loading
« شرح الکافی : درس نمبر ۶ »
احادیث مہدویت میں نُوَمہ کا تذکرہ
تدريس: آيت الله رضا عابدينی
تدوين: عون نقوی

الکافی کی جس حدیث مبارک کو ہم محورِ گفتگو قرار دے رہے ہیں اس کو  « حدیثِ نُوَمَہ» کہتے ہیں ۔ حدیث نُوَمہ کو شیخ نعمانی نے غیبتِ نعمانی میں امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے۔ امام صادقؑ آغاز میں احادیث کے روایت اور درایت میں فرق کو بیان کرتے ہوئے نقل کی بجائے فہم پر ابھارتے ہیں اور پھر امام علیؑ سے نُوَمہ سے متعلق حدیث کو نقل فرماتے ہیں۔ غیبت نعمانی میں حدیث اس طرح سے بیان ہوئی ہے:{ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُمْهُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ بَعْضِ رِجَالِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ×: خَبَرٌ تَدْرِيهِ خَيْرٌ مِنْ عَشْرٍ تَرْوِيهِ ، إِنَّ لِكُلِّ حَقٍّ حَقِيقَةً ، وَلِكُلِّ صَوَابٍ نُوراً ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا وَاللَّهِ لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مِنْ شِيعَتِنَا فَقِيهاً حَتَّى يُلْحَنَ لَه‏  ، فَيَعْرِفَ اللَّحْنَ ، إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ × قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ: إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا مُظْلِمَةً عَمْيَاءَ مُنْكَسِفَةً لَا يَنْجُو مِنْهَا إِلَّا النُّوَمَة، قِيلَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَمَا النُّوَمَةُ ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا يَعْرِفُونَهُ، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَلَكِنَّ اللَّهَ سَيُعْمِي خَلْقَهُ عَنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَجَوْرِهِم‏  كَمَا كَانَ يُوسُفُ × يَعْرِفُ النَّاسَ‏ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ‏ ، ثُمَّ تَلَا: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُن‏ }؛ وہ حدیث جسے تو سمجھتے ہو ان دس حدیثوں سے بہتر ہے جنہیں تو نقل کرتے ہو، بے شک ہر حقیقت کی ایک حقیقت ہے  اور ہر درستگی کے لیے ایک نور ہے، پھر امام صادقؑ فرماتے ہیں: قسم بخدا ہم اپنے شیعوں میں اس شخص کو فقیہ (غور و فکر کرنے والا) شمار نہیں کرتے جب تک وہ اس کے لیے ایک رمز قرار نہ دیا جائے اور وہ اس رمز کو پہچان لے۔ امیر المؤمنینؑ نے منبرِ کوفہ پر ارشاد فرمایا: تم لوگوں کے پیچھے ایسے فتنے ہیں جو تاریکی میں ڈوبے ہوئے ، اندھے اور نورانیت ختم کر دینے والے ہیں جن سے کوئی نہیں بچ سکتا سوائے نُوَمہ کے، پوچھا گیا: اے امیر المؤمنینؑ ! نُوَمہ کیا ہے؟ امام علیؑ فرمایا: وہ شخص جو لوگوں کو پہچانتا ہو لیکن لیکن لوگ اسے نہ پہچانتے ہوں، جان لو کہ زمین کبھی اللہ عز و جل کی حجت سے خالی نہیں ہوتی ، لیکن اللہ عنقریب اپنی حجت کو اپنی مخلوق سے ان کے ظلم و جور کی وجہ سےغائب کر دے گا جیساکہ یوسفؑ لوگوں کو پہچانتے تھے جبکہ لوگ ان کو نہیں پہچانتے تھے، پھر امام علیؑ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:  [1]نعمانی، محمد بن ابراہیم، غیبت نعمانی، ص ۱۴۱۔ ہم اس حدیث مبارک کے ایک ایک جملے کو دقت سے زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے اور آیات و روایات سے مدد لیتے ہوئے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

دین کا معیار کثرت کی بجائے فہم و فراست:

حدیث مبارک کے آغاز میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں : « خَبَرٌ تَدْرِيهِ‏ خَيْرٌ مِنْ عَشْرٍ تَرْوِيه‏ » ؛ ایک روایت کو سمجھنا، ایک ہزار روایت کو صرف نقل کرنے سے بہتر ہے۔[2] نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ للنعمانی، ص۱۴۱۔  دین ہمیں ظواہر سے بواطن کی طرف گہرائی کے ساتھ جانے کا حکم دیتا ہے۔ دین میں کثرت معیار نہیں ہے بلکہ فہم اور شعور معیار ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ مت دیکھو کہ فلاں شخص کتنی نمازیں پڑھتا ہے اور کتنی کثرت سے روزے رکھتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ امانت دار ہے یا نہیں؟ وعدہ وفا کرتا ہے یا نہیں؟ ایک شخص کے بارے میں امامؑ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔ امامؑ نے فرمایا کہ اس کی عقل کیسے ہے؟ عقل سے کام لیتا ہے یا نہیں؟ ممکن ہے بعض افراد عمل کثیر انجام دیں، لیکن فہم اور بصیرت کے حصول کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ دین کی نظر میں زیادہ عبادات کرنے والوں سے وہ افراد بہت بہتر ہیں جو فہم و شعور حاصل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

ہر حق کی ایک حقیقت 

امام فرماتے ہیں: «  إِنَّ لِكُلِّ حَقٍّ حَقِيقَة »’’بے شک ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘۔ حق خود بہت عظیم امر ہے لیکن اس حق کا ایک باطن اور درون ہے جو اس کے عمق میں چھپا ہے وہ اس حق سے بھی عظیم ہے۔ وہ اس سے لطیف تر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک عمق۔ جس طرح ہر حادثہ کی ایک تعبیر اور تأویل ہوتی ہے۔ یا اس طرح سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمل اور نیت کے مابین نیت اساس ہے۔ نیت ہر عمل کی حقیقت ہوتی ہے۔ یعنی صرف عمل کو نہ دیکھا جاۓ اگر اس کے پیچھے اس کی حقیقت جو کہ نیت ہے اگر وہ خالص ہے تو خود یہ عمل بھی مقبول ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے:« النِّيَّةُ أَفْضَلُ‏ مِنَ‏ الْعَمَل‏ »؛ نیت عمل سے افضل ہے۔[3] الحویزی، عبد علی، تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۲۱۴۔ اگر عمل کی حقیقت کو دقت سے دیکھنا چاہیں تو اس کی نیت ہی در اصل اس کی حقیقت ہے۔ عمل ایک ظاہری حرکت ہے۔ اگرچہ اس ظاہری حرکت میں آداب، شریعت، طریقت اور اخلاق کو ملاحظہ کیا جاتا ہے اور ان کی پابندی سے ہی عمل میں حسن پیدا ہوتا ہے جو کہ حسن نیت کی علامت ہوتا ہے۔ اس عمل کے یہ سب آداب در اصل بدن ہیں اس روح (نیت) کے لیے۔ اگر بدن مریض ہو جاۓ روح بھی مریض ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہر حق کا ایک ظاہر ہے اور ایک حقیقت ہے جو اس کا باطن اور عمق ہے۔ اس لیے دینی دستورات میں بہت تاکید ہوئی ہے کہ نیت اور قربت کا خیال رکھا جاۓ کیونکہ یہی نیت اس عمل کی حقیقت ہے۔

نورانی مراتب پر فائز ہونے کا طریقہ

امام صادقؑ فرماتے ہیں:«  وَلِكُلِّ صَوَابٍ نُوراً » ہر درست عمل کے لیے ایک نور موجود ہے۔ باالفاظ دیگر ہر عمل صالح کا ایک مقام نوریہ ہے۔ انسان اگر کوئی عمل صالح انجام دیتا ہے تو اس کا مقصود خود عمل نہیں ہوتا بلکہ عمل صالح کی انجام دہی سے عبور کر کے مرتبہ عمل سے گزرنا ہے اور اس عمل کے مقام نوریہ تک پہنچنا ہے۔ اس عمل کو «عبور از حق بہ حقیقت» بھی کہہ سکتے ہیں۔ پس ہم جب بھی عمل صالح انجام دیں صرف مرتبہ عمل پر رک نہ جائیں، حقیقت عمل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ ہر عمل کو اس کی حقیقت اور نورانی مقام تک پہنچانا ضروری ہے۔ امام کا فرمانا کہ «لکل صواب نورا» اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل نیت ساز ہوتا ہے۔ انسان جب نیت کر کے ایک عمل انجام دے کر اس نیت کو مرتبہ ظہور تک پہنچا دیتا ہے اس کی نیت میں تاکید لاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نیت کی اصلاح ہو یا قوی ہو تو اسے چاہیے کہ کثرت سے عمل انجام دے۔ جن باتوں کو جانتا ہے ان پر عمل کرے تاکہ اسے بلند درجے کی نیت اور اس نیت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ 

مومن کا زیرک اور تیز فہم ہونا

امام صادقؑ فرماتے ہیں:«  ثمَّ قَالَ إِنَّا وَاللَّهِ لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مِنْ شِيعَتِنَا فَقِيهاً حَتَّى يُلْحَنَ لَه‏ » ’’خدا کی قسم ہم اپنے شیعوں میں سے کسی کو اس وقت تک فقیہ نہیں مانتے جب تک اسے کوئی رمز کی بات نہ کہہ دی جاۓ اور وہ اس رمز کو سمجھ نہ لے‘‘۔ شیعہ عالم وہ ہے جو رمز و راز کی بات کو تیزی سے سمجھ لے۔ ایسا نہ ہو کہ اول سے آخر تک ساری بات کھول کر اسے سمجھانی پڑے۔ « العاقل‏ يكفيه‏ الإشارة » عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کیسے ظاہر سے باطن کی طرف عبور کے مراحل کو خوبصورتی سے بیان فرما رہے ہیں۔ شیعہ عالم وہ ہے جس کی اخذ کرنے کی قدرت زیادہ ہو، بسیط نہ ہو اور نہ ہی سادہ لوح ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آخری جملے تک بات کھل کر بیان کریں تو تب کہے کہ اب مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ اتنا زیادہ ظواہر پر تکیہ کرنے والا نہ ہو۔ جو ظاہر معنی دے رہا ہو اسی کو لے لے، ہاں ہم مانتے ہیں کہ کلام کا ظاہر معتبر ہے لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ ساری بات بتاتے ہیں تب منتقل ہوتی ہے اور ایک دفعہ آپ صرف اشارہ کرتے ہیں تو اگلا مکمل طور پر متوجہ ہو جاتا ہے۔ سادہ لوح ہونا خوبی نہیں، ہاں پہلے مراحل میں انسان کے لیے اچھا ہے کہ مکمل طور پر عاجزی سے سیکھے لیکن آخر میں اسے بصیر اور زیرک ہونا چاہیے۔ ممکن ہے دوسرے اس کو سادہ لوح سمجھتے ہوں لیکن وہ خود تمام لوازمات کی طرف متوجہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی لوگ یہی سوچتے تھے کہ نعوذ باللہ وہ سادہ لوح ہیں جو بات بھی ان کو کہہ دیں فورا باور کر لیتے ہیں۔ آیت نازل ہوئی:{ وَمِنْهُمُ الَّذينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَ يَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ }؛ اور ان (منافقین) میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے۔ [4] توبہ: ۶۱۔ سادہ لوح ہونا اور بات ہے بعض افراد سادہ لوحی کو اچھا سمجھتے ہیں، ان کے بقول انسان جتنا سادہ لوح ہو اتنا بہتر، دین اس کے برعکس کہتا ہے۔ درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اخلاق کی وجہ سے سب کی بات سنتے لیکن ایسا نہ تھا کہ جیسا وہ منافقین سمجھتے تھے۔

فتنوں کی تاریکیاں:

امام جعفر صادقؑ اس حدیث مبارک کے درمیانی حصہ میں امام علیؑ سے نقل کرتے ہوئے فرماتےہیں : « إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ × قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَناً مُظْلِمَةً عَمْيَاءَ مُنْكَسِفَة »؛ امیرالمومنین علیؑ منبر کوفہ پر براجمان تھے انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ عنقریب تم لوگوں پر ایسے فتنے آنے والے ہیں جو گمراہ کرنے والے، اندھا کر دینے والے ہیں، ان میں حق ایسا چھپ کر رہ جاۓ گا جیسے سورج گرہن کے وقت سورج کی روشنی کم پڑ جاتی ہے۔پھر امام علیؑ نے فرمایا: «  لا يَنْجُو مِنْهَا إِلَّا النُّوَمَة »؛ امام فرماتے ہیں ان فتنوں میں کسی کو نجات نہیں ملے گی مگر وہ شخص جو «نُوَمَہ» ہے۔

نُوَمہ سے مراد

امام علیؑ سے دریافت کیا گیا : «  قِيلَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ×: وَمَا النُّوَمَةُ ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْرِفُ النَّاسَ وَلَا يَعْرِفُونَه‏ »؛  پوچھا گیا : اے امیر المؤمنین ؑ نومہ کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا : نومہ اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کو پہچانتا ہے لیکن لوگ اسے نہیں پہچانتے۔ اس حدیث میں امامؑ کا مقصود یہ ہے کہ وہ شخص ہے جو تمام حوادث اور اشخاص کو جانتا ہے اور بہت خوب جانتا ہے، ایسا نہیں کہ صرف نام کی حد تک جانتا ہو یا حوادث اور واقعات کی صرف خبر رکھتا ہے بلکہ لوگوں کی معرفت رکھتا ہے اور ہر واقعے کی اس کے پاس تحلیل  موجود ہے۔ اس دور کے تمام گروہ، انحرافی نظریات، صحیح اور بد کی مکمل اس کو شناخت ہے لیکن لوگ اس کو نہیں جانتے۔ ایسا نہیں کہ اس شخص کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں یا اس کا نام نہیں جانتے بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگوں میں اس حیثیت سے معروف نہیں۔ یہ خود اس طرح سے ان لوگوں میں رہتا ہے کہ لوگ اس کو ان جہات سے نہ جانیں۔ یہ شخص نومہ ہے۔ اس عصر میں کہ جس میں تاریک، اندھا کر دینے والے فتنے موجود ہیں یہ شخص جریان شناس ہے فقط یہی نجات حاصل کر پاۓ گا، معلوم ہوا کہ سادہ لوح ہونا، حالات حاضرہ سے ناواقف ہونا اچھی چیز نہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے پاس متعدد ہیں۔ نا صرف عام عوامی افراد بلکہ بہت سے طلاب کرام کو ہم نے مختلف حادثات اور واقعات میں منحرفین کے گروہ میں پایا، قرآن کریم  میں وارد ہوا ہے:{ كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرينَ وَ مُنْذِرينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فيمَا اخْتَلَفُوا فيهِ وَ مَا اخْتَلَفَ فيهِ إِلاَّ الَّذينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ ما جاءَتْهُمُ الْبَيِّناتُ بَغْياً بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَ اللَّهُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيم‏لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ [5] بقرہ:۲۱۳۔ ایک اختلاف انبیاء کرامؑ کے آنے سے قبل تھا اور ایک اختلاف انبیاء کرامؑ کے آنے کے بعد ہے۔صاحبانِ علم کے درمیان اختلاف  « بَغْياً بَيْنَهُمْ »آپس میں سرکشی و بغاوت کی وجہ سے ہوتو یہ دوسرے درجہ کا اختلاف ہے۔کتاب نازل ہوئی کہ پہلے اختلاف کو ختم کیا جاۓ، لیکن اسی کتاب میں ہی بعض نے اختلاف کرنا شروع کر دیا، جو خود منشأ تھا اختلاف ختم کرنے کا وہ خود اگلے اختلاف کا موضوع بن گیا۔ اگلا اختلاف کن لوگوں نے شروع کیا؟ کیا ان پر کوئی بات مبہم رہ گئی تھی؟ جی نہیں! بلکہ ان کے لیے سب کچھ روشن تھا لیکن یہ لوگ انحراف کا سبب بنے۔ اگر ہم میں سے کوئی جریان شناس نہ ہو، حالات سے واقف نہ رہتا ہو یہ انسان ان انحرافی نظریات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

زمین حجتِ الہٰی سے خالی نہیں:

امام علیؑ اس حدیث میں مزید فرماتے ہیں: « وَ اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَل‏ » ؛امامؑ فرماتے ہیں کہ مومنین جان لیں زمین حجت الہی سے خالی نہیں ہو سکتی۔

غیبت کی وجہ ظلم و جور

امام علیؑ حدیث کے آخری حصہ میں ارشاد فرماتے ہیں: «  وَلَكِنَّ اللَّهَ سَيُعْمِي خَلْقَهُ عَنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَ جَوْرِهِمْ وَ إِسْرَافِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِم‏ »؛ لیکن الله تعالی اپنی مخلوق کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر دے گا ان کے ظلم اور جور کی وجہ سے اور اس اسراف کی وجہ سے جو انہوں نے اپنی ذاتوں پر کیا۔ روایات کے یہ الفاظ بہت دقیق اور غور طلب ہیں۔ اللہ تعالی ان کو اندھا کر دے گا کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب حجاب ہماری طرف سے ہے۔ وہ غائب نہیں بلکہ ہماری آنکھوں پر پٹی پڑی ہے۔ یہ حجاب یا تو انفرادی مسائل کی وجہ سے پڑا ہے یا اجتماعی مسائل کی وجہ سے۔ امام فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ انفرادی زندگی یا اجتماعی مسائل میں عادل نہ رہے تو امام کو دیکھنے سے قاصر ہونگے۔ کیونکہ سنت الہی تو یہ ہے کہ حجت الہی زمین پر ہو اور کبھی بھی زمین اس سے خالی نہ ہو، لیکن یہ حجت ممکن ہے کبھی ظاہر ہو اور کبھی باطن۔ اس کا باطنی ہونا اس جہت سے ہے کہ امت اعتدال سے نکل کر «سیعمی» اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسان کے لیے ہر ظلم و جور اور اسراف کا مرتبہ اس کے جہل اور اندھے ہونے کے ایک درجے کو بڑھا دیتا ہے۔ جتنا انسان مبتلا ہوتا جاۓ گا نابینا ہوتا چلا جاۓ گا۔ 

توبہ۔ حجت الہی کو دیکھنے کا ذریعہ

اس کے برعکس ہر ظلم و جور جو انسان نے خود پر کیا ہے یا اجتماعی زندگی میں انجام دیا ہے اگر توبہ کرتا ہے تو ہر توبہ کا مرتبہ اس کے لیے حجت الہی کی رؤیت کے مرتبے کو بڑھا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے متعلق وارد ہوا ہے:{ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتاعٌ إِلى‏ حين‏ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِماتٍ فَتابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحيم‏ }؛ پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ [6] بقرہ: ۳۶،۳۷۔ حب توبہ کی تو «هبوط» بھی متفاوت ہو گیا۔ آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے:{ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَميعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدىً فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُون‏}؛ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ [7] بقرہ: ۳۸۔ جب توبہ ہوئی تو ہدایت بھی آ گئی۔ وہاں ہدایت پانے والے خود حجت تھے۔ آدمؑ کے لیے خود اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت آنا حجت تھا اور ہم لوگوں کے لیے انبیاء الہیؑ اور آئمہ معصومینؑ حجت ہیں۔ ہم جتنا اپنے اعمال سیئہ سے پشیمان ہوتے جائیں اتنا ہی حجت الہی کو دیکھنے کے مراتب کو زیادہ کر سکتے ہیں۔

حجت کے بغیر زمین کا دھنس جانا:

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:« وَلَوْ خَلَتِ الْأَرْضُ سَاعَةً وَاحِدَةً مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا »؛اگر زمین حجت الہی سے ایک ساعت کے لیے بھی خالی ہو جاۓ تو زمین اپنے تمام اہالی کے ساتھ نابود ہو جاۓ گی۔ ان کلمات کے متعدد معانی کیے گئے ہیں۔ آیا زمین کا نابود ہو جانا اس معنی میں ہے کہ انسانی نظام حیوانی نظام میں تبدیل ہو جاۓ گا کیونکہ ہدایت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ یا زمین نابود ہو جاۓ گی اس لیے کہ چونکہ امام تمام مخلوقات اور خالق کے مابین واسطہ فیض ہیں، اور اگر یہ واسطہ فیض نہ ہو تو زمین نابود ہو جاۓ گی؟«   وَلَكِنَّ الْحُجَّةَ يَعْرِفُ النَّاسَ وَ لَا يَعْرِفُونَه‏ »؛ لیکن حجت لوگوں کو پہچانتی ہے، لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ جس طرح امام نے نُوَمَہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگوں کو جانتے ہیں لیکن وہ لوگوں میں معروف نہیں اسی طرح حجت الہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لوگ اس کو بحیثیت حجت نہیں جانتے۔ ممکن ہے لوگ اس کو دیکھتے ہوں اس کو ایک اچھا آدمی سمجھتے ہوں لیکن ان کے حجت ہونے کی خبر نہیں رکھتے۔

نُوَمہ کا مثلِ جناب یوسفؑ ہونا:

امام علیؑ نُومہ کی خصوصیت رکھنے والے افراد کو جناب یوسفؑ سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: «کَمَا کَانَ یُوسُفُ یَعْرِفُ النَّاسَ وَ هُمْ لَهُ مُنْکِرُونَ»؛جس طرح حضرت یوسفؑ کو لوگ عزیزِ مصر ہونے کی حیثیت سے جانتے تھے۔ لیکن کیا حضرت یوسفؑ کی حقیقت ان کا عزیزِ مصر ہونا تھا؟ ان کی حقیقت یہ نہ تھی بلکہ حقیقت میں وہ نبی اور رسول الہی تھے۔ زمین پر حجت تھے۔ لیکن لوگ ان کو بحیثیت حجت نہیں جانتے تھے۔ اس کا بہت اکرام اور احترام کرتے کیونکہ عزیز مصر تھے اور نیک و صالح بھی تھے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حجت کسی مسؤولیت کو قبول ہی نہ کرے اور کسی گوشہ کنار میں چھپ جاۓ، ممکن ہے میدان میں حاضر ہو لیکن لوگ اس کی حجت الہی ہونے کی حیثیت سے شناخت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد امامؑ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:«ثُمَّ تَلَا: یا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ ما یَأْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُنَ»؛ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔ [8] يس: ۳۰۔ لوگ چونکہ انبیاء کرامؑ کی شناخت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا تمسخر کرتے۔ ہمارا بھی امام غائب سے رابطہ اس نوع کا ہے۔ جیسا کہ روایت کے الفاظ ہیں کہ امام لوگوں کو جانتے ہیں لیکن لوگ ان کو نہیں جانتے۔ ہم ان کو بعنوان حجت نہیں جانتے اس لیے ان سے بہرہ مند بھی نہیں ہو پاتے۔ جس طرح حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کو حجت الہی ہونے کی حیثیت سے نہ پہچانا اور ان کو صرف عزیزِ مصر سمجھتے رہے۔ ممکن ہے ہم بھی ان کو دیکھتے ہوں، ان سے ارتباط بھی قائم کیا ہو لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ وہ حجت ہیں۔ لہذا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘ بہت عمیق جملہ ہے۔ یا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر درست عمل کے اوپر ایک نور موجود ہے‘‘ یہ اشارہ ہے کہ ہر صواب سے نور تک ہمیں پہنچنا ہے۔ کیونکہ حقیقی امام شناس اور حجت شناس وہ ہے جس کے لیے اشارہ بھی کافی ہو۔ جیسے ہی اس کو کسی طرف سے اشارہ ملتا ہے فورا منتقل ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ظاہر کو دیکھتا ہے اس کے باطن تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ قدرت انسان کو ایسے ہی نہیں مل جاتی بلکہ طہارت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک مرحلہ اس کا علمی بصیرت پیدا کرنا ہے جو کہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں بلکہ علم کے ساتھ باطنی طہارت کا حصول بھی ضروری ہے۔

دوران ظہور۔ خالص سازی کا محور

 ایک اہم نکتہ جو اس موضوع میں بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ ظہور میں خالص سازی کا محور اغیار ہیں، نا کہ خالصان۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ خالص سازی خالصان کی ہوگی اس کا مطلب یہ ہے کہ خالص سازی کی اساس خالص افراد ہونگے۔ لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ اس خالص سازی سے اغیار جدا ہونگے اس کی اساس ناخالص افراد قرار پائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو راہ ہدایت سے دور نہیں کرتا، شیطان کی نگاہ اس کے برعکس ہے۔ شیطان کی نگاہ یہ ہے کہ اصل خالصان کی جدائی میں ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں شیطان کا مؤقف اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے:«قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ»؛ کہنے لگا: مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔ ان میں سے سواۓ تیرے خالص بندوں کے۔ [9] ص: ۸۲،۸۳۔ اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا:

«إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ»؛  جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔ [10] حجر: ۴۲۔ شیطان کی نظر میں اصل ہلاکت پر ہے۔ لیکن اللہ تعلی کی نظر میں اصل ہدایت پر ہے۔ زمانہ ظہور کی خالص سازی کے جریان میں بقیہ ہلاک نہیں ہونگے۔ ان میں جو نجات پائیں گے یہ سابقون ہونگے۔ باقی نچلے درجے کے طبقات میں رہ جائیں گے۔ ہلاک ہونے والے چند گروہ ہونگے جو جدا ہو جائیں گے۔ وارد ہوا ہے کہ مبطلون افراد خالص سازی کے بعد جدا ہو جائیں گے۔ اس قدر شدید حوادث پیش آئیں گے کہ منحرفین خود ہی مخلصین سے جدا ہو جائیں گے۔ 

مومنین کے قلوب میں نورِ امامت

شیخ کلینی نے الکافی میں ایک روایت نقل کی ہے جس میں ابو خالد کابلی امام باقرؑ سے نقل کرتے ہیں: «أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَسْبَاطٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْکَابُلِیِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ(ع) عَنْ‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ تَعَالَى‏– «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» فَقَالَ یَا أَبَا خَالِدٍ النُّورُ وَ اللَّهِ الْأَئِمَّةُ ع یَا أَبَا خَالِدٍ لَنُورُ الْإِمَامِ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیئَةِ بِالنَّهَارِ»ابو خالد کابلی کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے اس قول تبارک و تعالی «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» کی تفسیر معلوم کی۔ امام نے فرمایا اے ابا خالد! خدا کی قسم نور سے مراد آئمہ معصومینؑ ہیں۔ اے ابا خالد مومنین کے دل میں آئمہ کا نور دن میں چمکتے ہوۓ سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔[11]  کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۹۴۔ ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو چمکتے سورج کے نور کو نہ دیکھ سکتا ہو؟ امام فرماتے ہیں کہ وجود امام کا نور سورج کے نور سے بھی قوی تر ہوتا ہے پھر ہماری آنکھیں اس نور کو کیوں نہیں دیکھ رہیں؟ شاید ہم «سیعمی» ہو گئے ہیں۔ انحرافات نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ ورنہ اگر امام کی بات درست ہے جو کہ سو فیصد درست ہے تو ہمیں امام کا نور نظر آنا چاہیے تھا۔ اگر ابو ہارون مکفوف امام کو نابینائی کی حالت میں دیکھ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام کا نور ساطع ہے، معلوم ہوتا ہے امام حقیقت میں قلوب میں رہتے ہیں۔ امام کی تبعیت انسان کے قلب میں ایک ربط ایجاد کر دیتی ہے اور جب یہ ربط بن جاتا ہے نور امام سورج کے نور سے بھی روشن تر دکھائی دیتا ہے۔ اسی روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:«وَ هُمُ وَ اللَّهِ یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِینَ»؛ اور خدا کی قسم! وہ (آئمہ) مومنین کے قلوب کو منور کر دیتے ہیں۔

اگر ہم مومن ہیں تو یا تو یہ نور ہمارے اندر موجود ہے اور ہمیں اس کے ہونے کا علم نہیں۔ ہدایت کے نور کو اعمال اور اپنے قلوب میں پاتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ نور امام ہے۔ یا کم از کم اس نور کا کمترین درجہ ہمارے قلوب میں موجود ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علم نہیں رکھتے کہ یہ نور امام ہے۔ خود یہ بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔ انسان کے اعمال صالح اس کے دل میں نور پیدا کرتے ہیں، دل میں نور کا ایجاد ہونا یعنی امام کا ہمارے دل میں وارد ہونا اگر انسان اس حالت کو درک کر لے تو یقینا منقلب ہو جاۓ گا۔ اس کی حالت یقینا متغیر ہو جاۓ گی اور احساس کرے گا کہ امام نے اس کے دل میں اپنے قدم مبارک رکھے ہیں۔ اس وقت انسان اس نور کی حفاظت کرے گا۔ اور یہی مطلوب ہے اگر انسان جان لے کہ ہرعمل صالح «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» اس کے قلب کو نورانی کر دیتا ہے یہ احساس بہت لذت بخش ہے۔ مثلا کہا جاۓ کہ رہبر معظم آپ کے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ انسان اپنے گھر کو صاف ستھرا کرے گا اور ہر میل کچیل سے اس کو پاک کرے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ایک بہت ہی معزز ترین مہمان اس کے گھر آ رہا ہے۔ عمل صالح کا انجام دینا بھی یہی صورت رکھتا ہے۔

امام کا قلب مومن میں ورود

ہم اعمال انجام دیتے ہیں لیکن اس بات پر ایمان نہیں رکھتے کہ اس عمل سے امام ہمارے قلب میں داخل ہو گئے ہیں۔ عمل کو صرف اس کے عمل ہونے کی حد تک دیکھتے ہیں۔ اس لحن اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے جو امام «لکل صواب نورا» اس جملے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک درست عمل انجام دیتے ہیں یعنی امام سے مرتبط ہو گئے ہیں۔ اور امام کا نور «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» ایسا نور ہے جو مومنین کے قلوب کو منور کر دیتا ہے۔ لیکن ہم اسے نہیں دیکھتے۔ یہ نہ دیکھنا بہت بڑا خسارہ ہے۔ روز قیامت جب سب حضرت کی محضریت میں ہونگے اس وقت اس آیت مجیدہ کے مصداق بن جائیں گے۔«یَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِی جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِینَ»؛  افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔[12] زمر: ۵۶۔ ہم خدا کے پاس ہی محشور تھے لیکن جس کو نہ دیکھا وہ خود خدا ہی تھا۔ ہم خدا کے پاس تھے لیکن اس کو اپنے پاس قرار نہ دیا۔«هُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُم»؛ تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔[13] حدید: ۴۔ اور یہ معیت امام کے وجود کے ساتھ اپنا معنی کامل کرتی ہے۔ پہلی روایت کو اگر اس روایت کے ساتھ ضمیمہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ قلب کو عمل صالح سے نورانی کیا جا سکتا ہے۔ امام اسی عمل صالح کی انجام دہی سے قلب میں وارد ہوتے ہیں۔ مطلب جب امام حکم دیتے ہیں اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو امام تمامِ وجود کے ساتھ ہمارے قلب میں وارد ہو جاتے ہیں۔ ہم صرف عمل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس لحن اور جملے کے عمق کو نہیں سمجھ رہے ہوتے، اگر ہماری آنکھیں کھل جائیں اور اس کو دیکھ لیں تو ہماری حالت متغیر ہو جاۓ گی۔ ساری عمر ہم نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور اعمال صالحہ انجام دیے، امام کے ساتھ محشور تھے ان کی معیت میں تھے لیکن ہم نہیں سمجھے اور ہمیشہ کہتے رہے کہ ہمارے امام کہاں ہیں؟ ہمارا یہ کہنا ہی ہمارے اندھے پن کا ثبوت ہے۔ کیونکہ امام تو غائب ہی نہیں ہیں۔ ایک اور روایت میں بھی اسی طرح سے وارد ہوا ہے کہ سب اعمال صالحہ جو ہم انجام دیتے ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم امام کے ساتھ محشور ہو جائیں۔ لیکن ہم ان سب اعمال صالحہ کو امام سے جدا دیکھتے ہیں۔  اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ یہ قدرت، فہم و شعور اور ارتباط با امام ہمیں نصیب فرماۓ۔ اور یہ غیبت، فرج انفسی و شخصی میں تبدیل ہو جاۓ۔

Views: 43

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: عمل صالح اور غیبت امام مہدیؑ
اگلا مقالہ: حجت الہٰی سے عہد و میثاق کا تعلق