loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۱}

نظریہ مہدویت سے مراد

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

 

اگر مغربی تفکر سے پوچھیں کہ اگر آپ کو پوری دنیا کا نظام دے دیا جاۓ تو آپ دنیا کے لیے کیا کریں گے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی مادی ضروریات پوری کریں گے۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے، رفاہ مضبوط بنائیں گے۔ ٹیکنالوجی کو پھیلا دیں گے اور لوگوں کو ہر قسم کی مشکلات سے نکال کر آزادی دیں گے۔ لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ ہے کہ اس ادعا میں مغربی تفکر سچا ہے یا جھوٹا؟ اور اگر سچا ہے بھی تو کیا اس نظام کو لانے سے انسانیت اپنے ہدف کو پہنچ جاۓ گی یا نہیں؟ اس سوال پر ہم اگلی قسط میں تبصرہ کریں گے ۔ اس تحریر میں ہمارا ہدف اسلامی نظام حکومت کی تبیین ہے۔

اسلامی نظام حاکمیت

ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی نظام حکومت دنیا پر لاگو ہو جاۓ تو کیا ہوگا؟ کیا مسلمان یا ایک مومن اس سوال پر سوچتا بھی ہے یا نہیں؟ یا اسے اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی امید نہیں؟ بطور مسلمان کسی کو امید ہو یا نہ ہو لیکن اللہ تعالی کا قرآن کریم میں وعدہ ہے کہ بہرحال حق غالب آ کر رہے گااور پوری دنیا پر حق کی حاکمیت ہوگی۔ لیکن خدا کے وعدے کے سچ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟ اگر اسلامی نظام حاکمیت پوری دنیا پر نافذ ہو جاۓ اس کے اہداف کیا ہونگے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا اولین ہدف انسان کو کمال اور مقام عبودیت تک پہنچانا ہے۔ اسلامی نظام حاکمیت کا ہدف یہ ہے کہ وہ تمام موانع ختم کیے جائیں جو انسان کے کمال تک پہنچنے میں رکاوٹ ہیں اور اسے حقیقی عبد نہیں بننے دیتے۔قرآن كريم میں وارد ہوا ہے کہ اگر مومنین کو حکومت دے دی جاۓ تو سب سے پہلے وہ یہ کام انجام دیں گے: « الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ » ؛  یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ [1]حج:۴۱۔

نظریہ مہدویت

اسلامی نظام حاکمیت کا عنوان مہدویت ہے۔ مہدویت صرف مکتب تشیع کا نظریہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان فرقے امام  مہدیؑ کے قیام کے قائل ہیں۔کیونکہ  مہدویت کا نظریہ قرآنی نظریہ ہے ۔ جس کے مطابق حق کی حاکمیت اور باطل کے مٹنے کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے۔ حق کی حاکمیت آہستہ آہستہ آتی ہے ۔ آج ہمیں ہر طرف باطل کی حاکمیت نظر آتی ہے لیکن یہ باطل مٹ جانے والا ہےاور حق قائم ہونے والا ہے۔

مہدویت کیا ہے؟

مہدویت یعنی دین، حق اور عدل اور انصاف کا غلبہ۔ مہدویت کو ہمارے معاشروں میں مختلف عناوین سے دیکھا جاتا ہے۔ مثلا امام مہدیؑ سے توسل کرنا، امام مہدیؑ کے نام عريضہ لکھنا یا ان کی ذات سے خود کو متبرک کرنا وغیرہ۔ لیکن امام مہدیؑ سے ان سب عناوین کے تحت ارتباط برقرار کرنا کافی نہیں۔ اس ارتباط کے لیے حتی شیعہ ہونا بھی ضروری نہیں، ممکن ہے کوئی غیر شیعہ یا حتی غیر مسلم امام مہدیؑ سے توسل کرے اورامام اسے عطا کر یں۔ در اصل امام مہدیؑ سے ا س طرح کا ارتباط مہدوی ارتباط نہیں۔ مہدیؑ کو اگر ہم نجات دہندہ، معطی، طبیب اور حق کو غالب کرنے والے کی جہت سے دیکھیں یہ مہدویت کہلاۓ گی۔ مہدویت یعنی نظام امامت کا غلبہ۔ مہدویت یعنی اسلامی تفکر کا غلبہ۔

امامت کے مراتب

امامت کے چند مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ یہ ہے کہ امام کو ان کے منصب امامت کے عنوان سے قبول کر لیں۔ دوسرا مرحلہ ان کی مقبولیت کا ہے ۔ تیسرا مرحلہ امامت کے غلبہ کا ہے جب حق کی حکومت غالب ہو کر کمال کو پہنچ جاۓ۔ مہدویت ،امامت کے تیسرے مرتبے کا نام ہے جب حق کا امام اور اسلامی نظام حاکمیت پوری دنیا پر مقبول بھی ہوگی اور اس کا غلبہ بھی ہوگا۔

مہدویت کا قرآنی تعارف

قرآن کریم اور روایات کی نظر میں مہدویت عالمی اور جہانی سطح پر تین چیزوں کے غلبہ کا نام ہے: ۱۔ غلبہ دین، ۲۔ غلبہِ حق، ۳۔ غلبہ عدل و انصاف۔متعدد آیات و احادیث مبارکہ میں مہدویت کو ان عناوین سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس ذمہ داری اور وظیفہ کو جو شخص عملی جامہ پہنائے گا اسے دین اسلام نے ’’مہدی‘‘ کے لقب سے موسوم کیا ہے۔ پس مہدویت ایک عالمی نظریہ ہے جس کے مطابق  دنیا بھر کی تمام ملتیں اور قومیں ایک وحدت کا روپ دھار کر ایک طرف گامزن ہوں گی۔ پس مہدویت ایک وظیفہ و ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے والا ’’مہدی‘‘ کہلاتا ہے۔ مکتب تشیع کے مطابق عملی طور پر مہدی بننے کی سعادت دنیائے امامت کے بارہویں امام حجت بن الحسنؑ کو حاصل ہے جبکہ اہل سنت کے مطابق یہ شخصیت پیدا ہو گی یا بعض علماء اہل تسنن کے مطابق پیدا ہو چکی ہے۔ درج ذیل سطور میں ہم مہدویت کے تین عناوین کو مختصر طور پر زیر بحث لاتے ہیں:

۱۔ غلبہ دین

جیسا کہ بیان ہوا اسلامی نظام حاکمیت یعنی  مہدویت کے آنے کی صورت میں دین کا غلبہ حاصل ہو جاۓ گا۔ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ اس نے دین حق کو پوری دنیا پر نافذ کرنا ہے۔اللہ تعالی نے دین اور انبیاء کرامؑ کا سلسلہ شروع ہی اس لیے کیا تھا کہ دین کا غلبہ ہو۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:« هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ » ؛ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔[2] توبہ:۳۳۔ دین کو اللہ تعالی نے اس لیے نہیں بھیجا کہ لوگ گھروں میں ایک کونے میں بیٹھ کر دین کا ورد کریں بلکہ دین اس لیے آیا ہے کہ پوری دنیا پر ہر شعبے میں دین کی حاکمیت ہو۔

۲۔ غلبہ حق

ہر وہ امر جو واقعیت کے مطابق نہیں ہے اسے باطل کہتے ہیں۔ باطل کے مقابلے میں لفظ حق استعمال ہوتا ہے۔ حق یعنی ہر وہ امر جو واقعیت کے مطابق ہو۔ قرآن کریم کے مطابق اگر اسلامی نظام حاکمیت یعنی مہدویت کا نظام آ جاۓ تو حق کا غلبہ ہوگا اور باطل مٹ جاۓ گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:« وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا » ؛  اور کہہ دیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔[3] اسراء:۸۱۔

۳۔ غلبہ عدل و انصاف

مہدویت کے غلبے کی صورت میں عدل اور انصاف قائم ہو جاۓ گا۔ حضرت امام مہدیؑ کےمتعلق روایات سنی شیعہ ہر دو منابع میں وارد ہوئی ہیں۔ بالخصوص مندرجہ ذیل مشہور حدیث کہ جو شیعہ اور سنی ہر دو محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے لیکن سب کا مضمون ایک مطلب پر دلالت کرتا ہے۔اس حدیث میں امام مہدیؑ کے قسط و عدل کے قائم کرنے کا بیان وارد ہوا ہے:« هُوَ الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلًا وَ قِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً »؛ وہ مہدی جو زمین کو عدل اور قسط سے اس طرح سے بھر دیں گے جس طرح سے وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوگی۔[4] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۸۔ [5]صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴،ص۱۷۷۔[6]صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱،ص۱۶۱۔[7] صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۵۸۔ [8] نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبة للنعمانی، ج۱،ص۱۸۹۔ [9] طوسی، محمد بن حسن، الغیبة للطوسی، ج۱، ص۵۲۔ [10] قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، ج۱، ص۴۵۔ [11] احمد بن حنبل، مسند احمد، ج۱۸،ص۲۰۵۔ [12] ابوداود، سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابی داود، ج۶،ص۳۴۱۔ [13] ترمذی، محمدبن عیسی، سنن ترمذی، ج۴، ص۵۰۵۔ [14] ابن ابی شیبہ، ابوبکر، مصنف ابن ابی شیبہ، ج۷،ص۵۱۲۔ [15] طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۱۳۶۔ [16] ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویہ، ج۴، ص۹۵۔ [17] البانی، ناصرالدین، صحیح الجامع الصغیرو زیادتہ، ج۲، ص۹۳۸۔ [18] ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۴، ص۷۰۔ [19] ذہبی شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۷۲۔ ان تین ابواب سے امام مہدیؑ سے ربط قائم کریں تو مہدویت جنم لیتی ہے۔

مہدویت اور ہماری ذمہ داری

جب بھی انسان امام مہدیؑ سے مہدویت کے عنوان سے ربط قائم کرتا ہے ، یہ رابطہ حتما اسے وظیفہ اور ذمہ داری عطا کرتا ہے۔ در اصل شیعہ ہے ہی وہ جسے امامت  کی طرف سے کوئی وظیفہ اور ذمہ داری ملی ہے۔ اگر کوئی شخص خود کو  شیعہ کہتا ہے لیکن خود کو کسی وظیفہ اور ذمہ داری کا پابند نہیں سمجھتا وہ حقیقی  شیعہ نہیں۔ مہدویت ہمیشہ ذمہ دار اور وظیفہ شناس بناتی ہے۔امام مہدیؑ کے منتظر اور مہدوی انسان کی پہلی ذمہ داری امام کی نصرت کرنا ہے۔ ہم امام مہدیؑ کی کیا نصرت کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم امام مہدیؑ کی اطاعت کر کے ان کے اہداف کو پورا کرنے میں نصرت کر سکتے ہیں۔ ان کے اہداف کے لیے مقدمات فراہم کر سکتے ہیں۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ » ؛ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا: کون ہے جو راہ خدا میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔[20] صف:۱۴۔ اللہ تعالی کی مدد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ در اصل حجت الہی کی نصرت کرنا نصرت الہی ہے۔ اگر ہم نے اپنے وقت کی حجت کی نصرت کی گویا ہم نے اللہ تعالی کی نصرت کی۔

نصرت امام کیسے کریں؟

نصرت امام کیسے انجام دیں؟ جو اہداف ہمارےزمانے کی حجت کے اہداف ہیں، ان اہداف کو پورا کرنے کے مقدمات فراہم کریں،ہر وہ کام جو امام مہدیؑ نے انجام دینا ہے اس کی راہ ہموار کرنا شروع کر دیں،مثلا امامؑ نے حق کو غلبہ عطا کرنا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے تئیں حق کو غالب کرنے کی کوشش کریں۔ حتی اپنی ذات کی حد تک، اپنی ذات سے باطل کو ختم کر کے حق کو غالب کر دیں یہ بھی نصرت امام ہے۔ امیرالمومنین امام علیؑ کا ارشاد مبارک ہے:« أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اِجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ » ؛ پرہیزگاری، سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں  میرا ساتھ دو۔[21]سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۵۔[22] دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ج۲، ص۱۷۔ اگر ہم حرام کام سے بچتے ہیں امام کی نصرت کر رہے ہیں۔ معاشرے سے گناہ ختم کریں، معروف کو قائم کریں،دین کو غالب کریں ، معاشرے سے ظلم کو ختم کریں یہ سب نصرت امام ہے۔ کیونکہ امام مہدیؑ کا ایک ہدف ظلم کا خاتمہ ہے آج اگر کوئی شیعہ معاشرے سے ظلم کو ختم کرتا ہے اس نے مہدویت کی راہ ہموار کی۔ لیکن اگر ظلم کے مقابلے میں خاموش رہا یا غیر جانبدار رہا گویا اما  م مہدیؑ کے ظہور میں مانع بنا ہے۔ دین پورے جہان میں ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے ،شیعہ پورے جہان میں اسلامی حکومت چاہتا ہے۔ تشیع کی نگاہ بہت بلند ہے۔ اس لیے پوری دنیا میں شیعہ کو بہت خطرناک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، پوری دنیا کی حکومتیں شیعہ سے ڈرتی ہیں کیونکہ شیعہ ان کے خلاف قیام کو واجب اور ان سے سازگاری شرعی طور پر درست نہیں سمجھتا۔ [23] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔

منابع:

منابع:
1 حج:۴۱۔
2 توبہ:۳۳۔
3 اسراء:۸۱۔
4 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۸۔
5 صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴،ص۱۷۷۔
6 صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱،ص۱۶۱۔
7 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۵۸۔
8 نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبة للنعمانی، ج۱،ص۱۸۹۔
9 طوسی، محمد بن حسن، الغیبة للطوسی، ج۱، ص۵۲۔
10 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، ج۱، ص۴۵۔
11 احمد بن حنبل، مسند احمد، ج۱۸،ص۲۰۵۔
12 ابوداود، سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابی داود، ج۶،ص۳۴۱۔
13 ترمذی، محمدبن عیسی، سنن ترمذی، ج۴، ص۵۰۵۔
14 ابن ابی شیبہ، ابوبکر، مصنف ابن ابی شیبہ، ج۷،ص۵۱۲۔
15 طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص۱۳۶۔
16 ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویہ، ج۴، ص۹۵۔
17 البانی، ناصرالدین، صحیح الجامع الصغیرو زیادتہ، ج۲، ص۹۳۸۔
18 ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۴، ص۷۰۔
19 ذہبی شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۷۲۔
20 صف:۱۴۔
21 سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، مکتوب۴۵۔
22 دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ج۲، ص۱۷۔
23 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔
Views: 263

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حق کی بالا دستی
اگلا مقالہ: اصلاحی تحریک کے ابتدائی خدوخال