loading
«دروس شرح الکافی: درس نمبر ۵»
عمل صالح اور غیبت امام مہدیؑ
تدريس: آيت الله رضا عابدينی
تدوين: عون نقوی

بیان ہوا کہ غیبت تکامل کا ایک مرحلہ ہے جو بشریت نے طے کرنا ہے۔ غیبت محرومیت یا عِقاب نہیں بلکہ بشریت کے شرف اور اس کی تکمیل کا باعث ہے۔ لیکن غیبت کا طولانی ہونا محرومیت ہے۔ روایات کے مطابق غیبت سِر الہی اور امر الہی ہے۔ غیبت پر ایمان لانا « الَّذينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْب‏ » [1]بقرہ: ۳۔ کا ایک مصداق ہے۔ غیبت کا دور اسم باطن کی حاکمیت کا دور ہے۔ اس دور نے انسان کو مرتبہ ظاہر اور بدن کے نظام سے عبور کروا کر اسے نظام باطنی اور احکام روح کی سلطنت تک پہنچانا ہے۔ دوران غیبت کی حکمت یہی بیان ہوئی ہے کہ ولی حق سے ارتباط عمومیت پیدا کر جاۓ گا اور یہ ارتباط نظام روح سے برقرار ہوگا نہ نظام بدن کے تحت۔ اس لیے وارد ہوا ہے کہ غیبت کی حقیقت آشکار نہیں ہوگی مگر ظہور کے بعد۔ اس کی حکمت عینی ہے مفہومی نہیں ہے۔ اس لیے روایت میں امام نے غیبت کو حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کے واقعے سے تشبیہ دی اور فرمایا کہ جس طرح حضرت خضرؑ کے تین کاموں کی تشریح ان سے جدا ہوتے وقت حضرت موسیؑ کو حاصل ہوئی اسی طرح غیبت کی حقیقت بھی منتظرین پر ظہور کے وقت سامنے آۓ گی۔

عمل صالح۔ فرج کی شرط

امام ہادیؑ سے روایت منقول ہے: عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَيُّوبَ بْنِ نُوحٍ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الثَّالِثِ × قَالَ: إِذَا رُفِعَ عَلَمُكُمْ مِنْ‏ بَيْنِ‏ أَظْهُرِكُمْ‏ فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ مِنْ تَحْتِ أَقْدَامِكُمْ.؛ جب تمہارا عَلَم تم میں سے اٹھا لیا جاۓ تو اپنے پاؤں کے تلؤوں میں فرج کے منتظر رہو۔[2]  کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۴۱۔ اس روایت میں امامؑ نے فرمایا کہ جب پرچم تمہاری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو جاۓ اس وقت تم لوگوں نے کیا کرنا ہے؟ کس راستے پر جانا ہے کہ راہ ہدایت کو گم نہ کرو؟ اس کے جواب میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض روایات جواب دیتی ہیں کہ جب فرج کے منتظر ہو تو اپنی گزشتہ محبتوں اور نفرتوں پر ثابت قدم ہو جانا۔ فرج کے انتظار پر ثابت قدم رہنا چاہتے ہو تو تولا اور تبرا کرنا ہوگا۔ مذکورہ روایت میں امام نے غیبت کے زمانے کے بارے میں مومنین کو ہدایت کرتے ہوۓ حکم دیا ہے کہ اگر اس زمانے میں ثابت قدم رہنا چاہتے ہو تو پاؤں کے تلووں میں فرج کے منتظر رہو، یقینا اس سے مراد یہ نہیں کہ پاؤں کی طرف دیکھتے رہیں۔ جس طرح ہاتھ قدرتِ الہی کا اشارہ ہیں ، اسی طرح پاؤں اشارہ ہیں عملی حرکت کی طرف۔ یعنی امام چاہتے ہیں کہ عمل صالح کے ذریعے فرج کی طرف بڑھو۔ پس اگر کوئی انسان زمانہ غیبت میں ہو تو اسے چاہیے کہ امام تک پہنچنے کے لیے اعمال صالحہ کو امام تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دے۔ 

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:ٌ فَمَنْ كانَ يَرْجُوا لِقاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صالِحاً وَ لا يُشْرِكْ بِعِبادَةِ رَبِّهِ أَحَدا؛ لہٰذا جو اپنے رب کے حضور جانے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔[3] کہف: ۱۱۰۔ اگر کوئی انسان خدا تک پہنچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ عمل صالح انجام دے۔ عمل صالح انسان کے وجود کو صالح کرتا ہے، اغیار سے خالی کر کے پاک کر دیتا ہے اور جب وجود پاک ہو جاۓ تو انسان قطعی طور پر قرب الہی حاصل کر لیتا ہے۔ 

عمل صالح کا عین لقاء الہی ہونا

ایک اور سوال کا جواب جو اس آیت سے سمجھا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی لقاء الہی چاہتا ہو تو کیا کرے؟ کیا عمل صالح لقاء الہی کا مقدمہ ہے یا خود عمل صالح کرنا ہی لقاء الہی ہے؟ کیونکہ عمل صالح اوامر الہی اور نواہی الہی سے وجود میں آتا ہے اور از طرف خدا ہوتا ہے اس لیے خدا نما ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خود عمل صالح ہی لقاء الہی ہے۔ ہر عمل صالح لقاء الہی کا مرتبہ ہے اور جس نے عمل صالح انجام دیا گویا اس نے خدا سے ربط برقرار کیا۔ ارادہ الہی کو اپنے وجود میں قرار دینا اور اپنے ارادے کو الہی ارادے میں فانی کر دینا، یہی لقاء ہے۔ یہی نسبت جو توحید الہوہی میں موجود ہے توحید ولائی میں بھی موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ انسان توحید الہی تک پہنچے پہلے توحید ولائی تک پہنچتا ہے۔ اس طرح کہ وہ اپنے ارادے کو ولیِ الہی کے ارادے میں فانی کرتا ہے اور اس مرتبے کے بعد توحید الوہی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے زیارت جامعہ کبیرہ میں آیا ہے: ٌ إِنْ‏ ذُكِرَ الْخَيْرُ كُنْتُمْ أَوَّلَهُ وَ أَصْلَهُ وَ فَرْعَهُ وَ مَعْدِنَهُ وَ مَأْوَاهُ وَ مُنْتَهَاه‏؛ جہاں کہیں بھی ذکر خیر ہوتا ہے اول خیر، آخر خیر، اصل خیر، فرع خیر، اور مأوی و منتہی خیر آپ ہیں۔[4] قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ص ۳۱۸، زیارت جامعہ کبیرہ۔

یہاں تک ہم نے جانا کہ اگر ہم فرج چاہتے ہیں تو عمل صالح انجام دینا ہوگا کیونکہ عمل صالح ہمیں ربط برقرار کرنے میں آمادہ کرتا ہے۔ یا دوسری تعبیر کے مطابق عمل صالح خود ارتباط ہے۔ لہذا اگر کوئی عمل صالح کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ عمل صالح خود اصلِ ارتباط ہے نا کہ مقدمہ، یہ نگاہ اس سے بہتر ہے کہ ہم عمل صالح کو ارتباط کا مقدمہ قرار دیں۔ اگرچہ عمل صالح کو مقدمہ قرار دینا بھی غلط نہیں بلکہ ہماری فہم پر منحصر ہے، جیسا کہ ہماری روایات بھی اسی طرح سے وارد ہوئی ہیں کہ آئمہ معصومینؑ مخاطب کی فہم کے مطابق کلام فرماتے۔ مثلا بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ عمل صالح کا اتنا ثواب ہے، یا مثال کے طور پر غسل جمعہ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کا جسم مرنے کے بعد پوسیدہ نہیں ہوتا یا قبر کے عذاب سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے۔ 

عمل صالح۔ ولی خدا سے ارتباط

لیکن بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ فلاں عمل صالح بقیہ تمام اعمال صالحہ سے مرتبط ہے۔ اگر یہ عمل انجام دیں تو بقیہ تمام اعمال کو بھی رشد دیتا ہے سب اعمال پر اثرگذار ہے۔ جدا نہیں ہے بلکہ انسان کے تمام اعمال سے مرتبط ہے۔ عمل صالح ایک جزء نہیں، یا صرف بقیہ اعمال سے مرتبط نہیں بلکہ عمل صالح خود نفس ارتباط ہے۔ شجرہ طوبی ہے جس کا تنا ولایت ہے۔ ہر عمل صالح ولایت سے مرتبط ہے۔ لذا وارد ہوا ہے:«رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ». [5] بقرہ: ۲۰۱۔ جب اس دعا کو قنوت میں پڑھا جاتا ہے یہاں پر «حسنه» سے مراد کیا ہے؟ حسنہ سے مراد یعنی ولایت۔ یعنی جب ہم ولایت کی حسنہ کو طلب کرتے ہیں گویا تمام حسنات کو طلب کرتے ہیں۔ جو اصلِ حسنہ سے مرتبط ہو جاتا ہے گویا شجرہ طوبی سے مرتبط ہو گیا اور جو شجرہ طوبی سے مرتبط ہو گیا وہ تمام حسنات سے مرتبط ہوا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک ایک حسنہ انجام دے کر امام کی طرف بڑھتے ہیں اور کبھی ایک ایسی حسنہ سے امام کی طرف بڑھتے ہیں جو تمام حسنات سے مرتبط ہے۔ حضرت آیت اللہ محمد حسن الہی (علامہ طباطبائی کے بھائی) فرماتے تھے کہ اگر حسنات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر رکھ دیں، یہ اس مجموعہ کی مانند ہو جاتی ہیں جو انسان کے لیے امام کو نمایان کر دیتی ہیں۔ اگر ہم اس بات پر قدرت رکھتے ہوں کہ ان حسنات کو ایک ساتھ ملا کر دیکھ سکیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی بڑی حقیقت ہم پر عیان ہو رہی ہے۔ اگر آپ پزل (puzzle) کے قطعات کو الگ الگ کسی جگہ بکھیر دیں تو معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی اصلی شکل کیا ہے، فرض کریں اگر ان میں سے صرف ایک قطعہ اگر کسی کو دکھائیں تو اصلا معلوم نہ ہوگا کہ اصلی تصویر کیا ہے؟ لیکن اگر ان سب کو ترتیب سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیں تو معلوم ہوگا کہ اگر ان میں سے اگر ایک قطعہ بھی نہ ہو تو ساری تصویر ناقص لگتی ہے۔ اعمالِ صالحہ میں سے ہر ایک عمل ولی کی طرف ایک اشارہ، ایک فیض و تجلی ہے۔

جب انسان اس فیض اور تجلی کو ایک مجموعے کی شکل میں دیکھتا ہے تو متوجہ ہوتا ہے کہ یہ سب اجزاء اور اعمال ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط ہیں، یہ سب مل کر ایک حقیقت کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ پس یہاں پر امام کا فرمانا:«اذا رفع علمکم من بين اظهرکم فاليتوقعوا الفرج من بين اقدامکم». ظاہر کرتا ہے کہ عمل صالح رابطہ ہے۔ اس رابطے کے ذریعے فرج تک پہنچا جا سکتا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ عمل صالح کو کس نگاہ سے دیکھیں بہت فرق رکھتا ہے۔ ایک وقت ہم عمل صالح اس نیت سے انجام دیں کہ وہ مقدمہ بنے لقاء کا، یہ ایک نظر ہے لیکن اگر ہم عمل صالح کو اس نگاہ سے دیکھیں کہ عمل صالح خود لقاء ہے نہ کہ مقدمہ، یہ نگاہ حرکت میں تیزی ایجاد کرتی ہے۔ اس نگاہ سے اگر کوئی عمل صالح انجام دے گا گویا اس نے خود عمل لقاء انجام دیا اور اس وقت اس کے لیے غیبت کوئی معنی نہ رکھے گی۔ کیونکہ انسان ایک لحظے کے لیے بھی عمل صالح سے غائب نہ ہوگا، حتی انسان کا سانس لینا، نگاہ کرنا یا قدم اٹھانا بھی جب رضاء الہی سے گرہ کھا گیا اس وقت ہر عمل صالح لقاء کہلاۓ گا۔ ہر پلک جھپکنا اور قدم اٹھانا اس کے لیے لقاء بن جاۓ گا، اور اگر ان اعمال سے مافوق عمل انجام دے تو بلند مرتبے کا لقاء نصیب ہوگا۔

«فتوقعوا الفرج من تحت اقدامکم». روایت کے ان الفاظ میں قدم سے مراد، ثبات قدم اور اقدام انجام دینا ہے۔ «يثبت اقدامکم» کی اصطلاح بھی وارد ہوئی ہے، یعنی ہر وہ کام جو انجام دیتے ہو اس کا محکم اور تثبیت ہونا، یا قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:«رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ».[6] بقرہ: ۲۵۰۔ تثبت بر قدم ایک دینی اصطلاح ہے جو صرف اس روایت میں وارد نہیں ہوئی بلکہ قرآن کریم اور روایات میں وارد ہوئی ہے۔ معلوم ہوا قدم سے مراد عمل ہے۔ ثبات در عمل یعنی ثبات قدم۔ جالوت کے مقابلے میں جو قلیل گروہ جہاد کے لیے حاضر ہوا وہ اہل صبر اور اہل یقین گروہ تھا۔ انہوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے یہ دعا مانگی اور کہا کہ اے خدا ہمیں صبر عطا کر اور ثابت قدم فرما۔ ہمارے پاؤں اس میدان میں اکھڑنے نہ پائیں بلکہ ثابت رہیں۔ یہاں پر بھی امام کا فرمانا کہ اگر فرج چاہتے ہو تو «فالیتوقعوا الفرج من تحت اقدامکم» عمل اور ثبات قدم سے اس مقصد تک پہنچ سکتے ہو۔ اگر اس روایت کی حقیقت اور زیبائی کو ہم درک کر کے اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو ہمارے لیے غیبت تنہائی میں ہوگی اور نہ ہی اجتماعی زندگی میں بلکہ ہمارے لیے فرج میسر ہو جاۓ گی۔

عمل صالح کا آئینہِ امام نما ہونا

عمل صالح کے بارے میں ہمارے پاس دو نگاہیں موجود ہیں۔ ہماری نظر میں جیسا کہ مرحوم سید محمد حسن الہی فرماتے ہیں عمل صالح خود لقاء ہے۔ سب اعمال صالحہ اس شجرہ طوبی کے شاخے ہیں جو متصل ہیں اس شجرہ سے جدا نہیں۔ صالحین وہ سب افراد ہیں جو عمل صالح سے متلبس ہوتے ہیں، ایسا نہیں کہ بہت بلند مرتبے پر پہنچ جائیں تو تب ہی یہ مقام حاصل ہو، نہیں! بلکہ جتنا انسان کے اعمال صالحہ ہوتے جائیں اتنا ہی مرتبہ انسان کو امام کے لقاء کا حاصل ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جتنا صالح تر ہوتا چلا جاۓ گا اتنا ہی اس کا وجود امام نما ہوتا جاۓ گا۔ ان مفاہیم کو ذہن میں رکھیں تو تب یہ روایت  بھی سمجھ میں آتی ہے جس میں امام کو سورج کے اس ٹکیہ سے تشبیہ دی گئی جو بادلوں میں چھپ گئی، اگرچہ موجود ہے اور اس کے آثار نظر آ رہے ہیں لیکن ظاہری طور پر نظر نہیں آ رہی۔ پس کوئی بھی ایسی جگہ نہیں جہاں نور امام موجود نہ ہو اور نا ہی کوئی طاقت انسان کو امام کے لقاء سے روک سکتی ہے۔ کیونکہ انسان کو تن تنہا کال کوٹھی میں ڈال دیا جاۓ وہاں پر بھی اس کو عمل صالح انجام دینے سے نہیں روکا جا سکتا، وہاں پر بھی وہ ذکر الہی میں مشغول ہو سکتا ہے اور اس طرح تنہائی کے لمحات میں بھی وہ لقاء امام حاصل کر سکتا ہے۔ اگر یہ نگاہ عمل صالح کے بارے میں حاصل ہو جاۓ اور امام سے ارتباط کے حوالے سے اور ان کے محضریت میں ہونے کو اس نگاہ سے دیکھیں تو اعمال صالحہ ہمارے لیے مزید خوبصورت ہو جائیں گے۔ بعض بزرگان کے مطابق امام کو ’’ابا صالح‘‘ بھی اسی جہت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر صالح انسان کے باپ ہیں۔ ایسا نہیں کہ امام کی یہ کنیت ان کے فرزند کی وجہ سے ہو، البتہ اگر ان کا فرزند ہو بھی تو اس مطلب سے منافات نہیں رکھتا۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ کو ابوالقاسم کہا جاتا ہے، کتاب معانی الاخبار کے مطابق قاسم سے مراد امیرالمومنینؑ ہیں، قاسم الجنہ والنار۔ لذا رسول اللہ ﷺ کو اس جہت سے ابوالقاسم کہا جاتا ہے۔ غیبت کو اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے اگر ہمیں یہ نگاہ حاصل ہو جاۓ تو یہ خود حضور کہلاۓ گا بلکہ زمانہ حضور سے بھی حاضر تر بن جاۓ گا۔ اور اس طرح «ارضی ما يکون للعباد» کی تفسیر بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ دوران غیبت کو کیوں یقین کے مراتب میں سب زمانوں سے افضل تر قرار دیا گیا ہے۔ اس زمانے میں مومنین کی وجودی ظرفیت شدید تر ہو جاۓگی ، اور یہ لوگ افضل یقینا، افضل ایمانا، اور ارضی ما یکون للعباد ہیں۔

عمل صالح اور انسانِ صالح میں چونکہ وجودی اتحاد ہے، اتحاد عامل با عمل اس لیے ان دو کو ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ جب ہم نے کہا کہ عمل صالح خود لقاء امام ہے یعنی ہر صالح انسان امام نُما ہے۔ با الفاظ دیگر تمام صالحین اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق امام کے بدن ہیں، کہ امام کی روح ان سب پر حاکم ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کاملا امام کے تابع ہیں بلکہ جس مقدار میں تابع ہیں اس مقدار تک امام نُما ہیں۔ جتنا عمل صالح ان کے وجود میں پایا جاۓ اور جس وقت امام کے تابع محض ہوتے ہیں اور ان کے فرامین کی پیروی کرتے ہیں اس وقت یہ امام کے بدن ہیں۔ اور جب یہ پاکیزہ نفوس امام کا بدن بن جاتے ہیں اس وقت امام کے تابع کہلاتے ہیں۔ اس لیے روایات میں آیا ہے کہ جب ظہور ہوگا اور پورے عالم پر امام کی حکومت قائم ہو جاۓ گی اس وقت کوئی بھی زمین پر غیر خدا کی عبادت نہیں کرے گا اور زمین گناہوں سے پاک ہو جاۓ گی۔ کیوں؟ کیونکہ سب امام کے لیے بدن بن جائیں گے اور ان کے تابع محض ہونگے۔ 

فرج کا انتظار، عمل صالح کا مصداق

روایت میں وارد  ہوا ہے:

«انتظار فرج من الفرج».[7] طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص۴۵۹۔ فرج کا انتظار کرنا ہی فرج ہے۔ انتظار فرج کو عمل صالح قرار دیا گیا ہے بلکہ اشدِ اعمال صالح میں سے ہے۔ انتظار فرج یعنی ایک ایسی حقیقت کا انتظار جس سے اصلاح ہوگی امام سجادؑ سے منقول ہے:

«انتظار الفرج من اعظم الفرج».[8] مجلسی، مجمد باقر، بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۲۲۔ انتظار فرج اعظم فرج میں سے ہے۔  کیونکہ یہی فرج کا انتظار ہی ایک نوع کا امام سے رابطہ ہے۔ انتظار فرج سے ارتباط حاصل ہوتا ہے اس لیے اعظم الفرج ہے۔ جو چیز اس دور میں مطلوب ہے دراصل یہی ہے کہ ماموم اپنے امام سے ارتباط برقرار کرے۔ امام کے بدن کو ظاہری طور پر دیکھنا بھی فرج ہے لیکن وہ فرع ہے امام سے قلبی ارتباط برقرار کرنا اور انتظار اصل ہے۔

دائرہ عقل اور زمانہ غیبت و ظہور

ایک روایت میں وارد ہوا ہے:

«مَن الخامس من ولد السابع؟ قال: یَا بُنَیَّ، عُقُولُکُمْ تَصْغُرُ عَنْ هذَا».[9] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۶۔ امام کاظمؑ سے امام زمان کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ ساتویں کی اولاد میں سے پانچویں کون ہیں؟ امام نے فرمایا تمہاری عقلیں اس کو درک کرنے کے لیے بہت کوچک ہیں۔ امام نے فرمایا کہ اس کو سمجھنا عقل کے احاطے سے باہر ہے۔ عقل کے احاطے کا اپنا دائرہ ہے مثلا اگر عقل اسماء الہی کے مرتبے تک کو درک کرنا چاہے تو وہم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ «عَجَزَتِ الْأَوْهَامُ عَنْ کَیْفِیَّتِک». [10] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۶۳۔ خود عقل جان لیتی ہے کہ اس مقام کو سمجھنے کے لیے وہ ناکافی ہے۔ عقل وہاں کام کرتی ہے جہاں مفاہیم سمجھنے ہوں، اور جہاں مفاہیم ہوں حد ایجاد ہو جاتی ہے۔ لیکن جو حقیقت حد بردار نہیں ہوتی اس کو عقل نہیں سمجھ سکتی۔ ہمارا یہ کہنا کہ یہ حقیقت مفہوم سے بری ہے، یہ کہنا بھی ایک مفہوم ہے اور ہم نے اس کی حد بندی کر دی۔ لذا امام فرماتے ہیں عقولکم تصغر عن هذا. جب اس منظر کو دیکھیں اور وہاں موجود ہوں تو اس کے بعد عقل آ کر تجزیہ تحلیل کر سکتی ہے اس سے پہلے اس کے پاس کوئی مفہوم نہیں جس کو وہ درک کرے۔

اسی روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«أَحْلَامُکُمْ‏ تَضِیقُ عَنْ حَمْلِه و لکِنْ إِنْ تَعِیشُوا فَسَوْفَ تُدْرِکُونَهُ».

تمہاری عقول اس مطلب کو حمل کرنے کے لیے بہت تنگ ہیں، لیکن اگر تم زندہ ہوۓ تو اس دن کو دیکھ لوگے۔ اس زمانے کا ادراک صرف نظام شہودی سے ممکن ہے نا نظام عقلی سے۔ 

قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ اس مطلب کو سمجھنے میں ہماری بہت مدد کر سکتی ہے:

«وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًا».

اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔[11] اسرا: ۴۵۔

اگر انسان قرآنی انسان ہو جاۓ تو خدا اس کے اور کفار کے مابین ایک حجاب قرار دیتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ امام زمانؑ کے وجود کی حقیقت جو قرآن کی حقیقت سے کاملا اتحاد رکھتی ہے، وہ افراد جو ان پر ایمان رکھتے ہیں اور امام کے مابین کوئی حجاب موجود نہیں۔ اگر کوئی انسان امام زمانی انسان بن جاۓ اس کے اور امام کے مابین کوئی حجاب رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی انسان امام سے نزدیک ہونا چاہتا ہے وہ قرآنی بن جاۓ، قرآن کریم کی قرأت مومنین کے مابین رابطہ کو محکم تر کرتی ہے اور اس طرح وہ وحدت کو پہنچ جاتے ہیں، جتنا قرآن انسان کے اندر جگہ بناتا جاتا ہے اتنا ہی وہ قرآن سے متحد تر ہوتا چلا جاتا ہے اور امام سے بھی نزدیک تر ہوتا جاتا ہے۔

قرآن کریم نے سامری کی حکایت کو نقل کرتے ہوۓ ذکر کیا کہ اس نے کیسے گوسالے کے اندر آواز پیدا کی؟ 

«فَما خَطْبُکَ یا سامِرِیُّ قالَ‏ السَّامِرِیُّ بَصُرْتُ بِما لَمْ یَبْصُرُوا بِه فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُول فَنَبَذۡتُها وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتۡ لِیۡ نَفۡسِیۡ‏».

 کہا : اے سامری! تیرا مدعا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس کا دوسروں نے مشاہدہ نہیں کیا پس میں نے فرستادہ خدا کے نقش قدم سے ایک مٹھی(بھر خاک) اٹھا لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا اور میرے نفس نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔[12] طہ: ۹۵،۹۶۔

قرآن کہتا ہے کہ سامری نے کہا کہ اس نے ایک ایسی شے کو دیکھا جو دوسروں کے لیے قابل مشاہدہ نہ تھی۔ در اصل سامری حضرت موسیؑ کے بہت خاص اصحاب میں سے تھا۔ وہ ان مومنین میں سے تھا جنہوں نے موسیؑ پر سب سے پہلے ایمان لایا۔ حتی بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ وہی شخص تھا جس کا ایک فرعونی کے ساتھ جھگڑا ہوا اور وہ شخص حضرت موسیؑ کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس وقت تک بہت کم افراد جانتے تھے کہ حضرت موسیؑ وہی موسیؑ ہیں جو بنی اسرائیل کی نجات کے لیے مبعوث ہوۓ ہیں۔ سامری حضرت موسیؑ کی بہت خصوصی ترین محافل کا ساتھی تھا۔ اس نے ایک ایسی شے کو دیکھا جو کوئی اور نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے فرستادہ خدا حضرت جبرئیلؑ کے جاۓ پا کو دیکھا تھا جو کوئی اور نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہی وہ مخصوص حالت ہوگی جو ہر نبی کے بہت خالص درجہ کے اصحاب کو حاصل تھی لیکن زمانہ غیبت میں یہی حالت عمومیت پیدا کر جاۓ گی۔ یہ رؤیت گزشتہ امتوں میں صرف خواص کو حاصل تھی اور دوران غیبت عام ہو جاۓ گی۔ خاص طور پر جتنا زمانہ ظہور کے قریب تر ہوتا چلا جاۓ گا یہ حالت بھی عام تر ہوتی جاۓ گی۔

Views: 45

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: زمانہ غیبت میں امت کا معنوی رُشد درس۲
اگلا مقالہ: احادیث مہدویت میں نُوَمہ کا تذکرہ