loading

{  وثاقت و عدالت کے امارات و علائم  }

نوادر الحکمۃ اور ابن ولیدکا استثناء

تحریر: سید محمد حسن رضوی

10/09/2022

محمد بن احمد بن یحیی اشعری کا شمار تیسری صدی ہجری کے بلند اور بزرگ محدثین میں ہوتا ہے۔ آپ اپنی کتاب نوادر الحکمۃ کی بناء پر اور محمد بن حسن بن ولید کے بعض اشکالات اور استثناء کی بناء پر علماء رجال کی رجالی مباحث کا حصہ رہے ہیں۔ صاحب نوادر الحکمۃ قم میں ساکن تھے اور اہل قم میں بزرگ شیعہ محدث شمار ہوتے تھے۔ آپ ابن ابی عمیر اور احمد بن ابی نصر بزنطی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ شیخ نجاشی نے اپنی رجال میں تحریر کیا ہے: محمد بن أحمد بن يحيى بن عمران بن عبد الله بن سعد بن مالك الأشعري القمي‏، أبو جعفر، كان ثقة في الحديث. إلا أن أصحابنا قالوا: كان يروي عن الضعفاء و يعتمد المراسيل و لا يبالي عمن أخذ و ما عليه في نفسه مطعن في شي‏ء و كان محمد بن الحسن بن الوليد يستثني من رواية محمد بن أحمد بن يحيى ما رواه عن محمد بن موسى الهمداني، أو ما رواه عن رجل، أو يقول بعض أصحابنا، أو عن محمد بن يحيى المعاذي، أو عن أبي عبد الله الرازي الجاموراني، أو عن أبي عبد الله السياري، أو عن يوسف بن السخت، أو عن وهب بن منبه، أو عن أبي علي النيشابوري (النيسابوري)، أو عن أبي يحيى الواسطي، أو عن محمد بن علي أبي سمينة، أو يقول في حديث، أو كتاب و لم أروه، أو عن سهل بن زياد الآدمي، أو عن محمد بن عيسى بن عبيد بإسناد منقطع، أو عن أحمد بن هلال، أو محمد بن علي الهمداني، أو عبد الله بن محمد الشامي، أو عبد الله بن أحمد الرازي، أو أحمد بن الحسين بن سعيد، أو أحمد بن بشير الرقي أو عن محمد بن هارون، أو عن ممويه بن معروف، أو عن محمد بن عبد الله بن مهران، أو ما ينفرد (يتفرد) به الحسن بن الحسين اللؤلؤي و ما يرويه عن جعفر بن محمد بن مالك، أو يوسف بن الحارث، أو عبد الله بن محمد الدمشقي. قال أبو العباس بن نوح: و قد أصاب شيخنا أبو جعفر محمد بن الحسن بن الوليد في ذلك كله و تبعه أبو جعفر بن بابويه رحمه الله على ذلك إلا في محمد بن عيسى بن عبيد فلا أدري ما رابه فيه، لأنه كان على ظاهر العدالة و الثقة. و لمحمد بن أحمد بن يحيى كتب، منها: كتاب نوادر الحكمة، و هو كتاب حسن؛محمد بن احمد بن یحیی بن عمران بن عبد اللہ بن سعد بن مالک ، اشعری، قمی، کنیت ابو جعفر ہے، حدیث میں ثقہ تھے، البتہ ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ وہ ضعفاء سے روایت نقل کیا کرتے تھے اور مراسیل پر اعتماد کیا کرتے تھے اور انہیں پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ کس سے حدیث اخذ کر رہے ہیں ۔بذاتِ  خود ان پر کسی قسم کا طعن نہیں ہے۔ محمد بن حسن بن ولید نے محمد بن احمد بن یحیی کی احادیث میں سے ان روایات کو استثناء کیا ہے جو انہوں نے محمد بن موسی ہمدانی سے نقل کی ہیں یا جو اشعری نے کسی شخص سے روایت کی ہےیا جن میں انہوں نے ہمارے بعض اصحاب کہا ہے یا محمد بن یحیی معاذی سے نقل کی ہیں یا ابو عبد اللہ رازی جامورانی سے نقل کی ہیں   یا ابو عبد اللہ سیاری سے نقل کی ہیں، یا یوسف بن سخت سے نقل کی ہیں یا وہب بن منبہ سے یا ابو علی نیشاپوری سے یا ابو یحیی واسطی سے ، یا محمد بن علی ابی سمینہ سے، یا انہوں نے کہا ہے کہ حدیث میں ہے یا کتاب میں ہے لیکن میں نے اسے روایت نہیں کیا یا سہل بن زیادآدمی سے نقل کی ہیں یا محمد بن عیسی بن عبید سے منقطع اِسناد سے نقل کی ہیں، یا احمد بن ہلال سے یا محمد بن علی ہمدانی سے ، یا عبد اللہ بن محمد شامی سے، یا عبد اللہ بن احمد رازی سے ، یا احمد بن حسین بن سعید سے، یا احمد بن بشیر رقی سے ،یا محمد بن ہارون سے ، یا ممویہ بن معروف سے ، یا محمد بن عبد اللہ بن مہران سے نقل کی ہیں ، یا جن احادیث میں حسن بن حسین لؤلؤی متفرد ہیں اور جو انہوں نے جعفر بن محمد بن مالک سے نقل کی ہیں، یا یوسف بن حارث سے، یا عبد اللہ بن محمد دمشقی سے نقل کی ہیں۔ ابو العباس بن نوح کہتے ہیں: ہمارے شیخ ابو جعفر محمد بن حسن بن ولید ان سب موارد میں مصیب قرار دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ رحمہ اللہ نے ان کی اتباع کی ہے سوائے محمد بن عیسی بن عبید کے مورد کے ، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی اس کے بارے میں کیا رائے تھی، کیونکہ ظاہری پر محمد بن عیسی بن عبید کے لیے عدالت و وثاقت ثابت ہے۔ محمد بن احمد بن یحیی کی کتابیں ہیں جن میں سے ایک کتاب نوادر الحکمۃ ہے جوکہ بہترین کتاب ہے۔ [1]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۴۸، رقم: ۹۳۹۔

محمد بن احمد بن یحیی اشعری نے چار اماموں امام جواد، امام ہادی، امام عسکری اور امام زمان علیہم السلام کا زمانہ پایا ہے۔ لیکن اشعری نے ان میں سے کسی امامؑ سے براہ راست حدیث نقل نہیں کی کیونکہ وہ ان کے محضر میں یا تو حاضر نہیں ہوئے یا حاضر ہوئے ہوں تو احادیث نقل نہیں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ طوسی نے آپ کو اپنی رجال میں ان افراد میں شامل کیا ہے جو بغیر واسطہ کے آئمہؑ سے روایت نقل نہیں کرتےبلکہ واسطہ کے ساتھ احادیث نقل کرتے ہیں۔ [2]طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۳۸، رقم: ۶۲۶۲/۱۲۔ محدثین نے آپ کی کثیر احادیث اپنی کتب میں نقل کی ہیں۔ کتب اربعہ کے مؤلفین نے آپ سے ۱۰۷۵ ، علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ۹۲ اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں ۱۱۱۱روایات نقل کی ہیں۔ آی اللہ خوئی نے معجم رجال الحدیث میں آپ کی نقل کردہ احادیث کی تعداد ۱۳۱۱ ذکر کی ہیں۔ [3]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۲۶۔محمد بن حسن بن ولید نقّاد عالم رجالی و محدث تھے اور انہوں نے محمد بن احمد اشعری کی احادیث پر اشکالات وارد کیے لیکن اس کے باوجود ابن ولید آپ کی شخصیت پر قدغن نہیں لگا سکے جوکہ آپ کی عظمت اور انتہائی وثاقت پر دلالت کرتی ہے۔ آپ نے بہت سے محدثین نے اخذِ حدیث کیا ہے ۔ آپ کے معروف اور نامور شاگردوں میں سرفہرست سعد بن عبد اللہ اشعری قمی، احمد بن ادریس قمی، محمد بن جعفر بُطّہ قمی اور محمد بن یحیی العطار قمی ہیں۔ تقریبا ۱۰۴ محدثین و رواۃ نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں جن میں بزرگ شخصیات میں سے احمد بن محمد بن خالد برقی، احمد بن محمد بن عیسی ، احمد بن حسن فضّال اور محمد بن حسین بن ابی الخطاب سرفہرست ہیں۔

علم رجال میں بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ محمد بن حسن بن ولید نے جن راویوں کے نام ذکر کیے ہیں ان سے احادیث نہیں لی جائیں گی لیکن جن کا نام درج نہیں کیا تو یہ قرینہ ہے کہ ابن ولید کی نظر میں یہ ثقہ اور قابل اعتماد تھے ورنہ انہیں بھی استثناء میں لے آتے۔ آیت اللہ خوئی نے اس کو قبول نہیں کیا اور اس پر اشکال کیا ہے۔

منابع:

منابع:
1 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۴۸، رقم: ۹۳۹۔
2 طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۳۸، رقم: ۶۲۶۲/۱۲۔
3 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱۵، ص ۲۶۔
Views: 31

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: وثاقت اور عدالت کی شہرت
اگلا مقالہ: رجال کشی کی مختار کے بارے پہلی حدیث