loading
{تمهيد القواعد في شرح قواعد التوحيد}
تمہید القواعد
درس:متن کتاب
استاد: آية الله سيد يوسف إبراهيميان
تحریر: سید محمد حسن رضوی

(قال 2: فإن الأكثرين منهم يزعمون أن القطع بها … أقول: اعلمْ أن مِن…)

قرآن کریم کی روش یہ ہے کہ مخالف نظریہ کو کامل معنی کے ساتھ نقل کرتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے، مثلاً قرآن کریم نے ابلیس اور کفار کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے اور اسے ردّ کیا ہے۔ لہٰذا مخالف کے قول کو بیان کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اسے مکمل معنی کی رعایت کرتے ہوئے ذکر کرنا چاہیے۔ فکری مبانی جتنے قوی اور محکم ہوں اتنا کلام اور گفتگو محکم اور قوی ہو گی۔ مخالف کا قول صحیح یا غلط ہے۔ اگر صحیح ہے تو قابل قبول اور اگر غلط ہے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو غلط ثابت کریں اور اسے غلط کہیں۔ معاد کا جو نظریہ ہمارے معاشرے میں رائج ہے اس پر بہت سے اشکالات کیے جاتے ہیں ۔ ان کا جائزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ معادضروریاتِ دین میں سے ہے اور معاد روحانی بھی ہے اور جسمانی بھی ۔ لیکن جسمانی سے مراد کو بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ مادی جسم جو خواص اور خاصیت رکھتا ہے ضروری نہیں ہے کہ ذہن میں موجود جسم بھی وہی خواص رکھتا ہو۔ اگر ایک نظریہ یا معنی صحیح طرح سے تبیین ہو تو بہت سے اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ اس جگہ پر شارح بھی مخالف نظریات کو نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے نقد کرتے ہیں۔ مصنف پہلے مخالف کے کلام اور اس کے استدلال کو بہترین طریقے سے نقل کرتے ہیں اور اس کے بعد مخالف کے شکوک و شبہات کے تمام موارد کو آشکار کرتے ہیں۔ اس لیے مصنف نے اس رسالہ کو اس طرح سے تحریر کیا ہے کہ جن دلائل سے مخالف نے اپنا نظریہ ثابت کرنے کے لیے اور عرفاء کے کلام کو باطل ثابت کرنے کے لیے استدلال کیا ہے انہی سے استدلال کرتے ہوئے اپنے مطلب کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے طریقِ استدلال کو اختیار کیا گیا ہے۔

بعض ظاہر بین کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ عرفاء مریض و بیمار ہیں اور مرض کی بناء پر خرافات بولتے ہیں، مثلا عرفاء کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے !! اگر ایک وجود ہے تو بقیہ وجودات جنہیں ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ کیا ہے؟! سوء مزاج اور مرض کی بناء پر عارف کی نفسانی قوتیں جواب دے جاتی ہیں ۔ پس عرفاء کی باتیں اور ان کے دعوی ایک ذہنی بیماری ہے جوبے خوابی اور غذا کے کم ہونے کے سبب اور شدید مجاہدت و ریاضت کے باعث لاحق ہوئی ہے۔

اس کے جواب میں مصنف کہتے ہیں کہ یہ استدلال اِنّی ہے کیونکہ معلول کے ثبوت کے ذریعے علت کو ثابت کیا جا رہا ہےجوکہ حکماء اور اہل نظر کا طریق ہے ۔علیت کا بیان تو واضح ہے۔ بعض نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ اعتراض اس لیے درست نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ قطعِ علمی جوکہ کیفیاتِ نفسانی کی قبیل سے ہے کے ذریعے سے سوء مزاج جوکہ کیفِ جسمانی ہے پر  استدلال قائم کیا جائے؟!موضوع بحث عرفان بہت لطیف اور ظریف موضوع ہے اور وہ موضوع توحید ہے۔ ہمیں معاشرے کو توحید کی طرف لے کر جانا چاہیے نہ کہ سینہ زنی کی طرف کیونکہ اگر سینہ زنی کے پیچھے توحید نہ ہو تو اس کا نتیجہ منفی ہے۔ پس ہر چیز کا تعلق توحید سے ہونا چاہیے۔ تمام موجودات اللہ سبحانہ کی آیت ہیں۔پس یہ بیہودہ قسم کی تہمتیں اس لیے لگائی گئی ہیں کیونکہ عرفاء کی بات کو سمجھا نہیں گیا۔ عرفانی شناخت وحدت گرائی پر مبتنی ہے۔ عرفاء کثرت کا انکار نہیں کرتے بلکہ کثرت کو مظہر  اور آلی کے طور پر لیتے ہیں۔ عرفاء جہان میں ایک وجود کے قائل ہیں بقیہ اس ایک وجود کی نشانیاں اور آیات ہیں۔  عرفانی جہان بینی پر بیماری و مرض کا جو اعتراض کیا جاتا ہے اس کی وجہ عارف کی بات نہ سمجھنا ہے۔ عارف کثرت کو تجلی کے طور پر لیتا ہے۔نظام ہستی حیرت انگیز ہے۔ پس یہ اعتراض عارف کا اصل مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ معراج کے موضوع پر ابن سینا کا ایک رسالہ ہے جو بہت دقیق رسالہ ہے۔ اس رسالہ میں ابن سینا نے بیان کیاہے کہ وحی کیا ہے ؟ جیریلؑ کیا ہے؟… وغیرہ۔  ابن سینا نے انتہائی بہترین طریقے سے معراج کو بیان کیا ہے۔

اَقُول ۴:

شیخ الرئیس عظیم شخصیت گزری ہیں جن کی مختلف علوم پر کتابیں ہیں۔ اشارات و تنبیہات کی نمط ۸ سے ۱۰ تک حقیقت میں فلسفہِ عرفان کا بیان ہے۔ شیخ الرئیس بیان کرتے ہیں جو شخص بھی علم کے اعتبار سے اپنے آپ کو غنی و بے نیاز سمجھے اور کہے کہ جتنا پڑھ لیا ہے کافی ہے وہ شخص فطرتِ انسانی سے خارج ہو گیا۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ فرماتے ہیں:{ وكُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيهِ إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّهُ يَتَّسِعُ بِه؛ ہر ظرف اس شیء سے تنگ ہو جاتا ہے جو اس میں ڈالا جاتا ہے سوائے ظرفِ علم کے کیونکہ وہ علم کے ذریعے سے وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے}. [1]سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۶، ص ۱۱۷۹، حکمت ۱۹۶۔ اگر ہم جانور ، حشرات اور جو کچھ دنیا میں ہے اس کو آیاتِ الہٰی قرار دیں تو ان سب کی معلومات علم حقیقی کہلائے گا۔ کیونکہ امام علیؑ کے فرمان میں اور شیخ الرئیس کے کلام میں علم سے مراد علمِ حقیقی ہے ۔ اگر ہر ذرہ کو آیت الہٰی قرار دیں تو پھر زمین شناسی ، فزکس ، کیمسٹری وغیرہ تفسیرِ قرآن کہلائے گی۔ علم حقیقی وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کو لے کر جائے۔ اسی طرح کمالِ حقیقی وہ ہے جس سے اللہ سبحانہ کا تقرُّب حاصل ہو۔ جو عقلی اعتبار سے قوت رکھتے ہیں وہ حقائق کو کچھ دیر سے کشف کریں لیکن حقائق کو محکم اور مضبوط سے پکڑیں گے ۔ البتہ یہاں عقل سے مراد وہ عقل ہے جو دنیا کی زینتوں سے آلودہ نہیں ہے ، وہ عقل جو دنیا کا شکار نہیں ہے جیساکہ بلعم باعور کی عقل گرفتار عقل تھی۔ یہ حضرات قوت رکھتے ہیں کہ نفس میں راسخ تقلید معانی سے چھٹکارا حاصل کر کے کلی حقائق سے تعلق پیدا کر لیں ۔جو صاحبِ کشف و معرفتِ عرفانی کا حامل ہے وہ بدنِ عنصری کی قید میں مقید نہیں ہے۔ مرگ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر نفس چکھتا ہے ۔ کچھ ہے تو نفس چکھتا ہے۔ مرگ ایک امرِ وجودی ہے اس لیے موت کو چکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چکھنے والے اس امر کو ایک حقیقت ہے جو چکھ رہی ہے۔

قول (مصنف) ۵:

وجود کی حقیقت بدیہی ہے اور اس کا مفہوم بھی بدیہی ہے۔ کنہِ وجود تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ کنہِ وجود انتہائی مخفی ہے۔ حقیقتِ وجود بدیہی امر ہے جودلیل و برہان کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ وجودِ ابدہُ البدیہیات ہے۔ وجود کو ثابت کرنے کے لیے اگر اس کے غیر کو لے کر آئیں تو اس کا غیر ’’عدم‘‘ ہے جس سے کسی شیء کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک مفہومِ وجود کا تعلق ہے وہ مفہوم بھی بدیہی ہے اور مشترکِ معنوی ہے۔ مفہومِ وجود کا ایک سے زائد معنی نہیں ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مفہومِ وجود مشترک معنوی ہے۔ پس وجود کا مفہوم بھی بدیہی ہے اور اس کی حقیقت و وجود بھی بدیہی ہے ۔مفہومِ وجود کے بدیہی ہونے کا معنی یہ ہے کہ یہ مفہوم تعریف و تحلیل کا محتاج نہیں ہے جبکہ حقیقتِ وجود کے بدیہی ہونے کا معنی یہ ہے کہ وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وجوداتِ خاصہ سے مراد وہ وجودات ہیں جو خارج میں موجود ہیں ، جیسے واجب الوجود، ممکن الوجود وغیرہ ۔ کَون کو ممکن الوجود سے عرفان میں تعبیر کیا جاتا ہے اور وجود سے واجب الوجود مراد لیا جاتا ہے ۔ اس طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وجوداتِ خاصہ سے مراد وجود اور کَون ہے۔ ’’وجود‘‘ وجوداتِ خاصہ میں مشترک معنوی ہے۔ مشترک کی دو قسمیں کی جاتی ہیں: ۱۔ مشترکِ لفظی، ۲۔ مشترک معنوی۔

(شارح) اَقُول  ۵:

اساسِ مطالب تین ہے: ۱۔ مطلبِ ھل، ۲۔ مطلبِ ما، ۳۔ مطلب لم۔ ھل کے دو مرتبہ ہیں : : بسیط، ۲: مرکب۔ مطلبِ ما کی بھی دو قسمیں ہیں: ۱۔ شرحِ لفظی، ۲۔ شرحِ حقیقی۔ اسی طرح مطلبِ لم سے مراد لمِ ثبوت اور لمِ اثبات ہے۔ ھل بسیط میں شیء کے ہونے اور ہستی کا سوال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ما کے ذریعے سے شرحِ لفظی اور اس کے بعد اس مفہوم کی حقیقت کا سوال کرتے ہیں۔ اس کو اگر ہم ’’وجود‘‘ پر منطبق کریں تو کہیں گے کہ اصلِ وجودِ وجود بدیہی و بینۃ الثبوت ہے۔ وجود کا ہونا بدیہی اور محتاجِ دلیل و اثبات نہیں ہے۔ وجود سے روشن تر کوئی شیء نہیں کہ اس کے ذریعے وجود کی تعریف کی جائے۔ ھل بسیط کےطور پر وجود کا مطالعہ کریں تو وجود کے بارے میں کہیں گے کہ وجود ’’وجود‘‘ ہے۔ یہ وجود کس نوع اور سطح کا ہے تو یہ ھل مرکبہ میں بحث چلی جائے گی۔

مفہوم وجود بدیہی ہے اور ایک حقیقت رکھتا ہے جو نہ قابل تعریف ہے اور نہ محتاجِ اثبات۔ نیز اس کا حقیقی مصداق ایک ہے۔ جب مفہوم وجود ایک سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا تو یہاں موضوعاً  مشترک چاہے لفظ ہو یا معنوی کی گنجائش نہیں ہے۔ نگاہِ قرآن حقیقت میں نگاہِ وحدتی عرفانی ہے۔ سایہ شاخ سے جدا نہیں ، موج دریا سے جدا نہیں ۔ یہ کثرت کیسے دکھائی دیتی ہے؟ یہ کثرت حقیقی نہیں ہے بلکہ اس کثرت کی وحدت کی طرف بازگشت ہے۔  ان حقائق سننا کافی نہیں ہے بلکہ ان کو طعم اور چھکنا چاہیے۔         ہماری حالت تو ایسی ہے کہ ہمارے لیے ایک ٹافی کا ذائقہ توحید کے ذائقہ سے زیادہ لذیذ تر اور شیرین ہے !! علامہ حسن زادہ آملیؒ نے معرفت نفس پر جو کتب تحریر کی ہیں وہ روان شناسی اور علم نفسیات سے مربوط کتابیں نہیں ہیں بلکہ اثبات توحید کی کتابیں ہیں کیونکہ حدیث مبارک ہے:{ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ عَرَفَ رَبَّه }. [2]آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم ، ص ۲۳۲۔ فخر رازی کی مباحث مشرقیہ حقیقت میں ابن سینا کی شفاء کی تلخیص ہے۔ انسان کا اپنے نفس کی معرفت رکھنا ربّ کی معرفت کا باعث ہے۔ جس طرح سے قُوَی نفس کا قوام نفس سے ہے اس طرح تمام موجودات کا قوام حق تعالیٰ سے ہے۔

بداہتِ وجود سے مراد مفہومی بھی ہے یعنی حقیقتِ مفہومی بھی بدیہی ہے اور خارج میں بھی وجود بدینی ہے۔بدیہی سے مراد اثباتِ حقیقت کا نہ ہونا ہے۔ خارج میں وجود بھی قابل اثبات اور محتاجِ ثبوت نہیں ہے۔ ہم خارج میں وجود کو ثابت کرنے کے لیے وجود کے غیر کو لائیں تو اس کا غیر ’’عدم‘‘ ہے۔ اگر خود وجود کو لائیں تو وجود جس وجود سے ثابت کیا جا رہا ہے اس کو کس نے ثابت کیا ؟! اس طرح سے تسلسل لازم آئے گا جوکہ باطل ہے۔ یہاں سے واضح ہوا کہ وجود خارج میں بذات ثابت ہے نہ اس کے غیر نے اس کو ثابت کیا ہے۔ یہاں پر حقیقتِ وجود سے مراد مفہوم وجود ہے۔ اگر ہم مشائی طریق سے چلیں تو کہیں گے کہ مفہوم وجود بدیہی ہے جو یا تو مشترک لفظی ہے یا معنوی۔ اگر مشترک لفظی ہو تو ہر وجود کی حقیقت جدا ہو گی اور ہمیں اصل وجود کا علم نہیں ہو گا۔مشترک لفظی کی صورت میں لازم یہ آئے گا کہ اگر وجود نہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ وجود کا غیر عدم ہو جبکہ یہ بات بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ وجود کے مقابل عدم ہے۔ پس جب تالی باطل ہے تو مقدم بھی اس کی مثل باطل ہے ۔ اگر ہم مشترکِ معنوی کو اختیار کریں تو یہاں وجود کے مقابلے میں عدم قرار پاتا ہے۔ اس لیے مفہوم وجود مشترک معنوی ہے۔

اگر مراد یہ ہے کہ وجود کسی اور وجود کی اساس پر موجود نہیں ہے تو یہ بات درست ہے اور اگر حقیقت وجود عین ماہیت یا جزء ماہیت ہو تو یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ اگر وجود جزء یا عینِ ماہیت ہو اور ماہیت امرِ حقیقی اور وجود امرِ اعتباری ہو تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امر حقیقی ایک اعتباری امر سے متحقق ہو !! نیز اگر مراد یہ ہے کہ جو وجود خارج میں موجود ہے وہ اعتباری یا انتزاعی ہے تو یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ ماہیت خارج میں معدوم نہیں ہے لیکن وجود کے ظل میں ہے، مثلاً درخت ہے، درخت برکتِ وجود سے موجود ہے۔ ماہیت وجود کے وسیلہ سے متحقق ہوتی ہے اور جب ماہیت متحقق ہو رہی ہے وجود کے توسط سے تو کیسے ممکن ہے کہ وجود اصالت نہ رکھتا ہو !! اگر ماہیت ایک امرِ اعتباری کے ذریعے متحقق نہیں ہو سکتی۔ دوسری نگاہ یہ ہے کہ وجود امرِ اعتباری نہیں ہے اور ماہیت جس طرح خارج میں ہے اسی طرح ذہن بھی ہے۔ وجود خارج میں اثر رکھتا ہے اسی طر ذہن میں بھی تاثیر رکھتا۔ ماہیت اور وجود ہر دو کے اصیل ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے۔ اگر ماہیت کو جعل کیا جائے تو ذاتی غیر معلل ہوتی ہے۔

منابع:

منابع:
1 سید رضی، نہج البلاغہ، ج ۶، ص ۱۱۷۹، حکمت ۱۹۶۔
2 آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم ، ص ۲۳۲۔
Views: 7

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: نبوت رسالت اور ولایت
اگلا مقالہ: لفظ اللہ کا معنی