loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۷}

مدینہ فاضلہ اور فاسد نظریات

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

جب سے زمین خلق ہوئی ہے حق اور باطل کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف رحمانی طاقتیں ہیں جو حق کا غلبہ چاہتی ہیں اور دوسری طرف شیطان کاگروہ ہے جو مکتب کی شکل میں پوری دنیا پر غالب آنا چاہتا ہے۔ آج ہم یہودیت اور عیسائیت  کی شکل میں نہیں بلکہ باقاعدہ شیطان پرستی کا مذہب دیکھتے ہیں۔ پوری دنیا پر ان کا ایک طرح کا قبضہ ہے۔ سیاسی اور اقتصادی فیصلے پوری دنیا میں انہیں کے اشاروں پر ہوتے ہیں۔ شیطان پرستی کا نشان ہے اس نشان کو آپ مختلف پروڈکٹس پر دیکھ سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ لوگ ادارے خریدتے ہیں، سسٹم چلاتے ہیں، ان کے نظریات ہی نافذ نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے پوری  دنیا میں اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ مثلا ہمجنس بازی، انسان کی حیوان سے شادی، انسان کی اشیاء سے شادی، شتر بے مہار آزادی،  اور ہر قسم کی اقدار کے خلاف کھڑا ہونا ان کے مقاصد ہیں۔ لیکن دوسری طرف حق کا لشکر کھڑا ہے جو قلیل ہے لیکن موجود ہے۔ اس کا نعرہ عبودیت ہے۔ اس کا شعار یہ ہے کہ معاشرے عبد بن جائیں۔ انسانوں کی حیثیت عبد کی سی ہے وہ اللہ تعالی کے محتاج ہیں۔ انسان کی سرکشی اور بغاوت کو روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس مکتب کو چونکہ افراد بہت قلیل ملے ہیں اور مبلغ بھی کم ہیں اس لیے موجود تو ہے لیکن غالب نہیں ہو پا رہا۔ اس کے مقابلے میں شیطان پرست ہیں وہ اپنا کلچر، قوانین، لباس، حتی لوگوں کی سوچ بھی اپنے مطابق کررہے ہیں۔ لوگ ا ب انہیں کے قوانین کو قبول کرتے ہیں۔ حکومتی ڈھانچے شیطان پرست بنا کر دیتے ہیں، بڑے عہدوں پر فائز ہونے والے افراد کی تربیت بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان میں آج یہ سب کچھ کھل کر ہو رہا ہے۔ اقتصاد کی وزارت کس کو ملے گی؟ ثقافتی اور تعلیمی وزارت کس کو ملنی ہے؟ ملک کی افواج کا چیف کس نے بننا ہے؟ باقاعدہ یہ سب لوگ باہر سے تربیت لے کر آتے ہیں ، ان کی نشو و نما پاکستان کے کلچر اور اس ملک عزیز کی اقدار کے مطابق نہیں ہوتی۔ بلکہ جس نے بھی مدیر بننا ہو باہر کا تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ جب بھی ملک کا نقصان ہوتا ہے تو یہ لوگ فورا غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ  یہ پاکستانی ہوتے ہی نہیں اور نا ہی ان کی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں شیطان پرستی کااتنا اثر و رسوخ ہے کہ آپ ایک مذہبی چینل تک نہیں کھول سکتے۔پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی)اجازت نہیں دیتا انہوں نے شرائط ہی ایسی رکھی ہوئی ہیں کہ اگر آپ چینل کھولتے ہیں تو سب فساد اور فتنہ نشر کرنا پڑے گا۔ بے پردگی، بیہودا اشتہارات وغیرہ کو نشر کرنا ہوگا ورنہ چینل کا مجوز ہی نہیں دینگے ۔   

حق کا غلبہ

آج آپ اسلامی معاشروں میں ایک ٹکراؤ دیکھ رہے ہیں۔ بعض ممالک تو شیطان پرستی کے آگے ڈھیر ہو چکے ہیں اور اپنا مذہب، فرہنگ، اور اقدار شیطان پرستی کے مطابق ڈھال چکے ہیں۔ لیکن بعض ممالک ابھی بھی اس سے لڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں مومنین کے لیے ناامیدی بہت کاری ضرب واقع ہو سکتی ہے۔ اگر ہم مایوس ہو جائیں تو مردہ ہو جائیں گے اور باطل بالاتر ہو جاۓ گا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ معاشروں میں امید پیدا کی جاۓ۔ قرآن کریم کا فرمانا ہے:
«وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا».
ترجمہ: اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔[1] اسراء: ۸۱۔
درست ہے کہ آج باطل ابھرا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن اس نے مٹ جانا ہے۔ باطل کا زہوق تدریجی ہے۔ اور حق بھی تدریجا آتا ہے۔ باطل جتنا بھی طاقتور ہو جاۓ بالآخر اس نے ختم ہونا ہے۔ یہ ہمارے اوپر منحصر کرتا ہے کہ ہم کس کا ساتھ دیں اور کس کی تبلیغ کریں؟ حق کی یا باطل کی؟ اجتماعی زندگی کس کے مطابق گزاریں؟ ہم یہ نہ دیکھیں کہ مسلمان بہت زیادہ ہیں اور مدرسے وغیرہ بن رہے ہیں۔ جی نہیں! بلکہ یہ دیکھیں کہ یہ مسلمان اور ان کے ادارے کس طرز پر زندگی کر رہے ہیں؟ اسلامی طرز پر یا مغربی طرز پر؟ ان کے اجتماعی نظام اسلامی ہیں یا غیر اسلامی؟کیونکہ مسلمان معاشرے تو موجود ہیں، مساجد و مدارس اور دینی ادارے بھی بہت ہیں لیکن انہیں اداروں میں ہی منفی افراد موجود ہیں۔ حتی مجتہد کی سطح تک کے افراد گمراہ نظر آتے ہیں۔ اور یہ جنگ ہر دور میں رہی ہے۔امام علیؑ کے دور میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ اس دور کے زہاد ثمانیہ موجود ہیں۔ زہاد ثمانیہ یعنی آٹھ زاہد، ان میں سے چار امام علیؑ کے لشکر میں تھے اور چار معاویہ کے لشکر میں۔[2] سائٹ ویکی شیعہ۔ فقہاء، تابعی امیرالمومنینؑ کے لشکر میں بھی تھے اور معاویہ کے لشکر میں بھی تھے۔ آج حوزہ جات علمیہ اور مدارس دینیہ بھی اسی مشکل کا شکار ہیں۔ ہر عمامہ پہن لینے والا، داڑھی بڑھا کر مجلس پڑھنے والا ضروری نہیں کہ علیؑ والا ہو۔ معیار اس کی شخصیت نہیں بلکہ حق معیار ہے۔ اگر حق کا ساتھ دیتا ہے تو اس کی حمایت کریں اور اگر حق کی تضعیف کرتا ہے اور باطل کی راہوں کو سپورٹ کرتا ہے تو اس کو معاشروں میں بے عزت کریں۔ اگر یہ معاشروں میں عزیز ہو گیا تو یہ اسلام کو بے اہمیت کر دے گا۔ یہ نہ دیکھیں کہ کتنی کتابوں کو اس نے پڑھایا ہے، کتنا اچھا مدرس ہے، کتنی اچھی مجالس پڑھتا ہے اور اس کی مجالس میں مومنین کا رش لگا ہوتا ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس کی باتیں، اس کی عادات اطوار اور فعالیت حق کے لشکر کو تقویت دے رہی ہے، اس کی باتیں حق کے لشکر کو فائدہ دیتی ہیں، عوامی رُشد اور اصلاح کی باعث بنتی ہیں تو قابل ستائش ہے چاہے اس کی بات کو بہت کم لوگ سنتے ہوں، چاہے اس کو کوئی بھی نہ جانتا ہو، لیکن اگر اپنی باتوں، اپنی ابحاث سے باطل کے لشکر کو حمایت پہنچا رہا ہے تو اس کو معاشروں میں مت ابھرنے دیں۔

باطل اور نفاق کا مٹنا

اسلام کو تقویت دینا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ نفاق اور باطل مٹتا چلا جاتا ہے۔ اور جب اسلام کو تقویت حاصل ہو جاۓ تو معاشرے اللہ تعالی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔ امام علیؑ نے اپنے دور حکومت میں یہ کام کرنا چاہا لیکن ان کو شہید کر دیا گیا۔ امامؑ کو پانچ سال کے لگ بھگ حکومت کرنے کا موقع ملا، اس مدت میں مختلف مسائل کھڑے ہوۓ۔ ایک طرف سے گزشتہ خلفاء کی بدعات تھیں جو دین اور مومنوں کو اندر سے ضعیف کر رہی تھیں، اور دوسری طرف سے شامیوں کی حق کے امام کے خلاف بغاوت۔ جنگ جمل اور جنگ نہروان اس کے علاوہ ایک اور میدان تھا جس کو امام نے فتح کیا۔ خلفاء کی ایجاد کردہ بدعات میں سے امامؑ ایک بدعت کو بھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے کیونکہ امت تیار نہ تھی، تراویح کو ختم کرنا چاہا تو مسجد میں ہنگامہ شروع ہو گیا، فدک کی بات بھی نہیں چھیڑی کیونکہ اس بات کا اندیشہ تھا کہ امام پر حکومت اور اقتدار کے ناجائز استعمال کا الزام لگتا۔جی ایسا ہرگز نہیں بلکہ امامؑ سے ایک روایت منقول ہے جس میں امامؑ بدعات کو ختم نہ کرنے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:
«قَدْ عَمِلَتِ الْوُلَاةُ قَبْلِی اَعْمَالًا خَالَفُوا فِیهَا رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) مُتَعَمِّدِینَ لِخِلَافِهِ نَاقِضِینَ لِعَهْدِهِ مُغَیِّرِینِ لِسُنَّتِهِ وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَی تَرْکِهَا وَ حَوَّلْتُهَا اِلَی مَوَاضِعِهَا وَ اِلَی مَا کَانَتْ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لَتَفَرَّقَ عَنِّی جُنْدِی حَتَّی اَبْقَی وَحْدِی اَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِیَ».
ترجمہ: مجھ سے پہلے کے خلفاء نے کچھ کام ایسے انجام دیے ہیں کہ ان میں رسول اللہﷺ کی مخالفت کی۔ اور عمدی طور پر اس عہد کی مخالفت کی جو رسول اللہﷺ سے انہوں نے کیا۔ ان کے عہد و پیمان کو توڑا اور ان کی سنت کو تبدیل کر دیا۔ اور اگر میں لوگوں کو ان بدعات کے ترک کرنے کا کہوں اور ان کو اسی پہلے والے مقام پر لے جاؤں جس مقام پر وہ رسول اللہﷺ کے دور میں تھے تو میرا لشکر پراکندہ ہو جاۓ گا۔ اور میں تنہا رہ جاؤنگا یا بہت قلیل میرے شیعہ میرے پاس رہ جائیں گے۔[3] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۵۹۔
امامؑ کے دور میں ان فقہی مسائل سے بڑھ کر بڑی نوعیت کے گھمبیرمسائل موجود تھے۔ امنیت کے مسائل اور مسلمین کی جانوں کے دفاع کا مسئلہ تھا۔ جب امیرالمومنینؑ کو ان بڑے مسائل کو حل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ ان فقہی مسائل کو کیسے حل کرتے؟ لوگوں کے اندر شدید قسم کا پروپیگنڈہ کیا گیا، امامؑ ریاست کے اندر افراتفری مچانے والے بدمعاشوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے تو آگے سے کوئی اطاعت کرنے والا ہی نہ ہوتا۔ یہی ٹکراؤ آج بھی موجود ہے۔ باطل ابھرا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن ہم مایوس نہ ہوں۔ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ حق کی حمایت کریں، نظامِ حق کی تضعیف نہ کریں اور نا کسی کو تضعیف کرنے دیں۔ کم از کم اتنی حمایت حق کی ضرور کریں کہ ہماری فعالیت، ہماری ابحاث ،دروس، تقریریں اور باتیں اہل حق کو تقویت دیں۔ اس وقت دنیا کے سب شیطانی لشکر، امریکہ، اسرائیل، طالبان، داعش، سب ہی ولایت فقیہ کے نظام کے دشمن ہیں۔ اور اس نظام کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر اسی اثناء میں ایک عالم نما شخص ولایت فقیہ کے نظریہ کو اساس سے ہی متزلزل کر دے اور کہے کہ ولایت فقیہ تو ثابت ہی نہیں۔ تو اس نے کس کا ساتھ دیا؟در اصل اس نے باطل کے گروہ کو امریکہ اور داعش کی حمایت کی ہے۔ اس نے تشیع کو نابود کر دیا ہے۔ جس اسلام کی وجہ سے اس کی لوگوں میں عزت ہے، جس کی وجہ سے اسلام دنیا میں عزیز ہوا اور غالب ہوا، اس کی یہ عالم نما انسان تضعیف کر رہا ہے۔

حق کی تضعیف اور باطل کو تقویت

یہ لوگ جو سوشل میڈیا پر ہمیں متحرک نظر آتے ہیں، جانے یا انجانے میں دشمن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حق کی تضعیف کا باعث بنتے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام مت کریں تو آگے سے دلیلیں لے آتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ تو ہے ہی اختلافی۔ اس لیے اختلافی مسئلہ ہم پر حجت نہیں اور اس پر مختلف شبہات کھڑے کرتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر تو سارا دین ہی اختلافی ہے۔ فقہ کے تمام فتاوی اختلافی ہیں، حتی قیاس حنفی کے قائل بھی ہمارے بعض مجتہد رہے ہیں پھر ان سب کو رد کر دیں کیا؟ پھر تو اصول فقہ کے بہت سے ضابطے اختلافی ہیں اگر ان کو اکٹھا کر کے کسی کی شخصیت یا نظریے کو اڑانا ہے تو پھر تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت ولایت فقیہ ایک محاذ بن چکا ہے۔ اس وقت شیطان کا پورا گروہ، غربی، عبری اور عربی دشمن اس نظام اسلامی کو ختم کرنے کے درپے ہے، پیسہ خرچ کر رہا ہے، اندر سے کمزور کر رہا ہے، پہلے آٹھ سال جنگ مسلط کی، اور پورے ایران کو ویران کر دیا، بعد میں بدترین اقتصادی پابندیاں لگائیں جو آج تک موجود ہیں، دشمن ولایت فقیہ کے اسلامی نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ نے اس نور کو بچایا ہوا ہے اور آپ اسی کو ہی مشکوک بنا رہے ہیں؟

ولایت فقیہ کی مختلف جہات

اگر آپ ولایت فقیہ پر بحث کرتے ہیں تو علمی بحث کریں۔ ایسا نہیں کہ ادھر سے بات سنی، استاد سے پوچھا اور دو تین مقالے پڑھ کر پورے نظریے کو ہی مشکوک بنا کر خود کو سوشل میڈیا پر دشمن کے لشکر میں لا کھڑا کیا۔ جب بھی ولایت فقیہ کے نظریے پر بحث کریں پہلے مشخص کریں کہ اس بحث کو کہاں سے اٹھایا؟ کس شخصیت کے نظریہ پر بحث کرنی ہے؟ اس شخصیت نے جب یہ نظریہ بیان کیا ہے تو اس کے مقدمات کو پڑھیں۔ مثلا جس کتاب کو ہم زیر بحث لا رہے ہیں اس کتاب کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی دام ظلہ العالی نے اس نظریے کو تیسری فصل میں بیان کرنا شروع کیا ہے۔ پہلی دو فصلیں اس بحث کا مقدمہ ہیں۔ اگر ان مقدمات کو جانے بغیر اصل بحث میں داخل ہو جائیں ،اشتباہ ہے۔ اسی طرح سے دیگر اسلامی مفکرین نے بھی اس نظریہ کو بیان کیا ہے ان کی بات کو سمجھنے کے لیے ان مقدمات کا جاننا ضروری ہے جن کی اساس پر انہوں نے یہ نظریہ بیان کیا ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدیؒ کا نظریہ ولایت فقیہ، آیت اللہ ہادی معرفت کی کتاب ولایت فقیہ، اور خود امام خمینیؒ کا نظریہ ولایت فقیہ، ان سب شخصیات نے اپنی اپنی کتابوں میں اس نظریے کا روائی اور فقہی جائزہ بھی لیا ہے اور اپنے طور پر اس کے مقدمات بھی بیان کیے ہیں۔ ان سب شخصیات کو پڑھنا ہوگا، بعض نے تو سات یا آٹھ مقدمات بیان کیے ہیں اگر ان مقدمات کو مطالعہ کیے بغیر آپ ولایت فقیہ کو بحث کر رہے ہیں گویا آپ نے سوال ہی نہیں سمجھا جس کا جواب دے رہے ہیں۔ ولایت فقیہ مناظرہ کا موضوع نہیں جس طرح امامت مناظرہ کا موضوع نہیں تھا اور ہم نے اسے مناظروں کا عنوان قرار دے دیا۔ مناظرے میں تو کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا، مناظرے میں تو معجزہ بھی آپ لے آئیں تب بھی منکر نہیں مانتا۔ موسیؑ معجزہ لے آۓ لیکن فرعون نے اسے سحر قرار دے دیا۔ ضد بازی اور حق کا انکار کسی بھی بات کو ثابت نہیں ہونے دیتا۔ اس کا فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی واقعی سمجھنے کے لیے پوچھتا ہے تو اس کو سمجھانا ضروری ہے۔ لیکن جو شخص پہلے سے ہی طے کر کے آیا ہو کہ اگلے کو ہرانا ہے تو اس سے بحث کا فائدہ نہیں۔ ایک اور مسئلہ جو عموما پیش آتا ہے وہ یہ کہ طلاب اور علماء کرام جب ولایت فقیہ کو بحث کرتے ہیں تو اس کو صرف فقہی جہت سے دیکھتے ہیں، مختلف فقہاء کی آراء لاتے ہیں، روایات لاتے ہیں ان کی سندی بحث اور دلالت و حجیت کی بحث کر کے فورا حکم لگاتے ہیں کہ یہ نظریہ درست ہے یا مردود۔ جبکہ ولایت فقیہ کی ایک کلامی جہت ہے کہ ہم امامت کے ذیل میں اس کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ولایت فقیہ کی سیاسی جہت ہے جسے علوم انسانی کے ذیل میں مورد بحث قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ان دو جہات سے صرف نظر کیا جاۓ تو اس بحث پر ہم گفتگو نہیں کر سکتے۔ عموما ہم لوگ اس نظریہ کو سیاسی اور اجتماعی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور نا ہی مطالعہ کرتے ہیں اس لیے باریک بینی سے اس نظریہ کا مطالعہ نہ ہوتے ہوۓ بہت سطحی حکم لگاتے ہیں۔ 

فقہ سیاسی اور فقہ اجتماعی

آج علوم بہت ترقی کر چکے ہیں اگر آپ حوزہ میں بیٹھ کر ایک نظریہ کا صرف فقہ کی جہت سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں آپ کی غلطی ہے۔ انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سے جدید مسائل پیش آۓ اور الحمد للہ فقہاء کرام کو نئے نئے مسائل پر اجتہاد کرنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔ آج فقہ سیاسی اور فقہ اجتماعی کے نام سے الگ الگ ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں جو جدید مسائل پر تحقیق کرتے ہیں۔ خود آیت اللہ سیستانی دام ظلہ العالی کے جدید استفتائات کے نام سے کتب سامنے آئی ہیں، جن میں جدید مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مثلا بینک کے مسائل، کرپٹو کرنسی کے مسائل، الیکشن اور ووٹنگ کے مسائل، مغربی دنیا میں رہنے والے مومنین کے مسائل، ویزے کے بغیر بارڈر پار کرنا اور زیارت کرنے کا حکم وغیرہ۔ اسی طرح سے سیاسی مسائل، سیاست خارجی، حقوق کی بحث، حقوق انسانی، حقوق مدنی، پر درس خارج ہو رہے ہیں۔ آج فقہ اجتماعی پر بہت سے مراجع درس خارج دے رہے ہیں، علوم میں بہت وسعت آگئی ہے۔ تاہم ان دروس کی کاوشیں اور ان پر تحقیق آئندہ سالوں میں سامنے آئے گی۔ لیکن الحمد للہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جدید مسائل اور حالات حاضرہ سے آگاہی اس وقت عالم دین کے لیے پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے۔ دنیا کے حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنگ کا ماحول ہر طرف سے شدت دکھا رہا ہے۔ پوری دنیا میں ظلم و ستم بڑھ رہا ہے۔ ان جنگوں کا آغاز اگرچہ امریکہ کی طرف سے ہوا تاہم روس بھی ظلم کر رہا ہے ہم کسی ایک کی طرفداری نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ یوکرائن کو ان حالات تک خود امریکہ نے پہنچایا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی مسائل ہیں فکری طور پر انخلاء موجود ہے۔ بڑے جرائم  پر تو خاموشی ہے اور کوئی تجزیہ تحلیل کرنے کی جرات نہیں کرتا اور اس کی مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں لیکن اسلامی نظریات اور اسلامی حکومت کو تضعیف کرنے کے لیے دلائل کے انبار موجود ہیں۔

ولایت فقیہ کے نظریہ کا دفاع

ولایت فقیہ کے نظریے کا دفاع در اصل مدینہ فاضلہ کے نظریے کا دفاع ہے۔ ہم جب نظام ولایت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ہم مدینہ فاضلہ (Ideal) آئیڈیل ریاست کے خواہاں ہیں۔ لیکن یہ بات آج بہت سے شیعوں، حتی طلاب اور علماء کو سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آج ہماری ہی مومنین کی انجمنیں اور تنظیمیں یہ بات نہیں سمجھ پا رہیں کہ ولایت فقیہ کیا ہے اور اس سے دشمنی کر رہے ہیں۔ نجف اور قم سے بیٹھے بعض علماء اور طلاب اس نظریے کی تضعیف کر رہے ہیں۔ جب کہا جاۓ کہ اسلام سے دشمنی مت کریں تو کہتے ہیں کہ ہم نے کب اسلام سے دشمنی کی ہم تو ایک اختلافی موضوع بیان کر رہے ہیں اور اس اختلافی موضوع میں ہمیں ایک راۓ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ اختلاف کرنے کا حق ضرور ہے لیکن آپ جانے یا انجانے میں دشمن کو تقویت پہنچا رہے ہیں اور اگر عمدا یہ کام کر رہے ہیں تو دشمن سے بھی بدتر ہیں۔ کیونکہ ایک دفعہ دشمنی کا انداز یہ ہوتا ہے کہ آپ دشمن کا روپ لے کر مقابلہ کرتے ہیں اور آپ کی دشمنی بھی سب پر واضح ہوتی ہے دوست کو بھی صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اس سے ہم نے مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن ایک دفعہ آپ دوست کے روپ میں دشمنی کرتے ہیں۔ یہ دشمنی سخت تر ہوتی ہے اور اس طرح کی دشمنی نقصان بھی زیادہ پہنچاتی ہے۔ آپ دوست بن کر اندر سے جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اگر ولایت فقیہ اختلافی موضوع ہے اور اس بنا پر اس کو اڑا رہے ہیں تو پھر خود تقلید بھی اختلافی موضوع ہے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں بیان ہوا پھر تو پورا دین ہی اختلافی ہے۔ کتنے ہی قم اور نجف میں ابھی بھی ایسے طلاب موجود ہیں جو تقلید کے مخالف ہیں اور باقاعدہ اس کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تقلید اگر اختلافی موضوع ہے تو کیا اس کو اڑا دیں؟ معلوم ہوا کہ آپ کا مسئلہ اختلافی مسائل پر بحث کرنا نہیں بلکہ ولایت فقیہ آپ کا مسئلہ ہے۔ اس طرح کی شخصیات سب مسالک میں ہی موجود ہیں جن سے سب افراد ہی تنگ ہیں۔ جیسے توثیق الرحمن ہے اس طرح کی شخصیت مت بنیں۔ سب موضوعات کو ہی شک سے دیکھنا، علماء پر تہمتیں، ایک ناقص جملے کو اٹھا کر محترم ترین شخصیات کی شخصیت کشی کرنا، عزت کشی کرنا، یہ کیسی دینداری ہے؟

ضرورت ولایت فقیہ کا اثبات

ولایت فقیہ کا اثبات بدیہیات میں سے ہے۔ امام خمینیؒ کے بقول اگر ولایت فقیہ کے نظریے کا درست تصور کر لیں، فورا آپ اس کی تصدیق کریں گے۔ صرف موضوع اور محمول کا تصور کرنا ہی تصدیق کے لیے کافی ہے۔[4] آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔ ضروری نہیں کہ آپ دلائل کے انبار لگائیں۔ اگر اتنے بدیہی ترین نظریے کو آپ دشمن کی ایماء پر اڑا دینا چاہتے ہیں تو چاہے آپ عمامے میں ہیں یا بغیر عمامے کے اسلام کے دشمن ہیں۔ انہیں چند دہائیوں میں عراق کے جو حالات بنے ہیں اگر ولایت فقیہ کے نظریے کے پیروکاروں کی قربانیاں اور ولی فقیہ کی حمایت نہ ہوتی تو یہی افراد جو ولایت فقیہ کو مشکوک کر رہے ہیں ان کی سانسیں بند ہو جاتیں۔ داعش سر پر پہنچ چکی تھی، ہمارے آئمہ معصومینؑ کے حرم خطرے میں تھی، نجف کا ہزار سالہ حوزہ خطرے میں تھا لیکن انہوں نے دفاع کا کوئی کام نہیں کیا۔ اسی نظریہ ولایت فقیہ اور اس کے سپاہیوں نے عراق کا بھی دفاع کیا، داعش کو نابود کیا، حرم اور حوزے کو بچایا۔ آج ولایت فقیہ پوری دنیا کے استکبار سے ٹکراؤ میں ہے، ابلیسی نظام پوری طاقت اور اقتدار کے ساتھ اس کے خلاف کھڑا ہے اور ولایت فقیہ کا نظریہ سالوں سے ڈٹ کے اس کا مقابلہ کر رہا ہے اور یہی اس کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔ لیکن بعض نادان لوگ اس نظریے کو شکوک و شبہات میں اڑا دینا چاہ رہے ہیں۔

ولایت فقیہ اور قومیت

مدینہ فاضلہ کا نظریہ کسی ایک شخصیت کا نظریہ نہیں۔ اور نا ہی کسی ایک ملک کے افراد کا نظریہ ہے۔ کسی خاص مذہب کے افراد کا نظریہ بھی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی آرزو ہے۔ اسی طرح سے ولایت فقیہ ہے۔ ولایت فقیہ ایرانی نظریہ نہیں ہے اور نا ہی ولی فقیہ ایرانیوں کا ہے۔ ایک بدترین شبہہ جو انہیں افراد کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے یہ ہے کہ ولی فقیہ تو ایرانی ہے اس کا ہم نجفیوں اور پاکستانیوں سے کیا واسطہ؟ یہ ظلم ہے بلکہ شرک ہے۔ دین کا کوئی بھی نظریہ کسی خاص زمین اور کسی خاص قومیت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اسلام قومیت اور لسانیت کی حدود و قیود کا سخت مخالف ہے۔ جس طرح سے مرجعیت کسی خاص زمین کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ جس طرح سے امامت اور نبوت کسی خاص منطقہ کے لوگوں کے لیے نہیں ہے اسی طرح سے ولایت فقیہ بھی کسی خاص ملک کے افراد کے لیے نہیں ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ آیت اللہ سیستانی اصالتا سیستان کے ہیں اور ایرانی ہیں اس لیے ہم پاکستانی اور عراقی ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سے آئمہ معصومینؑ اور انبیاء کرامؑ ہیں۔ رسول اللہﷺ اور آئمہ معصومینؑ سب ہی اعراب تھے تو پھر ہم پنجابی اور پٹھان ان کی بات کیوں مانیں۔ یقینا یہ استدلال غلط ہے۔ کیونکہ یہ شخصیات آفاقی ہیں اور پوری دنیا اور عالم کے لیے ہادی ہیں۔ ان کی شخصیت اور ان کے نظریات محدود نہیں ہو سکتے۔ ولایت فقیہ اور مرجعیت بھی اسی طرح سے ہے۔ تقلید اور مرجعیت کے بارے میں اگر آپ احادیث لے آئیں تو بہت سے فقہاء کے مبانی کے مطابق وہ احادیث ضعیف بنتی ہیں تو پھر کیا کریں؟ کیا تقلید کو ترک کر دیں؟ پھر تو آپ کو تقلید کے موضوع کی بھی مخالفت کرنی چاہیے جس طرح آپ ولایت فقیہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ عصمت آئمہؑ اور سب آئمہ کے شہید ہو جانے کے نظریے پر آپ کیا کہیں گے؟ کیا چوتھی اور پانچویں صدی کے سب شیعہ علماء اس کے قائل تھے؟ اس پر کیوں نہیں بولتے؟ یہ مسئلہ بھی تو اختلافی ہے ان کی شخصیات کو بھی مسخ کر دیں؟ علامہ حلیؒ کی باتوں پر کتنوں نے اعتراض کیا حتی بعض علماء نے علامہ کے بارے میں کہا کہ گویا یہ کوئی اور فقہ تشیع میں لانا چاہتے ہیں۔ علامہ مجلسیؒ، ملا محسن فیض کاشانیؒ، حر عاملیؒ اور محدث نوریؒ تو تحریف قرآن کے بھی قائل تھے تو کیا ان سب شخصیات کو اڑا دیں؟ پھر بچے گا کیا؟ اگر اسی طرح سے ہم شخصیات کے نظریات کو اکٹھا کریں اور ان کے جزوی اختلافات کو موضوع بنائیں تو پھر تو کوئی بھی شخصیت قابل احترام نہیں رہے گی۔ اگر ایک ایک جملے اور دو دو منٹ کے کلپ کو ہی اٹھانا ہے پھر تو اہلسنت کا پورا مکتب ایک جملے میں ہی اڑ جاۓ گا۔ ام المومنین عائشہ کہتی ہیں کہ سورہ احزاب کی کچھ آیات کو بکری کھا گئی اس روایت کو بنیاد بنا کر ہم اہلسنت پر یہ بات تھونپ دیں کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ یہ علماء کا طریق نہیں ہے کہ ایک شخص کی پوری زندگی، اس کے نظریات اور اس کا واضح کردار ہمارے سامنے ہو اور ہم اس کی تقریر کے دو منٹ کو کاٹ کر اس کی شخصیت کشی کریں۔ یقینا یہ لوگ بیمار ہیں اور اخلاقی بیمار ہیں۔ استاد ِاخلاق سے ان کو اپنا علاج کروانا چاہیے۔ نفس کے بیمار ہیں جب تک نفسانی بیماری ختم نہیں کرتے یہ بیماری ان کو لگی رہے گی۔[5] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت  فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔

منابع:

منابع:
1 اسراء: ۸۱۔
2 سائٹ ویکی شیعہ۔
3 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۵۹۔
4 آفیشل ویب سائٹ امام خمینیؒ۔
5 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت  فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۱۱۲تا۱۱۴۔
Views: 30

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ اور مدینہ غیر فاضلہ
اگلا مقالہ: ولایت فقیہ کی ضرورت