loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۰}

مدینہ فاضلہ سے مراد

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

مدینہ فاضلہ سے مراد آئیڈیل معاشرہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں چند مخصوص صفات پائی جاتی ہیں۔ وہ خصوصیات کونسی ہیں اور مدینہ فاضلہ کیسا ہوگا؟ اس میں مغربی اور اسلامی مفکرین نے اختلاف کیا ہے۔ سیاست کے موضوع پر لکھی جانے والی قدیم دور کی کتابوں میں یہ لفظ ہمیں نظر آتا ہے۔ حتی یونانی دانشور افلاطون، ارسطو کے آثار میں بھی ہم یہ بحث موجود پاتے ہیں۔ اسلامی مفکرین میں فارابی، ابن سینا، ابن خلدون اور ماوردی نے مدینہ فاضلہ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ 

لفظی معنی

مدینہ فاضلہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ مدینہ یعنی شہر۔ مدینہ کی جمع مدن ہے اور اسی سے لفظ تمدن بھی ہے۔ تمدن یعنی شہر سازی یا آبادی۔[1] راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۷۶۳۔ [2] ابن فارس، احمد، معجم مقائیس اللغہ، ج۵، ص۳۰۶۔ [3] ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۱۳، ص۴۰۲۔ [4] مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ج۱۱، ص۵۴۔ فاضلہ کے معنی خیر کے ہیں۔[5] ابن فارس، احمد، معجم مقائیس اللغہ، ج۴، ص۵۰۸۔ پس مدینہ فاضلہ یعنی ایسا شہر جس میں رہنے والے افراد خیر و برکت میں ہیں۔ 

اصطلاحی معنی

مدینہ فاضلہ کی اصطلاحی تعریف میں فارابیؒ لکھتے ہیں:
مدینہ فاضلہ وہ معاشرہ ہے جس میں سعادت کے حاصل کرنے میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔[6] فارابی، محمد بن محمد، آراء اہل مدینہ فاضلہ، ص۱۱۸۔ خواجہ طوسیؒ فرماتے ہیں: مدینہ فاضلہ ایک ایسا مدینہ ہے جس میں رہنے والے لوگ حقیقی سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس معاشرے پر حکیم و فاضل افراد حاکم ہوتے ہیں۔[7] طوسی، خواجہ نصیرالدین، اخلاق ناصری، ص۲۴۲۔ [8] طوسی، خواجہ نصیرالدین، اخلاق ناصری، ص۲۵۷۔ ملا صدرا نے مدینہ فاضلہ کی تعریف اس طرح سے بیان کی ہے:
مدینہ فاضلہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس کے شہر (اہالی شہر) حقیقی خیر کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔[9]  ملاصدرا، محمد بن ابراہیم، مبدا و معاد، ص۴۹۰۔
مدینہ یا مدنی زندگی تمدن سے مربوط زندگی ہے جس میں آبادیاں ایک ساتھ رہتی ہیں، پکے مکان، رہائش کے لیے مناسب انتظام، نکاسی کا سسٹم اور گلیاں ہیں۔ قدیم ترین تمدن میں ایک مشہور نام سندھ میں موہنجو داڑو ہے۔ اس کے مقابلے میں غیر متمدن معاشرے ہیں جن میں لوگ کسی خاص جگہ رہائش نہیں بناتے، گھروں کا انداز نہیں ہے، نالیاں اور آب نکاسی کا کوئی انتظام نہیں، لباس اور آداب نہیں رکھتے۔

مدینہ فاضلہ کی اصطلاح

انسان جب سے خلق ہوا ہے ایک آئیڈیل اور نمونہ حکومت کا خواہاں تھا۔ ابتدا میں جب آبادیاں نہیں پھیلی تھیں اور انسانوں کے مفادات اور ان کی ضروریات بہت قلیل تھیں قانون اور شریعت کی خاص ضرورت نہ تھی۔ حضرت نوحؑ کے بعد شریعت کا آغاز ہوا، آبادیاں بڑھ گئیں اور مفادات کے حصول کے لیے انسانوں کے مابین اختلافات پیدا ہونا شروع ہوۓ یہاں پر ضروریات اور انسانی ما یحتاج کی عادلانہ تقسیم کے لیے حکومت اور قانون کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ جب اجتماعی مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو نصیحت اور وعظ سے حل کرنا ممکن نہیں رہتا اس کے لیے حاکمیت کی ضرورت پڑتی ہے اور قانون کے ذریعے معاشرے کی مدیریت ممکن ہوتی ہے۔ یہیں سے ہی ایک آئیڈیل ریاست اور آئیڈیل معاشرے کا تصور ذہنوں میں ابھرا۔ مختلف مفکرین نے آراء پیش کیں اور ذکر کیا کہ معاشرے کو کیسا ہونا چاہیے، اس کا حاکم کیسا ہو؟ عوام کیسے ہوں، قوانین کیسے ہوں؟ جب یہ سب امور ایک احسن طریقے سے چل رہے ہوں اور انسان سعادت حاصل کر رہا ہو یہ معاشرہ مدینہ فاضلہ ہوگا۔ 

آئیڈیل ریاست کونسی ہے؟

ایک پاکستانی شہری کے نزدیک آئیڈیل ریاست کون سی ہے؟ شاید اس کا جواب دیا جاۓ کہ آئیڈیل ریاست یا مدینہ فاضلہ وہ ہے جس میں لوگ امنیت کے ساتھ رہیں، دہشتگردی نہیں، لوٹ مار نہیں، اس ریاست میں عدالت قائم ہے، کسی غریب پر ظلم نہیں ہوتا، اگر کوئی ظلم کرے بھی تو اس کو انصاف ملتا ہے۔ اس ریاست میں سب کو تعلیمی سہولیات میسر ہیں، رفاہی مسائل نہیں ہیں اس معاشرے کا اقتصاد مضبوط ہے غربت بہت قلیل مقدار میں ہے، اگر کوئی حکومت ایک ریاست کو اس سطح پر لے جاۓ شاید ہم اسے آئیڈیل ریاست کہہ دیں۔ جیسا کہ ہمارے سامنے مغربی سوسائٹیز موجود ہیں وہاں یہ سب موجود ہے لیکن کیا قرآن کریم اور اسلام کی نظر میں بھی یہی آئیڈیل ریاست ہے؟ اس کا ایک مختصر بیان مندرجہ بالا سطور میں گزرا ہے آئندہ آنے والی اقساط میں اس پر مزید بیان آۓ گا۔[10] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶۔

Views: 23

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: حکومت اسلامی کا اصل ہدف
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ اور صنعتی ترقی