loading
« شرح الکافی »
حجت الہٰی سے عہد و میثاق کا تعلق
تدريس: آيت الله رضا عابدينی
تدوين: عون نقوی

خداوند متعال کے شکر گزار ہیں جس نے یہ علمی دسترخوان نصیب کیا۔ ان نورانی ذوات سے فیض و برکات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شکر گزار ہیں اس خدا کے کہ جس نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء کرامؑ بھیجے اور حضرات معصومینؑ مقرر فرماۓ۔الکافی کے ۷۹ ویں باب کی پہلی روایت کی تحلیل آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

حدیث مبارک کی شرح

الکافی کے اس باب کی پہلی روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں:« عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَقْرَبُ‏ مَا يَكُونُ‏ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ وَأَرْضَى مَا يَكُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَعَز »؛ بندوں کا خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ [1] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔ اس قرب کے بارے میں بیان ہوا کہ اس قرب سے مراد قربِ وجودی ہے۔ قرب مکانی یا زمانی مراد نہیں۔  دوسرا بیان خدا کی رضایت کے بارے میں ہے کہ خدا ان سے راضی ہے۔ با الفاظ دیگر «اقرب ما یکون» یعنی یہ لوگ «رضوا عنہ» ہیں۔ اور «ارضی ما یکون» یعنی «رضی اللہ عنهم» ہیں۔ یہ دو بشارتیں ہیں۔ یہ دو بشارتیں لازم و ملزوم ہیں۔ ممکن نہیں کوئی «اقرب» ہو اور «ارضی» نہ ہو۔ جو اقرب ہوگا حتما ارضی بھی ہوگا۔قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« وَ لَوْ لا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَتُهُ ما زَكى‏ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَداً  »؛ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا۔ [2] نور: ۲۱۔ ممکن نہیں کوئی عمل کی توفیق حاصل کرے مگر خدا نے اسے توفیق نہ دی ہو۔ خدا توفیق دیتا ہے تو عمل وجود میں آتا ہے۔ دو نگاہ ہیں۔ ایک دفعہ ہم نیچے سے اوپر کی طرف نگاہ کرتے ہیں۔ یہ « اقرب ما یکون العباد » ہے۔ ایک دفعہ ہم اوپر سے نیچے کی طرف نگاہ کرتے ہیں جو خدا کی نگاہ ہے۔ اوراسے «ارضی ما یکون» سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر دو طرف سے یہ کلمات ہمارے لیے بشارت ہیں۔ تاہم یہ دوسرا کلمہ « ارضی ما یکون » زیادہ شیرین ہے کہ انسان سے اس کا اللہ راضی ہو جاۓ۔ لیکن انسان کو یہ استعداد کب حاصل ہوتی ہے؟ ہم نے روایت میں پڑھا کہ یہ استعداد انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب زمانے کی حجت ان کی نظروں سے اوجھل ہو۔

اس حدیث کا دوسرا حصہ اس طرح سے ہے: « وَ لَمْ يَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ يَعْلَمُوا مَكَانَه‏ »؛ جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں، ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔اس روایت میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ حجت نہیں ہے یا کسی جگہ پر سکونت اختیار نہیں کیے ہوئے !! بلکہامام ؑ فرماتے ہیں کہ  لوگ ان کی رہائش کی جگہ کو نہیں جانتے اور  حجتؑ کو دیکھ نہیں سکتے یا دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شے موجود نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ فلاں شے فاقد ہو گئی ہے۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ شے موجود ہے لیکن ہمیں میسر نہیں۔ حدیث مبارک میں ’’افتقدوا‘‘ یعنی فقدان سے یہ معنی مراد ہے۔

الکافی کی اس روایت کے تیسرے حصے میں امامؑ فرماتے ہیں: « وَهُمْ فِي ذَلِكَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُه‏ »؛ اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا۔ زمانہ غیبت میں حجت ہے لیکن اس کو دیکھنا ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حجت موجود ہی نہ ہو۔ لوگ ان کے وجود کو علم حصولی اور برہان کی صورت میں قبول کیے ہوۓ نہیں بلکہ مکاشفہ اور حضوری صورت میں ان کو دیکھتے ہیں اور ان سے ارتباط برقرار کرتے ہیں لیکن اس ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ قلبی بصیرت سے۔

روایت کے اگلے حصے میں امامؑ فرماتے ہیں:« وَلَا مِيثَاقُهُ »؛ یہ لوگ جانتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زمین حجت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ حجت کو نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی ان کو یقین حاصل ہے کہ زمین حجت کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ قوس صعود میں امام واسطہ ہیں ہدایت کے پہنچنے کا اور اگر ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ تو انسان گمراہ ہو جاۓ گا۔ حجت در اصل صراط ہے۔ اگر حجت نہ ہو مطلب یہ ہوگا کہ صراط بند ہے۔ لہذا حجت کا ہر دور میں حی ہونا ضروری ہے۔

نبی اور امام میں فرق

علامہ طباطبائیؒ المیزان میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کا کام انذار، تبشیر اور تبلیغ ہے۔ جبکہ امام کا کام « ایصال الی المطلوب »  ہے۔ امام صرف راستہ نہیں بتاتا بلکہ ہاتھ پکڑتا ہے اور اس منزل تک ساتھ لے جاتا ہے۔ ایک دفعہ جب ہم سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ اس طرف سے جاؤ پہنچ جاؤگے۔ لیکن ایک دفعہ ہم سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو ہم ہاتھ پکڑ کر اس کو وہاں تک لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جگہ ہے جس کی آپ تلاش میں ہیں۔ نبی بھی امام ہو سکتا ہے۔ وہ نبی ہونے کی حیثیت سے تبلیغ کرتا ہے اور امام ہونے کی حیثیت سے رہنمائی۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:« وَجَعَلْناهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا »؛ اورر ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔ [3] انبیاء: ۷۳۔ انبیاء کرامؑ اپنے زمانے کے  امام بھی تھے اور ان پر معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے قوانین کے نفاذ کے ذریعے چلانا ذمہ داری تھی۔ رسول ہونے کی حیثیت سے دین کی تبیین کرتے اور امام ہونے کی حیثیت سے ہاتھ پکڑ کر منزل تک لے جاتے۔ صراط مستقیم ایک ایسا راستہ ہے جس میں اگر ہاتھ پکڑ کر پہنچانے والا نہ ہو انسان اس مسیر کو طے نہیں کرسکتا۔ ہم چل نہیں سکتے بلکہ کوئی چلانے والا ہو تو صراط پر چلنا ممکن ہوتا ہے۔ تاہم خود ہم پر بھی ضروری ہے کہ اس راہ میں کوشش کریں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بیابان میں ہمیں لاکر کھڑا دیں ۔ ہر طرف صرف چٹیل میدان ہو اور راستے و منزل کی نشانی نہ ہو۔ یہاں پر ایک رہبر اور پرچم دار کی ضرورت ہے جو ہمیں بتاۓ اور ساتھ چلے البتہ چلنا ہم نے خود ہے  اس نے صرف رہنمائی کرنی ہے ۔

حجت الہٰی  قوس صعود اور قوس نزول میں

حجتِ الہٰی قوس نزول میں واسطہِ فیض اور قوسِ صعود میں ہادی کا عنوان رکھتا ہے۔ الکافی کی زیر نظر حدیث مبارک میں  « وَلَا مِیثَاقه » بہت خوبصورت معنی کی طرف اشارہ ہے۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ منتظرین پر حجتِ الہٰی کے ساتھ میثاق ہمیشہ موجود ہے۔ غیبت کی وجہ سے یہ میثاق باطل نہیں ہوتا بلکہ میثاق کا ہونا ہر دور اور ہر مرحلہ میں ضروری ہے، چاہے قوس نزول  ہو یا قوسِ صعود  جیساکہ آیات و روایات سے بہترین دلائل اور بینات اس مطلب کو ثابت کرتے ہیں۔ تاہم حجت بمعنی عام جو کہ واسطہ فیض در قوس نزول بنتا ہے وہ بھی اس میں موجود ہے اور حجت بمعنی خاص جو کہ قوسِ صعود میں ہادی کہلاتا ہے کو بھی شامل ہے۔ ہر دو معنی کو شامل ہے: « أَيْنَ السَّبَبُ‏ الْمُتَّصِلُ‏ بَيْنَ الْأَرْضِ وَ السَّمَاء ». [4] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۲، ص۱۰۷۔ وہ سبب جو متصل کرتا ہے ارض و سماء کو قوس صعود ہے۔ سماء اور ارض کے مابین ارض ہے۔ اور « يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الْأَرْض‏ »؛ وہ آسمان سے زمین تک امر کی تدبیر فرماتا ہے۔ [5]سجدہ: ۵۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا آسمان سے زمین تک تدبیر کا جو بیان ہے وہ تدبیر اللہ سبحانہ بواسطہ حجتِ قوس نزول فرماتا ہے۔الکافی میں امام جعفر صادقؑ سے روایت وارد ہوئی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں: « إِرَادَةُ الرَّبِّ فِي‏ مَقَادِيرِ أُمُورِهِ تَهْبِطُ إِلَيْكُمْ وَتَصْدُرُ مِنْ بُيُوتِكُم‏ » ؛ ربّ (کریم) کا ارادہ اپنے امور کی مقدار کو معین کرتے ہوئے تمہارے پاس اترتا ہے اور تمہارے گھروں سے وہ ارادہ صادر ہوتا ہے۔ [6]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۹، ص ۳۱۲۔ اس حدیث میں حجتِ الہٰی کا قوس نزول کے اعتبار سے تعارف پیش کیا گیا  ہے  کہ تمام اراداتِ الہٰی اور تقادیر حجتِ الہٰی کے توسط سے پہنچتی ہیں اور اللہ سبحانہ سب تک رزق قوس نزول میں حجتِ الہٰی کے ذریعے پہنچاتا ہے۔ اگر قوس نزول میں حجت نہ ہو تو اس پورے نظامِ تکوینی میں خلل  ایجاد ہو جاۓ گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فیض صادر نہیں ہوگا۔ اسی طرح حجتِ الہٰی نہ ہو تو  قوس ِصعود میں بھی خلل واقع ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے  ہدایت کا راستہ بند ہو جاۓ گا اور بشر حیوانیت کے مرتبے میں رہ جاۓ گا اور مرتبہ انسانی تک نہیں پہنچ سکے گا۔

حجتِ الہٰی سے میثاق کی حقیقت

حدیث مبارک میں امام صادقؑ کے اس کلام’’    « ولا میثاقه »؛ اور نہ اس کا میثاق باطل ہوتا ہے ‘‘سے مراد ہر مرحلہِ حیات میں میثاق کا ہونا ہے۔ نظامِ الہٰی میں ربوبیت اور مربوبیت کا بہت بہترین ربط اسی میثاق کے رابطے سے شروع ہوتا ہے جو سب اشیاء کے لیے ربط و تعلق کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: « وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني‏ آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ أَشْهَدَهُمْ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى‏ »؛ اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم ؑکی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے)۔ [7] اعراف: ۱۷۲۔ یہ آیت ِ میثاق ہے۔ روایات میں اسے میثاقِ ربوبیت کہا گیا ہے۔ یہ میثاق تمام انبیاءؑ کی نبوت اور ان کے اوصیاءؑ کی وصایت کو بھی شامل ہے۔ روایات میں امام باقرؑ سے  وارد ہوا ہے: « إِلَى هَاهُنَا التَّوْحِيدُ ». ی؛ یہاں(نبوت و امامت)  تک توحید ہے۔ [8]علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار،  ج۳، ص ۲۷۷۔ یعنی نظام وصایت بھی میثاق ربوبیت میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص توحید کو مانتا ہو لیکن نبی کی رسالت کو نہ مانتا ہو اس نے درحقیقت توحید کا انکار کیا۔ اگر کسی نے نبی کی نبوت اور رسالت کو قبول کر لیا لیکن اس کے وصی اور ولی کی ولایت کو قبول نہ کیا گویا اس نے نبوت کا انکار کیا۔ اگر ولایت کو قبول کرے اور آخری ولی خدا کو قبول نہ کرے توحید کامل نہیں ہوتی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان سے انبیاء کرامؑ کی نسبت میثاق لیا گیا کہ اس امر الہی کو پورا کریں گے۔ انبیاء سے اولوالعزم انبیاء کی نسبت میثاق لیا گیا، اور اولوالعزم انبیاء سے نبی خاتم ﷺ کی نسبت میثاق لیا گیا۔ وہ میثاق جو انبیاء سے لیا گیا اس کا تسلسل امام عصرؑ تک ہے کہ وہ اس مرتبے تک اقرار اور باور رکھتے تھے۔ میثاق ایک بہت عظیم امر ہے جس کے روایات میں متعدد معنی واردہوۓ ہیں۔ میثاق کی اصل اور اساس میثاق عبودیت و ربوبیت ہے۔ یہ میثاق نبوت و وصایت تا آخرین وصی جاری ہے۔

امام زمانؑ کا انکار رسول اللہ ﷺ کا انکار

کمال الدین میں امام جعفر صادقؑ سے شیخ صدوق نے روایت نقل کی ہے جس میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: «  عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَرَّ بِجَمِيعِ الْأَئِمَّةِ وَ جَحَدَ الْمَهْدِيَ‏ كَانَ كَمَنْ أَقَرَّ بِجَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَ جَحَدَ مُحَمَّداً ص نُبُوَّتَهُ »؛ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: جو تمام آئمہ کی امامت کا اقرار کرے اور مہدی کا انکار کرے وہ اس شخص کی مانند ہے جو تمام انبیاء کی نبوت کو مانے اور محمد ﷺ کی نبوت کا انکار کرے۔ [9] صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۳۳۳۔ یہ سب کیوں کہا گیا ہے؟ کیونکہ یہ سب حقیقت واحدہ ہیں۔ ان سب کا ایک ظہور اور واقعیت ہے۔ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک شے کی آخری مرتبے کی کامل شکل کو نا مانیں اس سے اس آخری مرتبے کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ اس شے کی کامل حقیقت کا انکار لازم آتا ہے۔ وہ پہلے مرتبے تو دراصل اس آخری مرتبے کا مقدمہ تھے۔مقدمہ کو مان لیں اور ذوالمقدمہ کا انکار کردیں۔ یہ سب نور واحد ہیں، الہی جہت سے واحد ہیں لیکن لوگوں سے اربتاط کی جہت سے ممکن ہے کسی کا مرتبہ ظہور پہلے ہو اور کسی کا بعد میں۔ لہذا سب انبیاء کرامؑ سے امام زمانؑ کا میثاق لیا گیا۔ میثاق کی حقیقت سادہ نہیں ہے کہ ہم اسے محض قبولیت قرار دیں۔ بلکہ میثاق ایک حقیقت عینیہ ہے۔ جو دورہ غیبت اور دوران ظہور عظیم حقیقت کی صورت میں سامنے آۓ گی۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اس بلند مرتبہ کے میثاق کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ خود اس مرتبے کے میثاق کا حامل ہونا بھی بہت بڑا امر ہے۔

میثاق کا تکوینی اور تشریعی ہونا

میثاق تکوینی بھی ہے اور تشریعی بھی۔ چنانچہ یہ میثاق چونکہ نظام قوس نزول کو بھی شامل ہے اس جہت سے یہ تکوینی ہے۔ اسی طرح میثاق  نظام قوس صعود کو بھی شامل ہے لہٰذا اس جہت سے یہ تشریعی بھی ہے۔ بقیہ انبیاء کرامؑ ظرفیت کے مطابق میثاق کی طرف اپنی امت کو دعوت دیتے تھے۔ امت میں میثاق کی جتنی مقدار قبول کرنے کی ظرفیت ہوتی تھی اسی طرف امت کو دعوت دیا کرتے تھے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیادؑ بھی بس اتنی مقدار کے میثاق پر اعتقاد رکھتے تھے !! نہیں بلکہ امت میں جتنی ظرفیت ہوتی اتنی مقدار متعارف کرواتے۔ لہٰذاتمام انبباءؑ کی امتیں خاتم الانبیاء و المرسلین رسول اللہ ﷺ کی امتیں کہلائیں گی۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: « فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَ جِئْنا بِكَ عَلى‏ هؤُلاءِ شَهيدا »؛ پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔ [10] نساء: ۴۱۔ انبیاء کرام اپنی امتوں پر شاہد ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ  صرف اپنی امت پر نہیں  بلکہ تمام انبیاءؑ کی امتوں پر شاہد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لیے بھی میزان ہیں اور تمام انبیاء کرامؑ کے لیے بھی میزان ہیں۔ پس ہر دو یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت اور تمام انبیاءکرامؑ، رسول اللہﷺ کی امت ہیں۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت تمام انبیاءکرامؑ اپنی امتوں سمیت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں گے۔ پس اگر میثاق قوس نزول کے مرحلہ میں باطل ہو جاۓ تو فیض الہٰی کا سلسلہ منقطع ہو جاۓ گا اور اگر قوس صعود کے مرحلہ میں باطل ہو جاۓ تو ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ گا ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ حقیقت جو قوس صعود اور قوس نزول میں واسطہ ہے ہر دور میں موجود رہے۔

انتظارِ فَرَج کی امید

الکافی کی زیر نظر حدیث مبارک کے اگلے حصے میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: « فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَمَسَاءً »؛  ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔ ایک حدیث میں امام باقرؑ سے وارد ہوا ہے: «  يُصْلِحُ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ فِي‏ لَيْلَة »؛  اللہ اپنے ولی (صاحب الزمانؑ) کے لیے اپنے امر کی اصلاح ایک رات میں فرما دے گا۔ [11]نعمانی، محمد بن ابراہیم ، غیبت نعمانی،ص ۱۶۳ ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حادثات اور واقعات ایک رات میں درست ہو جاتے ہیں۔ موسی کلیم اللہؑ آگ کی تلاش میں نکلے تھے، اللہ تعالی نے انہیں رسالت کے لیے مبعوث فرما دیا۔ حضرت موسیؑ کو توقع نہ تھی وہ آگ کی تلاش میں نکلے تھے کہ خود کو گرم کر سکیں لیکن ان کو رسالت عطا ہوگئی۔ کہاں آگ کی تلاش اور کہاں رسالت کی عظیم ذمہ داری؟ اللہ تعالی آگ کے ذریعے موسیؑ پر متجلی ہوۓ۔ آگ کی طرف احتیاج حضرت موسیؑ کو حرکت میں لایا اور وہ تلاش میں نکلے، اللہ تعالی کے لیے ممکن ہے اس کو کسی اور شکل میں عظیم امر سے پورا کر دے۔ حضرت موسیؑ کو رسالت عطا ہوگئی۔ حضرت موسیؑ کا مبعوث ہونا خود ان کے لیے فرج شخصی تھا لیکن ان کی قوم کے لیے فرج جمعی تھا۔

اس میں دوسری جہت کی طرف غور کرنا ضروری ہے جب ہم اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ظاہر سے باطن کی طرف عبور کرنا اور یہ یقین کرنا کہ امام موجود ہیں۔ ان کا وجود اقدس  اور ان کی ہدایت پہلے سے زیادہ فعال تر اور تیز ہے ۔ یہ مطلب اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر لحظے فَرَج موجود ہے۔ جب انسان اس نگاہ سے دیکھے تو یہ نیہں کہے گا کہ فرج ہوگا بلکہ اس کے لیے تو فرج موجود ہے، اس کے لیے امام کا وجود اور ان سے ارتباط کا امکان زمانہ حضور امام سے زیادہ موجود ہے۔ ان کلمات سے بھی یہی مراد ہے یعنی صبح و شام کے خاص اوقات مراد نہیں ہیں بلکہ لحظہ بہ لحظہ  یہ حقیقت موجود ہے۔ اگر کوئی اس نگاہ سے زمانہ غیبت کو دیکھے تو اس کی مثال بھی ان انبیاء کرامؑ کی جیسی ہوگی جن کے زمانے میں ان کا امام عصر غائب تھا لیکن ان کا ایمان تھا کہ امام موجود ہے اور اس کی فرج کے منتظر تھے۔ اسی باور تک اگر آج کا منتظر بھی پہنچ جاۓ اس کے لیے یہ مسئلہ اسی طرح آسان ہو جاۓ گا۔

غیبت اور اللہ کا شدید غضبناک ہونا

الکافی کی اس حدیث کے اگلے حصہ میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: « فَإِنَّ أَشَدَّ مَا يَكُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِهِ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَ لَمْ يَظْهَرْ لَهُم‏ » ؛بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔دوسری جانب زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کا اپنے دشمنوں پر غضب بھی شدید تر ہو جاۓ گا۔ کیونکہ دشمنان غیبت کی طولانیت کا باعث بنیں گے اور نزول برکات میں مانع قرار پائیں گے۔ آیت اللہ بہجتؒ فرمایا کرتے تھے کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہم کتنی برکات اور منافع سے محروم ہو گئے ہیں اس کا ہمیں علم نہیں، اگر ہمیں علم ہو جاتا کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہمارا کتنا نقصان ہو رہا ہے تو اتنی آرام کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ دشمنان کیوں «اشد ما یکون غضب الله علی اعدائه» بن گئے ہیں؟ اس لیے کہ لوگ رحمت الہی کے نزول میں مانع بن رہے ہیں۔

غضب الہٰی کسی بھی دور میں اتنا شدید نہیں رہا ہوگا جتنا زمانہ غیبت میں غضب الہی شدید ہو جاۓ گا حتی نمرود اور فرعون کے زمانے سے بھی شدید تر اللہ اپنے دشمنوں پر غضب فرماۓ گا۔ کیونکہ جو محرومیت اس زمانے میں لوگوں کو حاصل ہو رہی ہے وہ کسی بھی زمانے میں حاصل نہ ہوئی تھی اور اس محرومیت کا باعث یہ دشمن ہیں۔ یہ دور اشد محرومیت کا دور ہے۔ عذاب الہی بھی حقائق کے تابع ہے اعتبارات کے تابع نہیں۔ اس زمانے میں جو مانعیت اور محرومیت ایجاد ہوئی ہے بالاترین کمال کی محرومیت ہے۔ لذا دشمنان الہی بالاترین غضب کے حقدار ہیں۔ یہ الفاظ واقعیات ہستی کو بیان کر رہے ہیں۔ معصوم کی زبان ان حقائق کو بیان کر رہی ہے۔ کیوں کہ شدت محرومیت ایجاد ہوئی ہے اس لیے غضب بھی شدید ہو۔ شدید ترین صورت میں «سدّ عن الطریق» واقع ہوۓ ہیں لذا خدا بھی شدید ترین صورت میں غضب فرماۓ گا۔  ہمیں ہر وقت دعا کرنی چاہیے کہ خدا نہ کرے ہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جو غضب الہی کا باعث بنے۔آیت اللہ بہجتؒ جب یزید یا شمر کا نام سنتے یا ذکر کرتے تو فرماتے کہ ایسا مت سوچیں کہ ہم ان بدترین مرتبوں سے بَری ہیں، ہمارے لیے کبھی پیش ہی نہیں آیا، اگر ہمارے لیے یہ مرحلہ پیش آتا تو معلوم نہیں ہم کہاں کھڑے ہوۓ؟ اس روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس زمانے کے لوگ «اشد ما یکون غضب الله» ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے زمانہ غیبت میں اپنی تکلیف پر درست طور پر عمل نہ کیا، نعوذباللہ کوئی مانعیت ایجاد کرتا ہے، یا عناد کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، وہ «أشدّ ما یکون» کا کامل مصداق بن سکتا ہے یا ان (شمر و یزید و فرعون و نمرود) سے بھی اشد تر ممکن ہے بن جاۓ۔

اصلِ غیبت اللہ تعالی کی جانب سے

الکافی کی اس حدیث مبارک کے آخری حصے میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: «  وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَوْلِيَاءَهُ لَا يَرْتَابُونَ وَلَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ يَرْتَابُونَ مَا غَيَّبَ حُجَّتَهُ عَنْهُمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ »؛ اور بتحقیق خدا جانتا تھا کہ (غیبت کی وجہ سے) اس کے اولیاء شک میں نہیں پڑیں گے اور اگر وہ جانتا کہ وہ شک میں پڑ جائیں گے تو وہ اپنی حجت کو پلک جھپکنے کی مدت تک بھی نہ چھپاتا۔ اور یہ غیبت نہیں ہوگی مگر بدترین لوگوں کی وجہ سے۔ (غیبت کی وجہ بدترین لوگ ہیں)۔ [12] کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت ایک الہی امر ہے۔ جزائی امر نہیں ہے۔ اگر جزائی امر ہوتا تو کہا جاتا کہ تم لوگ خود اسکا باعث بنے ہو اور یہ اس کی جزا ہے۔ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ غیبت سے کوئی شک میں پڑ جاۓ گا، نہیں فرمایا کسی کو یقین ہو جاۓ گا، بلکہ اگر کوئی غیبت کی وجہ سے شک میں بھی پڑ جاتا تو غیبت کو خدا کبھی قرار نہ دیتا۔ پس «اصل الغیبة من الله» ہے۔ اصلِ غیبت کسی کی گمراہی یا شک میں پڑنے کا باعث نہ بنے گی۔ لیکن طولِ غیبت اور اس کا دوام باعث بن سکتا ہے کہ جو اولیاء الہی نہیں ہیں اور ان کے دل مریض ہیں گمراہ ہو جائیں۔ ان کا گمراہ ہو جانا یا شک میں پڑ جانا اصلِ غیبت کی وجہ سے نہیں بلکہ طول غیبت کی وجہ سے ہے۔ اس کی علت خود ان کے اعمال ہیں۔ «    في‏ قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً » ؛  ان کے قلوب میں پہلے سے ہی مرض موجود تھا خدا ان کے مرض میں اور زیادہ اضافہ فرما دے گا۔[13] بقره: ۱۰۔

غیبت اور  شریر ترین حکومتیں

حدیث مبارک کے اختتام پر امام صادقؑ فرماتے ہیں: «   وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا عَلَى رَأْسِ شِرَارِ النَّاس‏ » ؛ اور یہ نہیں ہو گا مگر لوگوں کے شریر ترین افراد کی وجہ سے۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہدورانِ غیبت ایک ایسا دور ہے جس میں شر ترین و بد ترین ظالمین اپنے شر اور ظلم کے بالاترین مرتبے پر موجود ہوں گے اور ان سے پہلے جتنے اشرار گزرے ہیں وہ ان کی نسبت کم درجہ پر اور یہ اپنی اوج پر فائز ہوں گے جیساکہ حدیث مبارک میں’’ لفظِ رأس ‘‘اس مطلب کو بیان کر رہا ہے۔  دوران غیبت میں شریر ترین لوگ حاکم بنائے جائیں گے ۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ انہی اشرار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔  ان سب شرارِ ناس کا رأس اور ان کا آخری درجہ دوران ِغیبت میں حاکم بن کر ظاہر ہو گا۔  لذا اس دور میں رہنے والے مومنین ہی «ارضی و اقرب ما یکون» ہو سکتے ہیں۔ جس طرح سے وارد ہوا ہے کہ ہر دور کا شیطان اور اس کے وسوسے اس دور کے نبی کے درجے کے مطابق ہے۔ لذا جب حضرت عیسیؑ مبعوث ہوۓ شیطان کو چوتھے آسمان تک رسائی سے منع کر دیا گیا، یعنی سقوط کے چار مرتبے امکان پذیر ہو گئے اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوۓ تو ساتوں آسمانوں سے شیطان کی رسائی کو روک دیا گیا مطلب سقوط بہ ارضین سبع ممکن ہو گیا۔ شیطان ہر وجود کے پاس اس کے مرتبہ وجودی کے مطابق آتا ہے، عالم کے پاس عالمانہ انداز میں اور جاہل کے پاس جاہلانہ طور پر۔

دجال کا گذشتہ ظالمین سے بدتر ہونا

یہاں سوال ہے کہ کیا دجال، فرعون اور نمرود سے اشد ہوگا؟ روایات کا ظاہر بتاتا ہے کہ اشد ہوگا۔ اس کے پاس مکاریت اور حیلہ گری کے وسائل زیادہ ہیں۔ اس کے پاس گزشتہ تمام شیاطین کے مراتب، با اضافہ ان تمام وسائل کہ جو جدید ہیں اور بالا مرتبے کے ہیں سب موجود ہیں۔ اس وجہ سے ان کو «علی راس شرار الناس» قراردیا گیا ہے۔ البتہ ہمیں اس کلام کو ان روایات سےسازگار کرنا ہوگا کہ جن میں ان سات افراد کا ذکر ہے جو جہنم کی بدترین جگہ میں موجود ہیں اور «ویل» کے کنویں میں ہیں یا آگ کی صندوق میں موجود ہیں۔ کبھی ایک مسئلے کو از جہت مبدئیت دیکھا جاتا ہے اور کبھی اس کے نتیجے کی جہت سے۔ از لحاظ نتیجہ دجال بدتر ہے اور از لحاظ مبدئیت وہ سات افراد بدتر ہیں۔

غیبت میں عبادت افضل ہے یا زمانہِ ظہور میں

سوال یہ ہے کہ ظاہری عبادات زمانہ ظہور میں افضل ہیں یا زمانہ غیبت میں سِری عبادات افضل ہیں۔الکافی میں ایک اور روایت میں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: « الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ مُعَلَّى بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مِرْدَاسٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: أَيُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِي السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ‏ أَوِ الْعِبَادَةُ فِي ظُهُورِ الْحَقِّ وَدَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْكُمُ الظَّاهِر »؛ عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادقؑ سے عرض کی کہ باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ مخفی عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری اعلانیہ طور پر عبادت انجام دینا افضل ہے؟  [14] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔ دوران غیبت میں باطل کی حکومت ہے اور عبادات کو علنی طور پر انجام دینا ممکن نہیں۔ امام بھی مخفی ہے۔ عبادات کو سری اور مخفی طور پر کر سکتے ہیں۔ یہ دوران صرف آج کے دور کو شامل نہیں کہ جب بارہویں امام غیبت میں ہیں بلکہ اس دور کو بھی شامل ہے جب آئمہ معصومینؑ لوگوں میں ظاہری طور پر موجود تھے لیکن حکومت باطل کی تھی، امام سب کے لیے آشکار نہیں ہوتے تھے تاہم ظہور کا ایک مرتبہ ان کو میسر تھا۔ لذا استتار کا ایک مرتبہ ان کے دور کو بھی شامل ہے۔ مثلا امام رضاؑ نے چار سال تک اپنے والد گرامی امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد اپنی امامت کو ظاہر نہ کیا۔ فقط خواص میں سے کچھ افراد جانتے تھے لیکن عام شیعہ نہیں جانتے تھے۔ حتی بعض خواص میں سے بھی کچھ کو پتہ نہ تھا کہ امام کاظمؑ کے بعد امام کون ہیں؟ یہ بہت سخت دور تھا استتار کا ایک مرتبہ اس دور کو بھی شامل ہے۔معلوم ہوا امام کا مستتر ہونا تشکیکی ہے۔ اسی طرح باطل کی حکومت بھی تشکیکی ہے، مثلا بعض حکومتیں ایسی ہیں جن کو مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ پس ایک طرف سِری عبادت ہے، باطل کی حکومت ہے اور امام بھی مستتر ہیں، ظاہری طور پر عبادات انجام دینا یا اجتماعی عبادات انجام دینا یا تو مشکل ہے یا نا ممکن۔ اور دوسری طرف امام ظاہر ہیں، حق کی حکومت ہے اور ظاہری عبادت؟ کونسی عبادت افضل ہے؟ عبادتِ ظاہر در دوران ظہور یا عبادتِ سری در زمان غیبت؟ ممکن ہے دوران ظہور میں ہم عبادت امام کی اقتداء میں انجام دے رہے ہیں، امام پورے معاشرے پر حاکم ہیں اور پورے سیطرے کے ساتھ ، پورے ظہور کے ساتھ حجت امامت کرتی ہے اس جاہ و جلال و شکوہ کے ساتھ اس نماز کا کیا ہی معراج ہوگا؟ اور ایک طرف غیبت کا دور، امام بھی مستتر، حکومت بھی باطل کی، مخفیانہ نماز وہ بھی ممکن ہے فرادی؟ کس نماز کو افضل قراردیا جاۓ گا؟ امام ؑ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: « فَقَالَ يَا عَمَّارُ الصَّدَقَةُ فِي السِّرِّ وَ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ فِي الْعَلَانِيَةِ وَ كَذَلِكَ وَ اللَّهِ عِبَادَتُكُمْ فِي السِّرِّ مَعَ إِمَامِكُم‏ الْمُسْتَتِرِ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَل‏ »؛ امام نے فرمایا: اے عمار وہ صدقہ جو مخفی طور پر دیا جاتا ہے خدا کی قسم اس صدقے سے افضل ہے جو علانیہ دیا جاتا ہے اسی طرح خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔[15] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔

لیکن سوال پیدا ہوگا کہ صدقہ تو مستحب عمل ہے کیا واجبات کو بھی یہ امر شامل ہے؟ وارد ہوا ہے کہ نماز جماعت میں شرکت کرو چاہے اس میں تمہارا حضور قلب کم ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ خود جماعت، نماز کا علنی ہونا، مسلمانوں کا جمع ہونا اور یہ اجتماع خود مطلوب امر ہے اور اس کے آثار ہیں۔ جب امام نے دوران غیبت کی اتنی فضیلت بیان کی تو راوی نے پوچھا کہ یا امام پھر ہم ظہور کی دعا نہ کریں؟ امام نے فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھنا چاہتے کہ حکم خدا ہر جگہ جاری ہوتا نظر آۓ؟ اگر کوئی اس مطلب کو درک کر لے تو اس کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ خدا کسی اور طرح سے جبران فرما دے گا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دوران غیبت کی ہمیں دقیق معرفت عطا فرماۓ اور دوران ظہور کا درک عنایت فرماۓ۔

Views: 30

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: احادیث مہدویت میں نُوَمہ کا تذکرہ
اگلا مقالہ: شرح مناجات خمس عشر