loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۳۰}

حق کی بالا دستی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

ہم نے گزشتہ قسط میں بیان کیا کہ اسلامی نکتہ نظر سے اکثریت یا اقلیت حاکمیت کے انتخاب میں معیار نہیں۔اور اسی سے اسلامی تفکر اور مغربی تفکر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اسلام کا شعار حق ہے جبکہ مغربی تفکر کا شعار اکثریت ہے۔ اسلام کے مطابق حق کو اگر اقلیت مانے اور اکثریت نہ مانے تب بھی حق، حق ہے۔ اور باطل کو چاہے اکثریت مان لے اور اقلیت نہ مانے تب  بھی  باطل، باطل ہی رہے گا۔ برخلاف مغربی تفکر کے کہ وہاں اکثریت جس امر کو مان لے اسی کو حق تصور کر لیا جاتا ہے۔

اکثریت کی ذمہ داری

اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسلمانوں کا معاشرہ پہلے آۓ اور شناختِ حق حاصل کرے۔ آپ نے اقلیت اور اکثریت کو نہیں دیکھنا کہ وہ کیا چاہتے ہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ حق کیا ہے؟اسلام میں حق ثابت ہے متغیر نہیں ہے۔ مغربی تفکر کے مطابق حق ثابت بھی نہیں ہے اور متغیر بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ممکن ہے آج کوئی چیز اچھی ہو لیکن بعد میں بری ہو جاۓ، یا ممکن ہے کوئی بات آج صحیح لگ رہی ہے کل بدل کر بری بن جاۓ۔ مثلا ایک دور تھا جب ہمجنس بازی مغرب میں درست شمار نہیں ہوتی تھی اور آج اسی کو قانونی شکل دی جارہی ہے۔ معلوم ہوا ان کے ہاں حق وہ ہے جس کو وہ مان لیں۔جبکہ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ جو چیز حق ہے وہ قیامت تک حق ہی رہے گی۔ جیسا کہ رہبر معظم کی کتاب ۲۵۰ سالہ انسان ہے۔ رہبر معظم نے آئمہ معصومینؑ کی ۲۵۰ سالہ زندگی کو ایک ایسے انسان کی زندگی سے تشبیہ دی ہے جس نے ۲۵۰ سال عمر کی ہے۔ ایک ہی انسان ہے لیکن کبھی امیرالمومنینؑ کی شکل میں جنگ کر رہا ہے اور کبھی امام حسنؑ کی شکل میں صلح، کبھی امام حسینؑ کی شکل میں قیام کر رہا ہے اور کبھی امام صادقؑ کی شکل میں درس و تدریس۔ اور یہی انسان امام مہدیؑ کی شکل میں غیبت میں چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر امام مہدیؑ ، امیرالمومنینؑ کے دور میں ہوتے تو وہی کام کرتے جو امیرالمومنینؑ نے کیا۔ اور اگر امیرالمومنینؑ ، امام مہدیؑ کے زمانے میں ہوتے تو غیبت اختیار کر تے۔ تمام آئمہ معصومینؑ کی شخصیت ثابت ہے متغیر نہیں، یعنی ایسا نہیں کہ کسی امام کا مزاج اور شخصیت صلح جو تھی تو اس نے صلح کی اور دوسرے امام کا مزاج انقلابی و جنگی تھا تو انہوں نے جنگ کی ہو،حق ثابت ہے متغیر نہیں۔اکثریت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آئیں اس حق کو پہچانیں اور جب پہچان لیں اس پر عمل کریں۔

حق کا منجانب اللہ ہونا

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: « الحَقُّ مِنْ رَبِّک » ؛ حق صرف وہی ہے جو آپ کے رب کی طرف سے ہو۔[1] بقرہ:۱۴۷۔ حق کو اقلیت اور اکثریت وجود میں نہیں لاتے بلکہ حق پہلے سے موجود ہے اکثریت نے جا کر صرف اس کو لینا ہے۔حق رب کی طرف سے ہے اور وہ وحی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ وحی کےعلاوہ اور کوئی امر حق نہیں ہو سکتا۔ ہم آئمہ معصومینؑ کی حقانیت پر سب سے پہلی دلیل جو لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سب معصوم ہیں اور صرف وحی کی بات کرتے ہیں۔ جو صرف وحی کی بات کرتا ہے صرف وہی رہبر ہو سکتا ہے۔جو وحی ہے وہی حق ہے چونکہ وحی رب کی طرف سے ہے اس لیے حق ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ » ؛  یقینا یہ (قرآن) معزز فرستادہ کا قول ہے۔[2] تکویر:۱۹۔ اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «  وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شاعِرٍ » ؛ اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔[3] حاقہ:۴۱۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں قرآن کریم میں ذکر ہوا:
« وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحى » ؛ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے۔[4] نجم:۳ تا۴۔ رسول اللہ ﷺکی ہر بات الہی بات ہے۔ جو کچھ بھی رسول اللہﷺبیان فرماتے ہیں وہ ہواۓ نفس نہیں ہوتا بلکہ رب کی بات ہوتی ہے۔ایک اور آیت کریمہ میں اس طرح سے وارد ہوا ہے:« تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعالَمِينَ »؛ یہ عالمین کے رب کی طرف سے نازل کردہ ہے۔[5] واقعہ:۸۰۔[6] حاقہ:۴۳۔ پس حکومت اسلامی کا ایک نام حکومت وحی ہے۔ کیونکہ حکومت اسلامی خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کا آغاز وحی ہے۔ اس کا قانون وحی ہے۔ لوگوں کا وظیفہ اس وحی کی اتباع ہے۔

مغرب کا حق کو ایجاد کرنا

مغربی تفکر یہ ہے کہ حق پہلے سے موجود نہیں ہے اور یہ تفکر کسی وحی کو نہیں مانتا۔ اس لیے حق کوخود ایجاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس کو اکثریت مان لے وہی حق بن جاتا ہے۔ مثلا اگر ایک معاشرہ میں پہلے حجاب رائج تھا اور اب برہنہ ہونا چاہتا ہے تو کہیں گے کہ اگر اکثریت برہنہ ہونا چاہتی ہے تو یہی حق ہے۔ لذا اب حجاب کو غیر قانونی بنا رہے ہیں۔ اس سےملتا جلتا نظریہ اہل سنت کے ہاں بھی موجود ہے۔ اہل سنت اجماع کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر علماء اہل سنت کسی بات پر اجماع کر لیں تو وہ بات حق بن جاتی ہے۔ مثلا اہل سنت علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ سب صحابہ عادل ہیں۔ اس کے بر عکس اہل تشیع کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں سب کے سب علماء بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ علماء کا ایک بات پر اجماع کرلینا حجت نہیں ہے۔بلکہ ضروری ہے کہ وہ حق بات پر اجماع کریں اگر حق معیار نہیں ہے تو چاہے لاکھوں علماء بھی اجماع کرلیں وہ بات درست نہیں ہو سکتی۔

حکومت اسلامی کا قیام

اگر ایک معاشرے کی اکثریت حق کی شناخت حاصل کر لے او ر اس پر عمل کرے تو حکومت اسلامی تشکیل پاتی ہے۔ جب تک معاشرہ خود آ کر حق کی شناخت نہیں کرتا اور اپنے اختیار سے اس پر عمل نہیں کرتا حکومت اسلامی نہیں بن سکتی۔ یہ لوگ ہیں جو حکومت بناتے ہیں اور قانون پر عمل کرتے ہیں۔ جب تک لوگ خود الہی حاکم کو آ کر قبول نہیں کرتے وہ الہی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ خود حاکم کے انتخاب میں لوگ عمل دخل نہیں رکھتے ، اس کا انتخاب خدا نے کرنا ہے لیکن وہ زبردستی عوام پر حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ حتی امیرالمومنینؑ نے بھی جبری حکومت قائم نہیں کی۔ عوام کی اکثریت نے ان کو بطور حاکم مانا اپنے اختیار سے، تب جا کر امام نے حکومت قبول فرمائی۔ الہی قانون کے نفاذ میں بھی یہی صورت ہے خود عوام اپنے اختیار سے الہی قانون کو مانے اور خود پر لاگو کرے، جب امیرالمومنینؑ نے الہی فرامین ان لوگوں پر جاری کیے تو انہوں نے ماننے سے انکا رکر دیا، اور یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فدک واپس کیوں نہ لیا۔اگر انہوں نے فدک تلوار کے زور پر لینا تھا تو اسی وقت لے لیتے جب غصب ہوا تھا ،لیکن زور زبردستی لینا مقصد نہیں تھا، یا اسی طرح سے جب امیرالمومنینؑ نے تراویح کی بدعت کو ختم کرنا چاہا تو کوفہ کی مسجد میں’’واعمراہ  واعمراہ‘‘ کی صدائیں بلند ہو گئیں۔ اگر چاہتے تو فوجی بھیج کر اس بدعت کا خاتمہ کر دیتے لیکن یہ امام کی روش نہیں، زور زبردستی تلوار کے زور پر قانون منوانا ڈکٹیٹروں کی سنت ہے امام کی نہیں۔

اکثریت پر دو نظریات

اکثریت کے بارے میں ایک نظر یہ ہے کہ اجراء عمل کے مقام پر اکثریت کے مؤقف کو محترم سمجھا جاۓ گا۔ شناختِ حق اور اس پر عمل کرنے کے حوالے سے بھی اکثریت کی نظر معتبر ہے۔ جب تک اکثریت خود حق کی شناخت نہیں کر لیتی اور اپنے اختیار سے اس پر عمل نہیں کرتی ان پر حق زبردستی مسلط نہیں کیا جاۓ گا۔لیکن حق کو ایجاد کرنے اورخود سے ایجاد شدہ حق معاشرے پر مسلط کرنے کا حق ، اکثریت کو حاصل نہیں۔ اس کے برعکس مغربی تفکر ہے جو اکثریت کو حق کے ایجاد کرنے کا حق دیتا ہے جس کی تفصیل گزشتہ اقساط میں گزری ہے۔ [7] جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔

منابع:

منابع:
1 بقرہ:۱۴۷۔
2 تکویر:۱۹۔
3 حاقہ:۴۱۔
4 نجم:۳ تا۴۔
5 واقعہ:۸۰۔
6 حاقہ:۴۳۔
7 جوادی آملی، عبداللہ ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۹۱۔
Views: 45

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: جمہوری چناؤ یا حاکم کا منصوب ہونا
اگلا مقالہ: نظریہ مہدویت سے مراد