ولایت فقیہ کی ضرورت
ولایت فقیہ کی باقاعدہ بحث اس کتاب کی تیسری فصل سے شروع ہوتی ہے ۔آج سے ہم باقاعدہ طور پر اس کتاب کی تیسری فصل میں داخل ہو رہے ہیں۔پہلی اور دوسری فصل میں ہم نے ولایت فقیہ کے مقدمات کو جانا۔ یہ مقدمات قرآن سے ماخوذ ہیں اور عقل بھی ان کی تائید کرتی ہے۔
فہرست مقالہ
آزادی اور انسان
ان مقدمات کو اگر ہم اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا پہلا مقدمہ انسان کی آزادی ہے۔ آیا انسان آزاد ہے یا نہیں؟ اگر آزاد ہے تو اس کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ آیا وہ مکمل طور پر آزاد ہے یا کچھ محدودیتیں بھی اس کو حاصل ہیں؟ اس کے جواب میں ہم نے بیان کیا کہ انسان آزاد ہے، اس کی خلقت کا مقصد رشد اور کمال ہے۔ اور رشد و کمال بغیر آزادی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔رجوع کریں۔ کائنات کی ہر شے رشد کررہی ہے انسان بھی کمال کا حصول چاہتا ہےاور اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہم نے بیان کیا کہ اگر انسان کو مطلق طور پر آزادی دے دی جاۓ تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اس لیے سرکشی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ رجوع کریں۔آزادی اور قانون کا بہت گہرا ربط ہے۔ یہیں سے ولایت فقیہ کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر غیبت کے زمانے میں انسانوں نے دین کے مطابق زندگی گزارنی ہے تو آیا ان کو قانون اور نظم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ولایت فقیہ کی بھی ضرورت ہوگی۔رجوع کریں۔
قانون اور نظم کی ضرورت
اگر انسان فطرت کے عین مطابق زندگی گزاریں تو ممکن ہے انہیں قانون کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت فطرت کے مطابق نہیں بلکہ اپنی طبیعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ فطرت کی مثال بیج کی سی ہے۔ مثلا سیب کا بیج ہے اس کو زمین میں گاڑ دیں اور مناسب ماحول اور شرائط فراہم کریں تو سیب کے بیج سے سیب کا درخت ہی اگے گا ممکن نہیں کہ اس سے کوئی اور درخت وجود میں آ جاۓ۔ فطرت بھی اسی طرح سے ہے۔ اگر فطرت کے مطابق انسان زندگی گزاریں انسانِ کامل بن سکتے ہیں۔ لیکن انسان کے اندر اللہ نے فطرت کے ساتھ طبیعت بھی رکھی ہے اور طبیعت طغیان گر ہے۔ اس کی طغیانی کو روکنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے اگر قانون نہ ہو تو انسانی معاشروں کے اندر نظم وجود میں نہیں آ سکتا اور افراتفری پھیل جاتی ہے۔ یہ سب مقدمات ہیں ولایت فقیہ کی بحث کے لیے جو آیت اللہ جوادی آملی دام ظلہ العالی نے اس بحث کے آغاز میں بیان فرماۓ۔ در اصل یہ سب عقلی اور قرآنی مقدمات ہیں باالفاظ دیگر یہ تفسیر قرآن بیان ہوئی ہے۔رجوع کریں۔
عبودیت میں انسانی آزادی
آزادی کے بارے میں ایک تفکر یہ ہے کہ انسان کامل طور پر آزاد ہونا چاہیے، اس کی طبیعت ہر قسم کی طغیانی کرنے میں آزاد ہو، مختلف شہوتیں انجام دینے کی اس کو اجازت ہو، پیسہ زمین مال سب عام ہو، افراد پر ظلم و ستم کی اسے اجازت ہو ۔ایسی آزادی یقینا کوئی بھی فطری انسان نہیں چاہتا۔ ایسی بے بند و بار آزادی ایک حیوان کو چاہیے۔ کیونکہ اگر انسان اتنا آزاد ہو جاۓ پھر وہ انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان بن جاتا ہے۔ رجوع کریں۔دین اسلام نے انسان کو محدود آزادی دی ہے۔ با الفاظ دیگر انسان آزاد تو ہے لیکن عبدِ خدا ہے۔ خدا کی عبودیت میں ہی اس کی آزادی ہے۔ اگر وہ خدا کا عبد نہ بنے تو دوسری اشیاء کا عبد بن جاۓ گا اور اس کی آزادی اس سے سلب ہو جاۓ گی۔ اگر خدا کا عبد نہیں تو پیسوں کا عبد بن جاۓ گا، مال کا عبد بن جاۓ گا کھانوں کا عبد بن جاۓ گا۔ اب یہ شہوتیں اس سے جو کروائیں گی یہ ویسا ہی کرے گا۔ اس کی مثالیں ہماری روز مرہ زندگی میں بہت ہیں۔ایک وزیر ہے اس کے پاس کروڑوں کا مال جمع ہے، دسیوں کھانے ایک وقت میں کھاتا ہے، بیسیوں افراد اس کے آگے پیچھے گھومتے ہیں لیکن پھر بھی اس کی اقتدار کی شہوت ختم نہیں ہو رہی۔ اس شہوت کو ختم کرنے کے لیے اور وزارت کے لیے یہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ کا غلام بننے کو تیار ہے لیکن وزارت سے جان نہیں چھڑوا پا رہا۔ اسی کو غلام اور عبد کہتے ہیں لیکن یہ وزارت کا عبد ہے، خدا کا عبد نہیں۔ رجوع کریں۔ان سب مقدمات کا علم ہمارے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ انہیں کی مدد سے ہم اصل بحث میں داخل ہو سکتے ہیں۔
قانون گذاری اور بعثت انبیاء
یہاں تک ہم نے مان لیا کہ انسان کی آزادی محدود ہے اور اس کو آزادی کے لیے عبد بننا ہے۔ اب سوال پیدا ہوگا جب آزادی محدود ہے اور اسی محدود آزادی میں ہی اس نے کمال تک پہنچنا ہے تو اس کو قانون کی ضرورت ہوگی، تو قانون کو ن بناۓ؟۔رجوع کریں۔ہم نے عقلی اور نقلی دلائل سے یہ بات ثابت کی کہ صرف خدا قانون بنا سکتا ہے اگر بشر قانون بناۓ تو وہ ناقص ہوگا اور ممکن ہے انسان کے لیے مضر قانون بناۓ۔رجوع کریں۔ قانون الہی کی تشریح اور اس کے نفاذ کے لیے اللہ تعالی نے انبیاء کرامؑ بھیجے۔ انبیاء الہی کا کام قانون الہی کی تبیین کرنا اور اس کو معاشروں میں نافذ کرنا ہے۔ اور یہیں سے امامت کا کردار بھی سامنے آ جاتا ہے۔ رجوع کریں۔اللہ کا قانون، دین اور شریعت اس لیے نہیں اترے کہ ان کو صرف بیان کر دیا جاۓ۔ بلکہ یہ شریعت نفاذ کے لیے اتری ہے۔ قانون صرف بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ جب تک وہ نافذ نہ ہو جاۓ اس کی ضرورت کا فلسفہ پورا ہی نہیں ہوتا۔ انبیاء کرام کا کام صرف دین الہی بیان کرنا نہیں۔ انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس شریعت اور قانون الہی کو معاشروں میں نافذ کربں۔
زمانہ غیبت میں شریعت اور اس کا وجودی فلسفہ
انسان کی خلقت ایک ہدف کے تحت ہوئی۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے خدا نے شریعت کی شکل میں قانون الہی کو اتارا۔ انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام اور آئمہ معصومینؑ کو مبعوث فرمایا۔ کیوں؟ تاکہ انسان قانون الہی کے مطابق زندگی کرے اور کمال کی طرف بڑھ سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا غیبت کے زمانے میں یہ سارے فلسفے باطل ہو جائیں گے؟ شریعت کے نفاذ کا فلسفہ غیبت کے زمانے میں باطل ہو جاۓ گا؟ کیا دین الہی کے انسانوں پر عملی طور پر نافذ ہونے کی حکمت غیبت کے زمانے میں باطل ہو جاۓ گی؟ کیا دین خدا غیبت کے زمانے میں تعطیل پر ہے؟ عقل کیا کہتی ہے اور دین کیا کہتا ہے؟ کیا اب انسانوں کو کمال تک پہنچنے کی ضرورت ختم ہو گئی؟ جس ہدف اور مقصد کے لیے انبیاء آۓ اور آئمہ معصومینؑ نے قربانیاں دیں، جس مقصد کے لیے دین اترا وہ مقصد زمانہ غیبت میں پورا نہیں ہوگا؟ کیا زمانہ غیبت کا تقاضا یہ ہے کہ شریعت کو تعطیل کر دیں؟ دین کی اجتماعی ضرورت اب ختم ہو گئی؟ دین اسلام تو بشر کےتکامل کے لیے آیا تھا، مہدویت اور غیبت کا دور تو تکامل اور رشد کا زمانہ ہے تو یہ کیسا انحطاط اور تنزلی ہے جس کا شکار ہم ہو گئے؟ رجوع کریں۔رجوع کریں۔زمانہ غیبت تو ایسا زمانہ ہے جس میں بشر نے تیار ہونا ہے اور مومنین نے آمادہ ہونا ہے عالمی حکومت کے لیے۔ اس دور میں مومنین نے امام زمانؑ کی عالمی حکومت اسلامی کے لیے میدان فراہم کرنا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ولایت فقیہ کو نا ماننے کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ولایت فقیہ کا انکار در اصل ان تمام اہداف کا انکار قرار پاتا ہے جس کے لیے دین اترا تھا۔ اگر اہم فردی نگاہ سے دین کو دیکھیں تو کہیں گے کہ دین تعطیل ہے امام آئیں گے تو خود وہ ٹھیک کریں گے۔ لیکن یہ نگاہ درست نہیں قرآن اور آئمہ معصومینؑ کی تعلیمات اس سے بالکل جدا ہیں۔
دین کا غلبہ اور قرآن
غیبت کے زمانے میں قانون الہی کی بھی ضرورت ہے اور اس کے نفاذ کی بھی ضرورت ہے۔ غیبت کے زمانے میں رہنے والے انسانوں کو عبودیت کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن کس عبودیت کی ضرورت؟ جو عبودیت صرف گھروں میں انفرادی طور پر ہو؟ یا ایسے قانون الہی کی ضرورت ہے جو صرف گھر کی چاردیواری میں نافذ ہو سکے؟ اللہ تعالی نے تو ایسا کوئی دین نہیں بھیجا جس کا دائرہ کار صرف گھر کی حدود میں ہو یا ایسی کوئی عبودیت قرار نہیں دی جو صرف گھر میں ہو۔ دین اسلام غلبہ کے لیے آیا ہے اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ کھل کر اس دین پر عمل ہو اور اس کے مطابق معاشرے عمل کریں۔ اعلانی طور پر دین کا نظام قائم ہو اجتماعی عبادات انجام دی جائیں۔ [1] صف:۹۔ صرف امام غائب ہوا ہے دین تو غائب نہیں ہوا، دین کو کیوں تعطیل کر دیں ہم؟ دین کی جو اجتماعی ضرورت رسول اللہﷺ کے دور میں تھی وہ ضرورت آج بھی ہے۔ قانون الہی کی ضرورت اس وقت کے بشر کو بھی تھی اور آج کے بشر کو بھی اسی قانون الہی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قانون الہی نافذ ہو تو اس کے لیے خواہ نخواہ حکومت کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر عبودیت، قانون اور نظم کی ضرورت رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تھی تو یہی ضرورت آج غیبت کے زمانے میں بھی انسان کو ہے۔ اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جس طرح ان زمانوں میں رسول یا امام تھے آج فقیہ ہے جو اس قانون الہی کو نافذ کرے گا اور معاشروں کو کمال کی طرف لے جاۓ گا۔
قانون اور حکومت کی ضرورت
مصنف نے اس کتاب میں ولایت فقیہ کے مقدمات قرآن کریم سے بیان کیے۔ ولایت فقیہ کی بحث میں دقت سے وارد ہونے کے لیے ان مقدمات کا جاننا ضروری ہے۔ انسان آزاد ہے لیکن اس کی آزادی محدود ہے، اسے قانون کی ضرورت ہے۔ الہی قانون کی ضرورت ہے اور اس کو نافذ کرنے والا بھی ضروری ہے۔ اگر صرف قانون ہو لیکن اس کو نافذ نہ کیا جاۓ یا نافذ کرنے والا نا ہو تو یہ قانون کتابوں میں لکھا ہوا رہ جاتا ہے۔ اگر قانون الہی موجود ہو اور حاکم الہی نہ ہو جو اس کو قوت اور اقتدار کے ساتھ نافذ کرے تو لوگ امام علیؑ جیسے افراد کی بات بھی نہیں مانتے۔ سرکشی اور بغاوت کو بالآخر آپ کو حکومت کے ذریعے کنٹرول کرنا ہوگا۔ معاشرے کے استحکام کے لیے حکومت ضروری ہوتی ہے۔ اور یہ استحکام تدریجا آتا ہے ایک د و سال میں نہیں آ سکتا۔ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں:
«لاَ بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِیرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ».
ترجمہ: لوگوں کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا ہو۔[2] سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، خطبہ۴۰۔
نظام امامت پر عقلی مقدمات
علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں امامت پر عقلی دلیل قائم کرتے ہوۓ بالترتیب چند مقدمات ذکر کرتے ہیں۔[3] طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۱۶۹۔
پہلا مقدمہ
یہ زمین اللہ تعالی کی مخلوق ہے۔ اس خلقت ِخدا نے ایک دن نابود ہو جانا ہے سواۓ خدا کے ہر چیز کو فنا حاصل ہونی ہے ۔[4] قصص: ۸۸۔ چاہے کوئی مانے یا نا مانے بہرحال اس نے دنیا سے چلا جانا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ کائنات قلیل مدت کے لیے قرار دی ہے۔ انسانوں کے لیے دنیا مقام ابتلاء و آزمائش ہے۔ اللہ تعالی نے اس دنیا کو جنت نہیں بنایا، آپ جتنی کوشش کر لیں اس کو جنت نہیں بنا سکتے۔ پس کوئی بے وقوف ہوگا جو اس دنیا کو جنت بنانا چاہتا ہے۔ زمین ابتلاء کے لیے ہے۔ انسان آۓ، نعمات سے استفادہ کرے، زحمت اٹھاۓ، مصیبتوں کا سامنا کرے تاکہ نکھر سکے، اللہ تعالی نے دنیا مصیبت اور نعمت کے بیچ میں رکھی ہے۔ کامل طور پر اس میں مصیبت ہے اور نا کامل طور پر نعمت۔
دوسرا مقدمہ
اللہ تعالی نے دنیا کے اندر تزاحم رکھ دیا۔ تزاحم سے مراد یہ ہے کہ ایک کا نفع دوسرے کا نقصان، اور دوسرے کا نقصان پہلے کے لیے نفع قرار پاتا ہے۔ بکرا مرتا ہے اس کو زندگی کھونا پڑتی ہے اور انسان اس کا گوشت کھا کے نفع حاصل کرتا ہے۔ ایک درندہ دوسرے جانور کو چیر پھاڑ کر اپنے کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ درندے کی طبیعت میں چیر پھاڑنا ہے، ہمیں ظلم لگتا ہے لیکن اس کی زندگی کے لیے یہی کام ضروری ہے ورنہ خود مر جاۓ گا۔ بلی اور چوہے کو ایک جگہ پر نہیں رکھ سکتے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تزاحم کی حالت میں ہیں۔ ہر شے خود کا نفع اور دوسرے کا نقصان کر رہی ہے، سار ی خلقت ہی ایسی ہے۔ اگر ہم انسان گندم کے دانوں پر رحم کرنے لگ جائیں اور ان کو دانتوں کے ذریعے چبانا ظلم قرار دے دیں تو خود بھوکے مر جائیں گے، ہم گندم کھاکر اپنا نفع حاصل کرتے ہیں اور گندم کو نقصان۔یہ سب تزاحم ہے۔ ایک مالک ہے ایک مزدور، ایک مدیر ہے ایک کارکن، ان سب کی منفعتیں ہیں۔ جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور حالت تزاحم میں ہیں۔ اس تزاحم کی زندگی میں کیسے زندہ رہا جاۓ؟ اس کا چارہ صرف قانون ہے۔ اگر قانون نہ ہو تو سب مخلوقات نابود ہو جائیں۔ ہمیں قانون بنانا ہوگا اور ہر ایک کو اس کی ضروریات تک محدود کرنا ہوگا۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ یہ آپ کا حصہ ہے اور یہ دوسرے شخص کا حصہ ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایک شخص ہی سب کا حصہ لے لے گا۔
تیسرا مقدمہ
قانون کون بناۓ؟قانون کیسا ہو؟ ظاہر ہے اگر انسان قانون بنائیں گے تو وہ اپنی منفعت کو ترجیح دیں گے اور ایسا قانون بنائیں گے جو ان کے لیے سودمند ہو۔ یہاں سے امامت کا نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ امامت کی ضرورت عقلی طور پر ثابت ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء کرام کو لوگوں کا امام بنا کر بھیجا تاکہ اس کے ذریعے لوگوں میں تزاحم ختم کیا جاۓ۔ ان کے اندر عدالت کا نظام برپا ہو سکے۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام کی بعثت کا ہدف اس طرح سے بیان ہوا:
«لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ».
ترجمہ: بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں۔ [5] حدید: ۲۵۔
عصر حاضر کا تزاحم
ان مقدمات کے بعد اب سوال پیدا ہوگا کہ جس ضرورت کے تحت خدا نے قانون اتارا، شریعت بھیجی اور اس شریعت کو نافذ کرنے والے بھیجے، کیا اس کے نفاذ کی ضرورت آج ختم ہو گئی؟ جس انسانی تزاحم کو ختم کرنے کے لیے یہ سب اہتمام ہوا تھا کیا وہ ضرورت آج کے دور میں ختم ہو گئی؟ یا خود تزاحم ختم ہو گیا ہے؟ اگر عصرِ غیبت میں بھی تزاحم موجود ہے اور قانون الہی کو نفاذ کی ضرورت موجود ہے تو کیسے امامت کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ واقعا بہت تعجب کی بات ہے جب ایک عالم دین نظام امامت کا انکار کرتا ہے۔ کیونکہ اس بات میں تو تمام عالَم اسلام کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کا نظام سیاسی امامت ہے۔ سب مسلمان ہی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ قانون الہی ہونا چاہیے۔ قانون لانے والا بھی اللہ تعالی کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ قانون الہی کو نافذ کرنے والا بھی خدا کی طرف سے ہوگا یا لوگ خود اس کو چن سکتے ہیں؟ یہاں پر شیعہ سنی آپس میں اختلاف کرتے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ قانون کو نافذ کرنے والا حاکم بھی الہی ہونا چاہیے، لوگ خود سے کسی کو اپنا حاکم نہیں بنا سکتے۔لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ حاکم کو لوگ خود چن سکتے ہیں۔
عصر غیبت میں امامت کا نظام
انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کے دور میں تزاحم موجود تھا، اور آج بھی تزاحم موجود ہے۔ اُس دور میں بھی انسانی معاشروں کو الہی قانون کی ضرورت تھی اور آج غیبت کے دور میں بھی یہی ضرورت موجود ہے۔ پانی کم ہے آبادی زیادہ ہے، بجلی کم ہے لیکن اس کا خرچ زیادہ ہے، وسائل کم ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے والے زیادہ ہیں۔ اس تزاحم کے ہوتے ہوۓ کیسے ممکن ہے کہ ہم کہیں آج کے دور میں نظام امامت کی ضرورت نہیں؟ آج کا انسان شدید طور پر تزاحم کا شکار ہے اور آج اس کو پہلے سے زیادہ الہی قانون اور اس کو نافذ کرنے والے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا نعوذباللہ اللہ تعالی نے غیبت کے دور کے لیے اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا ہوا؟ کیا یہ گمان کرنا اللہ تعالی کے بارے میں درست ہے کہ جب تزاحم کم تھا تو اس وقت تو نظام امامت قرار دیا لیکن آج جب تزاحم شدید تر ہو گیا ہے لوگوں کو امامت کے نظام کی ضرورت نہیں؟ آج کے معاشروں کو نجات دینے والا کون ہے؟ الہی قانون کس کے ہاتھوں نافذ ہو؟ آیا آج کے انسان کو الہی قانون کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے الہی حاکم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کون ہے؟ آج کے دور میں تزاحم سے نجات کون دے گا؟ ریاست کا مدیر، رہبر اور حکمران کون ہوگا؟یہ وہ سوالات ہیں جو ولایت فقیہ کو نہ ماننے کی صورت میں ابھرتے ہیں ۔ اور ان کا جواب یہی ہے کہ غیبت کےدور میں انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کی نیابت میں فقہاء یہ ذمہ داری ادا کریں۔
ثقیفہ میں مسلمانوں کا انتخاب اور آج کے انتخاب
۱۱ ہجری میں مسلمانوں کو تزاحم سے بچانے کے لیے حکمران چننے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ثقیفہ میں جا کر خود سے ایک حکمران انتخاب کر لیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر حکمران نہ ہوا تو معاشرے میں تزاحم وجود میں آۓ گا۔ آج بھی تمام انسانی معاشروں کا یہی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے معاشرے میں ریاست کا مدیر کون ہو؟ تزاحم کو ختم کون کرے؟ مسلمین کے امور کس کی نظارت میں ہوں؟ مسلمین کا اختیار اور ان کے فیصلے کون کرے؟ ظاہر ہے ۱۱ ہجری میں انہوں نے ایک شخص کو اپنے میں سے انتخاب کیا تو اس وقت کے حقیقی امام اور شیعہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ کہ حکمران عوام نہیں چن سکتے بلکہ یہ اختیار اللہ تعالی کے پاس ہے۔ حاکم و امام ہمیشہ منصوص من اللہ ہوگا۔ آج پاکستان میں بھی ہم مسلمانوں کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی تزاحم موجود ہے، افراد کے منافع اور نقصان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوۓ ہیں، مقتدر افراد سب کچھ ہڑپ لینا چاہ رہے ہیں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ ان حالات میں تزاحم کو ختم کون کرے؟ قانون الہی کو نافذ کون کرے؟ عوام کا منتخب شخص یہ کام کرے یا آج کے دور میں بھی الہی حاکم ہو سکتا ہے؟ اگر آج کے دور میں اللہ تعالی نے ہمارے لیے کسی کو حاکم مقرر نہیں کیا تو پہلے ادوار میں کیوں مقرر کیا؟ کیا آج غیبت کے دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ضروری نہیں؟ یقینا یہ ایسی بات ہے جو عدل الہی کے برخلاف ہے۔ غیبت امام زمانؑ کا مطلب یہ نہیں کہ امت فساد کا شکار ہو جاۓ، اس پر طاغوت اور بدترین افراد حاکم ہو جائیں اور محرومیت کی زندگی گزاریں۔ غیبت کا دور محرومیت کا دور نہیں بلکہ رُشد کا دور ہے۔
ولایت فقیہ اسلامی مسئلہ
ان مبانی کی تبیین کے بعد ولایت فقیہ کی دلیل واضح ہو جاتی ہے۔ جس طرح امامت اسلامی مسئلہ ہے اسی طرح ولایت فقیہ بھی اسلامی مسئلہ ہے۔ ولایت فقیہ اسلامی معاشرے کے لیے اہم ترین مسئلہ ہے اس کو عراقی معاشرے، ایرانی معاشرے اور پاکستانی معاشروں کے ساتھ خاص قرار نہیں دے سکتے۔ ولایت فقیہ قومی مسئلہ نہیں بلکہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے۔ مسلمانوں کے اوپر کیسے لوگ حکمران ہوں اور کیسا قانون ان پر نافذ ہو؟ یہ بات ایک بڑی حد تک ان کی دنیوی اور اخروی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ ملک کی سیاست انسانوں کے تمام شعبہ جات کو متاثر کرتی ہے۔ سیاست آپ کے دین کو متاثر کرتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو آج کا انسان بہت بخوبی جانتا ہے ممکن ہے ماضی کا انسان اس کو بہتر نہ سمجھتا ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی معاشروں میں نظام اسلامی ہو، قوانین اسلامی ہوں، حاکم اسلامی ہو ورنہ جو نظام آۓ گا مسلمانوں کا رخ اسی طرف موڑ دے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ جب کیمونزم آیا تو پوری دنیا کو متاثر کیا، اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام آیا۔ اور آج جمہوریت کے نظام کو ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا پر اسی نظام کا راج ہے۔ بعض نے جمہوریت کو بھی اسلامی کر دیا۔ خود ایران میں جب جمہوری اسلامی کہا جاتا ہے تو بارہا ذکر ہوا کہ اس سے مراد مغربی جمہوریت نہیں۔ امام خمینیؒ نے یہ کلمہ مغربی مفکرین سے نہیں لیا۔ جمہوریت کی جو تفسیر اسلامی مفکرین بالخصوص رہبر معظم اور امام خمینیؒ کرتے ہیں وہ مغربی جمہوریت سے بالکل جدا ہے۔ اس لیے دونوں کو جدا کرنا ضروری ہے۔[6] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۲۰تا۱۲۲۔