loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۵}

مدینہ فاضلہ اور صنعتی ترقی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

مدینہ فاضلہ کے اندر تیسری خصوصیت صنعتی ترقی ہے۔ آئیڈیل اسلامی ریاست وہ ہے جو نعمات الہی سے بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے۔ اس کے عہدے دار صنعتی ترقی کے اوج کو حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ مدینہ فاضلہ میں علم اور صنعت کا اوج انسان کو اس کے ہدف سے دور نہیں کرتا۔ بلکہ یہ ترقی انسان کو سعادت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ رسول اللہﷺ اور ان کے بعد امیرالمومنینؑ کی حکومت میں بھی ہمیں صنعتی ترقی کا اوج نظر نہیں آتاکیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد امت ایک خاص ڈگر پر چل پڑی اور جو دین اور دنیا کے وارث تھے ان کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ امام زمانؑ کی عالمی حکومت میں ہم اس کو آئیڈیل صورت میں دیکھیں گے۔ اس کی جزوی شکل آج ہم نظام ولایت فقیہ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ نظام ولایت فقیہ پر تشکیل حکومت صنعتی ترقی کا آئیڈیل نمونہ ہے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کی ایک جزوی شکل ضرور ہے۔

صنعتی ترقی کی اساس

آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صنعتی اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت تو ہے لیکن ہدایت موجود نہیں ہے۔ میڈیکل کی ترقی اوج پر ہے لیکن ڈاکٹر حضرات قاتل بنے ہوۓ ہیں، دوائیاں بنانے اور بیچنے والی کمپنیاں باقاعدہ ڈاکٹروں کو کمیشن دیتی ہیں اور ان سے اپنے پروڈکٹس سیل کرواتی ہیں۔ با الفاظ دیگر جو ہم دوائیاں لیتے ہیں ان ایک دوائی بیماری ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور کچھ دوائی خود بیماری ڈالنے کے لیے۔ انسانی اعضاء کی سمگلنگ پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے اور اس کام میں بڑے بڑے ڈاکٹر حضرات کا ہاتھ ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ سب ڈاکٹر ہی ایسے ہیں، ہاں! بہت سے اچھے ڈاکٹر بھی موجود ہیں جو کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتے۔ اسی طرح سے بقیہ شعبہ جات ہیں، صرف میڈیکل کا شعبہ ہی خراب نہیں بقیہ شعبہ جات بھی عوام پر ظلم کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ میڈیکل کے شعبے کو صرف مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جہاں جہاں انسان نے ظاہری طور پر ترقی کی ہے علم اور صنعت کے اعتبار سے تو بہت اچھا ہے لیکن یہ سب ہدایت کے ہمراہ نہیں ہے۔ مدینہ فاضلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں علمی و صنعتی ترقی ہے لیکن ہدایت کے ہمراہ۔ وہاں علم اور صنعت کو انسان کی خدمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے انسان کی بربادی کے لیے نہیں۔

دین اور صنعتی ترقی کا حکم

فضاؤں کی تسخیر کے بارے میں قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔«وَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِى السماوَاتِ وَ مَا فِى الاَرْضِ جَمِیعاً مِنْهُ اِنَّ فى ذلِکَ لآیات لِقَوْم یَتَفَکَّرُونَ؛اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔[1] جاثیہ: ۱۳۔ دین نے یہ نہیں کہا کہ مومنین غاروں میں زندگی گزاریں اور کبھی ترقی یافتہ نہ ہوں۔ عموما امام زمانؑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تلوار سے لڑیں گے اور ان کے دور میں دوبارہ گھوڑے آ جائیں گے اور انہیں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ احمقانہ ترین بات ہے۔ یعنی اگر دشمن جدید ترین ہتھیار بناتا ہے مثلا وائرس کے ذریعے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے تو آپ اس کے جواب میں تلوار سے لڑیں گے؟ یہ وہ بات ہے جو ایک نادان انسان کر سکتا ہے۔ دشمن کا مقابلہ کرنا ہے تو جو ہتھیار وہ استعمال کر رہا ہے آپ بھی اسی سے لڑیں گے یا اس ہتھیار سے بھی ترقی یافتہ تر ہتھیار سے جواب دیں گے۔

حضرت سلیمانؑ اور صنعتی ترقی

قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کی اسلامی ریاست کا ذکر وارد ہوا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک بہت بڑی ریاست پر حکومت کرتے تھے اس وقت کی تقریبا تمام انسانی آبادیاں آپ کی حکومت کے ذیل میں تھیں۔ آپ کے دور میں صنعت و حرفت میں بھی کمال کی ترقی موجود تھی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
«وَ لِسُلَيْمانَ الرِّيحَ غُدُوُّها شَهْرٌ وَ رَواحُها شَهْرٌ وَ أَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ؛اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔[2] سبأ: ۱۲۔ اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے:«يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحاريبَ وَ تَماثيلَ وَ جِفانٍ كَالْجَوابِ وَ قُدُورٍ راسِياتٍ اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً وَ قَليلٌ مِنْ عِبادِيَ الشَّكُورُ؛سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔[3] سبأ: ۱۳۔مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمانؑ معجزات سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ ان کے دور میں ٹیکنالوجی اپنے اوج پر تھی۔ کیونکہ اگر معجزات سے معاشرہ چلائیں تو اس میں تو کوئی کمال نہیں، کمال تب ہے جب معاشرے کو روزمرہ معمول کی کام آنے والی اشیاء اور علم کی مدد سے مدیریت کیا جاۓ۔

ملکہ سبأ کی حیرانگی

اس دور میں محل بنانے کی انجینئرنگ، نقاشی، ہنر، فرشتوں اور پیغمبروں کے مجسمےسازی کی مہارت موجود تھی۔ حضرت سلیمانؑ نے ایک شیشے کا قصر بنایا ہوا تھا وارد ہوا ہے کہ جب ملکہ سبأ قصر میں وارد ہونے لگیں تو اس نے سمجھا کہ پانی بہہ رہا ہے، اس لیے اس نے اپنے کپڑوں کو تھوڑا سا اوپر کر لیا تاکہ گیلے نہ ہو جائیں لیکن جب وہ آگے بڑھی تو حیران رہ گئی کیونکہ وہاں پانی نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی خوبصورتی سے وہ محل بنایا گیا تھا کہ ایک ملک کی ملکہ بھی حیران ہوۓ بغیر نہ رہ سکی۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے:«قِیلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَ کَشَفَتْ عَنْ ساقَیْها قالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِیرَ؛ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے۔[4] نمل: ۴۴۔ حضرت سلیمانؑ کے والد بزرگوار حضرت داودؑ نے بھی اپنے دور حکومت میں صنعت میں خوب ترقی کی۔ قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ آپؑ لوہے سے زرہیں بناتے تھے۔ یہ صنعت پہلی بار ان کے دور میں رواج پا گئی۔« وَعَلَّمْناهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شاكِرُونَ؛اور ہم نے تمہارے لیے انہیں زرہ سازی کی صنعت سکھائی تاکہ تمہاری لڑائی میں وہ تمہارا بچاؤ کرے تو کیا تم شکر گزار ہو ؟[5] انبیاء: ۸۰۔ ایک اور سورہ میں بیان ہواہے:«أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صالِحاً إِنِّي بِما تَعْمَلُونَ بَصيرٌ».؛ کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔[6] سبأ: ۱۱۔

مادی پیشرفت کی ضرورت

قرآن مجید کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ صنعت میں ترقی کرنا ضروری ہے اور دین اسلام نے باقاعدہ اس کی ترغیب دی ہے۔ اس لیے انبیاء الہی کی عملی سیرت کے ذریعے ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ ہر دور کی علمی اور عملی ضرورتوں کو پورا کرنا ضروری ہے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم صنعت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ قرآن مجید میں چند مثالیں وارد ہوئی ہیں جو اس دور کی ضروریات تھیں اسی کے مطابق انبیاء الہی نے صنعت کو فروغ دیا اور ان کا درست استعمال کیا۔ پس آج بھی اگر انہیں الہی خطوط پر ایک اسلامی حکومت بنتی ہے تو اس پر بھی صنعت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ضروری ہوگا۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کا منفی استعمال جیسا کہ ایٹم بم بنا کر دوسرے ممالک کو دھمکی دینا، وائرس بنا کر پوری دنیا کا اقتصاد تباہ کرنا، زمین، دریا، ہوا، فضا، جنگلوں اور جانوروں کو نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔[7] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔

منابع:

منابع:
1 جاثیہ: ۱۳۔
2 سبأ: ۱۲۔
3 سبأ: ۱۳۔
4 نمل: ۴۴۔
5 انبیاء: ۸۰۔
6 سبأ: ۱۱۔
7 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔
Views: 12

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ سے مراد
اگلا مقالہ: نہضت امام حسین کے بنیادی اصول