loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۶}

مدینہ فاضلہ اور مدینہ غیر فاضلہ

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ اقساط میں ہم نے مدینہ فاضلہ کی اوصاف کو بیان کیا۔ اگر ہم ان اوصاف کو کسی پر واضح کر دیں تو وہ مدینہ فاضلہ کا خواہاں ہو جاۓ گا۔ کوئی بھی عقلمند انسان اس کی مخالفت نہیں کرتا کیونکہ یہ وہ ریاست ہے جس میں ہر چیز اپنی آئیڈیل صورت میں ہے۔ تاہم اس کی مزید تبیین ضروری ہے۔ اس ریاست میں اور ہماری ریاستوں میں کیا فرق ہے؟ یہ مطلب جب تک ذہن نشین نہیں ہو جاتا ہم اس کی طرف نہیں بڑھ پائیں گے۔ با الفاظ دیگر ہم اپنے معاشروں کو مدینہ فاضلہ کیسے بنائیں؟ یہ ہمارے لیے اہم ترین سوال ہے۔

مدینہ فاضلہ میں رشد فرہنگی

مدینہ فاضلہ کے مقابلے میں مدینہ  غیر فاضلہ ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جس کے اندر یا تو ترقی ہی نہیں ہوتی اور اگر ترقی ہو بھی تو وہ ترقی فرہنگی طور پر رشد کا باعث نہیں بنتی۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز اس کے فرہنگی طور پر رشد پر ہوتا ہے ۔ خالی ٹیکنالوجی آ جانے سے ترقی نہیں کر جائیں گے جب تک یہ شعور نہ آ جاۓ کہ ہمیں بطور قوم اس زبوحالی سے نکلنا ہے۔ مثلا پچھلے ادوار میں ہمارے علماء کے پاس کمپیوٹر اور لیپٹاپ وغیرہ نہیں تھے۔ جیب سے موبائل نکال کر فورا کوئی چیز سرچ نہیں کر سکتے تھے، علمی مطلب کو ڈھونڈھنے کے لیے گھنٹوں تگ و دو کرنا پڑتی لیکن پھر بھی سینکڑوں جلد کتاب لکھ کر گئے ہیں اور آج ہم سے خالصتا دین کی خدمت کی نیت سے ایک ورق بھی نہیں لکھا جاتا۔ ان کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہوتا تھا، رہائش کے لیے مناسب جگہ بھی نہ ہوتی، غربت کے عالم اور بعض نے تو قیدخانوں میں یہ علمی خدمات انجام دیں۔ پس معلوم ہوا تیز انٹرنیٹ، کھانا ، رہائش، سردی گرمی کا اہتمام اور یہ سب کسی قوم کو فائدہ نہیں دیتے جب تک اس کی اساس عمل اور رشد نہ ہو۔

رُشد فرہنگی کے لیے ماحول بنانا

اللہ تعالی نے ہمیں نعمات دی ہیں ہم ان نعمات کو دین کی  تبلیغ انجام دینے کے لیے کیسے استعمال کریں؟ ہمیں خدا نے گھر دیا، بیوی اور اولاد دی اس کا شکر ادا کیسے کریں؟ عام انسان اپنی گھر کی ریاست میں تو سربراہ ہوتا ہی ہے۔اب اس چھوٹی سی ریاست کو مدینہ فاضلہ کیسے بنائیں؟ یہ یقین رہے کہ جو شخص گھر کی ریاست کو مدینہ فاضلہ نہیں بنا سکتا اسے اگر معاشرے میں اجتماعی ذمہ داری دی گئی تو وہاں بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ گھر کے اندر کیسا ماحول ہو یقینا ایک دو دن میں تو گھر کا ماحول درست نہیں ہو سکتا بلکہ یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے، آپ کو صبر اور تحمل سے کام لینا ہے، گھر میں نماز قائم کریں، دعاؤں کا اہتمام کریں، مناسب آواز میں اذان دیں، گھر میں قرآن کریم ضرور پڑھیں۔ اگر گھر میں یہ ماحول نہیں بنتا تو اس گھرانے کے افراد سے کوئی امید نہیں رکھ سکتے کہ یہ گھر سے باہر نکل کر مدینہ فاضلہ سے موافق کے لیے کوشش کرنے والے بنیں گے۔ ان کو پھر مدینہ فاضلہ نہیں چاہیے ہوگا۔ رشد فرہنگی ایجاد کرنا ہے تو اس کی اساس گھرانہ ہے اس کے لیے ماحول بنانا پڑے گا۔ گھروں میں جب تک یہ ماحول ایجاد نہیں ہوتا، ماں باپ خود آگے بڑھ کر دعاؤں کا اہتمام کریں، گھروں میں دعاء کمیل رکھیں، دعاء توسل کو ترک مت کریں، بچوں کو ہاتھ پکڑ کر محبت سے وضو سکھائیں، قرآنی افکار بیان کریں۔

قرآنی افکار کی تعلیم

ہمیں اپنے معاشروں میں قرآنی افکار کی تعلیم دینے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے اگرچہ اسلامی معاشرے ہیں اور سب  مسلمان ہیں  لیکن قرآن کریم کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں۔ ابھی تو مسئلہ یہ پیش آتا ہے جب قرآنی افکار بیان کیے جائیں اپنے ہی دشمن بننے لگ جاتے ہیں۔ آپ آزمائش کر لیں قرآنی دین بیان کرنا شروع کر دیں دیندار ترین طبقہ اور علماء ہی آپ کے مخالف ہو جائیں گے۔ مثلا قرآن کریم نے طاغوت کے انکار کا حکم دیا ہے، جب آپ اس قرآنی تعلیم کو بیان کریں گے پیچھے سے اپنے ہی افراد آپ کو کہیں گے کہ یہ باتیں ادھر مت کرو، سیاسی باتیں مت کرو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر آئمہ معصومینؑ پر بھی اعتراض کرو انہوں نے بھی اپنے زمانوں کے طواغیت کے خلاف قیام کیے۔ پھر مجلس امام حسینؑ کیوں رکھتے ہو؟ پھر ایک انوکھا اعتراض کرتے ہیں کہ اگر آپ کے نزدیک یہ سب طاغوت ہیں تو آپ اداروں میں کیوں جاتے ہو؟ ان سے پرمٹ کیوں لیتے ہو؟ یہ وہ اعتراض ہے جو بے تدبیر انسان ہی کر سکتا ہے۔ جس معاشرے میں انسان رہتا ہے بالآخر اسی کا حصہ ہوتا ہے، ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے انسانی، دینی اور مدنی حق کے لیے حاکم کے پاس جاتے ہو اور خود کو ایک قانون مدار شہری ثابت کرتے ہو، لیکن ایک دفعہ آپ حاکم کے ساتھ حکومتی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے لیے جاتے ہو، زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارے آئمہ معصومینؑ نے کسی بھی حاکم سے اس طرح کے روابط نہیں رکھے، ان کو کبھی بھی سیاسی مشروعیت نہیں دی، ہاں رہتے انہیں معاشروں میں تھے، بعض اوقات امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھ کر حکومتی مسائل میں بھی مداخلت کرتے لیکن جس مقام پر صرف طاغوتی حاکم کو فائدہ ہوتا وہاں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ ابھی ہمارے معاشروں میں سب کچھ بالکل الٹ ہو رہا ہے، قرآنی تعلیمات کے برخلاف عمل ہو رہا ہے۔ طاغوتی حکمرانوں کی محبتوں کو نوجوانوں کے دلوں میں ڈال رہے ہیں، ظلم اور ظالم سے نفرت کی بجاۓ اس کی حمایت کا درس دے رہے ہیں اور جب ان سے دلیل پوچھی جاتی ہے کہ یہ سب کیوں کر رہے ہیں تو جواب میں آیت اور روایت پیش کرنے کے بجاۓ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم بھی تو حکمرانوں سے ملتا ہے۔ یہ کونسی دلیل ہوئی؟ کب سے ہمارے لیے قرآن اور سیرت معصومینؑ کی بجاۓ علماء حجت بن گئے؟

انفرادی برائی اور اجتماعی برائی

رشد فرہنگی اس وقت جنم لیتا ہے جب ہم اجتماعی برائیوں کو ترک کریں۔ ممکن ہے ایک شخص انفرادی طور پر گانے سنتا ہے، فلمیں دیکھتا ہے یا اس کی گھریلو زندگی خراب ہے۔ یہ بھی صحیح بات نہیں اس کا بھی گناہ ہے لیکن اصلی فکری بے راہروی یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر فاسق حکمرانوں سے محبت کریں، طاغوت سے لو لگائیں اور ان کی حمایت میں قدم بڑھائیں۔ یہ اجتماعی بے راہروی ہے جو رشد فرہنگی کو متاثر کرتی ہے۔ جب تک یہ رشد نہیں آ جاتا کہ ہم طاغوتوں سے امیدیں نا رکھیں اور ہماری امیدوں کا مرکز صرف قرآن اور اہل بیتؑ ہوں، تب تک مدینہ فاضلہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ ہمارے لیے منبع ہدایت موجود ہے، قرآن کریم تبلیغ اور فکر کا منبع ہے۔ جب تک خود دیندار طبقہ اس درست پٹڑی پر نہیں آ جاتا اور درست طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کرتا تبدیلی ممکن نہیں۔ ان افکار کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رہبر معظم نے بطور ولی امر مسلمین حکم دیا ہے اور سب کے لیے واجب فوری قرار دیا ہے کہ جہاد تبیین کریں۔[1] آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔ جہاد تبیین یعنی قرآنی افکار کو بیان کریں اور ان کو ترویج دیں۔ اس ذمہ داری میں کسی بھی قسم کی سستی کرنا جائز نہیں۔ سوشل میڈیا کو ترک کرنا ایک غفلت ہے، سوشل میڈیا اس وقت جنگ کا میدان بن چکا ہے اگر ہم نے یہ میدان ترک کر دیا تو دشمن مکمل طور پر اپنے شیطانی لشکر ہم پر غالب کر دے گا، اور اس کے لشکر ہمارے ممالک، ہمارے شہروں اور حتی گھروں تک گھس آئیں گے۔ اس میدان کو ترک کرنا سراسر غلطی ہے۔

سرد جنگ کے میدان میں

ایک دفعہ تلوار اور نیزے سے یا بم اور میزائل سے دشمن ہدف کا نشانہ بناتا ہے اسے سخت جنگ کہتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ وہ آپ کو سخت ہتھیاروں سے نہیں مارتا بلکہ آپ کی ہویت آپ سے چھین لیتا ہے، آپ کا دین، ثقافت اور اقدار آپ سے چھین لیتا ہے۔ آپ بھی دشمن کی طرح سوچنے لگ جاتے ہو اور جب آپ بھی دشمن کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر تو جنگ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس کو سرد جنگ کہتے ہیں۔ رہبر معظم کے مطابق سوشل میڈیا پر سرد جنگ ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر آپ دشمن کے حملوں کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں خیر کو پھیلاتے ہیں اسلام کا دفاع کرتے ہیں بالکل اس شخص کی مانند ہے جو جنگ کے محاذ پر کھڑا ملک کا دفاع کر رہا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ آپ کے ظاہر کا دفاع کر رہا ہے زمین، شہر اور گھر کا دفاع کر رہا ہے اور یہ شخص جو سوشل میڈیا پر حق کا دفاع کر رہا ہے، آپ کے دین، آپ کے فرہنگ اور اقدار کا دفاع کر رہا ہے۔ فرق نہیں پڑتا ہماری بات ایک شخص تک پہنچ رہی ہے یا لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ کی لکھی ہوئی بات سے کوئی ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے کافی ہے۔ اثر ڈالنے والی اللہ تعالی کی ذات ہے ہم دلوں کو متاثر نہیں کر سکتے۔ صرف بات پہنچا سکتے ہیں۔ تبلیغ کرنا ضروری ہے ہمارے رشد فرہنگی کے لیے اس وقت جو اشد ترین ضرورت ہے وہ تبلیغ ہے۔ چاہے وہ عملی میدان میں تبلیغ ہے یا سوشل میڈیا کے میدان میں تبلیغ کرنا ہے۔ تبلیغ کا ایک غلط معنی جو ہمارے معاشروں میں رائج ہے وہ مراد نہیں، ہم لوگ پہلے سے لوگوں میں رائج مطالب کو دوبارہ بیان کر دینا تبلیغ سمجھتے ہیں، یا عوام پسند بات کرنا تبلیغ سمجھتے ہیں، جی نہیں! یہ تبلیغ نہیں ہے بلکہ اسلام کے برخلاف ہے۔ ہمارے لیے معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ عوام کس بات کو سننا پسند کرتی ہے، یا اگر میں نے یہ بات کی تو اگلی دفعہ مجھے سنیں گے یا نہیں؟ جب تک اجتماعی طور پر یہ شعور اور فہم تمام طبقات میں نہیں آ جاتا تب تک رشد فرہنگی ممکن نہیں۔

مدینہ فاضلہ میں حقوق اور اقتصاد

مدینہ غیر فاضلہ کا ایک اور مسئلہ قومی اور بین الاقوامی حقوق کا خیال نہ رکھنا اور اقتصاد کی نابودی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے وطن عزیز پاکستان کو پیش کرتے ہیں کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر شدید مشکلات کا شکار کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے حل کے طور پر ہمارے مقتدر افراد یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے پیسے مانگے جائیں مثلا سعودیہ عرب بھیک دے یا عالمی ادارے قرض دیں۔ حالانکہ سب پر یہ بات عیاں ہے کہ سعودی خاندان دنیا کا بدمعاش ترین خاندان ہے، عیاش ترین اور ڈکٹیٹرشپ کا بدترین نمونہ یہی خاندان ہے لیکن ہمارے حکمران اور فوجی سربراہان ان سے بڑے شوق اور احترام سے ملتے ہیں اور ان کے آگے خاضع نظر آتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اس مفاد کی دنیا میں کوئی بھی ملک مفت میں کسی اور ملک کو کچھ نہیں دیتا جب کچھ دیتا ہے تو لیتا بھی بہت کچھ ہے۔ ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرتا ہے، خودمختاری کا خیال نہیں رکھتا، حقوق مدنی کو متاثر کرتا ہے۔ اسی طرح سے آئی ایم ایف کا ادارہ ہے کہ ہمارا ملک مکمل طور پر اس کا غلام بن چکا ہے۔ جیسے وہ کہتا ہے ہمارے حکمران من و عن اس پر عمل کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے بجلی مہنگی کر دو، یہ بجلی مہنگی کر دیتے ہیں، وہ کہتا ہے پٹرول مہنگا کر دو یہ پٹرول مہنگا کر دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس کی قسط پوری کرنی ہے۔ اگر قسط وقت پر ادا نہ کریں تو ان کی سب باتیں ماننا پڑتی ہیں، اپنے ہی ملک کے شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا پڑتا ہے، پھر اپنے ہی مدارس پر پابندی لگانا پڑتی ہے، پھر افغانستان میں ان کے کہنے پر جنگ بھی لڑنا پڑتی ہے۔ جب آپ کسی کے مقروض ہوں پھر ظالم کی حمایت اور مظلوم کو باغی کہنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا کے سامنے سعودی منحوس خاندان یمن پر کئی سالوں سے بم برسا رہا ہے، عام شہریوں کو قتل عام اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے لیکن ہمارے سابق وزیر اعظم خان صاحب نے اس مسئلے میں اپنے ملک کا دفاع کرنے والے یمنیوں کو باغی کہا۔ صرف خان صاحب ہی نہیں باقی سب بھی انہیں کے غلام ہیں۔ اب جب پیسہ کھا لیا اور ان سے بھاری قیمتی تحائف لیے ہوں تو کہاں آپ مظلوم کے حقوق کی بات کروگے؟ یہ شعور کب آۓ گا؟ جب تک یہ رشد حاصل نہیں کرتے ملک کا اقتصاد درست نہیں ہو سکتا، اقتصاد درست تب ہوگا جب ملک میں تجارت ہوگی، اور تجارت تب ہوتی ہے جب ملک میں امنیت ہو، امنیت آپ کی بیرونی مداخلتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اور جب آپ بیرونی مداخلت کرنے سے ان کو روکتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم پیسہ دینا بند کر دیں گے۔ پاکستان کا جتنا بھی تاجر طبقہ تھا وہ اپنا سرمایہ لے کر پاکستان سے باہر چلا گیا ہے۔ اور ادھر جتنی بھی کمپنیاں ابھی کام کر رہی ہیں وہ غیر ملکی ہیں۔ ان میں پاکستانی انجینئر کام ہی نہیں کر سکتے ان کو مروا دیا جاتا ہے۔ صرف نچلی سطح پر مزدور طبقے کے طور پر پاکستانی کام کر رہے ہیں۔

حقوق کا خیال اور بین الاقوامی مداخلت

یہ بات مسلم ہے کہ ایک ریاست تب تک آئیڈیل نہیں بن سکتی جب تک خودمختار نہ ہو۔ بیرونی مداخلت کا روکنا بہت ضروری ہے، بیرونی مداخلت مختلف قسم کی ہو سکتی ہے، ایک دفعہ ایسا ہے کہ دشمن نے ثقافتی طور پر حملہ کیا ہے اور آپ کی اقدار، فرہنگ اور دین پر حملہ ور ہے۔ اس کے لیے وہ نرم ہتھیار کا استعمال کرتا ہے لیکن ایک دفعہ ایسا ہے کہ دشمن بدمعاشوں کی طرح آپ کے ملک میں گھستا ہے۔ کاروائی کرتا ہے جاسوس چھوڑتا ہے اور بنا کسی جھجھک کے ملکی مسائل میں مداخلت کرتا ہے۔ جیسے امریکہ ہے کہ خود کو دنیا کا مالک سمجھتا ہے۔ جس وقت چاہے کسی بھی ملک پر کسی بہانے سے حملہ کرتا ہے، ان کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور بعد میں پھاڑ دیتا ہے۔ انسانی حقوق کو پائمال کرتا ہے، خود بھی ظلم کرتا ہے اور اپنے حواری ظالموں کا ساتھ بھی دیتا ہے۔ یمن میں کئی سالوں سے جنگ ہو رہی ہے لیکن وہاں مداخلت کر کے جنگ کو نہیں روکتا اور انسانی حقوق کا راگ نہیں الاپتا۔ کیوں؟ کیونکہ وہاں پر اس کا اتحادی سعودی منحوس خاندان ظلم کر رہا ہے۔ لیکن دیگر جگہوں پر حقوق کے نام پر مداخلت کرتا ہے اور بدمعاشی کرتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کے حقوق ہوتے ہیں، حتی مجرموں کے حقوق ہیں۔ اقوام متحدہ میں باقاعدہ حقوق انسانی کے نام سے ایک چارٹر موجود ہے۔ تاہم جو انسانی حقوق امام سجادؑ نے رسالۃ الحقوق میں بیان کیے ہیں وہ کئی مدارج بالاتر ہیں ان حقوق سے جو اقوام متحدہ نے قرار دیے ہیں۔[2] ویکی اہلبیت۔ اسی طرح سے مالک اشتر کا عہد نامہ ہے۔ امیرالمومنینؑ کا وہ مکتوب جو آپ نے مالک اشترؒ کو مصر کا والی مقرر کرتے ہوۓ ان کو ہدایات کے طور پر لکھ کر دیا۔ وہاں پر امام نے شہریوں، مومنوں اور حتی کافروں کے حقوق بیان کیے ہیں۔ وہاں پر امامؑ نے زکات اکٹھا کرنے والے حکومتی کارمندوں کو ہدایات دی ہیں۔ ان کو حکم دیا ہے کہ زکات لیتے وقت سختی مت کریں، ان کے اموال کو غارت مت کریں، مالک کی اجازت کے بغیر کوئی کام انجام نہ دیں وغیرہ۔[3] عہد نامہ مالک اشترؒ۔ اس کے برعکس جب ہم جنگ عظیم اول اور دوم کی تاریخ پڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کی بدترین پائمالی ہوئی۔ انہیں یورپیوں نے کروڑوں انسان قتل کیے جو اب ہم مسلمانوں کو دہشتگرد کہتے ہیں۔

مدینہ فاضلہ کی خارجہ پالیسی

مدینہ فاضلہ کی سیاست اس آیت کریمہ کی تعلیم کے مطابق ہے:
«لا تَظْلِمُونَ وَ لا تُظْلَمُونَ».
ترجمہ: نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔[4] بقره: ۲۷۹۔
مدینہ فاضلہ وہ ہے جو کسی پر ظلم  نہیں کرتا اور ظلم ہونے بھی نہیں دیتا۔ اگر ہمارا ملک خدانخواستہ کسی پر ظلم کرتا ہے دوسرے ممالک پر یا خود اپنی قوم پر ظلم کرتا ہے مدینہ فاضلہ نہیں کہلاۓ گا۔ مہنگائی بڑھا دینا، شہریوں کو امنیت مہیا نہ کرنا، بنیادی سہولیات سے محروم کرنا، یہ ظلم ہے۔ ہمارے ملک میں سود کا نظام حاکم ہے اس کو تو سب پاکستانی ہی حرام سمجھتے ہیں چاہے سنی ہوں یا شیعہ۔ پھر کیوں عام ہے؟ اگر یہ اجتماعی گناہ معاشرے میں ہو رہا ہے تو یوں نہیں کہ جو سود کھاتا ہے صرف اسی پر عذاب ہوگا بلکہ پورا معاشرہ عذاب کا شکار ہوگا۔ یہ ظلم معاشرے میں عام نہیں ہونے دینا چاہیے۔ جب سودی قرضے ہماری حکومتیں اٹھاتی ہیں اس سے ملک تو نہیں سنورنا، بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی مقروض ہونگی۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ جس نے کچھ بھی خرچ نہیں کیا مقروض ہے۔ اگر یہ ظلم ختم کرنا چاہتے ہو تو الہی نظام کی طرف آؤ، مدینہ فاضلہ کی طرف آؤ، مدینہ فاضلہ ظلم کویا  بلیک میلنگ کو قبول نہیں کرتا، مدینہ فاضلہ امریکی مداخلت کو قبول نہیں کرتا، مدینہ فاضلہ عربوں کے ریال سے ملک کو نہیں چلاتا۔ بلکہ مدینہ فاضلہ کی ان کے ساتھ دشمنی ہے، وہ نا خود ظلم کرتا ہے اور نا ظلم قبول کرتا ہے۔

بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری

مدینہ فاضلہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ عہد و پیمان پورا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
«وَ أَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْئُولاً».
ترجمہ: اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔[5] اسراء: ۳۴۔
قرآن کریم کی اس آیت میں اطلاق پایا جاتا ہے۔ عہد پورا کرنے میں کوئی شرط نہیں لگائی گئی۔ جب معاہدہ ہو جاۓ تو اس کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے مشرکین مکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس کو وفا کیا۔ اسی طرح سے امام حسنؑ نے امیر شام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تو اس پر پابند  رہے۔ حتی ان کی شہادت کے بعد امام حسینؑ بھی اس عہد پر باقی رہے۔ اسلامی ریاست کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ داخلی اور بین الاقوامی معاہدوں کا پاس رکھے۔ مثلا دو ممالک معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرینگے یہاں پر عہد کے خلاف کرنا حرام ہوگا۔ اور اگر اس حرام کا ارتکاب ہوتا ہے تو پوری ریاست مجرم ہے۔ پاکستان نے ایران سے تیل اور گیس لینے کا معاہدہ کیا، خود ہمارے حکمرانوں کے بقول ہم نے اس معاہدہ پر عمل نہ کیا کیونکہ ہم امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کے وزیر نے ایک پرواگرام میں آن ایئر یہ بات کی کہ انڈیا تو ایران سے تیل لے رہا ہے لیکن ہم نہیں لیتے کیونکہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔[6] سائٹ یوٹیوب۔ اس جرم کا مرتکب پورا معاشرہ ہوا ہے۔ ہم مسلسل عہد کا نقض کر رہے ہیں۔ جب تک ہم انہیں حکمرانوں کا ساتھ دیتے رہیں گے، ان کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے اور اپنا راستہ ان سے جدا نہیں کر لیتے اس عہد شکنی میں ہم برابر کے شریک ہونگے۔ ابھی ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے دوبارہ یہ پیشکش دی ہے کہ ہم پاکستان کے تمام انرجی کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایران سے تیل اور گیس لیں تو بہت سستی مل سکتی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی موقعیت ایسی ہے کہ دنیا کے مرکزی ترین ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ دریائی راستے بھی کھلے ہیں لیکن پھر بھی اتنی معیشتی پسماندگی عذاب کے سوا کچھ نہیں۔

مدینہ فاضلہ میں صنعتی ترقی

کسی بھی معاشرے میں خوشحالی برپا نہیں ہو سکتی جب تک صنعت میں ترقی نہ آۓ۔ وطن عزیز میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور جو ہے اس کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ گھاس کاٹنے تک کی مشین ہم نہیں بنا سکتے۔ ٹائر کھولنے کے لیے کمسن بچوں کو ورکشاپ پر رکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں یہ سب کام ایک بٹن دبائیں آٹومیٹک انجام پاتے ہیں۔ مدینہ فاضلہ وہ ہے جس میں صنعتی رشد ہو، اس لیے قرآن کریم میں انبیاء الہی کی حکومتوں کا تذکرہ وارد ہوا۔ لیکن ساتھ یہ بھی بیان ہوا کہ یہ رشد توحید کی اساس پر تھا۔ حضرت سلیمانؑ کے تخت اور قصر کا ذکر ہوا لیکن ساتھ ہی ملکہ سبأ کے توحید پر ایمان لانے کا بھی ذکر ہوا۔ 

مدینہ فاضلہ کی راہ میں مجاہدت

جب تک اجتماعی طور پر ایک حرکت اور نہضت وجود میں نہیں آتی ایک آئیڈیل ریاست کا حصول ہمارے لیے خواب کی طرح رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا عہد وفا کریں، وہ عہد الہی یاد کریں، انبیاء الہی اور آئمہ معصومینؑ سے کیا عہد وفا کریں۔ نظام امامت سے وفا کریں، اقلیت، تنہائی اور اپنوں کی مخالفت کے بہانے نہ بنائیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
«لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ الْمَلائِكَةِ وَ الْكِتابِ وَ النَّبِيِّينَ وَ آتَى الْمالَ عَلى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَ الْيَتامى وَ الْمَساكينَ وَ ابْنَ السَّبيلِ وَ السَّائِلينَ وَ فِي الرِّقابِ وَ أَقامَ الصَّلاةَ وَ آتَى الزَّكاةَ وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا».
ترجمہ: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں۔[7] بقرہ: ۱۷۷۔
ہمارے اس دینی ادارے’’ البر اسلامی فکری مرکز ‘‘کا ہدف بھی یہی آیت مجیدہ ہے۔ ادارے کا نام البر اسی آیت کے دوسرے کلمہ سے ماخوذ ہے۔ اس آیت کے ایک حصے میں ذکر ہوا ہے کہ «وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا »:مومن وہ ہیں جو اپنا عہد وفا کرتے ہیں، نظام امامت سے کیا عہد پورا کرتے ہیں، جسم و جان سے، اپنی توان کے مطابق خون کے آخری قطرے تک عہد پر باقی رہنا البر کا ہدف ہے۔ مصنف نے بھی کتاب میں یہی نکتہ ذکر کیا ہے۔ «وَ الْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذا عاهَدُوا »یعنی حق امامت کو پورا کرنا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے، ہمارے لیے اختیاری صورت نہیں ہے کہ ولایت فقیہ کی حمایت کریں یا نہ کریں؟ بلکہ ہم سب پر واجب ہے کہ اس کی حمایت کریں۔ اگر ہم نے یہ عہد پورا نہ کیا تو غضب الہی کا شکار ہونگے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
«الَّذينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ في كُلِّ مَرَّةٍ وَ هُمْ لا يَتَّقُونَ».
ترجمہ: جن سے آپ نے عہد لیا پھر وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔[8] انفال: ۵۶۔
ولایت فقیہ کو قومی اور لسانی یا ملکی مسئلہ نہیں بنانا۔ یہ ایک شیطانی سوچ پھیلائی جا رہی ہے کہ ولایت فقیہ تو ایرانی ہے۔ یہ مشرکانہ تفکر ہے۔ ولی فقیہ د
ینی تشخص رکھتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیت اللہ سیستانی چونکہ اصالتا ایران کے ہیں صوبہ سیستان کے ہیں لہذا وہ عراقیوں کے یا پاکستانیوں کے مرجع تقلید نہیں ہوسکتے۔ یا شیخ نمر باقر النمرؒ اور شیخ زکزاکی کا ہم سے کیا تعلق؟ ہمارا ان سب سے تشیع کا تعلق ہے۔ ورنہ ایک افریقی، ایک عربی اور ایک ایرانی ہے۔ شیخ زکزاکی نے ہمیں مقاومت کا درس دیا ہے، تبلیغ دین کا درس دیا ہے، ۲ کروڑ افراد کو شیعہ کیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد کو تشیع کی طرف مائل کیا۔ لیکن اس راہ میں چھ بیٹے قربان کرواۓ۔ اسی طرح سے شہید قاسم سلیمانیؒ کی شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت بھی قومی اور زمینی سرحدی حدود سے بالاتر ہے۔ حرم آئمہ معصومینؑ کے مدافع ہیں، تشیع اور اسلام کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اس لیے ہم سب کے لیے قابل احترام ہیں۔[9] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۸تا۱۱۴۔

منابع:

Views: 21

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: شہادت خیال سے حقیقت کا ایک سفر
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ اور فاسد نظریات