loading

{فصوص الحكم فارابی}

انسانی حواس خمسہ
درس: شرح فصوص الحکم (فارابی)
استاد: آيت الله حيدر ضيائى
تحرير: سيد محمد حسن رضوی

مطلب فص۵۲: 

عوام الناس اولیاء اللہ سے ایک بنیادی فرق رکھتے ہیں، اکثر عوام کی نبضِ روح ضعیف ہے وہ مادیات یا عالم مادیات سے تجاوز نہیں رکھتے۔ اکثر لوگ عالم خیال اور اس سے بالاتر جہان ’’عالم عقول و مجردات‘‘ کے ادراک سے محروم ہیں۔ حتی عالم خیال کے ادراک سے بھی محروم ہیں ۔ اگرچے قوت حس، قوت خیال اور قوت عقل کے مالک ہیں لیکن ان جہانوں کے ادراک کی طرف متوجہ نہیں ہیں اور غفلت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر اکثر لوگ انسانی نفس کی فقظ ظاہری قُوی (ظاہری قوتوں)  کی طرف متوجہ ہیں جبکہ نفس کی بقیہ اعلیٰ ترین قُوی (قوتیں) رکھنے کے باوجود ان سے غافل ہیں۔  حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نفس میں یہ عظیم خزانے رکھے ہیں۔ گلی محلوں اور بازاروں میں اکثر لوگ جو ہمیں نظر آتے ہیں یا تو مادی جہاں میں گم ہیں یا بہت ہوا تو خیالی جہاں میں محو ہیں۔ کم اور نادر افراد ہیں جنہیں تجارت و مشغولیت اللہ کے ذکر سے غفلت میں مبتلا نہیں کرتی۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم کی آیت اس طرح سے بیان کرتی ہے:{رِجَالٌ لا تُلْهِيۡهِمْ تِجَارَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَإيتاءِ الزَّكاةِ يَخَافُونَ يَوْماً  تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصَارُ ؛ وہ مرد ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی اور نماز کو قائم کرنے اور زکات کے دینے سے ، وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں پلٹ کر رہ جائیں گی }. [1]سورہ رنور: آیت ۳۷۔

مطلب فص۵۳: 

في الحدّ المشترك بين الباطن والظاهر قوةٌ هي مجمعُ تأْدِيَةِ الحواسِّ، وَعِنْدَهَا بِالْحَقِيْقَةِ الإِحْسَاسُ، وَعِنْدَهَا تَرْتَسِمُ صُوَرُ آلةٍ تَتَحرَّكُ بِالْعَجَلَةِ، فَتَبْقَى الصُّوَرُ مَحْفُوظَةً فِيْهَا وَإِنْ زَالَتْ، حَتَّى تحسّ بخطٍّ مستقيمٍ أو بخطٍّ مستديرٍ مِن غيرِ أَن يكون كذلك إلا أنّ ذلك لا يطول ثباتُهُ فيها. وهذه القوة أيْضًا مكانٌ لِتَقْرِيْرِ ( لتقرُّرِ خ ) الصُّوْرَةِ ( الصور خ ) الباطنةَ فِيْهَا عِنْدَ النَّوْمِ، فَإِنَّ المُدْرَكَ بِالْحَقِيْقَةِ مَا يَتَصَوَّرُ فِيْهَا سَوَاءً وَرَدَ عَلَيْهَا مِنْ خَارِجٍ أَوْ صَدَرَ إِلَيْهَا مِنْ دَاخِلٍ فَمَا تَصَوَّرَ فِيْهَا حَصَلَ مُشَاهَدًا فَإِنْ أَمْتَهَنَهَا ( فَإِنْ أَمْكَنَهَا خ ) الحسُّ الظاهِرُ تَعَطَّلْتَ عَنِ الْبَاطِنِ ، وَإِذَا عَطَّلَهَا الظَاهِرُ تَمَكَّنَ مِنْهَا الْبَاطِنُ الَّذِى لَا يَهْدَأُ فَيَسْتَثْبِتُ الْبَاطِنُ فِيْهَا مِثْلُ مَا يَحْصُلُ فِي الْبَاطِنِ حَتَّى تَصِيْرُ مُشَاهَدًا كَمَا فِي النَّوْمِ.وَلَرُبَّمَا جَذَبَ الْبَاطِنَ جَاذِبٌ جَدَّ فِي شُغْلِهِ فَاشْتَدَّتْ حَرَكَةُ الْبَاطِنِ اشْتِدَادًا يَسْتَوْلَى سُلْطَانُهُ فَحِيْنَئِذٍ لَا يَخْلُو مِنْ وِجْهَيْنِ : إِمَّا أنْ يُعَدِّلَ العَقْلُ حَرَكَتَهُ وَيَفْثَأَ غَلْيَانَهُ ، وَإِمَّا أَنْ يَعْجِزَ عَنْهُ فَيَعْزُبُ عَنْ جَوَارِهِ. فَإِنِ اتَّفَقَ مِنَ الْعَقْلِ عَجْزٌ وَمِنَ الْخِيَالِ تَسَلُّطٌ قَوِيٌّ تَمَثَّلَ فِي الْخِيَالِ قُوَّةٌ مُبَاشِرَتِهَا فِي هَذِهِ الْمِرَآة فَتُتَصَوَّرُ فِيْهَا الصُّورَةُ الْمُتَخَيّلَةُ ، فَتَصِيْرُ مَشَاهَدَةً كَمَا تَعْرُضُ لِمَنْ يَغْلَبُ فِي بَاطِنِهِ اسْتِشْعَارُ أَمْرٍ ، أَوْ تَمَكُّنُ خَوْفٍ فَيَسْمَعُ أَصْوَاتًا وَيُبْصِرُ أَشْخَاصًا. وَهَذَا التَّسَلُّطُ رُبَّمَا قَوَى عَلَى الْبَاطِنِ وَقَصُرَ عَنْهُ يَدُ الظَّاهِرِ فَلَاحَ فِيْهِ شَيْءٌ مِنَ الْمَلَكُوتِ الأَعْلَى فَأَخْبَرَ بِالْغَيْبِ كَمَا يَلُوحُ فِي النَّوْمِ عِنْدَ هَدْءِ ( هدأة خ ) الْحَوَاسِّ وَسُكُونِ الْمَشَاعِرِ فَيَرَى الأَحْلَامَ ، فَرُبَّمَا ضَبَطَتِ الْقُوَّةُ الْحَافِظَةُ الرُّؤْيَا بِحَالِهَا فَلَمْ تَحْتَجَّ إِلَى عِبَارَةٍ ، وَرُبَّمَا انْتَقَلَتِ الْقُوَّةُ الْمُتَخَيَّلَةُ بَحَرَكَاتِهَا التَّشْبِيْهِيَّةِ عَنِ الْمَرئِي نَفْسِهِ إِلَى أُمُورٍ تُجَانِسُهُ فَحِيْنَئِذٍ تَحْتَاجُ إِلَى التَّعْبِيْرِ. والتعبير هو حَدْسٌ من المُعَبِّرِ يَسْتَخَرِجُ بِهِ الأَصْلُ مِنَ الْفَرْعِ ( عن الفرع خ ). 

حس مشترک باطن اور ظاہر کے درمیان ایک ایسی قوت ہے جس کے پاس حواس کی اخذ شدہ تمام معلومات جمع ہوتی ہیں۔ قوتِ ادراکی ظاہری بصارت، سماعت، لامسہ ، ذائقہ اور شامہ ۔ نفس مجرد ہے لیکن عمل انجام دینے کے اعتبار سے مادی ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ نفس مجرد ہے لیکن فعلاً مادی ہے ۔ نفس سنتا ، بولتا، دیکھتا ہے لیکن کان، زبان اور آنکھ کے ذریعے۔ نفس ادراک کرتا ہے ۔ دماغ تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جس میں سے ایک حصے سے حس مشترک کا تعلق ہے۔ حس مشترک خود مجرد ہے لیکن ۔ حس مشترک تمام ظاہری حواس کا ادراک کرتا ہے ۔ اگر حواس باطنہ کچھ دیکھے تو حس مشترک کو دیتا ہے اور حواس ظاہری سب کچھ حس مشترک کو پہنچاتا ہے۔ حس مشترک واردات اور صادراتِ نفس ہے۔ نفس مثل بادشاہ اور سلطان ہے اور حس مشترک مثل وزیر ہے اور حواس خمسہ ظاہری جاسوس ہیں۔ حواس ظاہری تمام اطلاعات حس مشترک کو دیتے ہیں اور حس مشترک نفس کے ماتحت ہیں۔حس مشترک صورت دیتا ہے۔ پس حس مشترک وارداتی یعنی باہر سے وارد کرتی ہے اور صادراتی یعنی اندرون سے صادر کرتی ہے۔ ہم کیا حس مشترک رکھتے ہیں؟ حس مشترک کے اثبات کے لیے چند مثالیں بیان کی گئی ہیں، مثلا ہم آگ کا ایک دائرہ دیکھتے ہیں تو کیا خارج میں دائرہ ہے؟ ! یقینا خارج میں دائرہ نہیں ہے بلکہ ہر لحظہ وہ آگے جا رہا ہے ، یہ دائرہ خارج میں نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اندر ہے ، یہ حس مشترک ہے جو ہمیں دائرہ دکھا رہا ہے۔  پس حس مشترک کا وجود بدیہی ہے جوکہ بیرون سے وارد کرتا ہے اور اندرون اس کے حوالے کرتا ہے اور یہ اس کو صادر کرتا ہے، مثلا آپ ایک تنکے کو آگ لگائیں اور اوپر نیچے کریں تو آپ کو ایک لائن نظر آئے گی جبکہ حقیقت میں وہ آگ کی لائن نہیں ہے۔ یہ لائن حس مشترک درک کر رہی ہے۔ اسی طرح تیز موسلادھار بارش میں ہمیں بارش کی لائن نظر آتی ہے ۔ یہ لائن ہمیں نظر آ رہی ہے جبکہ حقیقت میں بارش کے قطرات پے در پے آ رہے ہیں لیکن حس مشترک اس طرح درک کر رہا ہے۔

مطلب فص۵۴: 

امام علیؑ  کا فرمان نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں:  >الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِهِ، فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِهِ صِرْتَ فِي وَثَاقِهِ فَاخْزُنْ، لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ وَوَرِقَكَ، فَرُبَّ كَلِمَةٍ سَلَبَتْ نِعْمَةً وَجَلَبَتْ نِقْمَة <.[2]سید رضی، نہج البلاغہ، ص ۵۴۳، حکمت: ۳۸۱۔ جب تک ایک مطلب زبان پر نہیں آتا وہ ہمارا اسیرہے اور ہم اس پر مسلط ہیں لیکن جب وہ زبان سے جاری  ہوجاتا ہے تو ہم اس کے اسیر ہیں اور وہ ہم پر مسلط ہے۔بزرگ ترین نعمت الہٰیہ میں سے ایک عظیم نعمت قوتِ بیان ہے جوکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔ انسان کتنی ترقی کر گیا ، یہ ترقی گفتگو، کلام اور بیان کی بدولت ہے کیونکہ گفتار سے معانی منتقل نہیں ہوتے بلکہ بیان سے معانی منتقل ہوتے ہیں۔  اللہ تعالیٰ سورہ الرحمن میں بیان فرماتا ہے:{عَلَّمَهُ الْبَيان‏ ؛ اس نے بیان کرنا سیکھایا [3]سورہ رحمن: آیت ۴۔   انسان حقیقت میں اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے، بولو تاکہ پہچانے جاؤ۔ یہی زبان ہے جس سے بڑے بڑے گناہانِ کبیرہ جنم لیتے ہیں۔جب تک زبان سے ادا نہیں کیا امیر ہیں اور جب ادا کر دیا تو اسیر ہیں۔سید محمد حسین طہرانی نے کتاب لب اللباب کتاب میں اہل سنت کتب سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:   > لَوۡلَا تَزۡيِيۡدٌ فِىۡ حَدِيۡثِكُمۡ وَتَمۡزِيۡجٌ فِى قُلُوبِكُمۡ لَرَأَيۡتُمۡ مَا أَرَى وَلَسَمِعۡتُمۡ مَا أَسۡمَعُ؛اگر تمہاری باتوں میں شہوات کی طرف میلان نہ ہوتا اور تمہارے دلوں میں فاسد خیالات و نیات نہ ہوتیں تو تم بھی وہ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہ سنتے جو میں سنتا ہوں <.[4]ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۳۳۱۔ بعض جگہوں میں حدیث کے ’’تمریج‘‘ کی بجائے ’’تمریغ‘‘ آیا ہے جس سے کا مطلب دل کا دنیاوی اور شہوانی خیالات میں ڈوبا ہوا ہونا ہے۔ علامہ حسن زادہ اپنی کتاب میں نکتہ میں بیان کرتے ہیں کہ مرحوم آغا ولائی جوکہ علامہ کے خصوصی شاگرد تھے اور اہل ولاء تھے اور علامہ بہت ان سے محبت کرتے ہیں اور انہیں مولای دانشور کہا ، مولای یعنی عمل کے اعتبار سے اور دانشور یعنی علم کے اعتبار سے، اس ضمن میں ایک روایت نقل کرتے ہیں: > مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ بِي فِي نَوْمٍ وَلَا يَقَظَةٍ وَلَا بِأَحَدٍ مِنْ أَوْصِيَائِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ <.[5]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۵، ص ۳۹۳۔ یہی روایت عیون اخبار الرضاؑ میں صحیح السند طریق سے وارد ہوئی ہے جس میں امامؑ فرماتے ہیں:> وَلَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ آبَائِهِ ^ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: مَنْ زَارَنِي فِي مَنَامِهِ فَقَدْ زَارَنِي؛ لِأَنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي وَلَا فِي صُورَةِ أَحَدٍ مِنْ أَوْصِيَائِي وَلَا فِي صُورَةِ أَحَدٍ مِنْ شِيعَتِهِمْ، وَإِنَّ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةَ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنَ النُّبُوَّةِ <.[6]صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، ج ۱، ص ۲۸۸۔   [7]محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۲۸۵۔ اسی معنی پر مشتمل روایت بخاری و مسلم اور دیگر اہل سنت اکابر محدثین نے نقل کی ہے ۔ [8]بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج ۹، ص ۳۳، حدیث: ۶۹۹۴۔ اہل ولاء نے رسول اللہ ﷺ کی یا خواب میں زیارت کی یا بیداری کی حالت میں مکاشفہ کے ذریعے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کا تقاضا کیا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں ذکرِ سکوت دیا۔ پس زبان کی حفاظت اور نگہداشت خود ایک ذکر ہے۔ جو خاموش رہا وہی گویا ہوا۔دستورِ عمل کا تقاضا کیا جاتا تو علامہ یہ پانچ چیزیں شعر کی صورت میں بتاتے:   صمت، صوم، سھر (بیداری در دل شب) ، خلوت ، ذکر بدوام(یعنی یادِ الہٰی) ، ان میں سب سے پہلا صمت یعنی خاموشی۔ 

نفس ناطقہ کا بادشاہ ہونا

نفسِ ناطقہ انسانی بادشاہ ہے اور حسِ مشترک وزیر ہے جبکہ حواس خمسہِ ظاہری جاسوس ہیں ۔ یہ جاسوس جو خبر لیتے ہیں وہ حس مشترک کو دیتے ہیں جوکہ بادشاہ یعنی نفس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ خاصیتِ سوم صورت جو خارج میں تحقق پیدا کرتی ہے وہ حس مشترک ہے جو یہ حس مشترک نے تحقق دیا ، جیسے تنکےکو آگ لگا کر گھمانے سے آگ کا دائرہ نظر آتا ہے، وغیرہ  ۔

حس مشترک بیکار نہیں رہتی کیونکہ نفسِ انسان بیکار نہیں رہتا۔ جب انسان سو جاتا ہے تو حواس خمسہ معطل ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف قوتِ خیال، قوتِ متخیلہ ، قوتِ واہمہ وغیرہ فعال ہو جاتے ہیں اور حس مشترک کو سب دیتے ہیں۔ پس بیداری میں حس مشترک باہر سے چیزیں اخذ کرتی ہے اور نیند میں اندرون سے لیتی ہے۔حس مشترک مظہرِ آیت لا سنۃ و لانوم ہے۔ نیند بدن کو آتی ہے جبکہ حس مشترک نفس سے تعلق رکھتا ہے جو مجرد ہے اور مجرد خستگی، تھکاوٹ اور بیکاری نہیں رکھتا۔ باطن ِ انسان کو آرام نہیں ۔ جب تک بیدار ہے باہر سے اخذ کرتا ہے اور جب سو جاتا ہے تو اندرون سے اخذ کرتا رہتا ہے۔

خواب اور اس کی تعبیر:

ممکن ہے انسان زندگی کے کسی موڑ پر  انتہائی وحشت ناک واقعہ سے دوچار ہو جائے اور اس واقعہ کی وجہ سے ذہنی اثر لے بیٹھے اور ہر وقت خوف کھانے لگے۔ اس صورت میں بھی حس مشترک کا کردار ختم نہیں ہوتا۔ جب انسان ایسی کیفیت سے دوچار ہو تو حقیقت میں حس مشترک خود اس ہولناکی کو ایجاد کر رہی ہوتی ہے اور اندرون میں اس واقع کو بار بار زندہ کرتی ہے۔انسان صدا ہولناک سنتا ہے لیکن اس کے لیے رہنما کی رہنمائی سے تشخیص دینا ضروری ہے کیونکہ رہنما بتائے گا کہ یہ حس مشترک کی ایجاد کردہ ہے یا نہیں بلکہ حقیقت رکھتا ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے ہیں جن میں سے بہت ست اضغاث الاحلام ہیں لیکن یقیناً ان میں سے بعض رؤیا صادقہ ہے۔ رؤیا صادقہ کی تعبیر کیا ہے۔ ایک مرتبہ خواب ’’عینِ تحققِ خارج‘‘ ہے، اس نوعیت کا خواب بہت قلیل پیش آتا ہے یا اصلاً پیش نہیں آتا،جیساکہ حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا، جیساکہ قرآن کریم میں آیا ہے:{ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قالَ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى‏ فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ ما ذا تَرى‏ قالَ يا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُني‏ إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرين؛ پھر جب وہ کام کاج کی عمر تک پہنچ  گیا تو کہا: اے پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، پس تم دیکھو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے میرے بابا! جس کا حکم دیا گیا ہے آپ اسے انجام دیں ، ان شاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے } [9]سورہ صافات: ۱۰۲۔ دوسرا مجموعہِ رؤیا صادقہ کا وہ ہے جس کی تعبیر کی ضرورت پیش آتی ہے، جیسے عزیز مصر نے خواب دیکھا۔ یہاں معبِّر کا کیا کام ہے یا وہ کیا کام کرتا ہے؟ کیونکہ ہمارے قوتِ عقل کو ایک معنی عطا کیا جاتا ہے اور قوتِ خیال اس معنی کو اسی کے متناسب صورت کشی کرتا ہے جسے انسان خواب میں دیکھتا ہے۔ اگر معبِر کو اس قوتِ عقل کو عطا کردہ معنی کا علم نہ ہو تو وہ قوتِ خیال کی صورت کشی سے معنی کو معلوم نہیں کر سکتا، جیسے حضرت یوسفؑ نے اس معنیِ عقل کو دریافت کر لیا جو عزیزِ مصر کو دیا گیا اور اس کی قوتِ خیال نے اسی کے متناسب تصویر کشی کی۔ علامہ حسن زادہ بیان کرتے تھے کہ وہ خواب جس کی تعبیر دیر سے آشکار ہوئی اس کا مطلب ہے کہ یہ نفس قوی ہے اور جس کی تعبیر جلد آشکار ہو اس کا مطلب ہے کہ نفس ضعیف ہے کیونکہ اس کی تعبیر تاخیر سے مربوط تھی۔ خواب میں ہمیں معنی دیا جاتا ہے اور خیال اس کو صورت میں ڈھال دیتا ہے اور معبر اس صورت سے معنی کو دریافت کر لیتا ہے، مثلا انسان نے خواب میں دودھ دیکھا یا پانی پیا ، معبِّر پوچھے گا کہ تمہارا کام کیا ہے؟ وہ کہے میں طالب علم ہوں اس کا مطلب ہے اس کو علم عطا کیا گیا ہے۔

شرحِ فص ۵۵:الحس … والعقل…ليس حجابه فعل انكشافه كالشمس …

مواعظ عددیہ میں شیخ مشکینی نے امام علیؑ سے روایت نقل کی ہے جس میں امام ؑ فرماتے ہیں:  أربَعَةُ أشياءَ لا يَعرِفُ قَدرَها إلاَّ أربَعَةٌ: اَلشَّبابُ لا يَعرِفُ قَدرَهُ إلاَّ الشُّيُوخُ، وَالْعافِيَةُ لا يَعرِفُ قَدرَها إلاَّ أهلُ الْبَلاءِ، وَالصِّحَةُ لا يَعرِفُ قَدرَها إلاَّ الْمَرضي، وَالْحَياةُ لا يَعرِفُ قَدرَها إلاَّ الْمَوتی. [10]مشکینی، شیخ علی، المواعظ العددیۃ، ص ۲۱۸۔اس مطلب کو مولوی نے بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے، مولوی کہتے ہیں: 

گفت پیری مر طبیبی را که من
در زحیرم از دماغ خویشتن

گفت از پیریست آن ضعف دماغ
گفت بر چشمم ز ظلمت هست داغ

گفت از پیریست ای شیخ قدیم
گفت پشتم درد می‌آید عظیم

گفت از پیریست ای شیخ نزار
گفت هر چه می‌خورم نبود گوار

گفت ضعف معده هم از پیریست
گفت وقت دم مرا دمگیریست

گفت آری انقطاع دم بود
چون رسد پیری دو صد علت شود

گفت ای احمق برین بر دوختی
از طبیبی تو همین آموختی

ای مدمغ عقلت این دانش نداد
که خدا هر رنج را درمان نهاد

تو خر احمق ز اندک‌مایگی
بر زمین ماندی ز کوته‌پایگی

پس طبیبش گفت ای عمر تو شصت
این غضب وین خشم هم از پیریست. [11]مولوی، مثنوی معنوی، دفتر دوم، بخشش ۸۸۔

آقای قمشہ ای نے دنیا اور آخرت کے  ۳۲ نام ذکر کیے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک عنوان عالم خلق و عالم امر ہے۔ عالم خلق یعنی یعنی عالم مادی اور عالم امر یعنی عالم غیر مادی جوکہ مارواء طبیعت ہے۔ قرآن کریم میں آیاتِ مسخرات میں اس کا تذکرہ وارد ہوا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: {أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمين‏؛ آگاہ ہو جاؤ اس کے لیے خلق اور امر ہے اللہ عالمین کا رب  تبارک ہے }[12]سورہ اعراف: آیت۵۴۔ محدودِ حواس عالم خلق ہے۔ حس ظاہری : سونگھنا، چکھنا، دیکھنا، سننا، لمس کرنا اور حسِ باطنی: حس مشترک، قوت خیال، قوت واہمہ، قوت حافظہ، قوت متخیلہ۔ عالم امر میں کن فیکون ہے۔ عالم امر میں حواس کی دسترس نہیں اس لیے عالم امر کو درک کرنے کے لیے عقل ہے۔ ہر مرتبہ ما فوق ذی ظل ہے اور ہر مرتبہ ما دون زیر ذی ظل ہے۔ مرتبہ ِ حس ہے، مرتبہِ عقل ہے، مرتبہ الہٰی ہے اور ان سب مراتب کا باہمی ایک دوسرے سے ربط ہے۔    قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَ إِنْ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم‏‏؛ اور کوئی شیء نہیں ہے مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو نازل نہیں کرتے مگر معین معلوم مقدار کے مطابق }[13]سورہ حجر: آیت۲۱۔ پس ظاہر انسان کا تعلق ظاہرِ عالم سے ہے۔ باطنِ انسان کا تعلق باطنِ عالم سے ہے۔ شہادتِ انسان کا تعلق شہادتِ عالم سے ہے اور غیبِ انسان کا ربط غیبِ عالم سے ہے۔

عالم غیب سے تعلق :

عالمِ غیب سے ہمارے غیب کا تعلق ہے یعنی ہماری عقل مجردات کا ادراک کرتی ہے، ہماری عقل معانی کلیہ کا ادراک کرتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان معانی کلیہ کے عقلی ادراک کی کیفیات کیا ہے؟ یہاں دو مبنی ہیں: ۱۔ پہلا مبنی حکماء و فلاسفہ کا ہے یعنی مشاء کا کہنا ہے کہ ہماری عقل جب کلیات کا ادراک کرتی ہے تو راہِ تجرید یا راہِ تقشیر سے ادراک کرتی ہے جوکہ جزئیات سے تجرید کر کے کلی بناتی ہے۔شخصی خصوصیات کو تجرید کریں اور ایک طرف کر دیں تو کلی معنی حاصل ہو جاتا ہے۔ علامہ حسن زادہ زیادہ تقشیر کی اصطلاح زیادہ استعمال کرتے تھے یعنی شخصی خصوصیات کو تقشیر کریں اور اخروٹ کے چھلکے کی طرح اتارتے رہیں تو پھر مغز یعنی اصل معنی کلی تک پہنچ ہو جائے گی۔ ۲۔ دوسرا مبنی عرفاء کا ہے کہ ادراکِ کلیات کا حصول مجردات کے ادراک سے ہے۔ اشیاء اپنی ہم نشین سے پہچانی جاتی ہیں جب ہم مجردات کے ہم نشین ہوتے ہیں تو یہاں سے کلیات کا ادراک ہوتا ہے۔

عالم خلق مرتبہ عالم امر ہے، اور عالم امر مرتبط ہے عالم الہ سے۔ ان میں جدائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے مرتبط ہے۔ عالم امر محیط ہے پورے عالم خلق پر۔ اسی طرح عالم الہ محیط ہے عالم امر اور عالم خلق ہر دو پر۔ ہم اشیاء سے جدا کوئی خدا نہیں رکھتے کہ اللہ تعالی تمام اشیاء سے ربط اور تعلق نہیں رکھتا!! قرآن کریم بیان کرتا ہے: { وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ واسِعٌ عَليم‏‏؛   اور اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق و مغرب، تم جہاں بھی رخ کر لو تم وجہ اللہ ہی پاؤ گے بے شک اللہ واسع علیم ہے}[14]سورہ بقرہ: آیت۱۱۵۔ اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:{  وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصير‏‏؛  وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں تم ہو اور اللہ بصیر ہے اس پر جو تم انجام دیتے ہو}[15]سورہ حدید: آیت۴۔ پس عوالم کا آپس میں تعلق اور ربط احاطی اور محاطی ہے۔ ان میں تمایز اور اختلاف بھی احاطی اور محاطی ہے۔ یہ ہوا جس میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ ہم سے تمایز رکھتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کا ہم سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ یہ ہوا ہم پر محیط ہے اور ہمارا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شیء کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی اشیاء سے تمایز نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالی تمایز رکھتا ہے لیکن ایسا تمایز نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ کا کوئی ربط ہی نہ ہو ! ! بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمایز کے باوجود ہر شیء کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

Views: 358

پڑھنا جاری رکھیں

اگلا مقالہ: کتاب کا مقدمہ (تمہید القواعد)