْدَمِینَ فَیَرَاکِ الْمُسْلِمُونَ فَیُصْلِحُ الله (عزّوجلّ) بَیْنِهِمْ قالت ان رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قال لها ذَاتَ یَوْمٍ کَیْفَ باحداکن تَنْبَحُ علیها کِلاَبُ الْحَوْاَبِ.[34] شیبانی، ابو عبداللہ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج۴۰، ص۲۹۸۔

قیس کہتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ آگے بڑھیں تو رات کے وقت بنی عامر کے کنوؤں پر پہنچ گئی تو کتّے بھونکنے لگے، انہوں نے کہا: یہ کونسا کنواں ہے؟ لوگوں نے کہا: حوأب کا کنواں، انہوں نے کہا: واپس جانے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں سے بعض نے کہا : نہیں آپ کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ مسلمان آپ سے امید لگائے ہوئے ہیں ، اللہ عز و جل ان کے امور کی اصلاح فرمائے گا، حضرت عائشہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے زوجات سے ایک دن فرمایا تھا : وہ وقت کیا ہو گا جب تم میں سے ایک پر حوأب کے کتّے بھونکیں گے۔

یہ حدیث مختلف طرق سے دیگر محدثین و مؤرخین نے اپنی کتب میں نقل کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’المصنف‘‘ ، اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں ، حاکم نیشاپوری نے المستدرک میں ، بیہقی نے دلائل النبوۃ میں، ابو یعلی موصلی نے مسند میں اور ابن حبّان نے اپنی کتاب صحیح ابن حبان میں اور دیگر متعدد محدثین نے اس روایت کو مختلف اسانید سے نقل کیا ہے ۔[35] ابن ابی شیبہ، ابوبکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۷، ص۵۳۶۔ [36] حنظلی، اسحاق بن ابراہیم بن مخلد راہویہ، مسند اسحاق بن راہویہ، ج۳، ص۸۹۱۔ [37] حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۲۹۔ [38] بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۰۔ [39] ابویعلی تمیمی، احمد بن علی بن مثنی، مسند ابی یعلی، ج۸، ص۲۸۲۔ [40] تمیمی بستی، محمد بن حبان بن احمد ابو حاتم، صحیح بان حبان بترتیب ابن بلبان، ج۱۵، ص۱۲۶۔

صحتِ روایت:

شمس الدین ذہنی نے سیر اعلام النبلاء میں اس حدیث کے بارے میں اپنا تبصرہ لکھتے ہوئے ذکر کیا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجوه.

این روایت سندش صحیح است؛ ولی صاحبان صحاح نقل نکرده‌اند.[41] ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۱۷۸۔

یہ حدیث صحیح السند ہےلیکن صحاح ستّہ کےمؤلفین نے اس کو اپنی صحاح میں ذکر نہیں کیا۔

معروف سلفی مؤرخ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں:

وهذا اسناد علی شرط الصحیحین ولم یخرجوه.[42] ابن کثیر، ابوالفداء، اسماعیل بن عمر القرشی، البدایۃ والنہایۃ، ج۶، ص۲۱۲۔

اس حدیث کی اسناد بخاری و مسلم کی شرط کے عین مطابق ہے لیکن اصحاب صحاح نے اس کو ذکر نہیں کیا۔

ابو بکر ہیثمی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

رواه احمد وابو یعلی والبزار ورجال احمد رجال الصحیح.[43] ہیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۷، ص۲۳۴۔

احمد ، ابو یعلی موصلی ، بزّار نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور احمد کے رجال صحیح ہیں۔

ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

واخرج هذا احمد وابو یعلی والبزار وصححه بن حبان والحاکم وسنده علی شرط الصحیح.

این روایت را احمد، ابویعلی، بزار، نقل کرده و ابن حبان و حاکم آن را تصحیح کرده‌اند، سند این روایت، شرایط صحیح بخاری را دارا است.[44] عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵.۔

اس حدیث کو احمد ، ابو یعلی اور بزّار نے نقل کیا ہے اور ابن حبّان اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہےاور اس کی سند کو صحیح کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

ابن عباس کی حدیث:

حوأب کے کتّوں کے بھونکنے والی حدیث اہل سنت منابع میں ابن عباس سے معتبر سند سے نقل ہوئی ہے۔ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:

من طریق عصام بن قدامة عن عکرمة عن بن عباس ان رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قال لنسائه ایتکن صاحبة الجمل الادبب بهمزة مفتوحة ودال ساکنة ثم موحدتین الاولی مفتوحة تخرج حتی تنبحها کلاب الحواب یقتل عن یمینها وعن شمالها قتلی کثیرة وتنجو من بعد ما کادت.

ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو بالوں سے پُر اونٹ پر سوار ہو کر خروج کرے گی یہاں تک کہ حوأب کے کتّے اس پر بھونکیں گے ، اس کے دائیں طرف اور بائیں طرف کثیر افراد قتل کیے جائیں گے اور اس قتل و غارت کے بعد وہ بچنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

ابن حجر عسقلانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وهذا رواه البزار ورجاله ثقات.

این روایت را بزار نقل کرده و راویان آن ثقه هستند.[45] عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵۔

اس حدیث کو بزّار نے نقل کیا ہے جس کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں۔

اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے ’’مصنف‘‘ میں ، طحاوی حنفی نے ’’ شرح مشکل الآثار‘‘ میں ، ابو منصور ازہری نے ’’تہذیب اللغۃ‘‘ میں ، ابو الحسن ماوردی نے ’’اعلام النبوۃ‘‘ میں ، ابن  عبد البرّ نے ’’استیعاب‘‘ میں اور دیگر محدثین و مؤرخین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔[46] ابن شبہ، ابو بکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۷، ص۵۳۸۔ [47] طحاوی حنفی، ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ، شرح مشکل الآثار، ج۱۴، ص۲۶۵۔ [48] ازہری، ابو منصور محمد بن احمد تہذیب اللغۃ، ج۱۴، ص۵۴۔ [49] ماوردی، ابوالحسین علی بن محمد بن حبیب، اعلام النبوۃ، ج۱، ص۱۳۶۔ [50] ابن عبدالبر، ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۱۸۸۵۔

بیقہی کی حدیث:

حوأب کے کتّوں کے بھونکنے کے واقعہ کو بیہقی نے تفصیلی طورپر  تمام جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہے۔ چنانچہ ابو بکر بیقہی متوفی ۴۵۸ ھ لکھتے ہیں:

اَبُو نُعَیْمٍ قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْن العباس الهمدانی، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِی، عَنْ سَالِمِ بْنِ ابی‌الْجَعْدِ، عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: ذَکَرَ النَّبِی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) خُرُوجَ بَعْضِ نِسَائِهِ اُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِینَ، فَضَحِکَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ: ” انْظُرِی یَا حُمَیْرَاءُ، اَنْ لا تَکُونِی اَنْتَ “، ثُمَّ الْتَفَتَ اِلَی عَلِی، فَقَالَ: یَا عَلِی، وُلِّیتَ مِنْ اَمْرِهَا شَیْئًا فَارْفُقْ بِهَا.[51] بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۱۔

ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے امہات المؤمنین میں سے بعض ازواج کے خروج کا تذکرہ فرمایا تھا  جس پر عائشہ ہنسی تھیں ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: دیکھو اے حمیراء! وہ زوجہ تم نہ ہو !! ، پھر رسول اللہ ﷺ امام علیؑ کی طرح متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے علی ؑ ! اگر اس زوجہ کا امر اور معاملہ تمہارے ہاتھ میں آئے تو اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا۔

بیہقی اپنی دیگر کتابوں میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقال الزهری: لما سارت عائشة ومعها طلحة والزبیر، رضی الله عنهم، فی سبع مائة من قریش کانت تنزل کلّ منزل فتسال عنه حتی نبحتها کلاب الحواب فقالت: ردونی، لا حاجة لی فی مسیری هذا، فقد کان رسول الله، (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، نهانی فقال: کیف انت یا حمیراء لو قد نبحت علیک کلاب الحواب او اهل الحواب فی مسیرک تطلبین امراً انت عنه بمعزل؟ فقال عبدالله بن الزبیر: لیس هذا بذلک المکان الذی ذکره رسول الله، (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، ودار علی تلک المیاه حتی جمع خمسین شیخاً قسامةً فشهدوا انه لیس بالماء الذی تزعمه انه نهیت عنه، فلما شهدوا قبلت وسارت حتی وافت البصرة، فلما کان حرب الجمل اقبلت فی هودج من حدید وهی تنظر من منظر قد صُیّر لها فی هودجها، فقالت لرجل من ضبّة وهو آخذ بخطام جملها او بعیرها: این تری علی بن ابی‌طالب، رضی الله عنه؟ قال: ‌ها هوذا واقف رافع یده الی السماء، فنظرت فقالت: ما اشبهه باخیه قال الضبی: ومن اخوه؟ قالت: رسول الله، (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، قال: فلا ارانی اقاتل رجلاً هو اخو رسول الله، (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، فنبذ خطام راحلتها من یده ومال الیه.

زہری کہتے ہیں کہ جب عائشہ نے خروج کیا اور ان کےساتھ طلحہ و زبیر تھے اور قریش میں سے سات سو (۷۰۰) مرد تھے۔ وہ جس منزل پر پڑاؤ کرتیں اس کے بارے میں دریافت کرتیں اور پوچھتیں   یہاں تک کہ حوأب کے کتے ان پر بھونکے ، حضرت عائشہ نے کہا: مجھے واپس لے کر چلو ، مجھے اس راہ پر سفر کو جاری رکھنے کوئی ضرورت نہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھے منع فرمایا تھا اور فرمایاتھا: اے حمیراء تم اس وقت کیا کرو گی کہ  اگر تمہارے اوپر حوأب کے کتّے بھونکیں  یا سفر  میں اہلِ حوأب سے تمہارے سامنا ہو جو تم سے ایسے امر کا مطالبہ کر رہے ہوں گے جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ؟ عبد اللہ بن زبیر نے کہا: یہ وہ جگہ نہیں ہے جس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور پھر اس نے ان کے اردگرد چکر لگائے اور پچاس (۵۰) قسم اٹھانے والے مرد جمع کیے جنہوں نے گواہی دی کہ یہ وہ کنواں نہیں جس کے بارے میں حضرت عائشہ گمان کر رہی ہیں کہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ جب انہوں نے گواہی دی تو حضرت عائشہ نے قبول کر لیا اور اپنے سفر کو جاری رکھا یہاں تک کہ بصرہ پہنچ گئیں۔ جب جنگ جمل شروع ہوئی تو وہ لوہے کے ہودج میں جنگ میں لائیں اور ہودج میں ان کے دیکھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی جس سے وہ سارا منظر دیکھ رہیں تھیں ،  انہوں نے بنی ضبّہ کے ایک شخص سے کہا جس نے ان کے اونٹ کی لگام پکڑی ہوئی تھی: تمہیں علی ابن ابی طالبؑ کہاں دکھائی دے رہے ہیں؟ اس نے کہا: وہ وہاں کھڑے ہیں ، ان کے ہاتھ آسمان کی طرف ہیں ، حضرت عائشہ نے دیکھا اور کہا: علی ؑ کس قدر اپنے بھائی  سے مشابہ ہیں ! بنی ضبہ کے اس شخص نے کہا: ان کے بھائی کون ہیں؟  عائشہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ ، اس نے کہا: میں ایسے شخص سے جنگ و قتال جائز نہیں سمجھتا جو رسول اللہ ﷺ کا بھائی ہو، یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ سے اونٹ کی لگام چھوڑی اور واپس پلٹ آیا۔[52] بیہقی، ابراہیم بن محمد، المحاسن والساوئ، ج۱، ص۲۲۔  

لوہے سے بنی ہودج کی داستان:

اس روایت میں ایک تعجب آور مطلب حضرت عائشہ کی ہودج کا لوہے سے بنا ہوا ہونا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عائشہ کا جنگ لڑنے کا ارادہ اور قصد نہیں تھا تو انہوں نے اپنی ہودج لوہے کی کیوں بنوائی تھی؟! دوسرا انہوں نے جنگ کے اندر شرکت کیوں کی اور کیوں جنگ میں ڈٹے رہنے پر لوگوں کو ابھارا؟!اگر حضرت عائشہ کا مقصد امت کی اصلاح اور فتنوں کو ختم کرنا تھا تو انہیں لوہے سے بنی ہوئی ہودج کی کیا ضرورت تھی؟! لوہے کی ہودج کا تذکرہ متعدد اکابر اہل سنت نے اپنی کتب میں کیا ہے جن میں سرفہرست ابن قتیبہ دینوری ہیں جو اپنی کتاب الامامۃ و السیاسۃ میں تحریر کرتے ہیں:

فلما اتی عائشة خبر اهل الشام انهم ردوا بیعة علی وابوا ان یبایعوه امرت فعمل لها هودج من حدید وجعل فیه موضع عینیها ثم خرجت ومعها الزبیر وطلحة وعبدالله بن الزبیر ومحمد بن طلحة.[53] دینوری، ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج۱، ص۷۲۔

جب عائشہ کو اہل شام کی خبر ملی کہ انہوں نے علیؑ کی بیعت کو ٹھکرا دیا ہے اور ان کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا ہے تو حضرت عائشہ نے حکم دیا اور ان کے لیے لوہے سے ہودج بنائی گئی اور اس میں ان کی آنکھوں سے دیکھنے کی جگہ بنائی گئی ، پھر وہ نکلیں اور ان کے ساتھ زبیر ، طلحہ ، عبد اللہ بن زبیر اور محمد بن طلحہ تھے۔

آلوسی کی روایت:

شہاب الدین آلوسی اپنی کتاب روح المعانی میں لکھتے ہیں :

وکان معها ابن اختها عبدالله بن الزبیر وغیره من ابناء اخواتها‌ ام کلثوم زوج طلحة واسماء زوج الزبیر بل کل من معها بمنزلة الابناء فی المحرمیة وکانت فی هودج من حدید.[54]آلوسی بغدادی، ابوالفضل شہاب الدین سید محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، … Continue reading

حضرت عائشہ کے ساتھ ان کی بھانجا عبد اللہ بن زبیر اور اس کے علاوہ ان کی دیگر بہنوں کے بیٹے تھے  ، حضرت عائشہ کی بہن ام کلثوم کا شوہر طلحہ اور اسماء کا شوہر زبیر تھے ۔ بلکہ محرمیت کے اعتبار سے جو جو ان کے بیٹوں کی مانند تھا وہ ان کے ساتھ تھا اور وہ لوہے سے بنی ہوئی ہودج میں تھیں۔

ابن ربہ اندلسی کی حدیث:

ابن ربہ اندلسی اپنی کتاب العقد الفرید میں لکھتے ہیں:

وکان جملها یدعی عسکرا حملها علیه یعلی بن منیة وهبه لعائشة وجعل له هودجا من حدید وجهز من ماله خمسمائة فارس باسلحتهم وازودتتهم وکان اکثر اهل البصرة مالا.[55] اندلسی، احمد بن محمد بن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۴، ص۷۴۔

حضرت عائشہ کا وہ  اونٹ جس نے انہیں اپنے دوش پر اٹھایا تھا کو ’’عسکر‘‘ کہا جاتا تھا جسے یعلی بن منیہ لے کر آیا تھا اور حضرت عائشہ کو وہ اونٹ ہبہ (بطور ہدیہ) کر دیا اور اپنے مال سے اسلحہ سمیت پانچ سو (۵۰۰) گھوڑ سوار تیار کیے اور ان گھوڑ سواروں کے لیے دیگر جنگی آلات مہیا کیے ۔ یعلی بن منیہ تمام اہل بصرہ سے زیادہ مالدار تھا۔

یہ روایات نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ امتِ اسلامی کی اصلاح کے ارادہ سے جنگ لڑنے نہیں آئیں تھیں بلکہ روزِ اول سے ان کا ارادہ امام علیؑ سے جنگ لڑنا اور ان کی شرعی برحق حکومتِ اسلامی کے خلاف شورش برپا کرنا تھا۔ اگر مقصد اصلاح امت ہوتا تو وہ لوہے سے بنی ہوئی ہودج کا انتخاب نہ کرتیں اور جنگ کے اندر تشریف لاتیں۔

حذیفہ کی صحیح السند حدیث:

اہل سنت منابع میں انہی کی سند سے ایک حدیث جناب حذیفہ سے منقول ہے جس کے مطابق حذیفہ نے کئی سال پہلے جنگ جمل اور حضرت عائشہ کا جنگ کے لیے نکلنے اور ان کا اپنے بیٹوں سے جنگ لڑنے کی خبر دے دی تھی۔ جب لوگوں نے یہ خبر سنی تھی تو انتہائی تعجب کیا اور اصلاً اس کو باور نہیں کیا۔  حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک میں اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

اَخْبَرَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلابُ بِهَمْدَانَ، ثَنَا هِلالُ بْنُ الْعَلاءِ الرَّقِّی، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثَنَا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَیْدِ بْنِ ابی‌اُنَیْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ خَیْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ” کُنَّا عِنْدَ حُذَیْفَةَ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ بَعْضُنَا: حَدِّثْنَا یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم)، قَالَ: لَوْ فَعَلْتُ لَرَجَمْتُمُونِی، قَالَ: قُلْنَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، اَنَحْنُ نَفْعَلُ ذَلِکَ؟ قَالَ: اَرَاَیْتَکُمْ لَوْ حَدَّثْتُکُمْ اَنَّ بَعْضَ اُمَّهَاتِکُمْ تَاْتِیکُمْ فِی کَتِیبَةٍ کَثِیرٍ عَدَدُهَا، شَدِیدٍ بَاْسُهَا، صَدَقْتُمْ بِهِ؟ قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَنْ یُصَدِّقُ بِهَذَا؟ ثُمَّ قَالَ حُذَیْفَةُ: اَتَتْکُمُ الْحُمَیْرَاءُ فِی کَتِیبَةٍ یَسُوقُهَا اَعْلاجُهَا، حَیْثُ تَسُوءُ وُجُوهَکُمْ، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ مَخْدَعًا. هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، وَلَمْ یُخْرِجَاهُ.[56] حاکم نیشاپوری، ابوعبداللہ،محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۴، ص۵۱۷۔

خیثمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے ، ہم میں سے بعض نے کہا: اے ابو عبد اللہ ! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو سنا ہے وہ ہمیں بھی بیان کریں ، حذیفہ نے کہا: اگر میں نے ایسا کیا تو تم مجھے سنگسار کر دو گے، راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا: سبحان اللہ ، بھلا ہم ایسا کر سکتے ہیں ؟! حذیفہ نے کہا: اگر میں تمہیں کہوں کہ تمہاری امہات میں سے  بعض مائیں ایک بڑی تعداد پر مشتمل سخت اور شدت پسند فوجی دستہ  کے ہمراہ تم سے جنگ لڑنے آئے گی تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تم لوگ باور  کر لو گے؟!انہوں نے کہا: سبحان اللہ ، کون ہے جو اس بات کی تصدیق کرے ؟! پھر حذیفہ نے کہا: حمیراء ایک ایسے فوجی دستے کے ساتھ تمہارے پاس آئیں گی جس کی قیادت ان کے کفار کر رہے ہوں گے ، اس طرح کے وہ تمہارے چہروں پر ناگواری برپا کر دیں گے۔ یہ کہہ کر حذیفہ اٹھے اور اپنے گھر میں چلے گئے۔

یہ حدیث نقل کرنے کے بعد حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں : یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اپنی صحاح میں ذکر نہیں کی۔ تلخیص الذہبی میں ذہبی نے اعتراف کیا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط کے عین مطابق صحیح ہے۔

حضرت عائشہ کے خروج پر چند  دیگر احادیث:

اسی روایت کو ایک اور سند سے [[فُلْفُلَۃ الْجُعْفِی]] نے بھی نقل کیا ہے۔[57] طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الاوسط، ج۲، ص۳۵۔

جلال الدین سیوطی نے  اپنی کتاب ’’خصائص کبری‘‘میں اور صالحی شامی نے ’’سبل الہدی والرشاد‘‘ میں تحریر کیا ہے:

واخرج الحاکم وصححه والبیهقی وابو نعیم عن حذیفة انه قیل له حدثنا ما سمعت من رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قال لو فعلت لرجمتمونی…

 حاکم نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اور اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اسی طرح بیہقی  اور ابو نعیم نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ ان سے کہا گیا کہ جو کچھ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اس سے ہمیں باخبر کیجیے ؟ حذیفہ نے کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو تم مجھے سنگسار کر دو گے۔ اس کے بعد آگے جا کر بیہقی کہتے ہیں:

قال البیهقی، اخبر بهذا حذیفة ومات قبل مسیر عائشة.[58] سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر، الخصائص الکبری، ج۲، ص۲۳۳۔ [59] صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، ج۱۰، ص۱۴۹۔

 حذیفہ نے اس کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا  اور وہ حضرت عائشہ کے نکلنے سے پہلے وفات پا گئے۔

بزّار کی حدیث:

ابو بکر بزّار حضرت حذیفہ سے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں جس کا مضمون درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی الْکُوفِی، قَالَ: اَخْبَرَنَا ابوغَسَّانَ، قَالَ: اَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ حُرَیْثٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَیْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ حُذَیْفَةَ، اِذْ قَالَ: کَیْفَ اَنْتُمْ وَقَدْ خَرَجَ اَهْلُ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فِی فِئَتَیْنِ یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ وُجُوهَ بَعْضٍ بِالسَّیْفِ؟، فَقُلْنَا: یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَاِنَّ ذَلِکَ لَکَائِنٌ، قَالَ: اَی وَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ اِنَّ ذَلِکَ لَکَائِنٌ، فَقَالَ بَعْضُ اَصْحَابِهِ: یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ، فَکَیْفَ نَصْنَعُ اِنْ اَدْرَکْنَا ذَلِکَ الزَّمَانَ؟، قَالَ: انْظُرُوا الْفِرْقَةَ الَّتِی تَدْعُو اِلَی اَمْرِ عَلِی رَضِی اللَّهُ عَنْهُ فَالْزَمُوهَا فَاِنَّهَا عَلَی الْهُدَی.[60] بزار، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق، البحر الزخار، ج۷، ص۲۳۶۔

زید بن وہب بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ کے اردگرد جمع تھے، اس وقت حذیفہ نے کہا: اس وقت تم کیسے ہو گئے جب تمہارے نبی ﷺ کے اہل بیت دو گروہوں میں تقسیم ہو کر خروج کریں گے ، تم میں سے بعض دیگر بعض کے چہروں پر تلوار سے ضربیں لگا رہے ہو گے؟ ہم نے کہا: اے ابو عبد اللہ ! کیا ایسا ہوسکتا ہے؟! حذیفہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، یقینا ایسا ہو سکتا ہے۔ ان کے بعض اصحاب نے کہا: اے ابو عبد اللہ ! اگر ہم نے وہ زمانہ پایا تو ہم کیا کریں ؟ حذیفہ نے کہا: تم لوگ اس گروہ کو دیکھو جو علی ؑ کی طرف تمہیں بلائے ، پس اس گروہ کے ساتھ سخت سے جڑ جاؤ کیونکہ وہی گروہ ہدایت پر ہے۔

مذکورہ بالا حدیث کی سند:

ھیثمی نے اس حدیث کو مجمع الزوائد میں اسی سند سے نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعداس طرح سے تبصرہ کرتے ہیں:

رواه البزار ورجاله ثقات.[61] ہیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۷، ص۲۳۶۔

بزّار نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس حدیث تمام راوی ثقہ (عادل) ہیں۔

ابن حجرعسقلانی کی حدیث:

ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو شرح صحیح بخاری میں درج کیا ہے ۔[62] عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵۔

یہ صحیح السند احادیث واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ اور ان کا لشکر باطل پر تھا اور جنگ میں جتنے صحابہ و تابعین اور امت کے افراد مارے گئے ان سب کا گناہ حضرت عائشہ ، طلحہ ،  زبیر اور جنگ جمل کو بھڑکانے والے دیگر افراد کی گردن پر ہو گا ۔

بیہقی کی حدیث:

اہل سنت کے منابع حدیثی و تاریخی میں رسول اللہ ﷺ سے احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق آنحضرت ﷺ نے جنگ جمل سے کئی سال پہلے زبیر بن عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ امام علیؑ سے جنگ لڑیں گے اور زبیر کو ظالم کے عنوان سے متصف کیا ۔ بیہقی نے اپنی سند سے اس روایت کو دلائل النبوۃ میں اس طرح سے نقل کیا ہے:

اَخْبَرَنَا ابوبَکْرٍ اَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِی، اَخْبَرَنَا ابوعَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، اَخْبَرَنَا ابوالْعَبَّاسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَّارٍ الْهَاشِمِی الْکُوفِی، حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الاَجْلَحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبِی، عَنْ یَزِیدَ الْفَقِیرِ، وَقَالَ مِنْجَابُ: وَسَمِعْتُ الْفَضْلَ بْنَ فَضَالَةَ، یُحَدِّثُ اَبِی، عَنِ ابی‌حَرْبِ بْنِ الاَسْوَدِ الدُّؤَلِی، عَنْ اَبِیهِ، دَخَلَ حَدِیثُ اَحَدِهِمَا فِی حَدِیثِ صَاحِبِهِ، قَالَ: لَمَّا دَنَا عَلِی وَاَصْحَابُهُ مِنْ طَلْحَةَ وَالزُّبَیْرِ، وَدَنَتِ الصُّفُوفُ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ، خَرَجَ عَلِی وَهُوَ عَلَی بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) فَنَادَی: ادْعُوا لِی الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، فَاِنِّی عَلِی، فَدُعِی لَهُ الزُّبَیْرُ، فَاَقْبَلَ حَتَّی اخْتَلَفَتْ اَعْنَاقُ دَوَابِّهِمَا، فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا زُبَیْرُ، نَشَدْتُکَ بِاللَّهِ اَتَذْکُرُ یَوْمَ مَرَّ بِکَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَنَحْنُ فِی مَکَانِ کَذَا وَکَذَا؟، فَقَالَ: یَا زُبَیْرُ، ” تُحِبُّ عَلِیًّا؟ “، فَقُلْتُ: اَلا اُحِبُّ ابْنَ خَالِی وَابْنَ عَمِّی وَعَلَیدِینِی، فَقَالَ: یَا عَلِی، ” اَتُحِبُّهُ؟ “، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، اَلا اُحِبُّ ابْنَ عَمَّتِی وَعَلَی دِینِی، فَقَالَ: یَا زُبَیْرُ، ” اَمَا وَاللَّهِ لَتُقَاتِلَنَّهُ وَاَنْتَ لَهُ ظَالِمٌ “، قَالَ: بَلَی، وَاللَّهِ لَقَدْ نَسِیتُهُ مُنْذُ سَمِعْتُهُ مِنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ثُمَّ ذَکَرْتُهُ الآنَ، وَاللَّهِ لا اُقَاتِلُکَ، فَرَجَعَ الزُّبَیْرُ عَلَی دَابَّتِهِ یَشُقُّ الصُّفُوفَ، فَعَرَضَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَیْرِ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟، فَقَالَ: ذَکَّرَنِی عَلِی حَدِیثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) سَمِعْتُهُ یَقُولُ: لَتُقَاتِلَنَّهُ وَاَنْتَ لَهُ ظَالِمٌ، فَلا اُقَاتِلُهُ، قَالَ: وَلِلْقِتَالِ جِئْتَ؟ اِنَّمَا جِئْتَ تُصْلِحُ بَیْنَالنَّاسِ وَیُصْلِحُ اللَّهُ هَذَا الاَمْرَ، قَالَ: قَدْ حَلَفْتُ اَلا اُقَاتِلَهُ، قَالَ: فَاَعْتِقْ غُلامَکَ جِرْجِسَ وَقِفْ حَتَّی تَصْلُحَ بَیْنَ النَّاسِ، فَاَعْتَقَ غُلامَهُ، وَوَقَفَ فَلَمَّا اخْتَلَفَ اَمْرُ النَّاسِ ذَهَبَ عَلَی فَرَسِهِ.[63] حسن بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۴۔

اسود دؤلی بیان کرتے ہیں : جب علی ؑ اور ان کے اصحاب طلحہ و زبیر کے قریب پہنچے اور دونوں صفیں ایک دوسرے کے نزدیک آ گئیں تو علیؑ نکلے جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے خچر پر سوار تھے، علیؑ نے بلند آواز میں فرمایا: زبیر بن عوام کو میرے پاس بھیجو، میں علیؑ ہوں ، زبیر کو بلایا گیا اور وہ آگے آئے یہاں تک کہ دونوں کے جانوروں کی گردنیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں ۔ امام علیؑ نے فرمایا : اے زبیر ! میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ ﷺ تمہارے پاس سے گزرے تھے اور ہم اس اس جگہ پر تھے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: اے زبیر ! کیا تم علیؑ سے محبت رکھتے ہو؟ تم نے کہا تھا: کیوں نہیں میں اپنے ماموں زاد اور اپنے چچا زاد اور وہ جو میرے دین پر ہے اس سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے علیؑ ! کیا تم زبیر سے محبت رکھتے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیوں نہیں میں اپنے چچی زاد اور جو میرے دین پر ہے سے محبت رکھتا ہوں۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر ، قسم بخدا ! تم اس سے جنگ و قتال کروں گے جبکہ تو اس پر ظلم کرنے والے ہو گے۔ زبیر نے کہا: بالکل صحیح کہا! اللہ کی قسم میں نے جب سے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تھی تب سے میں اسے بھول گیا تھا ، پھر آج تم نے یہ حدیث مجھے یاد دلا دی ، اللہ کی قسم میں تم سے جنگ و قتال نہیں کروں گا۔ اس کے بعد زبیر اپنی سواری پرصفوں کو چیرتے ہوئے واپس ہو لیے ۔ اتنے میں ان کا بیٹا عبد اللہ بن زبیر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: کیا ہوا آپ کو ؟ زبیر نے کہا: علی ؑ نے مجھے ایک ایسی حدیث یاد دلا دی جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ، میں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا : تم ضرور علیؑ سے لڑائی کرو گے جبکہ تم اس پر ظلم ڈھانے والے ہو گئے، پس میں علیؑ سے قتال نہیں کروں گا۔ عبد اللہ بن زبیر نے کہا: لیکن کیا آپ جنگ و قتال کے لیے آئے ہیں؟! آپ تو لوگوں کی اصلاح کی خاطر آئے ہیں اور اللہ اس امر کی اصلاح فرمائے گا۔ زبیر نے کہا: میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں علیؑ سے قتال نہیں کروں گا، عبد اللہ بن زبیر نے کہا: پھر آپ اپنے غلام حرجس کو آزاد کر دیں اور اس وقت تک ٹھہرے رہیں یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان اصلاح برپا ہو جائے ۔ زبیر نے اپنے غلام کو آزاد کر دیا اور وہی رکے رہے۔ جب لوگوں میں آپس میں جنگ شروع ہو گئی تو زبیر اپنے گھوڑے پر سوار کر چلے گئے۔

حاکم نیشاپوری کی حدیث:

حاکم نیشاپوری نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں:

وَقَدْ رُوِی اِقْرَارُ الزُّبَیْرِ لِعَلِی رَضِی اللَّهُ عَنْهُمَا بِذَلِکَ مِنْ غَیْرِ هَذِهِ الْوُجُوهِ وَالرِّوَایَاتِ.[64] حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبی، ج۳، ص۴۱۳۔

زبیر کا علی ؑ کے حق میں اس بات کا اقرار کرنا اس کے علاوہ بھی کئی روایات اور کئی طرق سے نقل کیا گیا ہے۔ متعصب اور متشدد اہل سنت محدث شمس الدین ذہبی ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں نقل کرتے ہیں:

هذه احادیث صحاح.[65] حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبی، ج۳، ص۳۶۶۔

یہ احادیث صحیح السند ہیں۔

اس حدیث کے دیگر طرق:

یہی حدیث اہل سنت کے اکابر محدثین نے اپنی کتب احادیث میں نقل کی ہے جن میں سرفہرست ابن ابی شیبہ ہیں جنہوں نے ’’مصنف ابن ابی شیبہ ‘‘ میں  نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ ابن عساکر نے ’’تاریخ مدینہ دمشق‘‘ ، ابن کثیر دمشقی نے ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ میں ، ابن حجر عسقلانی نے ’’شرح صحیح بخاری اور المطالب العالیۃ‘‘ میں ، ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ، جلال الدین سیوطی نے ’’خصائص الکبری‘‘ میں ،  صالحی شامی  نے ’’سبل الہدی و الرشاد ‘‘ میں اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔[66] ابن شبہ، ابو بکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والاثار، ج۷، ص۵۴۵،ح۳۷۸۲۷۔ [67] ابن عساکر، علی بن حسین، تاریخ مدینہ و دمشق، ج۱۸، ص۴۰۹۔ [68] ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج۶، ص۲۱۳۔ [69] عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵۔ [70] عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ، ج۱۸، ص۱۳۴۔ [71] ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمہ ابن خلدون، ج۲، ص۶۱۶۔ [72] سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر، الخصائص الکبری، ج۲، ص۲۳۳۔ [73] صالحي شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج۱۰، ص۱۴۹۔ اس حدیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ امام علیؑ جنگ جمل میں حق پر تھے اور مظلوم تھے جن پر امت کے سرکردہ افراد نے جنگ مسلط کر کے ظلم کیا ۔ نیز زبیر کا جنگ جمل میں آنا اگر امت اسلامی کی اصلاح کی خاطر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کسی صورت انہیں ظالم نہ کہتے ۔ ظالم کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ زبیر اور دیگر اصحابِ جمل کا ہدف و مقصد اصلاح امت نہیں تھا۔

منابع:

منابع:
1 مجموعۃ من المؤلفين، المعجم‌ الوسيط، ج2، ص951۔
2 ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۵، ص ۴۷۵۔
3 مروارید، علی‌ اصغر، ينابيع الفقہیۃ ، ج9، ص53۔
4 توبہ:۱۲۔
5 محمدی ری شہری، محمد، ميزان الحكمۃ، ج1، ص355۔
6 ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب، ج ۳، ص ۱۱۱۷۔
7 بزار، احمد بن عمر، البحر الزخار ، مسند البزّار، ج ۳، ص ۲۶ – ۲۷، حدیث: ۷۷۴۔
8 طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط، ج ۸، ص ۲۱۳۔
9 ہیثمی، علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج ۷ ، ص ۲۳۸۔
10 مقرئ، ابو بکر، معجم ابن المقرئ، ج ۱، ص ۴۰۴۔
11 خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج ۸، ص ۳۳۶۔
12 مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج ۵، ص ۲۲۴۔
13 کوفی، ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ، جزء من حدیث ابی العباس بن عقدہ، ص۲۰۔
14 بغدادی، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب، موضح اوهام الجمع والتفریق، ج۱، ص۳۹۳۔
15 ابن عساکر، ابی‌القاسم علی بن الحسن ابن هبة الله بن عبدالله، تاریخ مدینة دمشق وذکر فضلها وتسمیة من حلها من الاماثل، ج۴۲، ص۴۶۹۔ 
16  ابن‌کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر القرشی، البدایة والنهایة، ج۷، ص۳۳۸.
17 بلاذری، احمد بن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۳۸۔
18 ابو یعلی تمیمی، احمد بن علی بن المثنی، مسند ابی یعلی، ج۳، ص۱۹۴۔
19 دولابی، امام حافظ ابو بشر محمد بن احمد بن حماد، الکنی والاسماء، ج۱، ص۳۶۰۔
20 شاشی، ابو سعید ہیثم بن کلیب، مسند الشاشی، ج۱، ص۳۴۲۔
21 طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۹۱۔
22 طبرانی، ابوالقاسم، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الاوسط، ج۹، ص۱۶۵۔
23 طبرانی، ابوالقاسم، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۹۱۔
24 نیشاپوری، محمد بن عبداللہ ابوعبداللہ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۵۰۔
25 طبرانی، ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الکبیر، ج۴، ص۱۷۲۔
26 بغدادی، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب، تاریخ بغداد، ج۱۳، ص۱۸۶۔
27 ابن عساکر دمشقی، ابو القاسم علی بن حسین بن ہبۃ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الاماثل، ج۴۲، ص۴۷۲۔
28 کمال الدین، عمر بن احمد بن ابی حرادہ، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، ج۱، ص۲۹۲۔
29 ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر قرشی، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۰۶۔
30 بغدادی، ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب، موضح اوہام الجمع والتفریق، ج۱، ص۲۶۵۔
31 ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ، تاریخ مدینہ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الاماثل، ج۴۲، ص۴۷۱۔
32 ابن اثیر، عزالدین بن اثیر ابو الحسن علی بن محمد، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۴، ص۱۰۲۔
33 ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر قرشی، البدایۃ و النہایۃ، ج۷، ص۳۰۵۔
34 شیبانی، ابو عبداللہ احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج۴۰، ص۲۹۸۔
35 ابن ابی شیبہ، ابوبکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۷، ص۵۳۶۔
36 حنظلی، اسحاق بن ابراہیم بن مخلد راہویہ، مسند اسحاق بن راہویہ، ج۳، ص۸۹۱۔
37 حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۲۹۔
38 بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۰۔
39 ابویعلی تمیمی، احمد بن علی بن مثنی، مسند ابی یعلی، ج۸، ص۲۸۲۔
40 تمیمی بستی، محمد بن حبان بن احمد ابو حاتم، صحیح بان حبان بترتیب ابن بلبان، ج۱۵، ص۱۲۶۔
41 ذہبی، شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۱۷۸۔
42 ابن کثیر، ابوالفداء، اسماعیل بن عمر القرشی، البدایۃ والنہایۃ، ج۶، ص۲۱۲۔
43 ہیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۷، ص۲۳۴۔
44 عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵.۔
45, 62, 69 عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج۱۳، ص۵۵۔
46 ابن شبہ، ابو بکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ج۷، ص۵۳۸۔
47 طحاوی حنفی، ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ، شرح مشکل الآثار، ج۱۴، ص۲۶۵۔
48 ازہری، ابو منصور محمد بن احمد تہذیب اللغۃ، ج۱۴، ص۵۴۔
49 ماوردی، ابوالحسین علی بن محمد بن حبیب، اعلام النبوۃ، ج۱، ص۱۳۶۔
50 ابن عبدالبر، ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۴، ص۱۸۸۵۔
51 بیہقی، ابو بکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۱۔
52 بیہقی، ابراہیم بن محمد، المحاسن والساوئ، ج۱، ص۲۲۔
53 دینوری، ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج۱، ص۷۲۔
54 آلوسی بغدادی، ابوالفضل شہاب الدین سید محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، ج۲۲، ص۱۰۔
55 اندلسی، احمد بن محمد بن عبد ربہ، العقد الفرید، ج۴، ص۷۴۔
56 حاکم نیشاپوری، ابوعبداللہ،محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج۴، ص۵۱۷۔
57 طبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، المعجم الاوسط، ج۲، ص۳۵۔
58, 72 سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر، الخصائص الکبری، ج۲، ص۲۳۳۔
59 صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، ج۱۰، ص۱۴۹۔
60 بزار، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق، البحر الزخار، ج۷، ص۲۳۶۔
61 ہیثمی، ابوالحسن نور الدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج۷، ص۲۳۶۔
63 حسن بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین بن علی، دلائل النبوۃ، ج۶، ص۴۱۴۔
64 حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبی، ج۳، ص۴۱۳۔
65 حاکم نیشاپوری، ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبی، ج۳، ص۳۶۶۔
66 ابن شبہ، ابو بکر عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الاحادیث والاثار، ج۷، ص۵۴۵،ح۳۷۸۲۷۔
67 ابن عساکر، علی بن حسین، تاریخ مدینہ و دمشق، ج۱۸، ص۴۰۹۔
68 ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج۶، ص۲۱۳۔
70 عسقلانی، احمد بن علی بن حجر، المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ، ج۱۸، ص۱۳۴۔
71 ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمہ ابن خلدون، ج۲، ص۶۱۶۔
73 صالحي شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج۱۰، ص۱۴۹۔
Views: 54

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: نظام ولایت فقیہ اور اسلامی جمہوری