loading
{دروس ولايت فقیہ:قسط۴۱}

مدینہ فاضلہ  کی مختلف معانی

کتاب: ولايت فقيه، آيت الله جوادى آملى
تدريس: سيد محمد حسن رضوی
تدوين: عون نقوی 

گزشتہ قسط میں بیان ہوا کہ خاص شرائط کی حامل حکومت کو مدینہ فاضلہ کہتے ہیں۔ وہ خاص شرائط کونسی ہیں جس کی بنا پر ایک حکومت آئیڈیل ریاست بناتی ہے؟ اسلامی مفکرین کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوۓ ہم نے بیان کیا کہ یہ وہ ریاست ہوتی ہے جس میں لوگ حقیقی سعادت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔[1] رجوع کریں۔  

مغربی معاشرے اور مدینہ فاضلہ

حقیقی سعادت کیا ہے؟ کیونکہ ہر معاشرے میں ہی حکومتیں یہ نعرہ بلند کرتی ہیں کہ ہم لوگوں کو سعادت مند بنائیں گی۔ ان کی خواہشات کی تکمیل کریں گی، امنیت، رفاہ اور تعلیم کا مناسب بندوبست کریں گی۔ کیا انسان کی حقیقی سعادت یہی ہے کہ اس کی خواہشات اور مادی ضروریات پوری کر دی جائیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو کیا مغربی معاشرے مدینہ فاضلہ شمار ہونگے؟ کیونکہ انہوں نے انسان کی مادی ضروریات پوری کر دی ہوئی ہیں، مغربی ممالک میں افراد کو امنیت حاصل ہے، تعلیم کے مواقع موجود ہیں، اچھا روزگار بھی مہیا ہے تو اور کیا چاہیے؟ اگر یہی انسان کی سعادت ہے تو پھر مدینہ فاضلہ کی اعلی مثال یورپی ممالک ہیں۔ ان کا جو دل کہتا ہے کرتے ہیں، ان کے بقول عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزاریں آگے کی زندگی کس نے دیکھی ہے ؟لذات حاصل کرو یہی سعادت ہے۔ مغربی تفکر کے مطابق سعادت کا ایک معنی یہی بنتا ہے۔

سعادت کا غلط معنی

ایک تشریح کے مطابق انسان کی سعادت یہ ہے کہ اس کی شہوات کو پورا کر دیں۔ معاشرے میں کوئی بھی قید و بند نہ ہو سب مطلق آزادی رکھیں، ڈانس کلب بنے ہوں، شراب عام چلے، اقتصادی طور پر سود کی پابندی نہ ہو، مالی طور پر کسی بھی قسم کی مشکل نہ ہو۔ مدینہ فاضلہ کی اس تعریف کی بنا پر مغربی مفکرین نے معاشروں کی بنیاد رکھی ہے اس لیے وہاں جمہوریت کے نام پر ہر قسم کی آزادی ہے۔ مالی آزادی کے طور پر انہوں نے بینک بنایا ہے۔ بینک کی اساس ہی اسلامی تفکر کے برخلاف ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ مال گردش میں رہے اور انفاق کیا جاۓ۔ لیکن بینک کی اساس یہ ہے کہ مال جمع کریں۔ یہ تفکر مفادات پر کھڑا ہے اگر مفاد کے حصول کے لیے کچھ بھی داؤ پر لگتا ہے مشکل نہیں۔ مثلا خود ایران میں حسن روحانی کی حکومت آئی ان کا نظریہ یہ تھا کہ اسلامی اقدار اور انقلاب کے اصولوں پر ہم چلتے ہیں تو ملک پر پابندیاں لگتی ہیں اس لیے ہمیں تسلیم ہو جانا چاہیے اور جو کچھ اسلام دشمن ہم سے چاہتے ہیں ہم وہ سب انجام دیں تاکہ پابندیاں ہٹ جائیں اقتصاد مضبوط ہو چاہے عزت جاتی ہے، قدرت اور اسلام کا اقتدار بے شک چلا جاتا ہے امریکہ کی غلامی میں کم از کم ہمارا اقتصاد تو اچھا ہوگا۔ اس کو وہ سعادت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ہمارے حکمران بھی ایسا ہی کرتے ہیں بے شک ان کو عرب ممالک کے سربراہوں کی گاڑی ڈرائیو کرنی پڑ جاۓ، یا ان کے ہر بدترین عمل کی تاویل کرنا پڑے انجام دیتے ہیں۔ مثلا آل سعود کی یمن میں بمبارمنٹ اور بچوں کے قتل عام کی ہمارے حکمران حمایت کرتے ہیں اور یمن میں اپنے ہی ملک کا دفاع کرنے والوں کو باغی کہتے ہیں۔ یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ تاکہ ہمیں کچھ ڈالر عطا کریں اس کو وہ پاکستانی معاشرے کے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم اور دین اسلام اس کو معاشرے کی سعادت نہیں مانتا۔ اس لیے اسلامی مفکرین نے حقیقی سعادت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حقیقی سعادت سے مراد کیا ہے؟ حقیقی سعادت کا مصنف معنی کرتے ہیں کہ وہ معاشرہ جس میں علمی اور عملی ترقی اوج پر ہے۔ لیکن اس کی اساس مادی اور شہوانی نہیں ہے جس طرح سے ہم مغربی معاشرے دیکھتے ہیں کہ وہاں علمی اور عملی ترقی ہے لیکن اس کی اساس مادی ہے مدینہ فاضلہ میں جس سعادت کے حصول کے لیے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اس کی اساس اللہ تعالی کی ذات ہے۔

نظام کے ذریعے علمی اور عملی رشد

مصنف فرماتے ہیں کہ مدینہ فاضلہ کا جو تصور اسلام نے پیش کیا ہے اس میں علمی اور عملی رشد و ترقی ہمراہ ہیں۔ صرف ایک کا ہونا کافی نہیں۔ بلکہ ہر دو ایک ساتھ ہیں ۔ ان دونوں کا ہمراہ ہونا ایک سسٹم کے تحت ہی ممکن ہے اگر سسٹم اور نظام وجود میں نہ آۓ ہم ان دونوں کو ایک ساتھ نہیں چلا سکتے۔ حتی کوئی بھی شے ہو وہ نظام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس نظام پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نظام نہ بنائیں تو گھر میں آٹا بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے بھی آپ کو نظام کی ضرورت ہے۔ پہلے بیج زمین کے اندر جاتا ہے، اس کو ایک مناسب مقدار کا پانی ملتا ہے، اس کے بعد فصل پکتی ہے، اس میں سے دانہ الگ اور بھوسہ الگ ہوتا ہے، اس کے بعد آٹا بنتا ہے، آٹے کو گوند کر پکا کر اس کی روٹی بناتے ہیں۔ یہ سب نظام ہے۔ اگر نظام نہ ہو تو کوئی بھی شے قابل استفادہ نہیں ۔ اسی طرح سے دین ہے ، دین بھی نظام کے بغیر انسان کی نجات کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ مثلا اگر آپ پاکستان میں مدینہ فاضلہ یا ایک آئیڈیل ریاست بنانا چاہیں اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیسے لوگ حقیقی سعادت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں؟ اس سب کے لیے آپ کو نظام بنانا ہوگا اگر آپ نے نظام نہ دیا سعادت حاصل نہیں ہو سکتی۔

نظام کے بغیر مدینہ فاضلہ

رسول اللہﷺ نے جس ریاست کی بنیاد رکھی اور جس دین کی تبلیغ فرمائی اگر اس کے لیے نظام تشکیل نہ دیتے تو اس دین کا کیا نتیجہ نکلتا جو اتنی زحمات سے تبلیغ ہوا؟ اگر امام خمینیؒ ولایت فقیہ کی شکل میں سیاسی نظام نہ دیتے تو شہدی کی عظیم قربانیوں اور انقلاب کا نتیجہ کیا نکلتا؟ معلوم ہے کہ نظام کے بغیر سب زحمات رایگان جاتیں۔ اگر آپ نظام نہ بنائیں ایک چھوٹا سا ادارہ بھی نہیں چلا سکتے۔ دس کمروں پر محیط مدرسے میں چار بندے نہیں رہ سکتے اگر اس مدرسے کے اندر نظام نہ ہو۔ اگر نظام نہ ہو امنیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے افراد کی ضروریات پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سسٹم پر دقت کیے بغیر ہم دین کو بھی نہیں سمجھ سکتے ۔اب تو باقاعدہ ایک علمی شعبہ بن گیا ہے جس میں طالب علم پڑھتا ہے کہ سسٹم کیسے بنتا ہے؟ سسٹم کیسے بنانا ہے؟ تعلیمی سسٹم، اقتصادی سسٹم وغیرہ۔

مدینہ فاضلہ ایک اسلامی نظریہ

مندجہ بالا تذکرات کے بعد معلوم ہوا کہ مدینہ فاضلہ کوئی خطرناک چیز نہیں۔ اس لیے ہمیں اس آئیڈیل ریاست تک رسائی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مدینہ فاضلہ کے بارے میں ہم نے بیان کیا کہ قدیم دور سے اس موضوع پر مفکرین نے قلم اٹھایا۔ اسلامی مفکرین نے اس کو مدینہ فاضلہ کی اصطلاح کے ذیل میں بحث کیا۔ عباسیوں کے دور خلافت میں یہ اصطلاح پوری دنیا میں علمی اصطلاح کے طور پر مشہور ہو گئی تھی۔ اس وقت عالمی زبان عربی شمار ہوتی تھی جیسے آج کے دور میں انگریزی عالمی زبان شمار ہوتی ہے اسی طرح عربی زبان تھی کہ اس کی اصطلاح تمام عالم اسلام میں پھیل گئی۔[2] جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶۔

منابع:

منابع:
1 رجوع کریں۔
2 جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت فقاہت و عدالت، ص۱۰۶۔
Views: 13

پڑھنا جاری رکھیں

گذشتہ مقالہ: مدینہ فاضلہ سے مراد
اگلا مقالہ: مدینہ فاضلہ اور کلچرل ترقی