loading

{  وثاقت و عدالت کے امارات و علائم }

وثاقت اور عدالت کی شہرت

تحریر: سید محمد حسن رضوی

10/09/2022

علماء رجال نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص وثاقت اور عدالت کے اعتبار سے شہرت رکھتا ہے تو یہ قوی ترین امارات اور علائمِ وثاقت میں سے ہے۔ شہید ثانی اس ضمن میں فرماتے ہیں:تعرف العدالة المعتبرة في الراوي بتنصيص العدلين عليها وبالاستفاضة. بأن تشتهر عدالته بين أهل النقل وغيرهم من أهل العلم كمشايخنا السالفين من عهد الشيخ محمد بن يعقوب الكليني قدس سره وما بعده إلى زماننا هذا، لا يحتاج أحد من هؤلاء المشايخ إلى تنصيص على تزكيته ولا تنبيه على عدالته، لما اشتهر في كل عصر من ثقتهم و ضبطهم وورعهم، زيادة على العدالة. وإنما يتوقف على التزكية غير هؤلاء الرواة، من الذين لم يشتهروا بذلك ككثير ممن سبق على هؤلاء. وهم طرق الأحاديث المدوّنة في الكتب غالباً؛ راوی میں جس عدالت کا اعتبار کیا جاتا ہے اس کی شناخت عدالت پر دو عادل مردوں کی نص سے اور استفاضہ سے ہوتی ہے، اس طور پر کہ اس راوی کی عدالت کی اہل نقل اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم میں شہرت ہو، جیسے شیخ محمد بن یعقوب کلینی قدس سرہ کے زمانے اور ان کے بعد کے زمانے سے لے کر ہمارے اس زمانے تک ہمارے گذشتہ مشایخ کی شہرت ہے، ان مشایخ میں سے کوئی بھی اپنے وثاقت و عدالت میں عادلوں کی نص کا محتاج نہیں ہے اور نہ ان میں سے کسی کی عدالت پر تنبیہ کی حاجت ہے، کیونکہ ان کی وثاقت اور ان ضبط و ورع ہر دور میں شہرت کا حامل تھا جوکہ عدالت پر نص سے بڑھ کر ہے۔ ان راویوں کے علاوہ دیگر راوی ہیں جن کی وثاقت و عدالت ان کے تزکیہ پر موقوف ہے ، جوکہ ان میں سے ہیں جن کو اس طرح کی شہرت حاصل نہیں ہے جیساکہ ان سے پہلے کثیر ایسے راوی ہیں ۔ کتبِ احادیث میں مدوّن ہونے والی احادیث کے غالباً طرق یہی ہیں (جن کو شہرت حاصل ہے)۔ [1]شہید ثانی، زین الدین عاملی، الدرایۃ ، ص ۶۹۔

شیخ حر عاملی شہید ثانی سے موافقت کرتے ہوئے اس امارہ کو قبول کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: والحق أن كثيرا من علمائنا المتقدمين والمصنفين المذكورين في كتب الرجال من غير تضعيفٍ، كذلك؛ لما ظهر من آثارهم واشتهر من أحوالهم وإن لم يصرحوا بتوثيقهم في بعض المواضع؛ حق یہ ہے کہ قدماء میں سے ہمارے کثیر علماء اور اسی طرح جن مصنفین کا تذکرہ کتبِ رجال میں آیا ہے میں سے کوئی ضعیف نہیں ہے ، کیونکہ ان کے آثار سے ان پر اعتماد ظاہر ہوتا ہے اور ان کے احوال سے ان پر اعتماد کی شہرت حاصل ہوتی ہے  اگرچے بعض جگہوں میں ان کی توثیق کی صراحت موجود نہیں ہے۔ [2]حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج ۲، ص ۹۲۔واضح بات ہے کہ شیخ حر عاملی کا اس بیان سے مقصود فقط شیعہ اثناعشری امامیہ روایوں میں سے وہ مصنفین ہیں جنہوں نے احادیث پر مشتمل اصول اور کتب تحریر کیں اور ان کو شہرت حاصل تھی  ، نہ کہ ہر وہ فرد مراد ہے جس نے آئمہؑ سے حدیث نقل کی ہے یاحدیث پر مشتمل کتاب تحریر کی ہے جیساکہ سید صدر نے اپنی کتاب نہایۃ الدرایۃ میں نقل کیا ہے۔ [3]صدر، حسن، نہایۃ الدرایۃ، ص ۴۳۰۔

پس معلوم ہوا کہ کسی راوی کی وثاقت کی شہرت کا ہونا بلا شک و شبہ بہترین علامت اور امارہ ہے۔ بلکہ ہر وہ مورد جس میں شہرت کا ہونا متحقق ہو جائے وہ وثوقِ نوعی کا باعث بنتا ہے جیساکہ اس پر شارع کے زمانے سے لے کر آج تک سیرتِ عقلائیہ جاری ساری ہے ۔ متعدد ایسے قرائن اور وثاقت و عدالت پر امارات ایسے ہیں جن کی اصل بنیاد قدماء فقہاء و محدثین میں شہرت ہونا ہے ، جیساکہ مشایخِ اجازہ کا مشایخ ہونے کی بناء پر ثقہ ہونا، کسی راوی سے کثرت سے احادیث کا لینا، کسی راوی کی کثیر احادیث کو قبول کرنا وغیرہ ایسے امارہ اور قرائن ہیں جن سے راوی کی وثاقت یا مدح و حُسن حال کا اطمینان ہوتا ہےاور ان سب امارات کی بنیاد قدماء فقہاء و محدثین کے درمیان شہرت کا ہونا ہے۔

منابع:

منابع:
1 شہید ثانی، زین الدین عاملی، الدرایۃ ، ص ۶۹۔
2 حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج ۲، ص ۹۲۔
3 صدر، حسن، نہایۃ الدرایۃ، ص ۴۳۰۔
Views: 2

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زیارت اربعین
اگلا مقالہ: نوادر الحکمۃ اور ابن ولید کا استثناء