loading
مختار ثقفی کے بارے میں احادیث کی تحقیق
اور تاریخ تطبیقی کے نظریہ کے تحت تحلیل

✏️ تحریر: سید محمد حسن رضوی
10/20/2022

سب سے پہلے ہم جس کتاب سے احادیث کو پیش کر رہے ہیں وہ رجال الکشی ہے جوکہ علم رجال کی سب سے قدیمی اور معتبر ترین کتب میں سے ہے۔ اس کا مصنف ابو عمرو محمد بن عمر کشی ہیں جوکہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں رقم نمبر ۶۰ پر مختار بن ابی عبید سے متعلق احادیث کو شیخ کشی نے ذکر کیا ہے۔ مختار کے باب کے ۸ احادیث شیخ کشی نے نقل کی ہیں۔ ہم ان تمام احادیث کی سندی تحقیق آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

حدیث نمبر ۱:

حَمْدَوَيْهِ، قَالَ حَدَّثَنِي عَنْ يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْمُثَنَّى، عَنْ سَدِيرٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ:
لَا تَسُبُّوا الْمُخْتَارَ فَإِنَّهُ قَتَلَ قَتَلَتَنَا وَ طَلَبَ بِثَارِنَا وَ زَوَّجَ أَرَامِلَنَا وَ قَسَمَ فِينَا الْمَالَ عَلَى الْعُسْرَةِ.
امام باقرؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں کہ مختار کو سب و شتم مت کرو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا بدلہ لیا ہے اور ہماری بیواؤں کی شادیاں کرائیں اور تنگی کے دنوں میں ہم میں مال تقسیم کیا۔[1]کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ج ۱، ص ۱۲۵، رقم: ۱۹۷۔

سندی تحقیق:

اس حدیث کی سند میں پانچ راوی ہیں جن کے نام اور رجالی حیثیت درج ذیل ہے:

۱۔ حمدویہ:

شیح طوسی نے ان کا نام حمدویہ بن نصیر بن شاہی ذکر کیا ہے۔ آپ نے یعقوب بن یزید سے احادیث سن کر لی ہیں، عیاشی نے احادیث نقل کی ہیں۔ آپ کی کنیت ابو الحسن ہے اور اپنے زمانے کی بے مثال شخصیت تھیں ، کثیر علم بھی تھا اور کثیر احادیث نقل کی ہیں، ثقہ ہیں اور بہترین مذہب پر تھے۔ [2]شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۲۱، رقم: ۶۰۷۴/۹۔

۲۔ یعقوب:

اس کا نام یعقوب بن یزید ہے اور نجاشی و طوسی ہر دو نے ان کی وثاقت بیان کی ہے۔ نجاشی لکھتے ہیں کہ آپ کا نام یعقوب بن یزید بن حماد ہے، کنیت ابو یوسف ہے اور انباری و سلمی کی نسبت سے معروف ہیں۔ امام تقیؑ سے روایات نقل کرتے ہیں۔ بغداد منتقل ہو گئے اور ثقہ و صدوق ہیں۔ [3]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۴۵۰، رقم: ۱۲۱۵۔

۳۔ ابن ابی عمیر:

نجاشی نے ذکر کیا ہے کہ آپ کا نام محمد بن ابی عمیر زیاد بن عیسی تھا اور کنیت ابو احمد کنیت تھی اور قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے اور بغداد میں سکونت پذیر تھے۔ امام موسی کاظمؑ اور امام رضاؑ کے صحابی ہیں اور انتہائی جلیل القدر اور بلند منزلت ہیں۔ [4]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۲۶، رقم: ۸۸۷۔ کسی راوی کے بارے میں اگر جلیل القدر اور عظیم منزلت کا بیان آئے تو یہ اس راوی کی وثاقت و عدالت سے بالاتر مرتبہ کو ظاہر کرتی ہے۔

۴۔ ہشام بن المثنی:

 نجاشی نے ہاشم بن المثنی کے عنوان سے ایک راوی کا تذکرہ کیا ہے ۔ ظاہرا ہشام تصحیف ہے اصل میں ہاشم لفظ ہے۔ نجاشی لکھتے ہیں : ہاشم بن مثنی ، کوفی ہیں، ثقہ ہیں ، امام صادقؑ سے روایات نقل کرتے ہیں۔ [5]نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی،ص  ۴۳۵، رقم: ۱۱۶۷۔

۵۔ سدیر:

یہ راوی مجہول الحال ہیں۔ سدیر نام سے تین راوی موجود ہیں اور تینوں کے حالات کتبِ رجال میں وارد نہیں ہوئے۔ پہلے سدیر بن حکیم بن صہیب ہیں جنہیں شیخ طوسی نے امام سجادؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ [6]طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۱۱۴، رقم: ۱۱۳۴۔ ، دوسرے سدیر بن حکیم صیرفی ہیں جنہیں شیخ طوسی نے امام باقرؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ [7]طوسی ، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۱۳۷، رقم: ۱۴۴۲۔، تیسرے سدیر بن حکیم صیرفی ہیں جنہیں امام صادقؑ کے اصحاب میں طوسی نے شمار کیا ہے۔ [8]شیخ طوسی، محمد بن حسن ، رجال الطوسی، ص ۲۲۳، رقم: ۲۳۲۔ آیت اللہ خوئی نے ان تینوں کو ایک ہی شخصیت قرار دیا ہے اور سدیر بن حکیم کے ذیل میں ان تینوں اقوال کو درج کیا ہے۔ [9]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۹، ص ۳۶، رقم: ۴۹۹۲۔
بہرحال سدیر کی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی۔ البتہ توثیق عام کے ضابطوں میں ہم اگر یہ قبول کریں کہ تفسیر قمی میں جن راویوں سے احادیث لی گئی ہیں وہ ثقہ ہیں تو اس کلی ضابطہ کے نتیجے میں سدیر کی وثاقت ثابت ہو جائے گی۔ کیونکہ تفسیر القمی میں حنان بن سدیر اپنے والد سدیر سے روایت نقل کرتے ہیں۔ [10] قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۱۸۸، سورہ مائدہ: ۹۶-۱۰۵۔ آیت اللہ خوئی نے اپنی معجم رجال الحدیث کے مقدمہ میں تفسیر قمی کے راویوں کی توثیق کے ضابطہ کو قبول کیا ہے۔ [11]خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۴۹۔

سند کا حکم:

اگر ہم آیت اللہ خوئی کے توثیق عام کے ضابطے کو قبول کریں اور تفسیر القمی ہم تک پہنچی اس بات کو قبول کریں تو یہ حدیث معتبر کہلائے گی کیونکہ اس کے تمام راویوں کی توثیق فراہم ہو جائے گی اور سند میں اتصال بھی موجود ہے۔ آیت اللہ خوئی کے رجالی مبنی کو ان کے تمام شاگردوں نے بھی قبول نہیں کیا ، مثلا شیخ آصف محسنی نے اپنی کتاب بحوث فی علم رجال میں آیت اللہ خوئی کے اس مبنی کی مخالفت کی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: تفسیر قمی میں علی بن ابراہیم قمی کے تمام مشایخ کی وثاقت کو ہم قبول نہیں کرتے کیونکہ علی بن ابراہیم کے کلام کو ان تمام مشایخ کی وثاقت کو شامل ہونے ثابت نہیں ہے۔ [12]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۷۴۔ اس سے پہلے والی سطور میں شیخ محسنی بیان کرتے ہیں:  إذ ليس لكلامه صراحة ولا ظهور معتد به، في أن رواة رواياته كلهم ثقات ؛ کیونکہ تفسیر قمی کی روایات کے تمام راویوں کے ثقہ ہونے پر  نہ ان کے کلام میں صراحت موجود ہے اور نہ ایسا ظہور ہے جو قابل توجہ ہو۔ [13]محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۷۳۔
پس یہاں سے معلوم ہوا کہ اس حدیث پر رجالی مبانی کے اختلاف سے حکم بھی تبدیل ہو جائے گا۔ نتیجہِ گفتگو کو درج ذیل نکات سے ہم سمجھ سکتے ہیں:
۱۔ یہاں ہمیں معلوم ہوا کہ اس روایت پر تبصرہ کرنے سے پہلے ہمیں مبانی رجالیہ کے مطابق سند کا حکم دریافت کرنا ضروری ہے۔آیت اللہ خوئیؒ کے مطابق یہ حدیث معتبر ہے اور سدیر چونکہ تفسیر قمی کے راوی ہیں اس لیے ان کی وثاقت ثابت ہے۔ آیت اللہ خوئی سے پہلے اس روایت کو علامہ حلی [14]علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ص ۲۷۶۔ اور سید ابن طاووس نے بھی حدیث حسن قرار دیا ہے اور علامہ تقی مجلسی نے روضۃ المتقین میں اس حديث كو حدیثِ صحیح قرار دیا ہے۔ [15]مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱۴، ص۴۵۵۔
۲۔ بعض بزرگ علماء رجال نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ سید علی بروجردی اپنی کتاب طرائف المقال میں لکھتے ہیں: واستحسن طريقة العلامة و”طس”، ولي في ذلك نظر، فإن هشام بن المثنى إما مجهول أو مصحف هاشم؛ علامہ (حلی) اور طس (ابن طاووس) کا طریق مستحسن قرار دیا گیا ہے، لیکن  میری نگاہ میں یہ قابلِ نظر ہے، کیونکہ ہشام بن مثنی یا تو مجہول ہے یا ہاشم سے تصحیف شدہ ہے۔ [16]بروجردی، سید علی، طرائف المقال، ج ۲، ص ۵۸۸۔۔

منابع:

منابع:
1 کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ج ۱، ص ۱۲۵، رقم: ۱۹۷۔
2 شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۴۲۱، رقم: ۶۰۷۴/۹۔
3 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۴۵۰، رقم: ۱۲۱۵۔
4 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۲۶، رقم: ۸۸۷۔
5 نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی،ص  ۴۳۵، رقم: ۱۱۶۷۔
6 طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۱۱۴، رقم: ۱۱۳۴۔
7 طوسی ، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۱۳۷، رقم: ۱۴۴۲۔
8 شیخ طوسی، محمد بن حسن ، رجال الطوسی، ص ۲۲۳، رقم: ۲۳۲۔
9 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۹، ص ۳۶، رقم: ۴۹۹۲۔
10 قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۱، ص ۱۸۸، سورہ مائدہ: ۹۶-۱۰۵۔
11 خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۴۹۔
12 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۷۴۔
13 محسنی، محمد آصف، بحوث فی علم الرجال، ص ۷۳۔
14 علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، ص ۲۷۶۔
15 مجلسی، محمد تقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱۴، ص۴۵۵۔
16 بروجردی، سید علی، طرائف المقال، ج ۲، ص ۵۸۸۔
Views: 27

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: میدان کربلا کے عظیم مجاہد امام سجاد