loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۲}

اصلاحی تحریک کے ابتدائی خدوخال

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہم نے گزشتہ اقساط میں بیان کیا کہ مغربی جمہوری نظام میں اکثریت  حاکم چنتی ہے۔ اس حاکم کا معیار کیا ہے؟حاکم کیسا ہو اور کیسا نہ ہویہ اہم نہیں ہوتا بلکہ یہ اہم ہوتا ہے کہ کس شخص کو زیادہ ووٹ دیے گئے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ پڑیں گے وہی حاکم ہوگا۔ لیکن الہی نظام میں یہ معیار قابل قبول نہیں ہے۔ اکثریت حاکم ہونے کا معیار نہیں ہو سکتی۔ ہاں! ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلامی حاکم کو عوام قبول نہ کرے اور وہ پھر بھی حاکم ہو، بلکہ اسلام جبری حکومت کے خلاف ہے۔ ایک الہی حاکم بھی جبری طور پر اپنی حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی معاشروں کی تدبیر اور تعمیر چاہتا ہے،دراصل معاشرے کی تربیت کرنا مقصود ہے۔ تربیت و تعمیر جبر سے نہیں بلکہ اختیار اور خود عوام کے ارادے سے یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ وگرنہ ایسا ہو سکتا تھا کہ کوئی ایسا حاکم آسمان سے اترتا جو زبردستی سب کو ہی مسلمان،مومن بناتا اور ان کو غیر شرعی کام کرنے ہی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ خلقت کے ہدف کے ہی خلاف ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے معاشروں کو آزاد بھی نہیں چھوڑا بلکہ اس کی تربیت کے لیے نظام مقرر فرمایا ہے۔ اس نظام میں حاکم کیسا ہوگا؟اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں جاننا ہوگا کہ اسلام میں حاکمیت اور حکومت کا تصور کیا ہے؟

وحی کی حکومت

جب ہم اسلامی حکومت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کسی شخص یا بشر کی حکومت مراد نہیں ہوتی۔ اسلامی حکومت سے مراد وحی کی حکومت ہے۔ اسلام وحی کی حکومت چاہتا ہے۔ وحی کی حکومت سے مراد اللہ تعالی کی حکومت ہے،جو بشر کے توسط سے قائم ہوگی لیکن ہوگی در اصل اللہ تعالی کی حکومت۔ اسلامی حکومت میں حاکم وحی کے تایع ہے۔ اسلامی حاکم  متبوع نہیں بلکہ خود بھی تابع ہوتا ہے۔ کس کے تابع؟وحی کے تابع محض۔ در اصل اس کی مرضی اور حکومت نہیں چلنی بلکہ وحی کی حکومت کارفرما ہے۔ ہمیں یہاں پر وحی پر متمرکز ہونا ہوگا،کیونکہ اسلامی حکومت کو وحی کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ خود وحی صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ مختص ہے،اس لیے وحی کو سمجھنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات اہم ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور حاکمیت اسلامی

رسول اللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں ۔ ان کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ وحی کی حکومت کو جاننے کے لیے اس شخصیت کا جاننا ضروری ہے جس پر وحی نازل ہوئی اور جس نے وحی کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ رسول اللہ ﷺ نے قبل از بعثت جو زندگی گزاری سب کو اپنے کردار اور گفتار سے متاثر کیا۔ اعلان نبوت کے بعد مکی زندگی کے تیرا سال بہت مشقت سے گزارے۔مشرکین مکہ آپؐ کے جانی دشمن بن گئے۔[1] بقرہ: ۲۰۴۔ مکہ میں  ان کی توہین [2] توبہ:۶۱۔ اور شخصیت کشی کی جاتی،مذاق اڑایا جاتا[3] انبیاء:۳۶۔ [4] توبہ:۶۴۔ ، بچوں کو آپ کو تنگ کرنے کے لیے پیچھے لگایا جاتا، طعنےتشنیع[5] توبہ:۵۸۔ ، دیوانہ ،مجنون [6] حجر:۶۔ ،جادوگر [7] زخرف:۳۰۔ اور شاعر[8] صافات: ۳۶۔ کہہ کر معاشرے میں آپؐ کی تحقیر اور تکذیب کرنے کی کوشش کی جاتی۔[9] مومنون:۸۔ [10] مجادلہ:۸۔ جاسوسی، سازشیں [11] نساء:۸۱۔ ،جھوٹے پروپیگنڈے[12] مائدہ:۴۱۔ اور قتل کی دھمکیاں[13] توبہ:۴۸۔ [14] طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۰۔ [15] توبہ:۷۴۔ [16] طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۹۔ دی جاتی تھیں۔ قرآن کریم میں بہت سے موارد میں وارد ہوا ہے جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی اور فرمایا کہ یہ نبی مجنون اور شاعر وغیرہ نہیں ہیں بلکہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں وہ کلام میں اللہ کا کلام ہے۔[17] نجم:۴۔

شعب ابی طالب کی سختیاں

جب مشرکین مکہ آپ کی دلیلیں سن کر عاجز اور آپ کو ڈرا دھمکا کر چپ کرانے میں عاجز ہو گئے تو سب قبائل نے متفقہ طور پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب بھیج دیا۔ سارے معاشرے نے ایک طرح سے بائیکاٹ کر دیا اور سب کو کہہ دیا گیا کہ ان کے ساتھ کوئی بھی معاشرت اور آنا جانا نہیں رکھے گا۔ یہ وہ جگہ تھی جہأں سر چھپانے کو جگہ اور کھانے پینے کے لیے کچھ میسر نہ تھا، اس بیابان میں تین سال گزارے۔جب یہ تین سالہ دور گزرا اور واپس ہوۓ تو ہجرت کا حکم آ گیا۔

رسول اللہ ﷺ ہجرت کے بعد

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک نبی جسے معاشرے نے رد کر دیا، اس کے ساتھیوں کو قتل اور قید کیاگیا ہو، جب اپنے ہی وطن سے اس کو ساتھیوں سمیت نکال دیا گیا تو اس نے ہجرت کے بعد کیا کیا ہوگا؟ اگر آج کی سوچ رکھنے والے ہم جیسے افراد وہاں ہوتے تو کیا کرتے؟مثلا ہم فرض کرتے ہیں، ہم نے اپنے ہی علاقے میں ایک اصلاحی تحریک شروع کی ہے، اکثریت نے ہمیں رد کر دیا، ساتھیوں کو زد و کوب کیا خود ہمارا پہلے بائیکاٹ کیا اور بعد میں ہجرت پر مجبور کر دیا، ان حالات میں ہم بنا کسی تیاری کے اپنے ساتھیوں کو کسی اور جگہ بھیج دیتے ہیں اور خود بھی بغیر کوئی زیادہ اہتمام کیے ہجرت  کر جاتے ہیں، اگر ہم ہوں تو اپنا اور اپنے لٹے پٹے ساتھیوں کے لیے سب سے پہلے ہم کیا کریں گے؟سب سے پہلے مثلا اپنے ساتھیوں کے رفاہی مسائل حل کریں گے،کوئی لنگر خانہ کھولیں گے یا ان میں سے کوئی بیمار ہے تو ان کے لیے ہسپتال بنوائیں گے، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی ادارہ بنائیں گے، یا جن کی شادیاں نہیں ہوئیں ان کی شادیاں کروائیں گے۔ آج جب کوئی تحریک یا اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہ باتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے کیا کیا؟سب سے پہلے ریاست تشکیل دی۔انہوں نے حکومت تشکیل دی اور دوسرا کام جو فوری طور پر انجام دیا وہ مسجد بنائی۔

حکومت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں

جب تک حکومت آپ کے پاس نہیں ہے، آپ اجتماعی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔معاشرے کی اصلاح کی یہ روشیں ہمیں سیرت رسول اللہ ﷺ سے سیکھنی چاہئیں۔ آج اگر کوئی معاشرے میں واقعی تبدیلی یا مخلوق خدا کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہسپتال بنوا دیں، روڈیں بنوا دیں؟تعلیمی ادارے بنوادیں؟ یا اپنے بندے بڑی بڑی پوسٹوں پر لگوادیں؟کیا کریں کہ ہم بھی مضبوط ہو جائیں اور معاشرے کو بھی تبدیل کر سکیں؟ یہ سب کام جو ہم نے بیان کیے ہیں ان سب سے آپ ایک حد تک تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن معاشرہ اس سے نہیں بدل سکتا۔ لیکن اگر آپ حکومت بناتے ہیں تو سب کچھ آ جاۓ گا،رفاہ بھی آ جاۓ گا، ادارے بھی بن جائیں گے اور باقی سب بھی درست سمت میں حرکت کرے گا۔یہی مدینہ کی سرزمین پر بھی ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اس سرزمین پر اللہ تعالی نے اپنی برکات کا نزول فرمایا۔ ان کی بھوک کو ختم کیا اور رزق نازل کیا۔

تبلیغی جماعت اور تشیع میں فرق

ایک اصلاحی تفکر وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، اس تفکر کے مطابق اگر آپ معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو عوام میں رفاہ لے آئیں، ہسپتال، روڈیں، یونیورسٹیاں، اور فیکٹریاں لگا دیں۔ جب عوام کا رفاہ ٹھیک ہو جاۓ گا سب مسائل درست ہو جائیں گے۔ دوسرا تفکر تبلیغی جماعت والوں کا ہے۔ صوفیاء بھی اسی منہج کے قائل ہیں ان کے بقول افراد میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں، جامع اسلام نہیں بلکہ محدود اسلام جس میں صرف عبادات اور اخلاقیات ہیں اور بس۔ تبلیغی جماعت کے مطابق ہمیں گھر گھر اور ہر مسجد میں جا کر مسلمانوں کو نماز پڑھوانے پر آمادہ کرنا چاہیے،ظاہری طور پر ان کو داڑھی رکھوادینے پر تیار کرنا چاہیے۔سب لوگ اسی طرح سے مومن بن جائیں گے۔اور معاشرہ سدھر جاۓ گا۔  تشیع ان محدود تفکرات سے مبراء ہے۔ مکتب تشیع رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اختیار کرتا ہے اور اس بات کا قائل ہے کہ بغیر اسلامی حکومت کی تشکیل کے آپ معاشرے میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ خود امام زمانؑ اگر آج تشریف لے آئیں تو کیا کریں گے؟ وہ بھی حکومت تشکیل دیں گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حکومت تشکیل دی۔       [18] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۲۔

Views: 100

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نظریہ مہدویت سے مراد
اگلا مقالہ: حکومت اسلامی بنیاد وحی الہٰی