loading

قیامِ  امام حسینؑ کے بنیادی اصول

تحریر: سید محمد حسن رضوی

امام حسینؑ کی حیات طیبہ سلسلہ امامت کی وہ کڑی ہے جو تاقیامت آنے والی بشریت کے لیے مشعل راہ اور اسوہ کاملہ ہے۔ دنیائے متشابہات میں امام حسینؑ وہ آیتِ محکم ہیں جس سے تمسک کرنا نجات و سعادت کے لیے ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ  مختلف فتنوں کے اجاگر ہونے کی بناء پر عالم اسلام میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو گیا کہ یزید لعین جیسی شخصیت برسر اقتدار آ گئی اور منصب خلافت پر قابض ہو گئی۔ عالم اسلام میں جہاں فکری انحطاط اور بے راہ روی عام ہو گئی وہاں اسلامی اقدار کی پامالی اور خوف و ہراس کا سماں ہر سمت پھیل گیا۔ قیصر و کسری کے طور طریقے رائج ہو  گئے، سنتِ رسول ﷺ کو پس پشت ڈال دیا گیا ، فسق و فجور اعلانیہ انجام دیا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی غلط اور باطل تصویر کشی کر کے اپنی اقتدار کی راہ ہموار کی جانے لگی۔ طرح طرح کی احادیث گھڑ کر اور اسلامی افکار کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کرنے کے لیے خود ساختہ تشریح کے ذریعے اسلام کا چہرہ مخدوش کر دیا گیا۔ ان حالات میں ایسے قیام کی ضرورت تھی جو خالص دین کی اساس پر استوار ہو اور سنتِ رسول ﷺ کی احیاء کے ذریعے حقیقی اسلام کو اجاگر کرے۔ تحریک کی قیادت ایسی شخصیت کر رہی ہو وہ پھیلائے ہوئے خوف و ہراس سے وحشت زدہ نہ ہو اور راہِ الہٰی میں ہر چیز قربان کرنے کی بلند اور عظیم عزم و ہمت سے ہمکنار ہو۔ اس قیام کی بنیادیں روشن، ہدف آشکار اور روش و طریق واضح ہو جس کی وجہ سے کسی کے پاس حیلہ و حجت کی گنجائش باقی نہ رہے ۔حکمتِ الہٰی کا تقاضا یہ تھا کہ دفاعِ دین اور احیاءِ سنت رسول اللہ ﷺ کے لیے وہ شخصیت قربانی دے جو رسول اللہ ﷺ سے ہو اور رسول اللہ ﷺ ان سے ہو، جس کی محبت و مؤدت امت پر واجب ہو اور اس کا قیام و قعود ہر دو امت کے لیے امامت کا درجہ رکھتا ہو۔ بخاری نے الادب المفرد میں رسول اللہ ﷺ روایت نقل کی ہے جسے البانی اور دیگر محققین نے صحیح و حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، سَبِطَانِ مِنَ الْأَسْبَاطِ؛ حسین ؑ مجھے سے ہیں اور میں اس  سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسنؑ و حسینؑ سے محبت کرتا ہے۔ [1]بخاری، محمد بن اسماعیل، الادب المفرد، ج ۱، ص ۱۹۰، حدیث: ۱۷۰۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جسے معروف اہل سنت محدث ناصر الدین البانی اور حسین سلیم اسد نے حسن درجہ کی حدیث قرار دیا ہے: أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ؛ جو تم (اہل بیتؑ) سے جنگ کرے میں اس کے ساتھ جنگ میں ہوں اور جو تم سے سالم رہے میں اس سے سلامتی سے ہوں
۔[2]حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۶۱۔[3]ہیثمی، علی بن ابی بکر، موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، ج ۷، ص ۲۰۱۔[4]البانی، ناصر الدین، التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان، ج ۱۰، ص ۹۹۔

قیام امام حسینؑ کی اساس اور بنیادیں:

امام حسینؑ نے اپنے قیام اور تحریک کا تعارف خود کروایا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ امام حسینؑ کے قیام کی بنیادیں اور اصول کو انہی کے کلام سے اخذ کریں اور کلام کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی تشریح کریں۔ امام حسینؑ نے مختلف مقامات پر خطبات ارشاد فرمائے اور کئی مکتوبات روانہ کیے جن میں سے بعض مختلف کتب کے توسط سے ہم تک پہنچے ہیں جسے ہم ذخیرہِ الہٰی قرار دیتے ہوئے اپنے تجزیہ و تحلیل کی زینت بنائیں گے۔

پہلا ستون۔ دین الہٰی

کسی بھی تحریک یا انقلاب کا اصلی عامل ایک مکتب کا وجود ہے جوکہ بشریت کے لیے ایک صالح اور بلند ہدف و مقصد رکھتا ہو۔ اسلام وہ مکتب ہے جو بشریت کی ظاہری اور اخروی دنیا کے لیے بلند اہداف اور صالح نظام کا حامل ہے۔ امام حسینؑ کے قیام اور تحریک کا پہلا ستون اور اہم ترین بنیاد جس پر امام حسینؑ کی تمام تحریک اور نہضت قائم تھی وہ یہی مکتب یعنی’’دین الہٰی‘‘ تھا۔ دنیامیں اٹھنے والی ہر تحریک کی اساس اور بنیاد ہوتی ہے، مثلاً بعض تحریکیں اقتصادی اساس پر اٹھیں جیسے مارکس ازم کا انقلاب ، بعض قومیت اور وطنیت کی اساس پر اٹھیں جیسے پہلی دو جنگیں عظیم میں پانچ کروڑ کے لگ بھگ افراد موت کا نوالہ بنے، بعض تحریکیں غلامی سے نجات کی اساس پر اٹھیں … سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کا قیام کس اساس اور بنیاد پر قائم تھا؟ امام حسینؑ قیام دین الہٰی کی اساس پر قائم تھا۔ امام حسینؑ کے متعدد فرمودات اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں جن کا تذکرہ آئندہ کی سطور میں آئے گا۔

دین الہٰی ایسا جامع عنوان ہے جس کی مختلف تفاسیر عالم اسلام میں پائی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دین الہٰی سے مراد کونسی تفسیر ہے؟ آیات کریمہ اور آئمہ اہل بیتؑ کی احادیث سے روشن ہوتا ہے کہ دینِ الہٰی سے مراد دینِ حق ، دین خالص یعنی نبوت و امامت کی اساس پر دین کی تفسیر ہے۔ دین کے اصول ہوں یا فروع ، توحید و قیامت کی مباحث ہوں یا نماز ، روزہ اور حج و زکات و جہاد …  جیسے امور ہوں سب جس سرزمین سے ظاہر ہو رہے ہیں اس کا نام نبوت و امامت ہے۔ نبوت تشریع کی زبان ہے اور امامت بیان و نفاذ کی زبان ۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسینؑ نے جب خروج و قیام فرمایا تو اپنا تعارف نبوت و امامت کے باب سے کرایا ۔ معتبر كتب مقتل میں وارد ہوا ہے کہ یزید نے مدینہ کے حاکم ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو خط لکھا اور امام حسینؑ سے بیعت لینے کی تاکید کی۔ ولید نے سابقہ گورنرِ مدینہ مروان بن حکم کو بلایا اور اس کے مشورے سے امام حسینؑ کو بلایا۔ اس موقع پر امام حسینؑ نے ولید بن عتبہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا: { أَيُّهَا الْأَمِيرُ إِنَّا أَهْلُ بَيْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسَالَةِ وَمُخْتَلَفُ الْمَلَائِكَةِ وَبِنَا فَتَحَ اللَّهُ وَبِنَا خَتَمَ اللَّهُ وَيَزِيدُ رَجُلٌ‏ فَاسِقٌ‏ شَارِبُ الْخَمْرِ قَاتِلُ النَّفْسِ الْمُحَرَّمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَمِثْلِي لَا يُبَايِعُ بِمِثْلِهِ وَلَكِنْ نُصْبِحُ وَتُصْبِحُونَ وَنَنْظُرُ وَتَنْظُرُونَ أَيُّنَا أَحَقُّ بِالْخِلَافَةِ وَالْبَيْعَةِ؛ اے امیر ، ہم اہل بیت نبوت اور معدنِ رسالت اور فرشتوں کے آنے جانے کا مورد ہیں ، ہمارے ذریعے سے اللہ نے فتح کیا ہے اورہمارے ذریعے سے اللہ ختم کرے گا، یزید فاسق شرابی شخص ہے جو محترم نفوس کا قاتل اور اعلانیہ فسق انجام دینے والا ہے، مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا، ہم بھی صبح کرتے ہیں اور تم بھی، ہم بھی دیکھتے ہیں اور تم بھی دیکھو کہ ہم میں سے کون خلافت و بیعت  کا حقدار ہے}۔[5]ابن طاووس، علی بن موسی، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص ۴۰۔طبری ، ابن کثیر اور دیگر مؤرخین نے تحریر کیا ہے کہ امام حسینؑ نے اہل بصرہ کو قیام کی دعوت دینے کے لیے مکتوب تحریر کیا اور سلیمان بن رزین کا اپنا سفیر بنا کر بھیجا اور ان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہ مکتوب بصرہ کے پانچ بڑے حصوں اور اہم سردار اور شرف و برزگی کے حامل شخصیات تک پہنچا دیں، جن کے نام مالک بن مسمع بکری، احنف بن قیس، منذر بن جارود ، مسعود بن عمرو ، قیس بن ہیثم ، عمرو بن عبید اللہ بن معمر  ہیں۔ اس مکتوب میں امام حسینؑ جس امر کو بیان کرتے ہیں وہ ہمارے لیے روشن کرتا ہے کہ امامؑ کے قیام کا سبب دینِ الہٰی تھا۔ امام حسینؑ مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:{ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَلْقِهِ، وَأَكْرَمَهُ بِنُبُوَّتِهِ، وَاخْتَارَهُ لِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ قَبَضَهُ إِلَيْهِ وَقَدْ نَصَحَ لِعِبَادِهِ وَبَلَّغَ مَا أُرْسِلَ بِهِ، وَكُنَّا أَهْلَهُ وَأَوْلِيَاءَهُ وَأَوْصِيَاءَهُ وَوَرَثَتَهُ، وَأَحَقَّ النَّاسِ بِمَقَامِهِ فِي النَّاسِ، فَاسْتَأْثَرَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا بِذَلِكَ، فَرَضِينَا وَكَرِهْنَا الْفُرْقَةَ، وَأَحْبَبْنَا الْعَافِيَةَ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّا أَحَقُّ بِذَلِكَ الْحَقِّ الْمُسْتَحَقِّ عَلَيْنَا مِمَّنْ تَوَلَّاهُ، وَقَدْ أَحْسَنُوا وَأَصْلَحُوا، وَتَحَرَّوُا الْحَقَّ، فَرَحِمَهُمُ اللَّهُ، وَغَفَرَ لَنَا وَلَهُمْ، وَقَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكُمْ بِهَذَا الْكِتَابِ، وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ، فَإِنَّ السُّنَّةَ قَدْ أُمِيتَتْ، وَإِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْ أُحْيِيَتْ، فَإِنْ تَسْمَعُوا قَوْلِي وَتُطِيعُوا أَمْرِي أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكَمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ؛ اما بعد ! بے شک اللہ نے محمد ﷺ کو اپنی مخلوق پر فضیلت دی اور انہیں نبوت کے ساتھ نوازا اور اپنے رسالت کے لیے ان کو چنا ، پھر ان کی روح کو قبض کیا ، آنحضرتﷺ نے بندگانِ الہٰی کو نصیحت کی ، جو کچھ ان اترا اس کی امت میں تبلیغ کی ، ہم اہلِ رسالت ، ان کے اولیاء اور ان کے اوصیاء اور ان کے وارث ہیں اور لوگوں میں اس مقام کا سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں، ہماری قوم نے اس کی مقام کی خاطر اپنےآپ کو ہم پر ترجیح دی ، لیکن ہم راضی رہے اور جدائی کو ناپسند جانا اور عافیت کو اختیار کیا ، ہم جانتے ہیں ہم اس حق کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے اس امرِ حکومت کو ہمارے برخلاف خود ہاتھوں میں لیا، انہوں نے اچھا عمل انجام دیا  اور اصلاح کی اور حق کی حفاظت کی ، پس اللہ ان پر رحم نازل فرمائے اور ہماری اور ان کی مغفرت فرمائے، میں نے تمہاری طرف یہ مکتوب بھیجا ہے، میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں، بے شک سنّت کو مٹایا دیا گیا ہے اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے، اگر تم نے میری بات کو سنا اور میری اطاعت کی تو میں تمہیں سیدھے راستے پر لے چلوں گا ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ }.[6]طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴،  ص ۲۶۶۔[7]ابو مخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف،ص ۲۵۔ پس ان نصوص اور دیگر امام حسینؑ کے خطبات و مکتوبات سے واضح ہوتا ہے کہ آپؑ کے تحرک اور قیام کی بنیاد دینِ الہٰی تھا۔

انقلاب کے تین اہم رکن:

شہید باقر الصدر تجزیہ و تحلیل پیش کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ کوئی بھی انقلاب اپنے تحقق اور معاشرے میں وجود کے لیے تین اہم امور کا محتاج ہے: ۱۔ عقل و فکر، ۲۔ عواطف و احساسات جو عمیق روحیہ کا باعث بنے، ۳۔ عقل و احساس کے امتزاج کے ساتھ تحرک۔دین اسلام میں طبیعی طور پر تینوں خصوصیات موجود ہیں جوکہ دین اسلام کا خاصہ ہے۔ عموما دیگر تحریکیں ان تین امور کو یکجا کرنے کے لیے مختلف حربے اختیار کرتی ہیں اور معاشرے کے سامنے ایک کاذب تصویر پیش کرتی ہیں لیکن دین اسلام میں ان تین امور کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام سے وابستگی انسان کا وظیفہ معین کرتی ہے اور اس کو آمادہ اور تیار کرتی ہے کہ وہ بندگی کی راہیں طے کرتے ہوئے بے مثال قربانی پیش کرے۔ امام حسینؑ نے دین الہٰی کے باب سے قیام کو اپنا وظیفہ قرار دیا اور اپنا مقصد دینِ اسلام کا غلبہ اور اس کی حفاظت قرار دیا ۔ امام حسینؑ کی تحریک کی بقیہ بنیادیں اسی پہلے ستون یعنی دین الہٰی سے حاصل ہوتی ہیں۔

دوسرا ستون:امت کا مکتب و آہیڈیالوجی کا صحیح شعور

کسی بھی تحریک یا انقلاب کے لیے جہاں مکتب کا وجود ضروری ہے وہاں تنہا مکتب تحریک یا انقلاب کے تحقق کا باعث نہیں بنتا بلکہ ضروری ہے کہ اس مکتب کی صحیح شناخت اور اس پر ایمان بھی ہو۔ اگر یہ مکتب امت کے درمیان اپنی جامعیت کے ساتھ بیان نہ ہو اور امت اس کو نہیں سمجھتی تو مکتب کے اہداف کے پیش نظر معاشرے میں تحرک ایجاد نہیں ہو سکے گا۔  شعور انسان میں وہ بنیادی عامل ہے جو انسان کے اندر حرکت کو پیدا کرتا ہے اور اس کے ہدف و مقصد کو متعین کرتا ہے۔ دین اسلام ایک جامع مکتب ہے جو انسان کی انفرادی اور سیاسی و اجتماعی تمام جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تعلیمات پیش کرتا ہے اور  انسان کی ہر قسم کی مشکل کا حل اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ اگر اسلام کی سیاسی و اجتماعی آئیڈیالوجی کا علم نہ ہو تو چارناچار معاشرہ اسلامی طور طریقوں پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ امام حسینؑ نے امت کو اسی جامع آئیڈیالوجی کا شعور دلانے اور امت کو ابھارنے کے لیے مختلف مکتوبات تحریر فرمائے اور اپنے خطبات کے ذریعے سے اسلام کی جامع تعلیمات اور انسانی زندگی کے اہداف کو بیان کیا۔ مکتب اسلام امامت کی اساس پر اسلام کے قوانین کا نفاذ چاہتا ہے۔ معاشرے کے طرح طرح کے مسائل کا حل اسی نظام امامت کی حاکمیت کی شکل میں ہے۔اس لیے امام حسینؑ نے حکومت میں یزید جیسے حاکم کو اسلام کی سب سے بڑی مشکل قرار دیا۔ امام حسینؑ فرماتے ہیں:{ إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ وَعَلَى‏ الْإِسْلَامِ‏ السَّلَامُ‏ إِذْ قَدْ بُلِيَتِ الْأُمَّةُ بِرَاعٍ مِثْلِ يَزِيدَ وَلَقَدْ سَمِعْتُ جَدِّي رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ الْخِلَافَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلَى آلِ أَبِي سُفْيَان‏؛ ان للہ وإنا الیہ راجعون، اسلام پر فاتحہ پڑھ دینی چاہیے کیونکہ امت یزید جیسے حکمران سے دوچار ہو گئی ہے، میں نے اپنے جد رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: خلافت ابو سفیان کی آل اولاد پر حرام کر دی گئی ہے   }.[8]ابن طاووس، علی بن موسی، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص ۲۴۔

عصرِ حاضر میں اہل اسلام کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ اسلام کی اس جامع آئیڈیالوجی کا شعور نہیں رکھتے جو انہیں بلند اہداف کے حصول کے لیے متحرک کرے۔ امام حسینؑ جس کو دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور سب بڑی مشکل قرار دیتے تھے آج مسلمان اسے دین کے لیے خطرہ نہیں سمجھتے!! یزید کے دور میں امت میں حج تو انجام پا رہا تھا، نماز سکون سے نماز پڑھتے تھے، روزے رکھے جاتے تھے، چھوٹی سنتیں معاشرے نے اختیار کی ہوئی تھیں، قرآن کی تلاوت بھی ہوتی تھی اور اس کی تعظیم بھی باقی تھی، ظاہری طور پر عابد زاہد افراد سے معاشرہ بھرا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود امام حسینؑ دین کو خطرے میں سمجھتے تھے!! یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام حسینؑ کی نظر میں دین لاحق کیا خطرہ تھا؟! اس کا جواب خود امام حسینؑ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین کو سب سے بڑا خطرہ یزید جیسے حکمرانوں کا اقتدار سنبھالنا ہے۔ اسی مطلب کو بقیہ آئمہ اطہارؑ نے اپنے اسلوب سے ذکر کیا۔ امام باقر ؑ سے صحیح السند روایت کتاب الکافی میں وارد ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:{ وَعَنْهُ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ حَبِيبٍ السِّجِسْتَانِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَأُعَذِّبَنَ‏ كُلَّ رَعِيَّةٍ فِي الْإِسْلَامِ دَانَتْ بِوَلَايَةِ كُلِّ إِمَامٍ جَائِرٍ لَيْسَ مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ كَانَتِ الرَّعِيَّةُ فِي أَعْمَالِهَا بَرَّةً تَقِيَّةً وَ لَأَعْفُوَنَّ عَنْ كُلِّ رَعِيَّةٍ فِي الْإِسْلَامِ دَانَتْ بِوَلَايَةِ كُلِّ إِمَامٍ عَادِلٍ مِنَ اللَّهِ وَ إِنْ كَانَتِ الرَّعِيَّةُ فِي أَنْفُسِهَا ظَالِمَةً مُسِيئَةً؛     امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرماتا ہے: میں اسلام میں داخل ہر اس رعیت و عوام کو حتماً عذاب دوں گا جو ایسے امام کی ولایت سے قریب ہوتی ہے جو ظلم و جور کرنے والا اور اللہ کی جانب سے نہیں ہے اگرچے وہ رعیت اپنے اعمال میں نیک و پاکیزہ متقی ہو ، اور میں اسلام میں داخل ہر اس رعیت کو معاف کر دوں گا جو ایسے امام کی ولایت سے قریب ہوتی ہے جو عادل اور اللہ کی جانب سے ہے اگرچے وہ رعیت خود پر ظالم کرنے والی گناہگار ہو}.[9]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۲۶۲۔

تیسرا ستون: مکتب  پر ایمان

امام حسینؑ نے جس راہ کا انتخاب کیا اس پر آپؑ کو ایمان اور یقین تھا ۔ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ امام حسینؑ ایمان اور یقین کے اس اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تھے کہ معاشرے کا موقف آپؑ سے جدا ہونے کے باوجود اور تمام عزیز اقرباء اور انصار کی شہادت کے المناک واقعہ کے باوجود آپؑ نے اپنا ہدف اور مقصد ترک نہیں کیا۔ وہ تحریکیں جو کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں وہ اس خصوصیت کی حامل ہوتی ہیں کہ انہیں اپنے ہدف اور مقصد پر یقین اور ایمان ہوتا ہے۔ متزلزل انسان کبھی ایک کامیاب تحریک کی بنیاد نہیں رکھ سکتاامام حسینؑ نے اپنے ہدف کو اختیار کرنے کے لیے جس راہ کا انتخاب کیا اور قیام کے لیے جس نہج پر چلے وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا۔ ایمان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی صحیح السند حدیث میں وارد ہوا ہے{حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَزَّازُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْفَرَّاءُ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا عَنْ أَبِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ زَيْنُ الْعَابِدِينَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ’: الْإِيمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ‏ وَ عَمَلٌ‏ بِالْأَرْكَان‏؛     رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان زبان سے اقرار کرنا، قلب سے معرفت حاصل کرنا اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنا ہے}.[10]صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۲۰۵۔

چوتھا ستون: حصول ہدف کی راہ و روش:

ہدف کے حصول کے لیے ہر ذریعہ اور طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسا ہدف اختیار کرنا ضروری ہے جس کی رہنمائی دین اسلام نے کی ہے۔ امام حسینؑ کی تحریک میں یہ خوبصورتی نظر آتی ہے کہ آپ ؑ نے اپنے قیام کے لیے جس راہ و روش کو اختیار کیا وہ جنگ کی راہ نہیں تھی بلکہ آپؑ نے دعوت و امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی روش کو اختیار کرتے ہوئے قیام فرمایا۔

 

 

Views: 41

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ اور صنعتی ترقی
اگلا مقالہ: رہبر معظم کی کتاب ولایت و حکومت کا تعارف